مودودیؒ و غامدی

سیدّ مودودیؒ کے علمی و فکری کام میں ایسی جامعیت اور توازن تھا کہ ان سے الگ ہو کر جس نے بھی اس میدان میں ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنائی، وہ کسی نہ کسی سطح پر سطحیت، افراط و تفریط یا گمراہی کا شکار ہوا۔

ڈاکٹر اسرار کے خلافت و جمہوریت سے متعلق خیالات بہت بچکانہ ہیں۔ قوم کو علاماتِ قیامت والے ٹرک کی بتی کے پیچھے بھی انہوں نے لگایا۔ شاہد مسعود، زید حامد اور اوریا مقبول وغیرہ تو ان ہی کی کھولی ہوئی دکان پر بیٹھے ہیں۔

امین احسن اصلاحی کے افکار بھی نا صرف اس قدر خشک ہیں کہ کبھی زندہ سماجی قوت نہیں بن سکتے بلکہ سطحیت کا مرقع ہیں۔ تصوف کے حوالے سے ان کا انتہاء پسندانہ رویہ اور اس کی جگہہ اخلاقیات کا ایک ہوائی نظام لانے کی کوشش اس کی خاص مثالیں ہیں۔

اصلاحی صاحب کے شاگرد جاوید غامدی کا تو خیر آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ تمدنی ارتداد سے امت کے اجماعی عقیدوں سے انکار تک، تصوف کو متوازی دین کہنے سے سیکولر قومی ریاست کے تصور کو قبول کرنے تک، انیسویں صدی کے مستشرقین کے بیانیے رٹنے سے ملک فضل الرحمان کے بعض تصورات کا بیڑا غرق کرکے چھاپنے تک ۔۔۔ لمبی داستان ہے۔

اور ایک چیز ان تینوں میں مشترک تھی جو مودودیؒ صاحب کی عین ضد ہے : پکی سچی نظریاتی ناصبیت اور ملوکیت پرستی۔

اللہ کا شکر ہے ان تینوں کو بہت زیادہ سننے پڑھنے کے باوجود ان سے متاثر نہیں ہوا کیونکہ ان سے پہلے براہ راست مولانا مودودیؒ کو پڑھا اور بہت پڑھا۔ اللہ ان تینوں سے نوجوانوں کو محفوظ رکھے۔

مجھ سے جب بھی کوئی نوجوان دوست کتابوں کے سلسلے میں تجویز مانگتا ہے تو میں اسے مولانا مودودیؒ کی کتب بھی ضرور تجویز کرتا ہوں، خاص طور پر قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں، سنت کی آئینی حیثئیت اور خلافت و ملوکیت۔

احمد الیاس