ڈاکٹر علی شریعتی اور مختار مسعود

”خراسان میں دشتِ کاویر کے کنارے ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہونے والا غریب لڑکا جب چوالیس برس کی عمر میں انتقال کرتا ہے تو لوگ اسے نظریہ ساز اور عہد ساز شخصیت قرار دیتے ہیں۔ ایک قبیلہِ جاویداں ایسے لوگوں کا ہوتا ہے جو بعد از مرگ بھی اس دنیا کے کام سنوارتے رہتے ہیں۔ ڈاکٹر علی شریعتی کا تعلق اسی قبیلے سے ہے۔“

(مختار مسعود، لوحِ ایام)

یہ حسینیہ ارشاد ہے، تہران کا وہ ادارہ جہاں علی شریعتی نے تین برس میں تین سو تقریریں کیں۔ ہر تقریر سننے کے لیے میلوں تک گاڑیوں، سائیکلوں اور پیادہ انسانوں کی لمبی قطاریں ہوتیں اور ہر تقریر کتابی صورت میں چھپتی تو پورے ملک میں ہاتھوں ہاتھ بکتی۔ ماضی میں ریاستی تشدد کے تجربے نے انہیں زیرک بنا دیا تھا۔ ان کی کسی تقریر میں شہنشاہِ ایران یا خاندانِ شاہی کا ذکر نہیں۔ وہ سب کچھ فلسفہِ تاریخ، انسان شناسی، اسلامی افکار اور تشیعِ علوی کے حوالے سے کہتے تھے لیکن ان تقریروں سے انہوں نے ایرانی قوم کا سیاسی مزاج یکسر بدل ڈالا۔

مختار مسعود لکھتے ہیں:

”حسینیہ ارشاد کی عمارت سے میرا گزر اس وقت ہوتا ہے جب مجھے گل فروش کی دکان سے پھول خریدنے ہوں۔۔۔ ہر بار میں دکان کے شیشے والے دروازے میں داخل ہونے سے پہلے دائیں جانب حسینیہ ارشاد کی عمارت دیکھتا ہوں۔ مسجد کی طرز پر بنی عمارت، کاشی کاری سے مزین۔ دروازہ دکھائی نہیں دیتا۔ سنا ہے اسے اینٹوں سے چن دیا گیا ہے۔ یہاں جو مقرر تقریر کرتا تھا اس کو خاموش کرنے کے لیے شاہ پرست انتظامیہ نے کیا کچھ نہیں کیا۔ مگر سب حربے ناکام گئے۔ وہ شخص انتقال کرچکا ہے لیکن خاموش نہیں ہوا۔ حسینیہ ارشاد کی عمارت سے اٹھنے والی آواز آج بھی البرز کی چوٹیوں سے ٹکرا کر صدائے کوہ کی طرح پورے ایران میں گونجتی ہے۔“

شریعتی انیس سو ستتر میں شہید کردئیے گئے۔ جواں عمری میں ان کے انتقال پر کئی لوگوں نے سوچا ہوگا کہ ان کی فکر، ان کی محنت، ان کی دعوت بے کار گئی۔ شریعتی نے خود ایک بار کہا تھا کہ موت ہر لحظہ گھات لگائے بیٹھی ہے۔ میں نے موت کے ساتھ جینا سیکھ لیا ہے۔ لیکن اس وقت مرنا مجھے منظور نہیں۔ ایرانی لوگوں کی آنکھیں جو مجھے میری زندگی سے زیادہ عزیز ہیں، میرا نتظار کررہی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے جو وقت تقدیر کی عدالت سے مانگا، وہ انہیں نہیں ملا۔ وہ محض چوالیس برس کی عمر میں اس دنیا سے چلے گئے۔ وہ کوئی باقاعدہ تنظیم، کوئی منظم جماعت بھی چھوڑ کر نہیں گئے تھے جس سے توقع کی جاتی کہ وہ ان کی فکر کو دنیا کی حقیقت بنائے گی۔ بس ان کی تقریریں تھیں جن میں حکومتِ وقت کا ذکر تک نا تھا۔ لیکن خدا کی خدا ہی جانے!۔۔۔ شریعتی کی شہادت کے صرف دو برس بعد ایران میں انقلاب آگیا۔

مختار مسعود لکھتے ہیں:

میں نے ایرانی وزارتِ خارجہ کے ڈائریکٹر جنرل سے پوچھا کہ انقلابِ ایران کا مفکر اور فلسفی کون ہے؟ اس نے جواب دیا : شریعتی۔ میں نے بازارِ بزرگ کے ایک سودا گر سے یہی سوال کیا۔ اس نے کہا شریعتی۔ میں نے تہران یونیورسٹی کے پروفیسر سے پوچھا، اس نے کہا شریعتی۔ میں خیابان رضا پر کتابوں کی ایک دکان میں داخل ہوا۔ ڈاکٹر علی شریعتی کی کتابوں کا ڈھیر لگا تھا۔“

ایرانی شریعتی کو یاد کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے بزرگِ ابدی!

انہوں نے تیرے بال و پر توڑ دئیے مگر تیری پرواز میں کوئی کوتاہی نا آئی۔

ہاتھ قلم کردئیے مگر تم لکھتے رہے جنوں کی حکایاتِ خوں چکاں۔

پیر کاٹ دئیے مگر تمہارا رستہ کون روک سکتا تھا۔

تمہارے لبوں کو سی دیا مگر تمہاری آواز کو خاموش نا کرسکے۔

اے خاموشی کو توڑنے والی بجلی کی کڑک!

اے فجر کے پیام بر!

اے شب کی تاریکی کو دور کرنے والے!

اے بیدار و مسلح، اے مصلحِ حالات!

اے وہ جو آخری دم تک خلقِ خدا کا وفادار رہا!

اے دلاوری و شجاعتِ انساں کے مغنی!

اے شعرِِ نا تمام۔۔۔۔۔۔

شریعتی کی کتب اور تقاریر کے انگریزی تراجم کے لنکس :

http://www.shariati.com/kotob.html

http://www.shariati.com/speeche.html

احمد الیاس