خلیفہِ ثانی کے دور میں معاویہ بن ابی سفیان کی تقرری کا مسئلہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سیدّنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں والی (گورنر) اور عامل (کمشنر) کی حیثئیت سیاسی نہیں بلکہ خالصتاً انتظامی تھی۔ وہ حکمران نہیں بلکہ سرکاری ملازم ہوتے تھے جن کا کام محصولات کی وصولی اور صوبے یا علاقے میں تعینات مسلم فوجوں کی ضروریات کا خیال رکھنا ہوتا تھا۔ اسی سبب ان کا انتخاب تقویٰ اور علم سے زیادہ ان کی انتظامی و عسکری صلاحیتوں کی بنیاد پر عمل میں آتا تھا۔

خلیفہِ دوم کے گورنرز صوبے میں مالک و مختار ہرگز نہیں ہوتے تھے بلکہ ان سے زیادہ طاقتور امین المال اور قاضی ہوا کرتے تھے۔ قاضی شرعی بنیادوں پر گورنر کے کسی بھی فیصلے کو ردّ کرسکتے تھے اور امین المال کے پاس خزانے کا کنٹرول ہوتا تھا اور گورنر کو بھی ان کی اجازت سے خرچ کرنا ہوتا تھا۔ قاضی کی تقرری میں علم اور امین کی تقرری میں تقویٰ و ایمانداری کو دیکھا جاتا تھا۔

سیدّنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی ریاست دراصل جمہوریہِ مدینہ تھی اور وفاقی نہیں بلکہ واحدانی خطوط پر استوار تھی۔ اجتہاد اور پالیسی کے تمام فیصلے سیدّنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ اپنی مجلسِ شوریٰ کے ساتھ مدینہ میں لیتے تھے اور گورنروں کا کام ان اجتہادات اور پالیسیوں کو صرف نافذ کروانا تھا۔ اس تناظر میں ان کی حیثئیت مزید محدود ہوجاتی تھی۔

اس سب کے باوجود آپ رضی اللہ عنہ نے معاویہ کو بخوشی عہدے پر فائز نہیں کیا تھا بلکہ یہ تقرری ہنگامی حالات میں بہ امرِ مجبوری ہوئی تھی۔

دمشق کے اصل والی جلیل القدر صحابی اور عظیم جرنیل ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ تھے لیکن وہ 639 عیسوی کے طاعون میں وفات پا گئے۔ یہ وہ وقت تھا کہ ابھی ایران، شام اور مصر کی سرحدوں پر بڑی بڑی جنگیں جاری تھیں اور اکثر صحابہ محاذ پر تھے۔ ایسے میں دمشق میں موجود سب سے سینئیر اور تجربہ کار جرنیل معاویہ کے بڑے بھائی حضرت زید بن ابوسفیان رضی اللہ عنہ تھے لہذا انہیں گورنر مقرر کرنا پڑا۔

طلقاء کو تالیفِ قلوب کے لیے عہدے دینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت رہی تھی اور یزید بن ابوسفیان کے اسلام کی حالت، جہاد میں شرکت اور انتظامی صلاحیت اچھی رہی تھی لہذا ان کو مقرر کیا گیا لیکن وہ بھی چند ماہ میں انتقال کرگئے۔

شام میں موجود کئی بڑی بڑی شخصیات طاعون سے وفات پاگئیں تھیں اور محاذوں پر یا مدینہ میں موجود صحابہ میں سے کسی کو طاعون کی حالت میں دمشق بھیجنا مناسب نہ تھا۔ ایسے میں مجبوری کی حالت میں جناب معاویہ کو عبوری گورنر مقرر کرنا پڑا۔ ان کی اخلاقی حالت اگرچہ صحابہ کے معیار پر پوری نہ اترتی تھی جس کا اظہار خود سیدّنا عمر رض کے بعض اقوالاور خطوط سے ہوتا ہے لیکن انتظامی صلاحیتیں بہر حال اچھی تھیں اور اختیارات خالصتاً انتظامی اور محدود تھے لہذا عملیت پسندانہ بنیادوں پر یہ ایڈہاک تقرری مستقل کردی گئی تاکہ ریاست فائدہ اٹھا سکے۔ ان کی اتھارٹی پورے شام پر نہیں بلکہ دمشق اور گرد و نواح کے محدود علاقوں میں تھی۔

سیدّنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ریاستی ڈھانچے میں تبدیلیاں ان کے جانشین، تیسرے خلیفہ سیدّنا عثمان رضی اللہ عنہ نے کیں جس سے معاویہ کو ایک بڑے اور اہم صوبے میں اس قدر پاؤں جمانے کا موقع ملا کہ موقع ملنے پر انہوں نے اسلامی ریاست کو تقسیم کیا، خلافتِ راشدہ کے آئین کو پہلے معطل اور پھر منسوخ کردیا۔

لہذا سیدّنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا کسی کو گورنر مقرر کرنا نہ تو لازمی طور پر اس شخص کے تقویٰ و علم کی دلیل ہوتی ہے نہ ایسی کوئی تقرری سیدّنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے خلاف بطور دلیل استعمال ہوسکتی ہے۔

خود زیادِ لعین پہلے پہل مولا علی علیہ السلام کی جانب سے ایران کے ایک علاقے میں گورنر مقرر تھا کیونکہ ہوشیار آدمی تھا، لیکن پھر امیرِ شام نے اسے خطوط لکھے اور اس بات کا حوالہ دیا کہ تم میرے باپ کے ناجائز بیٹے اور میرے بھائی ہو، میری طرف آجاؤ تو تمہیں مالا مال کردوں گا اور وہ بدبخت چلا گیا۔ جس طرح مولا کی اس تقرری کو مولا علی علیہ السلام کے خلاف یا زیادِ لعین کے حق میں استعمال نہیں کیا جاسکتا، اُسی طرح سیدّنا عمر رض کی سوریا کی کمشنری پر تقرری کا معاملہ ہے۔

احمد الیاس