عمرؓ سے متعلق پانچ شیعہ روایات

بسم الله الرحمن الرحيم الحمد لله ربّ العالمين والصلاة والسلام على نبينا محمد وآله الطاهرين وصحبه.

یہ عمرؓ سے متعلق پانچ شیعہ روایات ہیں جس میں سیدہ فاطمہؓ پر جو ظلم ہونا ہے اس کی خبر، یا بالفعل جو ظلم ہوا ہے اس کی خبر کا ذکر ہے۔ یہ پانچوں روایات معلول ہیں:

١) پہلی روایت:

شیخ کلینی نقل کرتے ہیں:

محمد بن يحيى، عن العمركي بن علي، عن علي بن جعفر أخيه، أبي الحسن عليه السلام قال: إن فاطمة عليها السلام صديقة شهيدة وإن بنات الأنبياء لا يطمثن.

فرمایا ابی الحسن (موسیٰ کاظم) عليه السلام نے کہ فاطمہ عليها السلام صدیقہ اور شہیدہ ہیں اور بنات الانبیاء کو حیض نہیں آتا۔

[الكافی للكليني ١ / ٤٥٨ برقم ٢ – دار الكتب الإسلامية إيران]

یقیناً اسے باقر مجلسی صحیح کہتے ہیں۔ لیکن باقر بہبودی کے نزدیک یہ ضعیف ہے، کیونکہ صحیح الکافی میں انہوں نے اسے نقل نہیں کیا۔ دوسری بات یہ کہ اس میں تعین نہیں کیا جاسکتا کہ شہیدہ سے کیا مراد ہے۔ ایک شیعہ امامی کا ترجمہ کچھ یوں تھا:

❞امام کاظم ع فرماتے ہیں: کہ سیدہ زھرا ع بہت راست گو (صدیقہ)، راہ خدا میں شہادت پانے والی (شہیدہ) تھیں، اور انبیاء ع کی بیٹیاں حالت حیض سے دوچار نہیں ہوتیں۔❝

اس میں “راہ خدا میں شہادت” پانے کے الفاظ عبارت میں کہاں ہیں؟ یہاں تعین کیسے کیا جا سکتا ہے کہ یہاں شہیدہ سے کیا مراد ہے؟

•] رب کے نزدیک صدیق اور شہید:

والذين آمنوا بالله ورسله أولئك هم الصديقون والشهداء عند ربهم لهم أجرهم ونورهم.

اور جو لوگ اللہ اور اُس کے رسولوں پر ایمان لائے یہی لوگ اپنے پروردگار کے نزدیک صدیقوں اور شہیدوں کے درجے میں ہوں گے اُن کے لیے ان ہی (صدیقوں اور شہیدوں) کا اجر اور انھیں کا نور ہوگا۔

[کلام اللہ مترجمہ مولانا فرمان علی ص ٨٦١، سورة الحديد آیت ١٩]

•] امام علی – عليه السلام – کا فرمان:

من مات منكم على فراشه وهو على معرفة حق ربه وحق رسوله وأهل بيته مات شهيدا.

اگر کوئی شخص خدا و رسول (ص) و اہل بیت کے حق کی معرفت رکھتے ہوئے بستر پر مرجائے تو وہ بھی شہید ہی مرتا ہے (ترجمہ سید ذیشان حیدر جوادی)

[نهج البلاغة ٢ / ١٣٣ – الخطبة رقم ١٩٠ – دار المعرفة للطباعة والنشر بيروت]

•] شہید وہ بھی ہے جو ولایت کا قائل ہو، چنانچہ شیخ کلینی نقل کرتے ہیں:

يحيى الحلبي، عن عبد الله بن مسكان، عن أبي بصير قال: قلت: جعلت فداك أرأيت الراد علي هذا الامر فهو كالراد عليكم؟ فقال: يا أبا محمد من رد عليك هذا الامر فهو كالراد على رسول الله (صلى الله عليه وآله) وعلى الله تبارك وتعالى، يا أبا محمد إن الميت [منكم] على هذا الامر شهيد، قال: قلت: وإن مات على فراشه؟ قال: إي والله وإن مات على فراشه حي عند ربه يرزق.

ابو بصِیر نے کہا: میں نے (امام جعفر الصادقؑ سے) کہا: میں آپ پر قربان جاؤں، کیا آپ نے کسی کو دیکھا ہے جو اس امر (ولایت) کا رد کرے کیا وہ آپ کا رد کرنے والے کے برابر ہے؟ انہوں نے فرمایا: اے ابو محمد! جو کوئی تم سے اس امر کا رد کرے، تو وہ اس شخص کی طرح ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کا اور اللہ تبارک وتعالیٰ کا رد کرے۔ اے ابو محمد! تم لوگوں میں سے جو اس امر پر مرے وہ شہید ہے۔ میں نے کہا: اگر وہ اپنے بستر پر مرے؟ انہوں نے فرمایا: ہاں، بخدا اگر وہ اپنے بستر پر مرے، وہ زندہ ہے اپنے رب کے ہاں سے رزق دیا جاتا ہے۔

[الكافي للكليني ٨ / ١٤٦ برقم ١٢٠ – دار الكتب الإسلامية إيران]

• اس روایت کو علامہ مجلسی نے صحیح کہا۔

[مرآة العقول للمجلسي ٢٥ / ٣٥٤ برقم ١٢٠]

