محسن نقوی ۔ اردو کے قادرالکلام شاعر

‎محسن نقوی کا اصل نام سید غلام عباس نقوی تھا اور وہ 5 مئی 1947ء کو محلہ سادات، ڈیرہ غازی خان میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے بہاﺅ الدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے اردو میں ایم اے کیا اور کم و بیش اسی زمانے میں ان کی شاعری کا آغاز ہوا۔

‎1969ء میں ڈیرہ غازی خاں کے ہفت روزہ “ہلال” میں باقاعدہ ہفتہ وار قطعہ اور کالم لکھنا شروع کیا۔ اسی سال ملتان کے روزنامہ ’’امروز‘‘ میں ہفتے وار کالم لکھے۔

‎محسن نقوی کا شمار اردو کے خوش گو شعرا میں ہوتا ہے ان کے شعری مجموعوں میں بندقبا، ردائے خواب، برگ صحرا، موج ادراک، ریزہ حرف، عذاب دید، طلوع اشک، رخت شب، فرات فکر، خیمہ جاں اور میرا نوحہ انہی گلیوں کی ہوا لکھے گی شامل ہے۔ وہ پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما تھے۔محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں تمغہ برائے حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔

‎15جنوری 1996ء کو محسن نقوی لاہور میں تکفیری خوارج قاتلوں کی گولیوں کا نشانہ بن گئے ۔ شہید محسن نقوی ڈیرہ غازی خان میں آسودہ خاک ہیں۔

تعزیرِ اہتمامِ چمن کون دے گیا

مجھ کو گلاب جیسا کفن کون دے گیا

دیکھے جو خدّوخال تو سوچا ہے بارِ ہا

صحرا کی چاندنی کو بدن کون دے گیا

میری جبیں کی ساری لکیریں تیری عطا

لیکن تِری قبا کو شکن کون دے گیا

تیرے ہنر میں خلقتِ خوشبو سہی مگر

کانٹوں کو عمر بھر کی چبھن کون دے گیا

جنگل سے پوچھتی ہے ہواؤں کی برہمی

جگنو کو تیرگی میں کرن کون دے گیا

کس نے بسائے آنکھ میں اشکوں کے قافلے

بے گھر مسافروں کو وطن کون دے گیا

تجھ سے تو ہر پَل کی مسافت کا ساتھ تھا

میرے بدن کو اتنی تھکن کون دے گیا

توڑا ہے کس نے نوکِ سناں پر سکوتِ صبر

لب بستگی کو تابِ سخن کون دے گیا

محسن وہ کائناتِ غزل ہے اُسے بھی دیکھ

مجھ سے نہ پوچھ مجھ کو یہ فن کون دے گیا