والد کی طرح رسول کریم کی پرورش اور دفاع کرنے والی شخصیت حضرت ابو طالب ، تاریخ کی روشنی میں

حضرت ابو طالب رضی الله عنہ کے والد کا نام حضرت عبدالمطلب رضی الله عنہ ہے ۔ آپ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے والد حضرت عبداللہ رضی الله عنہ کے واحد سگے بھائی تھے چونکہ دیگر کی والدہ مختلف تھیں۔حضرت ابو طالب کا شمار حضرت خدیجہ ، حضرت علی ، حضرت فاطمہ بنت اسد اور حضرت ابو بکر رضی الله عنہم کے ہمراہ اولین مسلمانوں میں ہوتا ہے، آپ نے تاحیات اشاعت اسلام میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ساتھ دیا اور ان کی بت پرستی کوئی ایک روایت بھی نہیں ملتی جبکہ سیرت ابن ہشام میں ان کے کلمہ پڑھنے کا ذکر ہے، خدیجہ بنت خویلدرضی الله عنہا کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نکاح انہوں نے ہی پڑھایا جس کا آغاز کلمہ بسم اللہ سے ہوا، حضرت عبد المطلب رضی الله عنہ کی وفات (578ء) کے بعد حضرت ابو طالب نے ہی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پرورش کی۔ آپ کی تقلید میں بنو ہاشم کی بڑی تعداد نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پشت پناہ بنی رہی اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خاطر بڑی سختیاں جھیلیں – ایمان ابو طالب پر علامہ صائم چشتی اور طاہر القادری اور دیگر اہلسنت علما نے بڑے سکہ بند حوالوں کے ساتھ کتابیں تصنیف کی ہیں اور خوارج و نواصب دشمنان اہلبیت کے بودے اعتراضات اور من گھڑت روایات کا جواب دیا ہے

تاریخ کے مطابق حضرت عبد المطلب کے دس بیٹے تھے جن میں حضرت عبد اللہ آخری نمبر پر تھے۔ ان کا انتقال حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ولادت سے پہلے ہی ہو چکا تھا۔ جب ہاشمی خاندان میں آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی کفالت کا معاملہ اٹھا تو حضرت عبد المطلب نے اپنے تمام بیٹوں کو اپنے سامنے بٹھایا اور ان سب کے دلوں پر روحانی نظر دوڑائی اورحضرت ابو طالب کو اپنے پاس بلا کر فرمایا: اے میرے بیٹے میں نے تیرے دل میں اپنے پوتے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت کو دیکھا ہے اس لیے اس کی کفالت تمہارے ذمے ہے اس دن سے ابوطالب نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنی کفالت میں لے لیا اور آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پرورش شروع کردی۔ آپ کسی بھی وقت اپنے بھتیجے کو اپنے سے الگ نہیں کرتے تھے۔ آپ کی زوجہ فاطمہ بنت اسد بھی آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے والہانہ محبت کرتی تھیں جس کا ثبوت یہ ہے کہ جب ان انتقال ہوا تو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان کو دفن کرنے سے پہلے ان کی قبر مبارک میں لیٹے اور اپنی نورانی چادر ان کے کفن کے ساتھ لپٹا کر ان کو دفن کیا گیا۔ جب آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اس دنیا میں ظہور ہوا تو آقا درود کا نام محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)حضرت عبد المطلب اور حضرت ابو طالب رضی الله عنہم نے تجویز فرمایا جبکہ آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرمان ہے کہ میرا نام محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) عرش معلیٰ پر نور کے ستر ہزار حجابات میں چھپا کر رکھا ہوا تھا۔

دین اسلام کی خدمت اور رسول اکرم کے دفاع کے لیے حضرت ابو طالب نے اپنے تین جلیل القدر بیٹے پیش کیے، علی ابن ابی طالب کرم الله وجہ، حضرت جعفر طیار رضی الله عنہ اور حضرت عقیل ابن ابی طالب رضی الله عنہ 