• دکتور محمد باقر بہبودی نے اسے صحیح الکافی میں نقل کیا۔

[صحيح الكافي للبهبودي ٣ / ٣٨٨ برقم ١٢٠ – الدار الإسلامية]

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٢) دوسری روایت:

سید بن طاووس نقل کرتے ہیں:

رَوَيْنَاهُ بِإِسْنَادِنَا إِلَى سَعْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ فِي كِتَابِ فَضْلِ الدُّعَاءِ وَ قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ بْنِ بَزِيعٍ عَنِ الرِّضَا وَ بُكَيْرُ بْنُ صَالِحٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ جَعْفَرٍ عَنِ الرِّضَا قَالا دَخَلْنَا عَلَيْهِ وَ هُوَ سَاجِدٌ فِي سَجْدَةِ الشُّكْرِ فَأَطَالَ فِي سُجُودِهِ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ فَقُلْنَا لَهُ أَطَلْتَ السُّجُودَ فَقَالَ مَنْ دَعَا فِي سَجْدَةِ الشُّكْرِ بِهَذَا الدُّعَاءِ كَانَ كَالرَّامِي مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ص يَوْمَ بَدْرٍ قَالا قُلْنَا فَنَكْتُبُهُ قَالَ اكْتُبَا إِذَا أَنْتُمَا سَجَدْتُمَا سَجْدَةَ الشُّكْرِ فتقولا فَقُولَا اللَّهُمَّ الْعَنِ اللَّذَيْنِ بَدَّلَا دِينَكَ وَ غَيَّرَا نِعْمَتَكَ وَ اتَّهَمَا رَسُولَكَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ خَالَفَا مِلَّتَكَ وَ صَدَّا عَنْ سَبِيلِكَ وَ كَفَرَا آلَاءَكَ وَ رَدَّا عَلَيْكَ كَلَامَكَ وَ اسْتَهْزَءَا بِرَسُولِكَ وَ قَتَلَا ابْنَ نَبِيِّكَ وَ حَرَّفَا كِتَابَكَ وَ جَحَدَا آيَاتِكَ وَ سَخِرَا بِآيَاتِكَ وَ اسْتَكْبَرَا عَنْ عِبَادَتِكَ وَ قَتَلَا أَوْلِيَاءَكَ وَ جَلَسَا فِي مَجْلِسٍ لَمْ يَكُنْ لَهُمَا بِحَقٍّ وَ حَمَلَا النَّاسَ عَلَى أَكْتَافِ آلِ مُحَمَّدٍ.

محمد بن اسماعیل بن بزیع اور سلیمان بن جعفر فرماتے ہیں کہ ہم امام رضا کے پاس داخل ہوئے اور وہ سجدہِ شکر میں تھے اور پھر انہوں نے اپنا سجدہ لمبا کر لیا پھر اپنا سر اٹھایا، ہم نے ان سے کیا: کیا آپ نے اپنا سجدہ لمبا کرلیا ہے؟ (امام رضا نے) فرمایا: جس نے سجدہ شکر میں یہ دعا کی وہ اس شخص کی طرح ہے جس نے بدر والے دن رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تیر چلایا، وہ کہتے ہیں: ان دونوں نے کہا: تو کیا ہم اس کو لکھ لیں فرمایا لکھ لو اگر تم دونوں سجدہ شکر میں جاؤ تو یہ دعا کرو، تو ان دونوں نے یہ کہا:

اے اللہ ان پر لعنت کیجیے جنہوں نے آپ کے دین کو بدلا اور آپ کی نعمتوں کو بدلا اور آپ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ پر تہمت لگائی، اور آپ کی ملت کی مخالفت کی اور آپ کے راستہ سے روکا اور آپ کی نعمتوں کو جھٹلایا اور آپ کے کلام کا آپ پر ہی رد کیا اور آپ کے رسول کے ساتھ مذاق کا برتاؤ کیا، اور آپ کے نبی کے بیٹے کو قتل کیا اور آپ کے کتاب میں تحریف کی اور آپ کی آیات کا جان بوجھ کر انکار کیا اور آپ کی آیات کا مذاق اُڑایا اور آپ کی عبادت کرنے میں تکبر کیا اور آپ کے اولیاء کا قتل کیا اور ایسی مجلس میں بیٹھے جہاں ان کا حق ہی نہ تھا اور ان کو لوگوں نے اٹھا لیا اور آل محمد کے کندھوں پر بٹھا دیا۔

[مهج الدعوات لابن طاووس ١ / ٢٥٧ – دار الذخائر ، قم]

سند پر کلام:

اس کی سند میں غلطی ہے، بعض نسخوں میں “أبو جعفر عن محمد بن إسماعيل بن بزيع” ہے۔ درست یہ ہے کہ ابو جعفر کے بعد “عن” کے ساتھ مهج الدعوات کے نسخوں میں ہے۔ لیکن مجلسی نے بحار الأنوار میں نقل کیا تو “عن” حذف تھا، اور اسی طرح خیر طلب صاحب نے بھی “عن” حذف کے ساتھ نقل کیا:

روينا باسنادنا إلى سعد بن عبد الله في كتاب فضل الدعاء قال أبو جعفر محمد بن إسماعيل بن بزيع عن الرضا عليه السلام.

