کرسمس اور مسیحی دنیا سے تعلقات

مولانا محمد اقبال بدوی صاحب جیّد عالم دین ہیں۔آج کل اولڈم انگلینڈ کی جامعہ مسجد کے امام و خطیب ہیں۔صاحبِ بصیرت اور وسیع المطالعہ ہیں۔دلیل کی بنیاد پر کسی موضوع سے اتفاق کرتے اور اختلاف کرنے والوں سے وسعتِ قلبی سے مکالمہ کرتے ہیں۔ کرسمس کے حوالے سے عیسائی دنیا سے کیسے برتاؤ کیا جائے اور ہماری روایتی سوچ دینی نقطہ نظر سے کیا ابہام رکھتی ہے۔ اس پر ان کی وال سے لیا گیا مضمون آپ کے ذوقِ مطالعہ کے لئے حاضر ہے۔

کرسمس کے حوالے سے اپنے پڑوسیوں یا ساتھ کام کرنے والوں کو مبارک کہتے ہوئے عمومی طور پر درجِ ذیل خلجان پایا جاتا ہے

• اس سے ان کے مذہب کی تائید ہو جاتی ہے۔

• کیا صحابہ کرام کے زمانے میں ایسا ہوتا تھا ؟

• ڈاکٹر ذاکر نائیک اور ڈاکٹر اسرارصاحب نے یہ یہ کہا ہے۔

• یورپ میں رہنے والوں کی کوئی مجبوری ہو گی، مگر ہماری کیا مجبوری ہے؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میری اس پوسٹ کا مقصد کسی کو قائل کرنا نہیں ، نا کسی کو یہ دعوت دینا مقصود ہےکہ ہم عیسائی خاندانوں کے دروازوں پر جا جا کر دستک دیں اور ہر راہ چلتے کو ہیپی کرسمس بولتے رہیں اور ان کی پارٹیز میں شریک ہوتے رہیں۔مقصد صرف یہ ہے اگر ساتھ رہنے والے، ساتھ کام کرنے، ساتھ پڑھنے اور ساتھ رہنے والے اگر ہمیں ہیپی کرسمس کہیں تو ان کے جواب میں ہم بھی کہیں تو کوئی شرک ورک تو نہیں ہو جائے گا ؟ اور دوسری بات یہ کہ اس مسئلے کی نوعیت کو علمی بنیادوں پر سمجھنے کی کوشش کی جائے۔

1)کرسمس کا تصور حضرت عیسی کے دنیا سے اُٹھ جانے کے ساڑھے تین سو سال بعد میں آیا، بائبل میں اس کا کوئی ذکر نشان بھی نہیں ہے، عیسی کا ابن اللہ ہونے کا عقیدہ چار سو سال بعد میں گھڑا گیا ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں اور نزول قرآن کے وقت میں موجود عیسائی عیسی کو اللہ کا بیٹا مانتے تھے اس کے باوجود، ان کی عورتوں سے نکاح کی اجازت دی گئی، مگر یہ ان کے مذہب کی تائید نہیں ہوئی۔

2) عیسائیوں کے ہاتھ کا ذبح کیا ہوا گوشت کھانے کی اجازت دی، یہ ان کے مذہب کی تائید نہیں ہوئی۔

3) مدینہ کے یہودی قبائل حضرت موسی اور نبی اسرائیل کی آزادی کی خوشی میں دس محرم کا روزہ رکھتے تھے، نبی کریم نے خود بھی روزہ رکھا اور صحابہ کو حکم دیا اور فرمایا موسی سے ہمارا تعلق تم سے زیادہ ہے، آپ نے یہ روزہ ان سے لیا لیکن کوئی تائید نہیں ہوئی۔

4) قرآن نے جب زکات کی مدات بیان کیں تو ضرورت مند غیر مسلموں کا خیال فرمایا کہ ان کو بھی زکات دے سکتے ہو ( مؤلفہ القلوب )۔ان کے مذہب کی کوئی تائید نہیں ہوئی۔

5) آپ نے سوشل ویلفئیر کے لئے کافروں کے بنائے ہوئے پلیٹ فارم کی ممبر شپ لی اور تئیس سال تک ان کے ساتھ کام کیا۔ انکی کوئی تائید نہیں ہوئی۔

6) آپ نے عیسائی بادشاہ ( شاہ مصر ، مقوقس ) کی طرف سے دیے گئے تحفے خوشی سے قبول کیے حالانکہ وہ عیسی کو اللہ کا بیٹا مانتا تھا۔ ان کے مذہب کی کوئی تائید نہیں ہوئی۔

7) نجران سے عیسائیوں کا وفد آپ کی نبوت کو چیلنج کرنے آیا آپ نے ان مشرکوں اور ابن اللہ کا عقیدہ رکھنے والوں کو اپنی مسجد میں عبادت کی اجازت دی۔ ان کے مذہب کی کوئی تائید نہیں ہوئی ۔

• یہ سب ، شادیاں، ذبیحے، بزنس، مدد امداد اسی لئے تو تھے کہ ان کے ساتھ ربط ضبط رہے اور بڑھے، قربت پیدا ہو، وہ ہمیں اور ہمارے دین کو سمجھیں غلط فہمیاں دور ہوں اور بالآخر وہ اس دین کے سائے میں آ سکیں۔

