عظیم ترین باپ کا بیٹی کے لیے تحفہ

یوں تو ہر کسی کا نفسیاتی، گروہی، فکری یا قبائلی معیار مختلف ہے

لیکن

میرا مطالعہ سیرت مجھے یہ بتاتا ہے کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کو سیدہ فاطمہ سے پیارا کوئی نہیں تھا.

یوں بھی بیٹیاں باپ کو بہت پیاری ہوتی ہیں

پھر وہی ایک باقی بچ رہی تھیں

اس ماں کی بچی تھیں جو رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کی محسنہ بھی تھیں

اور

محبت بھی

کہ سیدہ عائشہ کے لئے وہی وجہ رشک تھیں

جنہوں نے امت کو خواتین جنت کی سردار، جوانان جنت کے ایسے سربراہ دیئے، جنہوں نے ڈوبتے ہوئے اسلام کو حیات نوی بخشی

پھر وہ اس قرشی جوان کے نکاح میں دے دیں جنہیں آغوش رسالت نے اپنے ہاتھوں پالا تھا

جہاں صاحب نبوت نے خود کہنا، بتانا یالکھنا ہوتا وہاں وہی جوان اپنے سسر اور عمزاد کی نمائندگی کرتا

جو الا انہ لا نبی بعدی کے سوا سبھی کچھ تھا.

حقیقی اولاد کے سوا وہ واحد فرد تھے جو کساء کے سائے میں فروکش تھے

سو وہ بیٹی

جو اتنی پیاری تھیں کہ چھ ماہ کی جدائی بمشکل باپ بیٹی نے گزاری اور پھر وہ باپ سے جاملیں

وہ بیٹی

چکی پیس پیس کر، کمر پر چھاگل لاد کر جانے کتنے دور سے پانی لا کر، چھوٹے چھوٹے بچوں کو سنبھال کر

گھر میں خوش حالی نہ ہونے کی وجہ سے تھک تھک جاتیں

اور جب باپ کے پاس دینے کو گھریلو ملازم تھے

نہ بھی ہوتے تو بھی ان کی ہتھیلیاں دونوں جہان بخش رہی تھیں

ایک جنبش لب سے بیٹی مالامال ہو سکتی تھیں

لیکن جب بیٹی نے ملازم کی خواہش کی تو انہیں ملازم کے بجائے تسبیحات پڑھنے کو دی گئیں.

بلاشبہ اتنے بڑے باپ نے اتنی پیاری بیٹی کو کٹھن حالات میں جو تحفہ دیا وہ بے پناہ اہمیت کا حامل ہو گا

یہ تو دنیا بھر کا تجربہ ہے کہ تسبیحات فاطمہ پڑھنے سے کام کرتے ہوئے تھکن نہیں ہوتی اور تھکے ہوئے ہوں، سونے سے پہلے پڑھ لیں تو سب تھکن دور ہو جاتی ہے

لیکن

ایک اور اہم بات آپ سے شئیر کر لوں

ماثور دعائیں یا اذکار دو طرح کے ہیں

کچھ میں کسی متعین مسئلے کے حل کی درخواست ہوتی ہے مثلاً غم و ھم سے نجات، گناہوں سے بخشش، رزق کی کشائش وغیرہ

جبکہ

کچھ اذکار ان تعینات سے ماورا ہوتے ہیں

جیسے

تسبیحات فاطمہ

سبحان اللہ و بحمدہ سبحان اللہ العظيم

لا الہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ الخ

لاحول ولا قوۃ الا باللہ

ان اذکار کو جس مقصد کے لیے پڑھیں __تیر بہدف ہوتے ہیں

آج سے تسبیحات فاطمہ کی پابندی کریں اور

بے حساب فوائد سمیٹیں

طفیل ہاشمی