اگر عن تصحیف ہے، بظاہر معلوم بھی یہی ہوتا ہے، کیونکہ “محمد بن إسماعيل بن بزيع” کی کنیت أبو جعفر ہے۔ تو امکان ہے کہ “عن” تصحیف ہو۔ بہرحال اگر عن تصحیف ہے تو یہ منقطع روایت ہے۔ کیونکہ سعد بن عبد الله کی محمد بن إسماعيل بن بزيع سے سماع تو کیا لِقاء کا بھی امکان نہیں ہے، جیسا کہ اسقتراء کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ “سعد بن عبد الله” اور “محمد بن إسماعيل بن بزيع” کے درمیان ایک راوی ضرور ہے۔

اگر عن کو تصحیف نہیں کہتے تو “أبو جعفر” کون ہے؟ اس کا تعین کرنا ہوگا۔ یاد رہے جب علامہ مجلسی نے اسی روایت کو بحار میں نقل کیا تو عن حذف تھا۔

[بحار الأنوار ٨٣ / ٢٢٣ برقم ٤٤ – دار إحياء التراث العربي]

آیت اللہ محدث نوری نے بھی “عن” حذف کر کے نقل کیا۔

[مستدرك الوسائل للنوري ٥ / ١٢٨ برقم ٥٤٩٣ – مؤسسة آل البيت لإحياء التراث]

اس کی دوسری سند “بكير بن صالح عن سليمان بن جعفر عن الرضا” ضعیف ہے۔ کیونکہ بكير بن صالح کو آیت اللہ خوئی نے مجہول قرار دیا ہے:

1879 – 1878 – 1885 – بكير بن صالح: روى عن الرضا (ع)، وروى عنه الحسن بن طلحة. ذكره الكشي في الواقفة – مجهول.

[المفيد من معجم رجال الحديث ص٩٢ – منشورات مكتبة المحلاتي]

متن پر کلام:

یاد رہے کہ یہ روایت طویل ہے، اس میں ایک نہیں کئی دعائیں ہیں، اور متن سے صاف واضح ہوتا ہے کہ یہ عام دعا ہے۔

مگر ایک شیعہ امامی نے اس روایت میں اپنا رنگ بھرا، چنانچہ وہ اس روایت کا ترجمہ یوں کرتے ہیں:

❞اے اللہ ان دو (ابوبکر اور عمر) پر لعنت کر جنہوں نے تیرا دین بدلا، تیری نعمتوں کو بگاڑا، تیرے رسول ﷺ پر تہمت لگائی، تیری ملت کی مخالفت کی، تیرے راستہ سے روکا، تیری نعمتوں کو جھٹلایا، تیرا کلام کا تیرے اوپر ہی انکار کیا، تیرے رسول ﷺ کے ساتھ مذاق کا برتاؤ کیا، اور تیرے نبی زادے (محسن شہید) کو ان دونوں نے قتل کیا۔❝

اور اس کے بعد اپنا تبصرہ نقل کرتے ہیں:

❞ادھر حضرت محسن ع شہید کے قتل کی طرف اشارہ ہے وہ قتل کیسے ہوسکتے ہیں اگر ہم آئے اور وہ سجدہ کی حالت میں سجدہ شکر میں تھے اور پھر انہوں نے اپنے سجدے میں طویل وقت گزارا پھر انہوں نے اپنا سر اٹھایا پھر ہم نے ان سے بولا: آپ نے سجدہ لمبا کیا ہے (امام رضا نے) فرمایا: سجدہ شکر میں اس دعا کی وجہ سے❝

اُس شیعہ امامی نے بے باکی سے بین القوسین میں “ابو بکر و عمر” کا نام لکھا ہم پوچھتے ہیں کہ روایت میں ایسا تو کوئی ذکر ہی نہیں ہے! اور “قتلا ابن نبيك” کا ترجمہ کیا اور من چاہا “محسن” کا اضافہ کیا۔ یہ ان کو کس نے بتایا کہ یہاں محسن مراد ہیں؟ امام حسین عليه السلام کیا مراد نہیں ہوسکتے جو معرکہ کربلاء میں بے دردی سے شہید کیے گئے۔ یا امام حسن عليه السلام مراد نہیں ہوسکتے؟ آخر محسن ہی کیوں؟

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٣) تیسری روایت:

طبری (شیعہ) نقل کرتے ہیں:

حدثني أبو الحسين محمد بن هارون بن موسى التلعكبري، قال: حدثني أبي، قال: حدثني أبو علي محمد بن همام بن سهيل، قال: روى أحمد ابن محمد بن البرقي، عن أحمد بن محمد الأشعري القمي، عن عبد الرحمن بن أبي نجران، عن عبد الله بن سنان، عن ابن مسكان، عن أبي بصير، عن أبي عبد الله جعفر بن محمد (عليه السلام)، قال: …… وكان سبب وفاتها أن قنفذا مولى عمر لكزها بنعل السيف بأمره، فأسقطت محسنا، ومرضت من ذلك مرضا شديدا.

