جشنِ ولادتِ شہیدِ امن امام حسن المجتبیٰ

15 رمضان المبارک

جشنِ ولادتِ شہیدِ امن امام حسن المجتبیٰ رضی اللہ عنہ و علیہ السلام

حسن اور حسین ۔۔۔ یہ دو سردارانِ جنت کائنات میں موجود تمام زندگی کے دو اساسی رنگ ہیں۔ امام حسین خدا اور شیرِ خدا کرم اللہ وجہہ الکریم کے شکوہِ جلالی کا مظہر ہیں تو امام حسن اللہ اور حبیب اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ جمالی کی تجسیم۔ یہ صرف دو شخصیات نہیں دو بہت بنیادی علامتیں ہیں، خدائی ٹکسال کے سب سے قیمتی سکے کے دو رخ، وہ سکہ کہ جو قرآن کی دھات سے صاحبِ قرآن کی بھٹی میں تیار ہوا۔

ہمارے دین کی علم سے ایمان کی طرف چار تہیں ہیں۔ پہلی تہہ ہماری دینی تاریخ ہے جس میں قصص الانبیاء، سیرتِ طیبہ، حیاتِ صحابہ و اہلبیت ۔۔۔ سب آجاتا ہے۔ یہ ہماری اجتماعی روحانی یادیں ہیں۔ حسن و حسین کی زندگی، کردار اور یادوں کے بغیر ہماری یہ یادیں بالکل بے معنی اور ادھوری رہ جاتی ہے۔

دین کی دوسری تہہ شریعت ہے کہ جو ہم پر نسبتی، کسبی اور ودیعتی مقامات کا احترام بھی لازم کرتی ہے۔ فرزندِ پیغمبر، آل الکسا، اہلبیت، خلیفہِ راشد، علمدار امن، صحابیِ رسول ۔۔۔ احترام کے جتنے مقامات امام حسن کو حاصل ہیں کسی کو بھی حاصل نہیں۔

دین کی تیسری تہہ عقیدہ ہے۔ آیتِ تطہیر پر ایمان لائے بغیر، کوثر کی تفسیر کو آل العباء کے حوالے سے سمجھے بغیر اور اہلبیتِ پیغمبر کے بلند مقام کو دین کا اصول مانے بغیر اسلام کے کسی بھی مسلک کا عقیدہ مکمل ہی نہیں ہوتا۔

دین کی چوتھی اور سب سے اندرونی تہہ ایمان ہے کہ جو اپنی اصل میں عقیدے کے عشق میں ڈھل جانے کا نام ہے۔ جان رکھیں کہ حسن سے عشق نہیں تو حسن کے نانا پر ایمان ہی نہیں، حسن کے نانا پر ایمان نہیں تو آپ کے خدا سے تعلق کا کوئی وسیلہ، کوئی تار نہیں۔

خدا ہمیں سمجھنے اور پیروی کی توفیق نصیب فرمائے۔ کوفہ و دمشق کے انداز سے بچائے اور مدینہ کا مزاج عطاء کرے۔ آمین۔

نشان قدموں کا پتھروں پر ابھار دیتا تھا جو محمد

اسی محمد کے دوش اطہر کا چاند ہے نقش پا حسن کا

کہاں جلال جبین ہاشم، کہاں امیہ کے اندھے وارث

یہ شام کی مصلحت کے چہرے کریں گے کیا سامنا حسن کا

یہاں تو نوکِ قلم بھی پھولوں کی پنکھڑی کی طرح رواں ہے

یہ دم کسی تیغ میں کہاں ہے جو روک لے راستہ حسن کا

ہے مطمئن چہرہ امامت، حکومتیں تھرتھرا رہی ہیں

بجا ہے بروقت برمحل ہے، قدم قدم فیصلہ حسن کا

کہاں گیا ظلمتوں کا حاکم، کہاں گئی شا م کی حکومت

سبھی سویروں کی سرحدوں پر ہے آج تک دبدبہ حسن کا

جہاد کی منزلیں بھی آتی ہیں امن کی راہ سے گذر کر

اگر سمجھنا ہے کربلا کو تو صلح نامہ اٹھا حسن کا

جو شخص اب تک سمجھ نہ پایا نبی کی صلحِ حدیبیہ کو

اسے قیامت تلک سمجھ میں نہ آئے گا فلسفہ حسن کا

توہی بتا اے خدا ئے برتر کہ اور کیسے میں تجھ سے مانگوں

میرے لبوں نے دعا کے حرفوں میں رکھ دیا واسطہ حسن کا

#احمدالیاس