پنجاب کی زبان

پنجابی زبان کیا ہے ؟

پنجاب کی زبان۔

پنجاب کیا ہے ؟

پانچ دریاؤں کی سرزمین۔

پانچ دریاؤں کی سرزمین کون سی ہے ؟

جسے پانچ دریا ۱ جہلم، ۲ چناب، ۳ راوی، ۴ بیاس و ستلج اور ۵ وسطی سندھ سیراب کرتے ہیں۔

یہ دریا کن علاقوں کو سیراب کرتے ہیں ؟

پاکستانی پنجاب، موجودہ بھارتی پنجاب (جس میں ہریانہ کی ریاست اور ہماچل پردیش کا بڑا حصہ شامل نہیں ہے)، جموں کا علاقہ، پاکستانی آزاد کشمیر اور ہزارہ کا علاقہ۔

ان علاقوں میں بولی جانے والی مقامی زبانوں کے بولنے والوں کی تعداد پندرہ کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ ان سب کی زبان پنجابی ہی کہلا سکتی ہے کیونکہ یہ سارا علاقہ پنجاب ہی ہے۔ لیکن اس سارے علاقے میں ایک زبان نہیں بولی جاتی بلکہ کئی بولیاں بولی جاتی ہیں۔ شمال میں ہندکو سے شروع کریں اور نیچے آتے جائیں، پہاڑی، پوٹھوہاری، ڈوگری، شاہ پوری، جانگلی، جھنگوی، ماجھی، دوآبی، مالوی، ملتانی، ریاستی، ڈیری، تھلوچی ۔۔۔ بولیوں کا ایک لمبا سلسلہ ہے جو آپس میں جڑی ہوئی بھی ہیں اور ایک دوسرے سے جدا جدا شناخت کی حامل بھی۔

اب یہ بلکہ سبجیکٹو چیز ہے کہ آپ ان کی کلاسیفیکشن کیسے کرتے ہیں۔ ان سب کو پنجابی کا نام دیتے ہیں، یا صرف ماجھی، مالوی اور دوآبی کو یا چند بولیوں کو سرائیکی کے نام سے الگ زبان قرار دے کر باقیوں کا پنجابی رہنے دیں، وغیرہ وغیرہ۔ ہر طریقہ اپنی جگہہ ٹھیک ہے۔ لیکن بہرحال یہ حقیقت اپنی جگہہ موجود ہے کہ یہ سب ان دریاؤں کے طاس کی بولیاں ہیں اور باہم گہرا ربط رکھتی ہیں، ایک بولی سمجھنے والے کو اس آنگن کی دیگر بولیاں سمجھنے میں مشکل پیش نہیں آتی۔

یہاں تک تو سب ٹھیک ہے، صدیوں سے یہ سلسلہ اسی طرح چل رہا ہے، کبھی سرائیکی، پنجابی، ہندکو، ڈوگری، پوٹھوہاری کے جھگڑے نہیں کھڑے ہوئے۔ جنوب کے خواجہ غلام فرید شمال والوں کے بھی اتنے ہی ہیں جتنے شمال کے میاں محمد بخش جنوب والوں کے۔ فرید گنج شکر پانچ دریاؤں کے طاس میں رہنے والی سب ذیلی قومیتوں کے سانجھے ہیں۔ ہیر، سوہنی، صاحبہ، سسی، شیریں کے عشق بھی سب کے ہیں اور دُلّا بھٹی، رائے احمد کھرل، نظام لوہار کی واریں بھی مشترک۔ مسئلہ وہاں پیدا ہوتا ہے جب پنجابی کے “نفاذ” کی بات آتی ہے۔ وہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کون سی پنجابی ؟

انگریز کی آمد سے قبل، محمود غزنوی کی فتح پنجاب سے رنجیت سنگھ اور اس کے جانشینوں کے عہد تک پنجاب کی سرکاری زبان مسلسل فارسی تھی۔ ملتان اور لاہور ولایت کے رہنے والوں کی دو زبانیں ہوتی تھیں : ایک ان کی ماں بولی جو بول چال کی زبان ہوتی اور دوسری فارسی جو لکھت پڑھت کی زبان تھی۔ چونکہ اس خطے میں مسلمانوں بالخصوص صوفیا کے گہرے اور پرانے اثر و رثوخ کی وجہ سے تعلیم کا اچھا نظام تھا لہذا اکثر آبادی (بلاتفریق مذہب) فارسی جانتی تھی، کم و بیش اسی طرح جیسے آج سب اہل پنجاب اردو جانتے ہیں۔ اس دور کے پنجابی مخطوطات (جو زیادہ تر شاعری ہے) کے عنوان، دیباچے اور ان کتابوں میں دیگر نثر عبارتیں فارسی ہی ہوتیں۔

اس بندوبست سے دو فائدے ہوئے ۔۔۔ ایک تو فارسی بہت ترقی یافتہ اور سفسٹیکیٹڈ زبان تھی جو سرکاری کاموں کے لیے مفید ہونے کے ساتھ ساتھ اس خطے کے باہر کے علاقوں سے بھی پنجاب کو جوڑ دیتی تھی، جبکہ مقامی بولیاں خوبصورت ورنیکلر اور ادبی طور پر مالا مال ہونے کے باوجود کاروباری اور سرکاری لکھت پڑھت کے لیے موزوں نہ تھیں۔ دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ فارسی کی بدولت پنجاب کی ثقافتی وحدت اور تنوع، دونوں بچ گئے۔ پنجاب کی تمام بولیاں اپنی اپنی جگہہ اپنے ورثے کے ساتھ قائم رہیں اور ان سب کے درمیان تعلق بھی قائم رہا ۔