سیدہ زھرا ع کی شہادت کا سبب یہ تھا کہ قنفذ جو عمر کا آزاد کردہ غلام تھا اس نے تلوار کی میاں سے سیدہ زھرا سلام اللہ علیہا کو بحکم عمر مارا، جس سے محسن ع ساقط ہوگئے، اور سیدہ زھرا سلام اللہ علیہا شدید زخمی ہوگئی۔ (ترجمہ ایک شیعہ امامی)

[دلائل الإمامة للطبري ص١٣٤ برقم ٤٣ – مؤسسة البعثة، قم]

پہلی علت:

اس کی سند میں پہلا راوی محمد بن ہارون بن موسیٰ کی معتبر توثیق نہیں، چنانچہ محمد الجواہری لکھتے ہیں:

11947 – 11943 – 11971 – محمد بن هارون بن موسى: أبو الحسين مضى في ترجمة أحمد بن محمد بن الربيع عن النجاشي ذكره، وترحمه عليه، وروايته عن أبيه ” التلعكبري ” – مجهول -.

[المفيد من معجم رجال الحديث ص٥٨٦ – مكتبة المحلاتي، قم]

دوسری علت:

محمد بن همام بن سهيل اور أحمد ابن محمد بن البرقي کے درمیان انقطاع ہے جیسا کہ “روى” صاف واضح ہے۔

تیسری علت:

سند میں “عبد الرحمن بن أبي نجران” یہ تصحیف ہے جیسا کہ محقق کتاب نے بھی اسے تصحیف قرار دیا۔ [دلائل الإمامة ص٧٩ برقم ١٨] اور جید نسخوں میں “ابن بحر” ہے۔

اگر یہ راوی عبد الرحمن بن بحر ہے تو مجہول ہے:

6349 – 6348 – 6359 – عبد الرحمان بن بحر: مجهول.

[المفيد من معجم رجال الحديث ص٣٠٨ – مكتبة المحلاتي]

چوتھی علت:

“عن عبد الله بن سنان عن ابن مسكان” یہ بھی درست نہیں، عبد الله بن سنان ابن مسكان کا استاذ ہے، شاگرد نہیں۔ یہاں سند میں بھی غلطی ہے۔ اگر “ابن مسكان عن عبد الله بن سنان” ہوتا تو پھر ٹھیک تھا۔ طبقات کے لحاظ سے دلائل الإمامة کی سند میں یہاں خرابی ہے۔

کئی علتوں کی وجہ سے یہ روایت مردود ہے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٤) چوتھی روایت:

شیخ کراجکی نقل کرتے ہیں:

ومما حدثنا به الشيخ الفقيه أبو الحسن بن شاذان رحمه الله قال حدثني أبي رضي الله عنه قال حدثنا ابن الوليد محمد بن الحسن قال حدثنا الصفار محمد بن الحسين قال حدثنا محمد بن زياد عن مفضل بن عمر عن يونس بن يعقوب رضي الله عنه قال سمعت الصادق جعفر بن محمد عليهما السلام يقول……. يا يونس قال جدي رسول الله صلى الله عليه وآله ملعون ملعون من يظلم بعدي فاطمة ابنتي ويغصبها حقها ويقتلها.

امام صادق ع کہتے ہیں کہ میرے جد رسول ﷺ نے فرمایا وہ ملعون ہے ملعون ہے جو میرے بعد میری بیٹی سیدہ فاطمہ ع پر ظلم کرے، اور ان کا حق غصب کرے اور ان کو قتل کرے۔ (ترجمہ ایک شیعہ امامی)

[كنز الفوائد للكراجكي ص١٤٩-١٥٠ – دار الاضواء، بيروت]

اس کی سند مفضل بن عمر کی وجہ سے ضعیف ہے، کیونکہ خطابی (بدعتی گروہ) کے طور پر مرا تھا۔ اس پر کشی، نجاشی اور ابن الغضائری نے جرح کی ہے۔ اور رجال الکشی میں بسند صحیح ثابت ہے کہ امام الصادقؑ نے اس پر لعنت کی۔

[ضعفاء الرواة لإبراهيم الشبوط ص٥٦٣ – دار المحجة البيضاء]

•] امام جعفر الصادقؑ نے مفضل پر لعنت کی:

حدثني الحسين بن الحسين بن بندار القمي، قال: حدثني سعد ابن عبد الله بن أبي خلف القمي، قال: حدثني محمد بن الحسين بن أبي الخطاب والحسن بن موسى، عن صفوان بن يحيى، عن عبد الله بن مسكان، قال، دخل حجر بن زائدة، وعامر بن جذاعة الأزدي على أبي عبد الله عليه السلام فقالا له: جعلنا فداك، ان المفضل بن عمر يقول انكم تقد رون أرزاق العباد. فقال: والله ما يقدر ارزاقنا الا الله، ولقد احتجت إلى طعام لعيالي فضاق صدري وأبلغت إلى الفكرة في ذلك حتى أحرزت قوتهم فعندها طابت نفسي، لعنه الله وبرئ منه، قالا: لأفتلعنه وتتبرأ منه؟ قال: نعم فالعناه وابرءا منه برئ الله ورسوله منه.

