حضرت ابو ذرغفاری

عظیم صحابی رسول ؐحضرت ابو ذر ؓ کا اصل نام جندب بن جنادہ ہے آپ کا تعلق بنو غفار قبیلے سے تھا۔آپ کا شمار عظیم محدثین میں ہوتا ہے ۔لاتعداد احادیث آپ سے مروی ہیں ۔اکثر محدثین نے معراج النبی ؐ کی حدیث آپ سے ہی روایت کی ہے ۔حضرت ابوذر ؓ ایمان لانے سے قبل بھی شرک اور بت پرستی سے سخت بیزار تھے ۔جب ان تک رسول خداؐکے اعلان بعثت کی خبر پہنچی تو انہوں نے اپنے بھائی کو حالات معلوم کرنے کیلئے مکہ بھیجا ۔ان کے بھائی نے مکہ سے واپس آکر جب انہیں رسول خداؐ کی سچی تعلیمات سے آگاہ کیا تو حضرت ابوذر ؓدیوانہ وار مکہ کی طرف روانہ ہوئے ۔حضرت ابوذر ؓ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ آپ وہ پانچویں ہستی ہیں جنہوں نے اسلام کی دعوت قبول کی۔ صحیح بخاری سمیت صحاح ستہ میں آپ کے قبول اسلام کا واقعہ منقول ہے ۔

’’ زید ابوقتیبہ اسلم مثنیٰ ابوجمرہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ حضرت ابن عباس ؓنے ہم سے کہا میں تم سے ابوذر ؓکے اسلام کا واقعہ بیان کرتا ہوں چنانچہ حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا ابوذرؓ کہتے تھے۔ میں قبیلہ غفار کا آدمی ہوں ہم کو خبر پہنچی کہ مکہ میں ایک شخص ظاہر ہوا ہے جس پر نبوت کے ظہور ہوا ہے۔ میں نے اپنے بھائی سے کہا کہ تم اس شخص کے پاس جا کر بات چیت کرو۔ اور مجھے اس کی خبر دو پس وہ گئے اور آپ ؐ سے ملاقات کرنے کے بعد لوٹ آئے۔ میں نے اپنے بھائی سے دریافت کیا۔ کیا خبر لائے ہو؟ جواب دیا! بخدا میں نے ایک ایسے جوان مرد کو دیکھا جو نیکی کا حکم کرتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں میں نے کہا مجھے اتنی سی خبر سے تسکین نہیں ہوئی۔ میں نے خود ناشتہ اور لاٹھی لی اور مکہ کی طرف چل دیا اور مکہ میں داخل ہو کر سخت پریشان ہوا کیونکہ حضور اکرمؐ کو پہچانتا نہیں تھا اور نہ ہی یہ مناسب سمجھا کہ کسی سے آپؐ کے بارے میں پوچھوں میں نے اپنا معمول بنالیا تھا زم زم کا پانی پی لیتا اور کعبہ میں رہتا ایک دفعہ میری طرف سے حضرت علیؓ گزرے اور انہوں نے پوچھا کیا یہ شخص مسافر ہے؟ میں نے کہا ہاں تو انہوں نے مجھ سے کہا ہمارے ہاں چلو! میں ان کے ساتھ چل دیا راستہ بھر نہ انہوں نے مجھ سے کوئی بات پوچھی اور نہ میں نے ان سے کچھ بیان کیا ۔جب صبح ہوئی تو میں کعبہ میں گیا تاکہ آنحضرتؐ کو کسی سے دریافت کروں اور کوئی مجھ سے آپ کے حالات بیان کرے دوبارہ پھر میری طرف علیؓ کا گذر ہوا انہوں نے کہا ابھی تک تمہارے لئے وہ وقت نہیں آیا کہ تم اپنی جائے قیام کو پہچانو؟ حضرت علی ؓ نے مجھے ساتھ چلنے کو کہا اورمجھ سے پوچھا یہاں مکہ میں تم کیوں آئے؟ میں نے کہا اگر تم میرے راز کو ظاہر نہ کرو تو تم سے کہتا ہوں ، حضرت علیؓ سے کہا میں رازدار ہی رہوں گا میں نے ان سے کہا کہ ہمیں خبر ملی ہے کہ یہاں ایسے شخص ظاہر ہوئے جو نبوت کے مدعی ہیں اگرچہ میں نے اپنے بھائی کو بھیجا تھا تاکہ وہ ان سے بات چیت کر کے امر واقعی کی مجھے اطلاع دیں۔ مگر انہوں نے لوٹ کر کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا۔ اس لئے میں خود ہی ان سے ملنا چاہتا ہوں علی ؓ نے کہا! بس اتنی سی بات ہے ،تو خوش ہو جاؤ کہ تم اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے میں خود ان کے پاس جارہا ہوں تم میرے ساتھ چلو جہاں میں جاؤں وہاں تم بھی جانا چنانچہ میں علی ؓ کے ساتھ چل دیا اور ان کے ساتھ حضور اکرمؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ مجھے دولت اسلام سے سرفراز فرمایئے چنانچہ سرور عالمؐ نے مجھے مسلمان کیا اور فرمایا ابوذر اس بات کو پوشیدہ رکھو اور اپنے شہر کی طرف واپس جاؤ پھر جب ہمارے غلبہ کی تم کو خبر پہنچے تو آ جانا میں نے عرض کیا اس ذات کی قسم جس نے آپؐ کو سچا رسول بنا کر بھیجا ہے میں اس بات کو لوگوں میں پکار کر کہوں گا چنانچہ ابوذر نے کعبہ میں قریش سے کہا! اے قریشیو! میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد اس کے بندے اور اس کے رسول ؐہیں قریش نے کہا اس بے دین کی کھڑے ہو کر خبر لو اور وہ مارنے کے لئے تیار ہو گئے اور مار مار کر ادھ موا کر دیا حضرت عباس ؓ نے مجھے دیکھا خود کو میری ڈھال بنا لیا اور کافروں سے کہا تمہاری خرابی ہو (قبیلہ) غفار کے آدمی کو قتل کئے دیتے ہو۔ حالانکہ تمہاری تجارتی منڈی اور راستہ غفار ہی کی طرف سے ہے۔ یہ سن کر وہ باز آ گئے پھر جب صبح ہوئی تو میں نے کعبہ میں جا کر ویسا ہی کہا جیسا کہ کل کہا تھا پھر انہوں نے کہا اس بے دین کی کھڑے ہو کر خبر لو!چنانچہ میرے ساتھ وہی ہوا جو کل ہوا تھا پھر عباس نے دیکھا اور مجھے ان سے بچا کر کل کی طرح بات چیت کی ابن عباسؓ فرماتے ہیں ابوذر کے اسلام کی یہ پہلی منزل ہے۔(حدیث نمبر 744صحیح بخاری جلد دوم متفق علیہ )

