کیا امام حسین کا قیام بغاوت تھی؟

باغی کون؟

—————–

ہمارے جو نام نہاد دانش ور سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو “باغی” کہتے ہیں وہ دراصل معاصر بین الاقوامی قانونی نظام کے اس مفروضے کو مسلمہ حقیقت مانے ہوئے ہیں کہ “ریاست” (یا حکومت) کے خلاف جدوجہد کرنے والا ہر شخص باغی ہے، حالانکہ اسلامی قانون کی رو سے باغی وہ ہوتا ہے جو زیادتی کرے، خواہ وہ حکمران ہو یا اس کے خلاف اٹھنے والا۔ اسی مفہوم میں سورۃ الحجرات میں فان بغت احداھما علی الاخری کے الفاظ آئے ہیں۔

فقہائے کرام جب اہل عدل اور اہل بغی کی تراکیب استعمال کرتے ہیں تو اہل عدل سے مراد جائز حکمران کے ساتھی اور اہل بغی سے مراد جائز حکمران کے خلاف اٹھنے والے ہوتے ہیں۔ اس سے یہ مراد ہر گز نہیں ہے کہ ہمیشہ ہر حکومت کے ساتھی اہل عدل اور ہر حکمران کے خلاف اٹھنے والے اہل بغی ہوتے ہیں۔

یاد رکھیے کہ بغی کے احکام کے لیے فقہائے کرام کا ماخذ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کے اقوال و افعال تھے ۔ امام سرخسی نے کئی جگہ تصریح کی ہے:

و الامام فیہ علی رضی اللہ عنہ۔

و ھو المتبع فی الباب۔

اور امام ابوحنیفہ کا یہ موقف معلوم اور معروف ہے کہ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ نے جس جنگ میں بھی شرکت کی اس میں وہ حق پر تھے۔ اس لیے یہ بات تو مسلم ہے کہ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کے ساتھی اہل عدل تھے۔ اس سے یہ مراد ہر گز نہیں کہ دیگر حکمرانوں کے ساتھی بھی لامحالہ اہل عدل شمار ہوں گے۔

پس باغی اور rebel ایک حقیقت کے دو نام نہیں ہیں۔ اصل معیار یہ ہے کہ حق پر کون ہے اور ظلم کون کررہا ہے؟ کبھی حکمران ہی “باغی” ہوتا ہے، جیسا کہ یزید تھا۔

———

محمد مشتاق