حجر بن زائدہ اور عامر بن جزاعہ ازدی ابو عبد اللہ (امام الصادقؑ) کے پاس آئے اور کہا ہمارے ماں باپ آپ پر قربان، مفضل کہتا ہے: تم لوگ بندوں کے رزق کے مالک ہو۔ (امام الصادقؑ نے) فرمایا: اللہ کی قسم ہمارے رزق کا مالک صرف اللہ ہے، مجھے میری عیال کے لیے کھانے کی حاجت ہوئی اور میں انتظام نہیں کر سکا، اس تعلق سے فکر کرنے لگا یہانتک کہ میں نے ان کے کھانے کا انتظام کر لیا، تو اس وقت میرے نفس کو اچھا لگا، اللہ کی اس پر لعنت ہو اور وہ اس سے بری ہو۔ عرض کیا: آپ اس پر لعنت کرتے ہیں اور اظہارِ براءت بھی؟ (امام الصادقؑ نے) فرمایا: ہاں اس پر لعنت بھی کرتا ہوں اور اس سے براءت بھی، اللہ اور اس کا رسول اس سے بری ہے۔

[رجال الكشي للطوسي ٢ / ٦١٥ – برقم ٥٨٧ – مؤسسه آل البيت عليهم السلام]

آية الله حسين الساعدي اس روایت کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

الرواية صحيح السند وصريحة في أنه من الغلاة الذين تبرأ منه ولعنه الإمام‌.

روایت صحیح الاسناد ہے اور صراحت ہے کہ وہ ان غلات میں سے تھا جس سے امام (الصادقؑ) نے اظہارِ براءت کیا اور اس پر لعنت کی۔

[الضعفاء من رجال الحديث للحسين الساعدي ٣ / ٣٣٨ برقم ٣ – موسسه علمى فرهنگى دار الحديث ، قم]

•] امام جعفر الصادقؑ نے مفضل بن عمر کو کافر و مشرک کہا:

حدثني حمدويه بن نصير، قال: حدثنا يعقوب بن يزيد، عن ابن أبي عمير، عن هشام بن الحكم، وحماد بن عثمان، عن إسماعيل بن جابر، قال: قال أبو عبد الله: ايت المفضل، وقل له: يا كافر يا مشرك ما تريد إلى ابني، تريد أن تقتله؟

اسماعیل بن جابر سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ ابو عبد اللہ (امام الصادقؑ) نے فرمایا: مفضل کے پاس جاؤ اور اسے کہو: اے کافر اے مشرک! میرے بیٹے سے کیا چاہتا ہے، کیا تو اسے قتل کرنا چاہتا ہے؟

[رجال الكشي للطوسي ص٣٢٣ برقم ٥٨٦ – جامعة مشهد]

آية الله حسين الساعدي اس روایت کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

الرواية صحيحة السند وصريحة في ذم المفضل ووصفه بالكفر والشرك، وأنه من مؤسسي الفرقة الإسماعيلية، وله الآن عندهم منزلة خاصة.

یہ روایت صحیح الاسناد ہے اور مفضل کی مذمت میں صریح ہے جس میں انہوں (امام الصادقؑ) نے اسے شرک و کفر کے ساتھ متصف کیا ہے اور یہ کہ وہ اسماعیلیہ فرقہ کا بانی بھی ہے اور ان (اسماعیلیوں) کے نزدیک اس کا ایک خاص مقام ہے۔

[الضعفاء من رجال الحديث للحسين الساعدي ٣ / ٣٣٨ برقم ٢ – موسسه علمى فرهنگى دار الحديث ، قم]

آية الله آصف المحسني کے نزدیک بھی یہ روایت صحیح ہے۔

[معجم الأحادیث المعتبرة للمحسني ١ / ١٩٥ برقم ١٦٩ – دار النشر الأديان]

مفضل پر جرح:

١] ابن الغضائری فرماتے ہیں:

المفضل بن عمر الجعفي، أبو عبد الله، ضعيف، متهافت، مرتفع القول، خطابي، وقد زيد عليه شئ كثير، وحمل الغلاة في حديثه حملا عظيما، ولا يجوز أن يكتب حديثه.

مفضل بن عمر جعفی ابو عبد اللہ ضعیف ہے، ساقط ہے، اس کے بارے میں اقوال کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا اور بلحاظ مذہب خطابی ہے۔ اس کے متعلق بہت کچھ کہا گیا ہے، غالیوں نے اس کی حدیث میں بہت زیادہ احتمال کیا ہے، اس سے حدیث لکھنا جائز نہیں ہے۔

[مجمع الرجال للقهيائي ٦ / ١٣١ – أصفهان ١٣٨٧هـ]

٢] شیخ نجاشی (م. ٤٥٠هـ) فرماتے ہیں:

المفضل بن عمر أبو عبد الله وقيل أبو محمد، الجعفي، كوفي، فاسد المذهب، مضطرب الرواية، لا يعبأ به. وقيل إنه كان خطابيا. وقد ذكرت له مصنفات لا يعول عليها.

مفضل بن عمر (کنیت) ابو محمد، جعفی، کوفی، فاسد المذہب ہے۔ اس کی روایت مضطرب ہوتی ہے، قابل اعتماد نہیں ہے۔ اور کہا گیا یہ مذہب کے لحاظ سے خطابی تھا۔ اور اس کی تصنیفات کا ذکر ہوا ہے جن پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔

[رجال النجاشي ص٤١٦ برقم ١١١٢ – مؤسسة النشر الإسلامي]

٣] المحقق الحلي (م. ٦٧٦هـ) ایک روایت نقل کر کے فرماتے ہیں:

والمفضل ابن عمر ضعيف جدا، كما ذكر النجاشي.

