ماثرالامرا کے مطابق ’باوجود اس زہد خشک کے جس کے لیے اورنگزیب اس عہد میں بھی مشہور ہو چکے تھے۔ زین آبادی کے عشق و شیفتگی میں اس درجہ بے قابو ہو گئے کہ اپنے ہاتھ سے شراب کا پیالہ بھر بھر کر پیش کرتے اور عالم نشہ و سرور کی رعنائیاں دیکھتے۔ کہتے ہیں کہ ایک دن زین آبادی نے اپنے ہاتھ سے جام لب ریز کر کے اورنگزیب کو دیا اور اصرار کیا کہ لبوں سے لگا لیں۔‘
‘شہزادے نے ہرچند عجز و نیاز کے ساتھ التجائیں کیں کہ میرے عشق و دل باختگی کا امتحان اس جام کے پینے پر موقوف نہ رکھو۔ لیکن اس عیار کو رحم نہ آیا۔ ناچار شہزادے نے ارادہ کیا کہ پیالہ منھ سے لگا لے۔ لیکن جوں ہی اس فسوں ساز نے دیکھا کہ شہزادے بے بس ہو کر پینے کے لیے آمادہ ہو گئے ہیں فوراً پیالہ ان کے لبوں سے کھینچ لیا اور کہا ان کا مقصد شراب پلانا نہیں بلکہ عشق کا امتحان تھا۔‘
شاہ جہاں تک خبریں پہنچنے لگیں اور وقائع نویسوں کے فردوں میں بھی اس کی تفصیلات آنے لگیں۔
رمانند چیٹرجی لکھتے ہیں کہ اورنگزیب کے بڑے بھائی، دارا شکوہ، نے یہ واقعہ اپنے والد شاہ جہاں کو بتایا۔ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے شکایت کی کہ ’اس منافق کا تقویٰ اور پرہیزگاری دیکھیں، اپنی خالہ کے گھر کی ایک لونڈی کی خاطر تباہ ہو رہا ہے۔‘