😎 سب سے بڑی دلیل ہجرت حبشہ، مسلمان سمندر پار عیسائیوں کے ملک میں پہنچے جو عیسی کو اللہ کا بیٹا مانتے تھے وہاں پناہ لی، ان کے پوچھنے پر حضرت عیسی کے بارے میں اپنا عقیدہ بتا دیا کہ ہم انہیں اللہ کا بیٹا نہیں بلکہ اللہ کا کلمہ مانتے ہیں جو اس نے مریم کی طرف القا کیا تھا، اپنے عقیدہ پر قائم رہتے ہوئے ان کے عقیدے کو چیلنج نہیں کیا، وہاں پندرہ سال رہے، شادیاں کیں ، بچے ہوئے، ان کے ساتھ کاروبار کیے حتی کہ حضرت ام سلمہ کہتی ہیں کہ حبشہ کے بادشاہ کے خلاف کسی نے بغاوت کر دی تو ہم صبح و شام اس کے لئے دعائیں مانگتے تھے کہ یا اللہ نجاشی کو غلبہ عطا فرما اور اس کے تخت کو محفوظ رکھنا۔ “ فدعونا اللہ تعالی للنجاشی بالظہور علی عدوہ والتمکین لہ فی بلادہ “ ان کے مذہب کی کوئی تائید نہیں ہوئی ۔

10) صحابہ کرام کے زمانے میں نان مسلمز کے قبیلے الگ ، محلے الگ، بازار الگ، پروگرامات الگ، رسومات الگ ہوتی تھیں، غیر مسلموں کے ساری اجتماعات / رسومات انہیں تک محدود تھیں ان کو یہ ایشو نہیں ہوتے تھے ۔تاہم آج کی مخلوط سوسائٹی میں جہاں چالیس کروڑ مسلمان مغرب میں ہیں،انہیں اپنے دین اور اقدار کی ترویج کے لئے خوشگوار تعلقات کی ضرورت ہے

11) ایک مرتبہ حضرت عبد اللہ بن مسعود سفر میں تھے کچھ عیسائی بھی شریک سفر ہوئے تو انہیں “ السلام علیکم “ کہا ساتھیوں نے کہا آپ عیسائیوں کو سلام کر رہے ہیں ؟ تو فرمایا میں حقِ صحبت ادا کر رہا ہوں۔

ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب یا کسی دوسرے سکالرز کے فتوے/ رائے کا نام دین نہیں ہے بلکہ قرآن و سنت کا نام دین ہے، آپ یہ نہ بتائیں کہ ڈاکٹر صاحب نے کرسمس کے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ “ خدا نے بیٹا جنا “ بلکہ آپ سے گزارش ہے کہ آپ اس ڈکشنری کا نام بتائیں جس میں کرسمس کے یہ معنی لکھے ہوئے ہیں۔

کرسمس(Christmas) دو لفظوں سے مل کر بنا ہے ایک کرائسٹ یعنی عیسی اور دوسرا ماس یعنی اجتماع، اس میں خدا کا بیٹا کہاں سے آ گیا؟

قرآن نے بتایا کہ بنی اسرائیل جب شرک میں مبتلا ہوئے تو انہوں نےجن بتوں کو خدا بنایا ان میں سے ایک خدا کا نام “ بعل “ تھا لبنان، شام اور فلسطین کے علاقوں کےلوگ اس کو خدا مانتے تھے ( سورہ صافات میں اس ذکر موجود ہے ) لیکن اس لفظ کا اصل مطلب ہے سردار، لیڈر، رہنما سرپرست لہذا انہیں معنوں میں حضرت ابراہیم کی اہلیہ نے یہی لفظ اپنے خاوند کے لئے استعمال کیے “ و ھذا بعلی شیخا” ( سورہ ہود ) اس سے پتا چلا ایک ہی لفظ کے اپنے اپنے مطلب ہو سکتے ہیں کوئی بعل سے خاوند مراد لے یا کوئی بعل سے مراد خدا لے لے، وہ اپنے اپنے مطلب کے لئے جواب دہ ہونگے، بالکل اسی طرح عیسائی عیسی کو خدا کا بیٹا مان کر خوش ہوتے رہیں لیکن ہم اپنے عقیدے کے مطابق اللہ کا نبی مان کر خوش ہو سکتے ہیں ان کا اپنا مطلب ہے اور ہمارا اپنا۔

مقصد صرف ایک ہی ہے کہ آج کی اس ملٹی کلچرل سوسائٹی میں اپنے دین کی دعوت کے لئے عین سنت کے مطابق راستے پیدا کیے جائیں، مسلمانوں کو علماء کے فتووں کی بنیاد پر “اجنبیت” سے بچایا جائے، لوگوں کو اس آخری اور واحد سچے دین کے قریب کیا جائے، قرآن و سنت نے جو دین میں وسعت دی ہے اس کا تعارف کروایا جائے۔ بد قسمتی سے اس وسعتِ قلبی کو علماء اپنے ذوق اور فتووں سے تنگ کر رہے ہیں۔ اسلام الحمد للہ مغرب میں سب سے تیزی سے پھیلنے والا مذہب ہے اور ان شاء اللہ ایک وقت آئے گا کہ اسلام کا سورج مغرب سے طلوع ہو گا۔