اور مفضل بن عمر سخت ضعیف ہے، جیسا کہ نجاشی نے ذکر کیا۔

[المعتبر للمحقق الحلي ٢ / ٦٨١ – مؤسسة سيد الشهداء، قُم]

٣] علامہ حلی (م. ٧٢٦هـ) فرماتے ہیں:

المفضل بن عمر الجعفي، أبو عبد الله، ضعيف، كوفي. فاسد المذهب، مضطرب الرواية، لا يعبأ به۔

مفضل بن عمر جعفی (کنیت) ابو عبد اللہ، کوفی، ضعیف ہے۔ فاسد المذہب ہے۔ اس کی روایت مضطرب ہوتی ہے، قابل اعتماد نہیں ہے۔

[خلاصة الأقوال في معرفة الرجال للحلي ص ٤٠٧ – مؤسسة النشر الإسلامي]

٤] شیخ محمد بن الحسن بن الشهيد الثاني فرماتے ہیں:

وأما المفضل بن عمر، فهو ضعيف.

اور جہاں تک مفضل بن عمر ہے، تو وہ ضعیف ہے۔

[إستقصاء الإعتبار لابن الشهيد الثاني ٧ / ٣٦١ – مؤسسة آل البيت لإحياء التراث]

٥] علامہ التفرشي کہتے ہیں:

المفضل بن عمر أبو عبد الله، وقيل: أبو محمد، الجعفي، كوفي، فاسد المذهب، مضطرب الرواية، لا يعبأ به، وقيل: إنه كان خطابيا، وقد ذكرت له مصنفات لا يعول عليها.

مفضل بن عمر (کنیت) ابو عبد اللہ، وبر روایت دیگر ابو محمد، جعفی، کوفی، فاسد المذہب ہے۔ اس کی روایت مضطرب ہوتی ہے، قابل اعتماد نہیں ہے۔ بر روایت دیگر یہ مذہب کے لحاظ سے خطابی ہے اور اس کی تصنیفات کا ذکر ہوا ہے جن پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔

[نقد الرجال للتفرشي ٤ / ٤٠٧ برقم ٥٤٠٠ – مؤسسة آل البيت لإحياء التراث]

٥] علامہ النراقي فرماتے ہیں:

مفضَّل بن عمر الجعفي، أبو عبد اللّه الكوفيّ.

في إرشاد المفيد ما يفيد توثيقه، والنجاشي قد ضعَّفه، وتبعه العلامة، والحق هذا، لقول الصادق (عليه السلام) له في حديث صحيح: (يا كافر! يا مشرك! مالك و لابني يعني إسماعيل.. الحديث) والأخبار الدالَّة على مدحه في سندها ضعف.

مفضل بن عمر جعفی، ابو عبد اللہ کوفی۔

ارشاد المفید سے اس کی توثیق ہوتی ہے، نجاشی نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے اور علامہ حلی کا بھی یہی موقف ہے اور حق بات بھی یہی ہے۔ اس لیے کہ امام صادق علیہ السلام اس سے ایک صحیح حدیث میں کہا ہے: ”اے کافر مشرک! تیرا میرے بیٹے اسماعیل سے کیا معاملہ ہے۔۔۔ الحدیث“۔ جن اخبار سے اس کی مدح ثابت ہوتی ہے ان کی سند میں ضعف ہے۔

[شعب المقال في درجات الرجال للنراقي ١ / ٢٢٠ برقم ١٤٧ – مؤتمر الشيخ النراقي‌]

٦] استاذ سید ہاشم معروف الحسنی فرماتے ہیں:

المفضل بن عمر، المعروف بالغلو والكذب، وقد وصفه الإمام الصادق بالكفر والشرك، ونهى عن الاخذ بمروياته.

مفضل بن عمر، جو غلو اور جھوٹ کے لیے معروف ہے، اور امام صادق نے اسے کفر و شرک کے ساتھ متصف کیا، اور اس کی روایات لینے سے منع کیا۔

[دراسات في الحديث والمحدثين ص٣٠٧ – دار التعارف للمطبوعات، بيروت]

٧] مرجع، سید محمد علی طباطبائی فرماتے ہیں:

محمد ابن سنان ومفضل بن عمر الضعيفين عند الأكثر.

محمد بن سنان اور مفضل بن عمر اکثر کے نزدیک ضعیف ہیں۔

[رياض المسائل في تحقيق الأحكام بالدلائل للطباطبائي ٢ / ٢٧٠ – مؤسسة آل البيت لإحياء التراث]

مفضل بن عمر عند الجمہور ضعیف ہے، اور جنہوں نے توثیق کی، طوسی، مفید اور ابن شعبہ الحرانی (تحف‌ العقول کو مرتب کرنے والے) نے اسے ثقہ کہا۔ لیکن شیخ مفید اور ابن شعبہ رجال کے اس درجہ ماہ نہ تھے۔ اور آیت اللہ خوئی نے توثیق کی حالانکہ نجاشی، ابن الغضائری، علامہ حلی اور محقق حلی وغیرہم جیسے رجال کے ماہروں نے اس پر جرح کی۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٥) پانچویں روایت:

شیخ ابن قولویہ نقل کرتے ہیں:

حدثني : محمد بن عبد الله بن جعفر الحميري ، عن أبيه ، عن علي بن محمد بن سالم ، عن محمد بن خالد ، عن عبد الله بن حماد البصري ، عن عبد الله بن عبد الرحمان الأصم ، عن حماد بن عثمان ، عن أبي عبد الله (عليه السلام)، قال: …… وأما ابنتك فتظلم وتحرم ويؤخذ حقها غصبا الذي تجعله لها، وتضرب وهي حامل، ويدخل عليها وعلى حريمها ومنزلها بغير اذن، ثم يمسها هوان وذل ثم لا تجد مانعا، وتطرح ما في بطنها من الضرب وتموت من ذلك الضرب.

