ہم لوگوں کا تصورِ دنیا مغرب پر کتنا مرکوز ہے

ہم لوگوں کا تصورِ دنیا مغرب پر کتنا مرکوز ہے اور ہم دنیا کے دوسرے خطوں، بشمول مسلم ممالک سے کتنے بے خبر ہیں، اس کا اندازہ اس لفڑے سے ہوتا ہے جو ہم نے بعض عرب ممالک کے ناموں کے ساتھ انگریزی کے زیراثر اپنی زبانوں میں کررکھا ہے۔

مثلاً

جسے ہم مراکش کہتے ہیں، اسے اس ملک کے لوگ خود اور باقی سارے عرب المغرب کہتے ہیں۔ لیکن ہمارے یہاں مراکش کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے، حالانکہ مراکش المغرب کا صرف ایک شہر ہے۔

جسے ہم تیونس کہتے ہیں وہ عربی میں تُونس ہے۔ اس ملک کے باشندے اپنی ملک کو تُونس ہی کہتے ہیں۔ لیکن ہم نے انگریزی نام تیونیزیا کے زیراثر اسے تیونس بنا رکھا ہے۔

“لبنان” کا درست تلفظ لُبنان ہے لیکن چونکہ انگریزی میں لیبنان ہے سو ہم نے اس کا مورد لبنان کررکھا ہے۔

سُودان کو ہمارے ہاں اردو میں بھی انگریزی نام سوڈان سے بلایا جاتا ہے حالانکہ وہاں کے باشندے تو شاید ڈ کی آواز بھی نہیں نکال سکتے۔

اب تو صورتحال اتنی ابتر ہے کہ الجزائر کو اردو میں الجیریا لکھا اور بولا جانے لگا ہے جو اس کا انگریزی نام ہے۔

جسے ہم شام کہتے ہیں اسے اس ملک کے لوگ اور باقی عالمِ عرب سوریا کہتا ہے اور انگریزی میں سیریا کہا جاتا ہے۔ شام دراصل ایک خطے کا نام ہے جس میں سوریا کے ساتھ لُبنان، فلسطین (بشمول “اسرائیل”) اور اردن بھی شامل ہیں۔ انگریزی میں اس خطے کا نام لیوانٹ Levant ہے۔

یہ معاملہ صرف عرب ملکوں تک محدود نہیں۔

جسے ہم انگریزی نام ٹرکی کے زیراثر ترکی کہتے ہیں وہ ترکیہ ہے۔ ترکیہ کے لوگوں کو اپنے ملک کے اصل نام پر اتنا اصرار ہے کہ ترکیہ کی حکومت نے قانون سازی اور عالمی سفارت کاری کے ذریعے یہ بات منوائی ہے کہ انہیں دوسری زبانوں بشمول انگریزی میں بھی ترکیہ Turkiye ہی لکھا اور بولا جائے اور ٹرکی کو ترک کردیا جائے۔

میں کچھ عرصہ قبل ترکیہ کے پڑوسی اور حریف ملک یونان کے وزیراعظم کی ترکیہ کے خلاف اقوام متحدہ میں انگریزی زبان میں تقریر سن رہا تھا۔ وہ ترکیہ پر سخت تنقید کرتے ہوئے بھی ترکیہ کو ترکیہ ہی کہہ رہے تھے لیکن دوسری طرف ہمارے وزیراعظم شہباز شریف ابھی حال ہی میں ترکیہ جا کر ٹرکی ٹرکی کرتے رہے اور انہیں کسی سی ایس ایس کیے ہوئے فارن اوفس کے افسر نے نہیں بتایا کہ ترکیہ کے لوگ اب اس لفظ کا برا مانتے ہیں۔

ترکیہ کے لوگوں کو ہمارے ہاں ترک کہا جاتا ہے جو ٹھیک نہیں ہے۔ ترک ایک نسل کا نام ہے جو پوری دنیا میں موجود ہے۔ ترکمانستان، ازبکستان، آزربئیجان، قازقستان، کرغیزستان اور چینی مقبوضہ مشرقی ترکستان (سنکیانگ) بھی ترکیہ کی طرح ترک اکثریتی ممالک ہیں۔ دوسری طرف ترکیہ کے بہت سے شہری اور باشندے ترک نہیں ہیں بلکہ ایک بڑی تعداد کرد یا دوسری نسلوں / قومیتوں سے ہے۔

ترکیہ کے رہنے والے کو انگریزی میں Turkish اور ترکی السنل شخص کو turkic یا turk کہا جاتا ہے۔ اردو میں ترکیہ کے رہنے والے کو ترکیوی کہنا چاہئیے۔

کچھ عرصہ قبل سابق وزیراعظم عمران خان نے جب کہا کہ ترکوں نے برصغیر پر سات صدیوں تک حکومت کی تو بہت ہنگامہ ہوا۔ وہ اسی کنفیوژن اور کم علمی کی وجہ سے تھا جو turkic اور Turkish کے درمیان ہے۔ سلطنت دلّی کے کئی حکمران خاندان اور خاندان مغلیہ ترکی النسل یعنی turkic تھے اور سابق وزیراعظم کا اشارہ اسی طرف تھا لیکن اسے turkish یعنی ترکیہ کا رہنے والا سمجھا گیا اور سابق وزیراعظم پر تاریخ سے لاعلمی کا اعتراض کرتے بڑے بڑے پڑھے لکھے اور دانشور لوگ بھی نظر آئے۔ وجہ وہی جو پوسٹ کے شروع میں بتائی گئی ہے۔

احمد الیاس