عمار بن یاسر کو باغی گروہ قتل کرے گا ۔ صحیح حدیث کا متن

عمار بن یاسر کو باغی گروہ قتل کرے گا ٭٭٭ صحیح حدیث کا متن

‎عکرمہ نے بیان کیا کہ حضرت ابن عباس رض نے مجھ سے اور اپنے بیٹے علی سے فرمایا : تم دونوں حضرت ابوسعید رض کے پاس جائو اور ان سے حدیث کا سماع کرو، پس ہم دونوں گئے ، اس وقت حضرت ابوسعید رض اپنے باغ کی اصلاح کر رہے تھے ، انہوں نے اپنی چادر کے ساتھ کمر اور گھٹنوں کو باندھ دیا ، پھر ہمیں حدیث سنانے لگے حتیٰ کہ مسجد کی تعمیر کا ذکر آیا تو انہوں نے کہا : ہم ایک ایک اینٹ اٹھا کر لارہے تھے اور حضرت عمار دو دو اینٹیں اٹھا کر لا رہے تھے ۔ نبی کریم ع نے انہیں اس حال میں دیکھا تو اُن سے مٹی جھاڑی اور فرمایا :

‎”عمار پر افسوس ہے ! اس کو ایک باغی جماعت قتل کرے گی ، یہ ان کو جنت کی طرف بلائے گا اور وہ اس کو دوزخ کی طرف بلائیں گے “

‎حضرت ابوسعید رض نے کہا : حضرت عمار رض کہتے تھے : میں فتنوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آتا ہوں ۔

‎صحیح البخاری // حدیث : 447 ، 2812 // باب : التعاون فی بناء المسجد // کتاب الصلاۃ

حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو معاویہ بن ابو سفیان کی فوج نے جنگ صفین میں شہید کیا تھا ۔ حضرت عمار بن یاسر مولا علی کے لشکر میں شریک تھے

‎سید حسنی الحلبی

‎مسجد نبوی شریف ۔ مدینہ طیبہ

—-

*** فضیلت معاویہ میں کوئی صحیح حدیث نبوی نہیں ، امام بخاری کے استاذ کا دعوی ٰ ***

حافظ حجر عسقلانی نے صحیح بخاری کے باب “ذکر معاویہ بن ابی سفیان ” پر یوں تبصرہ کیا ہے :

“اس باب میں امام بخاری نے لفظ “فضیلہ ” یا منقبتہ کی بجائے لفظ ذکر اس لئے لکھا ہے کہ اس باب کی حدیث سے فضیلت ثابت نہیں ہوتی ، البتہ ابن عباس رض کے قول حضرت معاویہ صحابی اور فقیہ تھے سے ان کی فضیلت پر دلالت پڑتی ہے ، اور ابن ابی عاصم نے اور اسی طرح غلام ثعلب ابو عمر اور ابوبکر النقاش نے ان کے مناقب میں ایک رسالہ تصنیف کیا تھا ، لیکن علامہ ابن جوزی نے ان کی بیان کردہ احادیث کو اپنی کتاب الموضوعات میں درج کرنے کے بعد لکھا ہے کہ امام اسحاق بن راھویہ رح نے فرمایا : حضرت معاویہ کی فضیلت میں کوئی صحیح حدیث ثابت نہیں ہے ۔ پس اسی نقطہ کے پیش نظر امام بخاری نے اپنے شیخ کی تحقیق پر اعتماد کیا اور صراحتہ لفظ منقبہ سے صرف نظر فرمایا لیکن باریک بنی سے اس باب کی حدیث سے روافض کی تردید بھی کر گئے ۔

اس مسئلہ میں امام نسائی رح کا واقعہ بھی مشہور ہے ، گویا انہوں نے بھی امام بخاری رح کے شیخ امام اسحاق بن راھویہ رح کے قول پر اعتماد کیا ہے اور امام حاکم رح کا واقعہ بھی اسی طرح ہے ۔ نیز علامہ ابن جوزی نے امام عبداللہ کی سند سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا : میں نے اپنے والد سے عرض کیا کہ آپ سیدنا علی المرتضیٰ علیہ السلام اور حضرت معاویہ کے متعلق کیا فرماتے ہیں ؟ اس پر انہوں نے اپنا سر جھکا لیا اور پھر سر اُٹھا کر فرمایا : جان لو کہ حضرت علی ع کے دشمن بہت تھے ، انہوں نے ان کے عیب تلاش کیے تو انہیں ناکامی ہوئی ۔ پھر انہوں نے ان کی عداوت میں اس شخص کو بڑھانا شروع کر دیا جو آپ ع سے لڑتا رہا ۔ اس سے امام احمد رح نے ان بے اصل روایات کی طرف اشارہ کیا جو لوگوں نے حضرت معاویہ کے فضائل میں گھڑ لیں ۔

حافظ بن حجر فرماتے ہیں کہ فضائل معاویہ میں بکثرت روایات وارد ہیں لیکن ان میں کوئی روایت ایسی نہیں ہے جس کی سند صحیح ہو ، یہی امام اسحاق بن راھویہ ، امام نسائی رح اور دوسرے علمائے حدیث کا قطعی قول ہے ۔

فتح الباری // ابن حجر عسقلانی

تحقیق : السید حسنی

22 رجب المرجب 1436 ھجری بوقت نماز مغرب