ترک صوفی شاعر یونس امرہ کون ہیں


یونس امرہ (1320-1238) ترک زبان کے مشہور صوفی شاعر تھے جو 13ویں صدی عیسوی میں اناطولیہ میں، جس کا بیشتر حصہ دور حاضر کا ترکی کہلاتا ہے، رہائش پذیر رہے۔

یونس امرہ کی زندگی کے بارے میں بہت سی مصدقہ معلومات تو تاریخ کے اوراق میں گم ہو کر رہ گئیں لیکن ان کی زندگی کے بہت سے قصے آج بھی ترک لوک داستانوں کا اہم حصہ ہیں جنھیں بہت شوق سے پڑھا،سنا اور گایا جاتا ہے۔

سنہ 1071 میں جب اناطولیہ میں سلجوق سلطنت قائم ہوئی تو قونیا کو اس کا دارالحکومت چنا گیا اور اس دور میں اسلامی تہذیب و تقافت کو فروغ دینے پر خاص توجہ دی گئی۔

یہی وہ دور ہے جب اس علاقے میں مولانا جلال الدین رومی، ابن العربی اور یونس امرہ جیسی شخصیات سامنے آئیں۔ (اس دور میں اسلامی اعتدال اور تصوف کی نمائندگی ان اولیا کرام نے کی جبکہ انکے مقابل کٹر اسلامی خالصیت پسندی کی نمائندگی ابن تیمیہ اور ابن قیم جیسے علما نے کی ۔ آج کے دور میں القاعدہ، داعش اور دیگر تکفیری خارجی انتہا پسند بالعموم خالصیت سے متاثر ہیں، مزارات پر حملے کرتے ہیں اور تصوف کو اسلام کے متوازی یا انحرافی عقیدہ قرار دیتے ہیں۔)

صباح الدین یوبگلو اپنی کتاب ‘یونس امرہ ‘ میں لکھتے ہیں کہ یونس نے جب سنہ 1240 میں اناطولیہ میں آنکھ کھولی تو نہ صرف یہ خطہ نہ صرف تجارتی اور فنون لطیفہ کی سرگرمیوں کا محور تھا بلکہ سیاسی کشمکش کا بھی شکار تھا۔
1230 میں اناطولیہ پر منگول حملے نے ترک بادشاہ الپ ارسلان کی سلجوقی سلطنت کو کمزور کیا اور سلجوقی سلطنت کا اثرورسوخ چند شہروں تک ہی محدود ہو کر رہ گیا۔

جہاں اس خطے میں سلجوقی اثرورسوخ کم ہوتا جا رہا تھا وہیں سلطنت عثمانیہ کے بانی ارطغرل کے بیٹے غازی عثمان بازنطینی فوجوں کو شکست دے کر علاقے میں اپنی طاقت بڑھا رہے تھے۔

تاہم سلجوق دور میں صوفی علما کو معاشرے میں خاص مقام حاصل تھا اور یہ صوفی نہ صرف مذہبی معاملات میں بادشاہ اور قوم کی رہنمائی کرتے تھے بلکہ ان کے پاس بہت سے اہم سیاسی عہدے بھی تھے۔ یونس امرہ بھی سلجوق دور میں سرکاری عہدے پر فائز رہے۔

یونس امرہ کا تصوف کی طرف سفر

تصوف کی طرف ان کے سفر کے بارے میں یونیورسٹی آف پنسلوانیا کے ڈاکٹر ترگت دردران اپنی تحقیق ‘یونس امرہ اینڈ ہیومن ازم’ میں رقم طراز ہیں کہ ایک سال جب قحط سالی کے وجہ سے فصل کم ہوئی تو یونس نے جنگلی پھل اکٹھے کیے اور اس وقت کے مشہور صوفی عالم حاجی بکتاش ولی کے درسگاہ پر جا کر ان سے پھلوں کے بدلے کاشت کاری کے لیے بیجوں کا مطالبہ کیا۔

کہاوت ہے کہ حاجی بکتاش ولی نے انھیں اس کے بدلے تین بار دعا دینے کی پیشکش کی لیکن ہونس امرہ نے بیج لینے پر ہی مُصر رہے۔ اس پر حاجی بکتاش نے انھیں بیج دے دیے۔

یونس امرہ یہ بیج لے اپنے گاؤں کی طرف روانہ ہو گئے لیکن راستے میں انھیں خیال آیا کہ انھوں نے دعا کے بدلے بیج لے کر غلطی کر دی۔ اپنی اس غلطی کا مداوا کرنے کے لیے وہ حاجی بکتاش ولی کے پاس لوٹے اور ان سے گزارش کی وہ انھیں اپنی سرپرستی میں لے لیں لیکن حاجی بکتاش ولی نے انھیں ایک عالم طپتوق امرہ سے رجوع کرنے کو کہا۔

پھر یونس نے 40 سال طپتوق امرہ کی شاگردی میں گزار دیے۔ طپتوق امرہ کا تعلق اس صوفی سلسلے سے تھا جو اپنی عبادات میں سر اور ساز کا استعمال کرتے ہیں اور یونس امرہ کو اپنے استاد کا ساز بہت پسند تھا۔

‘میرا دوست یونس آ گیا’