روایات میں ہے کہ آنحضور ؐ نے کلمہ شہادتین پڑھانے کے بعد آپ سے فرمایا ابو ذر اپنے وطن لوٹ جائو تمھارے چچا زاد بھائی کا انتقال ہوگیا ہے۔تم ان کے تنہا وارث ہو ۔جا کر ان کی جاگیر سنبھالو اور ہم جب بلائیں آجانا۔ابوذر ؓرسول خداؐ کے حکم کے مطابق اپنے قبیلہ واپس تشریف لے گئے اور وہانں تبلیغ اسلام کا سلسلہ جاری رکھا۔ بعد از ہجرت آپ مدینہ میں زیارت رسول ؐ سے شرف یاب ہوئے۔

اسماعیل بن موسیٰ فزاری بن بنت سدی، شریک، ابوربیعہ، ابن بریدۃ، حضرت بریدہ کہتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے چار آدمیوں سے محبت کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ اللہ بھی ان سے محبت کرتے ہیں اور نبی اکرم ؐ سے پوچھا گیا ہمیں بتایئے کہ وہ کون ہیں؟ آپؐنے تین مرتبہ فرمایا کہ ان میں سے ایک تو علیؓ ہیں اور باقی تین ابوذرؓ، مقدادؓ اور سلمانؓ(جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 1685 ،سنن ابن ماجہ:جلد اول:حدیث نمبر 149،مشکوۃ شریف:جلد پنجم:حدیث نمبر 907 )

عباس عنبری، نضر بن محمد، عکرمہ بن عمار، ابوزمیل، مالک بن مرثد، مرثد، حضرت ابوذر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐنے میرے متعلق فرمایا کہ آسمان نے ابوذرؓسے زیادہ زبان کے سچے اور وعدے کو پورا کرنے والے پر سایہ نہیں کیا اور نہ ہی اس سے زیادہ سچے اور وفا شعار شخص کو زمین نے اٹھایا۔ وہ (یعنی ابوذر) زہد میں عیسیٰ بن مریم کے مشابہ ہیں۔ حضرت عمر ؓ نے رسول اللہ ؐ سے اس طرح پوچھا گویا کہ رشک کر رہے ہوں کہ کیا ہم انہیں بتا دیں۔ فرمایا ہاں بتا دو۔(جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 1773 ،مشکوۃ شریف:جلد پنجم:حدیث 888 )یہی حدیث حضرت عبداللہ بن عمرؓسے روایت ہے کہ رسولؐ نے ارشاد فرمایا کہ آسمان نے ابوذر رضی اللہ عنہ سے زیادہ سچے پر سایہ نہیں کیا اور نہ ہی زمین نے ان سے زیادہ سچے کو اٹھایا۔(جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 1772 ،سنن ابن ماجہ:جلد اول:حدیث نمبر 156)

بقول اقبال

مٹایا قیصر و کسریٰ کے استبداد کو جس نے

وہ کیا تھا؟ زورِ حیدرؓ، فقر بوذرؓ، صدق سلمانیؓ