(خدا ﷻ سوال کررہا ہے رسالت مآب ﷺ سے کہ) اور آپ کی بیٹیؑ ان پر ظلم کیا جائے گا، ان کو محروم رکھا جائے گا اور ان کا حق غصب کردیا جائے گا اور ان کو اس حالت میں مارا جائے گا جب کہ وہ حاملہ ہوں گی، اور ان کی اجازت کے بغیر ان کے ہاں داخل ہوا جائے گا اور پھر شدید پریشانیاں اور بے مائگی کا سامنا ہوگا جس کا کوئی دفعیہ نہیں ہوگا، اور جو ان کے بطن مبارک میں بچہ ہے اس کو بھی حملہ کی وجہ سے ضائع کردیا جائے گا اور ان کی وفات اس حملہ کی وجہ سے ضرب سے ہوگی۔ (ترجمہ شیعہ امامی)

[كامل الزیارات لابن قولويه ص٥٤٧-٥٤٨ برقم١٢ – مؤسسة النشر الإسلامي]

پہلی علت:

سند میں علي بن محمد بن سالم تصحیف ہے۔ کیونکہ آيت اللہ خوئی اس راوی کے متعلق لکھتے ہیں:

أقول: وغير بعيد أن تكون كلمة سالم هنا محرف كلمة سليمان، فإن علي بن محمد بن سالم غير موجود، لا في الرجال ولا في الروايات، وإنما الموجود علي بن محمد بن سليمان.

میں کہتا ہوں: کوئی بعید نہیں ہے کہ یہاں سالم لفظ سلیمان سے تبدیل ہوا کیونکہ علی بن محمد بن سالم کا وجود ہی نہیں، نہ ہی رجال میں اور نہ ہی روایات میں، بلکہ علی بن محمد بن سلیمان موجود ہے۔

[معجم رجال الحديث للخوئي ١٣ / ١٥٢-١٥٣ برقم ٨٤٣٥ – مؤسسة الخوئي الإسلامية]

اگر یہ علی بن محمد بن سلیمان ہے، تو اس راوی کے متعلق آیت خوئی لکھتے ہیں:

أقول: الظاهر أنه علي بن محمد بن سليمان النوفلي الآتي بعد هذا.

میں کہتا ہوں: ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ یہ علی بن محمد بن سلیمان نوفلی ہے جو اس کے بعد آئے گا۔

[معجم رجال الحديث للخوئي ١٣ / ١٥٧ برقم ٨٤٤٠ – مؤسسة الخوئي الإسلامية]

اور علي بن محمد بن سليمان النوفلي مجہول ہے:

8429 – 8427 – 8441 – علي بن محمد بن سليمان النوفلي: – مجهول – روى عن أبي جعفر الثاني (ع) في الكافي والفقيه – وروى أخرى في الكافي – له روايات في سابقه.

[المفيد من معجم رجال الحديث ص٤١٠ – مكتبة المحلاتي، قُم]

دوسری علت:

علامہ حلی “محمد بن خالد” کے متعلق لکھتے ہیں:

محمد بن خالد بن عبد الرحمن بن محمد بن علي البرقي‌.

وقال ابن الغضائري: إنه مولى جرير بن عبد الله حديثه يعرف و ينكر و يروي عن الضعفاء و يعتمد المراسيل. و قال النجاشي: إنه ضعيف الحديث.

محمد بن خالد برقی کے متعلق ابن الغضائری فرماتے ہیں: ”اس کی حدیث یعرف وینکر ہے۔ وہ کثرت سے ضعیف راویوں سے سے روایت کرتا تھا اور مراسیل پر اعتماد کرتا تھا“۔ اور اس کے متعلق شیخ نجاشی کہتے ہیں: ”وہ ضعیف الحدیث ہے“۔ شیخ کشی فرماتے ہیں: ”نصر بن صباح نے کہا کہ (محمد بن خالد) برقی نے ابو بصِیر سے ملاقات نہیں کی، دونوں کے درمیان قاسم بن حمزہ کا واسطہ ہے اور نہ کہ اسحاق بن عمار“۔

[رجال العلامة الحلي ١ / ١٣٩ برقم ١٤ – الشريف الرضي‌، قم]

اصطلاح “يعرف وينكر” کے متعلق آیت اللہ مسلم داوری لکھتے ہیں:

الفاظ: «ضعیفٌ»، «ضعیفٌ فی الحدیث»، «غالٍ»، «مُخَلِّطٌ»، «مطعونٌ»، «متَّهمٌ»، «متروکُ الحدیث»، «مُنکَر الحدیث»، «مضطربُ الحدیثِ أو الروایة» ـ البته دربارهدر باره منکر الحدیث یا مضطرب الحدیث ‌بحث است که بر ضعف دلالت می‌کند یا نه؟ مشهور می‌گویند بر ضعف دلالت می‌کند، چون در حدیث ثقه نیست،‌ یعنی «یُعرَفُ و یُنکَرُ حدیثُه». بعضی مثل مرحوم خویی گفته‌اند این‌ها دلیل بر ضعف نمی‌شود، چون یُعرَف و یُنکَر یعنی بعضی وقت‌ها حدیثش پذیرفته می‌شود (یعرف) و بعضی اوقات پذیرفته نمی‌شود (ینکر)، پس ممکن است سند روایت ضعیف باشد یا فردی که از او روایت کرده، ضعیف باشد. اما ما در جای خودش بحث کرده‌ایم که «منکر الحدیث»، «یُعرَفُ و یُنکَر» یا «مضطرب الحدیث» همه بر ضعف شخص در حدیث دلالت می‌کند، دست‌کم از آن جهت که بر توثیق دلالت نمی‌کند، بنا بر این نمی‌توان بر وثاقت چنین کسی حکم کرد.

الفاظ: «ضعيفٌ»، «ضعيفٌ في الحديث»، «غالٍ»، «مُخَلِّطٌ»، «مطعونٌ»، «متَّهمٌ»، «متروكُ الحديث»، «مُنكَر الحديث»، «مضطربُ الحديثِ أو الرواية» – البتہ منکر الحدیث یا مضطرب الحدیث کے بارے میں بحث ہے کہ ضعف پر دلالت کرتا ہے یا نہیں؟ مشہور ہے کہ ضعف پر دلالت کرتی ہے کیونکہ حدیث میں ثقہ نہیں، یعنی «يُعرَفُ و يُنكُرُ حديثُه». اور بعض جیسے (آیت اللہ) خوئی مرحوم کے مطابق کہ یہ اس کے ضعف پر دلیل نہیں، کیونکہ يُعرَف و يُنکَر بعض اوقات حدیث اس کی قبول ہوجاتی ہے (یعرف) اور کبھی قبول نہیں بھی ہوتی۔ (ینکر) لہذا ممکن ہے کہ سند روایت ضعیف ہو یا اس کا راوی ضعیف ہو۔ البتہ اپنے طور پر یہ بحث کی ہے کہ «منكر الحديث»، «يُعرَفُ و يُنكَر» یا «مضطرب الحديث» سب کے سب حدیث میں ضعف پر دلالت کرتے ہیں۔ یا کم از کم یہ کہ اگر یہ بات توثیق شدہ نہیں لہذا ایسے شخص کی صداقت پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔

[مبانی جرح و تعدیل از آیت الله مسلم داوری ص٢٢ – دانشکده مجازی علوم حدیث]

تیسری علت:

اس کی سند میں “عبد الله حماد البصري” کی توثیق نہیں اور آیت اللہ خوئی کے نزدیک مجہول ہے، ملاحظہ:

6829 – 6827 – 6838 – عبد الله بن حماد: البصري – مجهول – روى في كامل الزيارات.

[المفيد من معجم رجال الحديث ص٣٣٢ – مكتبة المحلاتي]

چوتھی علت:

اس کی سند میں “عبد الله بن عبد الرحمان الأصم” ضعیف ہے۔

١] شیخ نجاشی فرماتے ہیں:

عبد الله بن عبد الرحمن الأصم المسمعي بصري، ضعيف غال ليس بشئ.

عبد اللہ بن عبد الرحمٰن اصم مسمعی بصری، ضعیف اور غال، وہ کوئی شے نہیں۔

[رجال النجاشي ص٢١٧ برقم ٥٦٦ – مؤسسة النشر الإسلامي]

٢] ابن الغضائری فرماتے ہیں:

عبد الله بن عبد الرحمان الأصم، المسمعي، أبو محمد. ضعيف. له كتاب في الزيارات، ما يدل على خبث عظيم.

عبد اللہ بن عبد الرحمان اصم مسمعی (کنیت) ابو محمد، ضعیف ہے، اس کے پاس زیارات پر کتاب تھی جو خبثِ عظیم پر دلیل ہے۔

[رجال ابن الغضائري ص٧٦ برقم برقم٨٧ – دار الحديث، قُم]

٤] علامہ حلی فرماتے ہیں:

عبد الله بن عبد الرحمن الأصم المسمعي‌ بصري ضعيف غال ليس بشي‌ء وله كتاب في الزيارات يدل على خبث عظيم وكان من كذابة أهل البصرة.

عبد اللہ بن عبد الرحمٰن اصم مسمعی بصری ضعیف غال ہے، وہ کچھ بھی نہیں۔ اور اس کی زیارات پر کتاب خبثِ عظیم پر دلالت کرتی ہے۔ اور وہ اہل بصرہ کے کذاب میں سے تھا۔

[رجال العلامة الحلي ١ / ٢٣٨ برقم ٢٢ – الشريف الرضي‌ ، قُم]

٥] آیت اللہ خوئی کے نزدیک وہ ضعیف ہے:

6953 – 6951 – 6962 – عبد الله بن عبد الرحمان الأصم: المسمعي، بصري – ضعيف – روى 54 رواية، تأتي له روايات بعنوان الأصم ” في 15220 “.

[المفيد من معجم رجال الحديث ص٣٣٨ – مكتبة المحلاتي]

لہذا یہ روایت کئی لحاظ سے مردود ہے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

✍🏻 حماد بن سعيد العلوي