ڈاکٹر ترگت دردران کے مطابق ہونس امرہ کے بارے میں ایک اور قصہ جو مشہور ہے اس کے مطابق ایک مرتبہ وہ طپتوق امرہ کی خانقاہ چھوڑ کر چلے گئے اور کچھ ہی عرصے بعد انھیں اپنی غلطی کا احساس ہوا تو انھوں نے واپس جا کر اپنے استاد سے معافی مانگ کر ان کی شاگردی میں لوٹنے کے بارے میں سوچا۔

جب وہ اپنے استاد کی رہائش گاہ پر پہنچے تو ان کی ملاقات طپتوق کی اہلیہ سے ہوئی۔ ہونس امرہ نے ان سے پوچھا کہ کیا ان استاد انھیں معاف کر دیں گے یا نہیں جس پر طپتوق کی اہلیہ نے انھیں مشورہ دیا کے وہ ان کے دروازے کے آگے بیٹھ جائیں۔

استاد کی اہلیہ نے کہا کہ جب طپتوق نمازِ فجر کے لیے نکلیں گے تو چونکہ ان کی بینائی کمزور ہے، ان کے قدم لامحالہ یونس سے ٹکرائیں گے اور وہ پوچھیں گے کہ کون ہے تو وہ (اہلیہ) انھیں بتائیں گی کہ ‘یونس ہے’۔ اگر طپتوق نے جواب میں پوچھا کون یونس تو وہ (یونس امرہ) خاموشی سے چلے جائیں لیکن اگر انھوں نے یونس کو پہچان لیا تو سمجھ لیں کہ ان کے استاد ان سے نالاں نہیں۔

روایت ہے کہ صبح جب یونس امرہ کے استاد کے قدم ان سے ٹکرائے اور انھوں نے پوچھا کون ہے تو ان کی اہلیہ نے انھیں بتایا کہ ہونس ہے تو طپتوق نے خوشی سے کہا ‘میرا دوست یونس آ گیا۔’

یونس امرہ : عام الفاظ میں خاص پیغام دینے والے صوفی شاعر

یونس امرہ کے دور کے ادب میں فارسی اور عربی الفاظ کا استعمال زیادہ کیا جاتا ہے جس کی وجہ اناطولیہ میں رہنے والے عام ترک اس سمجھنے سے قاصر تھے۔

یونس امرہ وہ پہلے ترک صوفی شاعر تھے جنھوں نے اپنی شاعری کے لیے آسان ترک زبان کا انتخاب کیا جس کی وجہ سے ان پیغام عوام کے دلوں میں اترا اور ان کی مقبولیت اور پیروکاروں میں تیزی سے آضافہ ہوا۔
ترک تاریخ دان مصطفیٰ عزت باقی المعروف عبدالباقی گلپنارلی اپنی کتاب ‘یونس امرہ اور تصوف’ میں لکھتے ہیں کہ ہونس امرہ نے ‘وحدانیت’ خدا اور اس کے بندوں سے محبت کو اپنی تعلیمات کا محور بنایا۔

ان کے مطابق یونس نے نے اپنی شاعری کے ذریعے اسلام کے تین درجے بیان کیے۔ پہلا ’ایمان‘ یعینی ایک خدا پر یقین، دوسرا ’اسلام‘ یعنی اسلامی اصولوں کی پابندی اور تیسرا ’احسان‘ یعنی خدا کے بندوں سے حسن سلوک اور ان کے مطابق صوفی وہ ہے جو اسلام کے پہلے دو درجے عبور کر لے اور تیسرے کی تلاش میں رہے۔

یونس امرہ کی شاعری کا سب سے پرانا ریکارڈ 15ویں صدی کے مسودوں کی صورت میں ملا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ انھوں نے اس سے پہلے کوئی شاعری ترتیب نہیں دی بلکہ یونس امرہ کی بہت سی شاعری اور ان کی زندگی کا واقعات سینہ بہ سینہ نسل در نسل منتقل ہوئے مگر وقت کے ساتھ ضائع بھی ہو گئے۔

یونس امرہ اور دورحاضر

یونس امرہ کو خالص ترک زبان کے ادب کا بانی مانا جاتا ہے۔وہ پہلے شاعر تھے جنھوں نے اپنی شاعری میں صرف ترک زبان کا استعمال کیا۔اسی لیے 1923 میں جب مصطفیٰ کمال اتاترک نے جب جدید سکیولر ترکی کی بنیاد رکھی تو انھوں نے قوم پرست نظریے کو بڑھاوا دینے کے لیے یونس امرہ جیسے متعدد ترک ادیبوں، دانشوروں اور شاعروں کے کام کو فروغ دیا۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تعلیم ، سائنس اور ثقافت یونیسکو نے یونس امرہ کے انسان دوست پیغام کو سراہتے ہوئے ان کی 750ویں سالگرہ کے موقع 1991 کو یونس امرہ کا سال قرار دیا تھا۔

سنہ 2015 میں ترک ٹی وی چینل ٹی آر ٹی پر یونس امرہ کی زندگی پر ڈرامہ سیریل ‘یونس امرہ : محبت کا سفر’ نشر کی گئی تھی جو اب نیٹ فلکس پر بھی موجود ہے۔

بی بی سی سے ماخوذ