اگر ایسا نہ ہوتا اور مقامی بولی کو سرکاری بولی بنا دیا جاتا تو ایک بولی دیگر بولیوں کو کھا جاتی، لاہور ولایت میں لاہور کی بولی اور ملتان ولایت میں ملتان کی بولی ہی رہ جاتی، لیکن ان ولایتوں میں صرف لاہور یا ملتانی بولی نہ تھی نہ ہے۔ سرائیکی کے بھی آج تک کئی لہجے ہیں اور شمال کی پنجابی کے بھی۔

قرون وسطی بلکہ انیسویں صدی تک انگریزی کے انگلستان میں کئی انتہائی مختلف لہجے تھے، لیکن آج صرف لندن کی انگریزی باقی ہے۔ حتیٰ کہ آئرش، سکاٹش اور ویلش بھی اپنی بولی انگریزی بالادستی کی وجہ سے بھول گئے۔ اسی طرح اردو / ہندی نے شمالی ہند کی کئی مقامی بولیوں کو نگل لیا۔ یہ سب ان زبانوں کو شاہی دربار کی سرپرستی حاصل ہونے سے ہوا۔ لیکن پنجاب نے فارسی کو سرکاری زبان رکھ کر اور مقامی بولیں کو عوامی بولیاں رکھ کر اپنا تنوع بھی بچایا اور تمدنی اتحاد بھی۔

جب انگریز آئے اور انہوں نے فارسی کی حوصلہ شکنی شروع کردی تو پنجاب میں اس کی جگہہ بتدریج اردو لیتی چلی گئی۔ فارسی کی جگہہ اردو آنے کا یہ پروسیس ہمارے ابا کی جنریشن تک چلا جنہوں نے ساتھ ستر کی دہائی میں تعلیم حاصل کی تھی ۔۔۔ یعنی تقریباً سو سال۔ اب پانچ دریاؤں کے طاس میں رہنے والے کی دو زبانیں ہیں : ماں بولی (ماجھی/مالوی / دوآبی / سرائیکی / پوٹھوہاری، ہندکو، پہاڑی) اور اردو۔ اس سے یہ نقصان تو ہوا کہ ہم ایک اعلیٰ تہذیب (خراسان و فارس) سے کٹ کر ایک ادنیٰ تہذیب (ہند) کے قریب ہوگئے لیکن بہرحال پنجاب کا تنوع اور تمدنی اتحاد قائم رکھنے، نیز ایک موزوں سرکاری و کاروباری زبان کی ضرورت پوری ہورہی ہے۔

گویا پہلے فارسی اور پھر اردو کو اپنی زبان بنانے والے ہمارے بزرگ بے وقوف نہیں تھے، بہت سیانے تھے۔ ان کے ان فیصلوں میں حکمت تھی۔ آج جو پنجابی قوم پرست پنجابی کے نفاذ کی بات کررہے ہیں یا اردو کو بے دخل کرنے کی بھڑکیں مار رہے ہیں، یہ اس حکمت سے خالی ہیں اور پنجاب کے تنوع کے ساتھ ساتھ تمدنی و روحانی اتحاد کے بھی دشمن ہیں (جو انتظامی یا سیاسی وحدت کا محتاج بھی نہیں ہوتا کہ صوبہ تقسیم ہونے سے ٹوٹ جائے)۔

حاصل کلام یہ کہ اردو کی جگہہ “پنجابی” کو دینے کی بات کی جائے تو فطری طور پر یہ سوال اٹھتا ہے کہ کون سی پنجابی ؟ ملتان والی ؟ لاہور والی ؟ چکوال والی ؟ مری والی ؟ جھنگ والی ؟ پنڈی گھیب والی ؟ میانوالی والی ؟ اگر اردو کی جگہہ پنجابی کو دو جائے تو دو ہی نتیجے نکلیں گے ۔۔۔۔ یا تو پنجاب نفسیاتی و تمدنی طور پر بھی دس پندرہ ٹکرے ہوجائے گا، ہر حصے کی اپنی زبان ہوگی۔ یا پھر ایک یا دو پنجابیاں باقی سب پنجابیوں کو کھا جائیں گی۔

سچ تو یہ ہے کہ بالفرض اگر تمام پندرہ کروڑ پنج آبیوں کو اکٹھا کرکہ ایک قومی ریاست بھی بنا لی جائے تو اس کی سرکاری زبان بھی اردو، انگریزی یا فارسی رکھنی پڑے گی۔ بصورت دیگر وہ ملک بنتے ہی ٹوٹنا شروع ہوجائے گا۔

یہ تو بہت ضروری ہے کہ پنجابی بولنے مین شرم محسوس نہ کی جائے، پنجابی ادب کو زندہ کیا جائے نیز پنجابی سینما، میڈیا اور موسیقی کو ترقی دی جائے، بچوں کو پنجابی سکھائی جائے ۔۔۔ لیکن پنجابی کے نفاذ یا اسے ذریعہ تعلیم بنانا وغیرہ فضول اور احمقانہ باتیں ہیں۔

– احمد الیاس