من شبے صدیقؓ را دیدم بخواب

من شبے صدیقؓ را دیدم بخواب

گل زِ خاک راہِ اُو چیدم بخواب

آں امن الناس بر مولائے ما

آں کلیمِ اوّل سینائے ما

ہمتِ اُو کشت ملت را چو ابر

ثانیِ اسلام و غار و بدر و قبر

گفتمش اے خاصہِ خاصانِ عشق

عشقِ تو سرِ مطلعِ دیوانِ عشق

پختہ از دستت اساسِ کار ما

چارہ ے فرما پے آزارِ ما

گفت تاکہ ہوس گردی اسیر

آب و تاب از سورہِ اخلاص گیر

ایں کہ در صد سینہ پیچد یک نفس

سرے از اسرارِ توحید است و بس

رنگ اُو برکن مثالِ او شوی

در جہاں عکسِ جمال او شوی

ایک رات میں نے خواب میں حضرت ابو بکر صدیقؓ کو دیکھا۔ آپ کے راستے کی خاک سے میں نے خواب میں پھول چنے۔ آپ ہمارے مولا (نبی اکرم ص) کے لیے امن لائے۔ آپ ہمارے طُور (نبی کریم ؐ) کے پہلے کلیم ہیں۔ آپ کی ہمت امت کی کھیتی کے لئے بادل کی مانند ہے۔ آپ ثانیِ اسلام و غار و بدر و قبر ہیں۔

میں نے آپ سے کہا کہ آپ عشق کے خاصوں سے بھی خاص ہیں۔ آپ کا عشق دیوانِ عشق کا پہلا شعر ہے۔ آپ کے ہاتھوں سے ہمارے کاموں کی بنیاد مضبوط ہوئی۔

آپ ہمارے دکھ درد کا علاج فرمائیں۔

حضرت صدیقؓ نے فرمایا کہ کب تک اُمت حرص و ہوس میں مبتلا رہے گی۔ اس اُمت کو سورہ اخلاص سے چمک دمک حاصل کرنی چاہیے۔

یہ جو ہزاروں سینوں میں ایک ہی طرح سے سانس چل رہا ہے۔ یہ توحید کے رازوں میں سے ایک راز ہے۔ اس جہاں میں تو اس کے رنگ کو اختیار کر کے اس کی مانند ہو جا۔ اس جہاں میں اُس کے جمال کا عکس بن جا۔

اقبال