عید میلاد النبیؐ

عید میلاد النبیؐ منانا فرض یا واجب نہیں ہے۔ جو لوگ کسی بھی وجہ سے اس دن کو نہیں مناتے انہیں ابلیس یا منافق کہنا اور ان کے ایمان یا عشقِ رسول پر شک کرنا بھی اسی طرح اعتدال سے تجاوز ہے جس طرح اس تہوار کو حرام کہنا اور اسے منانے والوں کو بدعتی ماننا۔

عیدِ میلاد النبیؐ بنیادی طور پر دینِ اسلام کا نہیں، مسلم تہذیب کا تہوار ہے۔ اگر اس میں حُبِ رسولؐ کا جذبہ اور تعظیم رسولؐ کا طرز عمل کارفرما ہو تو مستحب، بصورتِ دیگر مباح ہے۔ اگر جشن میں غیر شرعی خرافات شامل ہوجائیں تو مکروہ یا حرام بھی ہوسکتا ہے. لیکن دینی کی بجائے تہذیبی تہوار ہونا اس کی اہمیت کو ہرگز کم نہیں کرتا۔

تہذیب ہی وہ میڈیم ہے جس کے ذریعے دین مختلف مکان و زمان میں اپنی جگہہ بناتا ہے، اپنا اظہار کرتا ہے، پرکشش اور قابلِ عمل بنتا ہے۔ اسی میڈیم کو اختیار کرنے کی وجہ سے اسے وہ لچک ملتی ہے جو اس کی طاقت بنتی ہے اور یوں وقت یا جگہہ بدلنے کے باوجود دین قائم رہتا ہے۔

دین مستقل اور مکمل ہے لیکن تہذیب بدلتی رہتی ہے، وقت اور جغرافیہ بدلنے سے مسلسل ارتقاء میں رہتی ہے۔ ہمارا دین تہذیب کی اسی خاصیت کا فائدہ اٹھاتا ہے اسی لیے فلپائن سے افریقہ تک ہر مٹی میں رچ بس جاتا ہے اور ساتویں صدی عیسوی سے اکیسویں صدی عیسوی تک، ہر زمانے میں زندہ قوت رہتا ہے۔

میرے نزدیک بطور مسلمان ہماری تہذیبی عصبیت بھی دینی وابستگی کے بعد بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ religiously مسلمان ہونے کے ساتھ ساتھ culturally مسلمان ہونا بھی بہت ضروری ہے۔ اگرچہ تہذیبی ارتقاء اور اصلاح کا عمل ہمیشہ جاری رہنا چاہئیے اور ہر گھڑی اپنے طرزِ عمل کا حساب کرنا چاہئیے لیکن اپنے تہذیبی مظاہر سے وابستگی بھی بہت ضروری ہے۔ یہ وابستگی کمزور پڑجائے اور دین کے گرد کھڑی ایک حفاظتی فصیل گرجاتی ہے، الحاد اور تشکیک کے جراثیموں کے خلاف مدافعتی نظام کمزور پڑجاتا ہے۔ ریفارمیشن اور پیورٹن ازم حد سے بڑھ جائے تو سیکولرائزیشن اور سکیپٹیسزم کا دروازہ کُھل کر ہی رہتا ہے۔

احمد الیاس