امام زید بن علی بن حسین

سرکارِ دو عالم صلی اللٰہ علیہ وسلم نے سیّدنا زید بن حارث رضی اللٰہ عنہ کی طرف دیکھا اور رو پڑے۔ فرمایا “خدا کی راہ کے ایک شہید، میری امت کے ایک مصلوب، میری آل میں سے مظلوم ایک شخص کا نام بھی وہی ہے جو تمہارا ہے”۔ پھر آنحضرت نے زید کو اپنی طرف بلایا اور کہا کہ “میرے قریب آجاؤ، تمہارا نام مجھے محبوب تر ہوگیا ہے کہ یہ میرے ایک لاڈلے بچے کا نام ہے”۔

امام محمد باقر روایت فرماتے ہیں : پیغمبرِ اکرم نے اپنا مبارک ہاتھ حسین ابن علی کی کمر پر رکھا اور فرمایا کہ “یا حسین، زیادہ دیر نہیں گزرے گی کہ تمہاری نسل میں ایک شخص پیدا ہوگا کہ قیامت کے دن وہ اور اس کے ساتھی لوگوں کی گردنوں پر قدم رکھتے ہوئے جنت میں داخل ہوں گے”۔

امام زید بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب بن عبدالمطلب بن ہاشم اپنے دادا حسین کی طرح بنو امیہ کے جبر کے خلاف کھڑے ہوئے اور اپنے دادا اور پردادا کی طرح امام زید بھی اہلِ کوفہ کی دغا بازی اور بے وفائی کا شکار بنے۔ جب کوفیوں نے امام زید سے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللٰہ عنہ اور سیدنا عمر فاروق رضی اللٰہ عنہ کی بابت پوچھا تو آپ نے فرمایا :

“میں نے اپنے خاندان میں کسی کو ان سے بیزار نہیں دیکھا اور میرے پاس ان دونوں حضرات کے حوالے سے کہنے کے لیے کلمہِ خیر کے سوا کچھ نہیں”

کوفی جو شیخین کریمین کے مخالف تھے، اس جواب کے بعد امام زید کا ساتھ چھوڑ گئے اور اموی گورنر نے امام کو شہید کردیا۔

امویوں نے امام کو صلیب پر چڑھا کر نذرِ آتش کردیا گیا۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ امام ابو حنیفہ رح نے امام زید کے خروج کے حق میں نہ صرف فتاویٰ جاری کیے بلکہ ان کی مالی امداد بھی کی جس کے سبب امام ابو حنیفہ کو اموی عرصے تک تنگ کرتے رہے۔ امام زید خود بھی وقت کے بڑے عالم تھے۔ مسند زید کے نام سے ان کی اکٹھی کی ہوئی احادیث کا مجموعہ اور ان کے تفسیری نوٹس موجود ہیں۔ ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ آپ کی والدہ یعنی امام زین العابدین کی اہلیہ کا تعلق سندھ سے تھا۔

‎اللهم صل على محمد وآل محمد والعن اعدائهم

احمد الیاس