مولانا حسن امداد کی رثائی شاعری – عارف امام

‎مجھ سے اکثر سوال ہوتا ہے کہ آپ کبھی اپنی شاعری میں اپنا تخلص نہیں لکھتے۔ میری سمجھ میں بھی نہیں آتا تھا کہ میں ایسا کیوں کرتا ہوں۔ ایک دن مولانا حسن امداد مرحوم سے متعلق ایک تحریر نظر سے گزری جس میں بتایا گیا کہ مولانا نے کبھی اپنا تخلص کسی مقطع میں نہیں لکھا۔

‎مجھے اپنی نوجوانی سے ہی مولانا سے محبت بہ درجۂ عقیدت ہے اور اگر شاعری میں کبھی زانوئے تلمذ تہہ کرتا تو انہی کے قدموں پہ کرتا۔ لڑکپن میں ایک بار کوشش بھی کی لیکن میری ملاقات نہ ہو سکی۔ خیر ،کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر آپ کسی سے بے لوث محبت رکھتے ہوں تو اس کے کچھ نہ کچھ خصائص آپ کی شخصیت میں بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔

‎اب سمجھ میں آیا کہ اجرِ رسالت مؤدت فی القربیٰ کیوں قرار پایا؟ جو افراد صرف ایک ہاں کے نتیجے میں مالا مال ہوسکتے تھے انہوں نے حق کی خاطر اپنی جان دے دی ہو یا زندگی کے بیشتر دن قید خانوں میں رکوع کی حالت میں بسر کردیے ہوں، ان افراد سے محبت آپ کے کردار میں کیسی کیسی تبدیلیاں لا سکتی ہے۔ بشرطیکہ یہ محبت محض حصولِ ثواب کے لیے نہ ہو۔

‎میرے لئے تو انکا سارا کلام ہی آیات کی طرح ہے مگر مجھے “اس جواں کی مگر بات ہی اور ہے” بہت زیادہ پسند ہے کیوں کہ میری دانست میں اردو رثائی ادب میں یہ پہلا کلام ہے جسمیں ممدوح کا نام لئے بغیر اس کی صفات سے شخصیت کو بیان کیا گیا۔ نوحے کی صنف میں رمز و ایمائیت کی اس سے بہتر مثال میری نظر سے نہی گزری

‎کھا کے تیغیں گرے رن میں کیا کیا حسیں

‎لاش پر جن کی تنہا گئے شاہ دیں

‎کانپ اٹھا فلک اورلرزی زمیں

‎بیبیاں پھر بھی خیمے سے نکلی نہیں

‎اس جواں کی مگر بات ہی اور ہے

‎یہ بند پوری زندگی رونے کے لیے کافی ہے

‎بی بیاں ۔۔۔۔۔۔ایک مصرع میں قیامت کا بیاں ہے۔ سینہ پیٹتے رہئے

‎کسی بی بی کا نام نہیں مگر کمال مصائب لکھ دیے

علی محمد رضوی سچے بھائی کی آواز نے اس کلام کوامر کر دیا

اس جواں کی مگر بات ہی اور ہے

نازِ ہر دو جہاں شِہ کے لشکر میں ہیں

سارے شیرِ جیاں شِہ کے لشکر میں ہیں

کتنے ابرو کماں شِہ کے لشکر میں ہیں

کیسے کیسے جواں شِہ کے لشکر میں ہیں

اس جواں کی مگر ۔۔۔۔۔

اُن میں حیدر کے سروصحیح قدبھی ہیں

باغِ مُسلم کے تھے وہ بہی خدبھی ہیں

معدن حق کے لعل و زمرد بھی ہیں

یوں تو قاسم بھی عو ن ومحمدبھی ہیں

اس جواں کی مگر ۔۔۔۔۔

کون ہے جان کو جس نے وارا نہیں

کون ہے جو کہ آنکھوں کا تارا نہیں

کون ہے جو شہ دیں کو پیارا نہیں

کس نے گھوڑے سے گر کر پُکارا نہیں

اس جواں کی مگر ۔۔۔۔۔

کس نے شِہ سے بلاؤں کو ٹالانہیں

خود کو دُشمن کی فوجوں میں ڈالا نہیں

کون ہے جو کہ گھر کا اُجالا نہیں

کون ہے جس کو زینب نے پالا نہیں

اس جواں کی مگر ۔۔۔۔۔

کھا کے تیغیں گرے رن میں کیا کیا حسیں

لاش پر جن کی تنہا گئے شاہِ دیں

کانپ اُٹھا فلک اور لرزی زمیں

بیبیاں پھر بھی خیمے سے نکلی نہیں

اس جواں کی مگر ۔۔۔۔۔

کس نے زخمِ سناں دل پہ کھایا نہیں

کس نے سینے کو چھلنی بنایا نہیں

کس کے لاشے کو شِہ نے اُٹھایا نہیں

ہاتھ لیکن بہن نے بٹایا نہیں

اس جواں کی مگر ۔۔۔۔۔

رن میں ہر ایک ایسا تھا شیریں زباں

جس کے لہجے پہ داؤدبھی دے دیں جاں

ان میں جس کو بھی کہتے شہِ انس و جاں

صبح عاشور وہ بڑھ کے دیتا اذاں

اس جواں کی مگر ۔۔۔۔۔