احوال زندگی 

حضور نبی کریم ۖ نے ابھی آٹھویں سال میں ہی قدم رکھا تھا کہ حضرت عبد المطلب رضی الله عنہ رحلت فرما گئے اور وقت آخر اپنے فرزندوںمیں سے حضرت محمد ۖ کو حضرت ابو طالب رضی الله عنہ کی کفالت میں دے دیا چنانچہ اس سلسلہ میں علامہ سید احمدبن زینی دحلان مکہ لکھتے ہیں :

”فان ابا طالب رباہ صغیراً وآواہ کبیراً ونصرہ وقرہ وذب عنہ ومدحہ بقصائد غرررضی باتباعہ ” ١

”بے شک حضرت ابو طالب ـ نے نبی کریم ۖ کی بچین میں پرورش کی اور آپ کو بڑی عمر میں ٹھکانا دیا اور آپ کو عزت ووقار دیا،آپ سے دشمنوں کی تکالیف کو دور کیا اور بہت سے شاندار قصیدوں میں آپ کی تعریف فرمائی اور آپ کے متبعین کی بھی عزت کی اور سے راضی رہے ”

اسی طرح حافظ ابن حجر عسقلانی نے”الاصابہ فی تمییز الصحابہ”میں حضرت ابو طالب کے تذکرہ میں واشگاف الفاظ میں لکھا

”ولما مات عبد المطالب اوصی محمد ۖ فکفلہ واحسن تربیتہ وسافر بہ صحبتہ الی الشام وھو شاب ولما بعث قام فی نصرتہ وذب عنہ من عاداہ مدحہ عدتہ مداح منھما قولہ استسقی اھل مکہ فتسقوا وابیض یستقی الغمام بوجھہ ثمال الیتامیٰ عصمتہ للارامل ومنھا قولہ من قصیدة وشق لہ من اسمہ لیجعلہ فذو العرش محمود ھذا محمد ”

”جب حضرت عبد المطلبـ کا وقت انتقال آیا تو انہوں نے حضرت ابوطالبـ کو محمدۖ کے لیے وصیت فرمائی، حضرت ابو طالبـ نے آپ کی کفالت فرمائی اور بہترین تربیت کی اور شام کے سفر کوتشریف لے گئے تو آپ کو اپنے ساتھ رکھا ،یہاں تک کہ آپ جوان ہو گئے اورپھر جب آپ نے اعلان نبوت فرمایا تو ابو طالب ـ آپ کی نصرت و حمایت پر کمر بستہ ہو گئے اور آپ کی مدح وتعریف میںکئی قصائد انشاء فرمائے ان کا ایک شعر یہ ہے، 

نبی کریم ۖ کے صدقہ سے اہل مکہ کو بارش نصیب ہو ئی ،اور وہ گورے رنگ والے جن کے چہرہ انور کے صدقہ سے بارش طلب کی جاتی ہے جو یتیموں کی جا ئے پناہ اور بیوائوں کے نگہبان ہیں ،

اور آپ کے قصیدے کا ایک شعر یہ ہے

اور اللہ تعالیٰ نے آپ کا اسم گرامی اپنے اسم گرامی سے مشتق فرمایا پس وہ عرش پر محمود ہے اور یہ محمد ہیں (صلی اللہ علیہ والہ وسلم)٢

یہی بات علامہ سید الناس متوفی٧٣٤ ھ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ”عیون الا ثر فی فنون المغازی والشمائل والسیر”،جلد اول ،ص٩٧مطبوعہ بیروت ”میں لکھی ہے کہ جب آپ صلی الله علیه وسلم کی والدہ محترمہ کا وصال ہوا تو آپ کے داد ا جان حضرت عبد المطلب ـ آپ کے کفیل ہو ئے ،جب آپ آٹھ برس دو ماہ دس دن کے ہو ئے تو آپ کے دادا جان انتقال فرماگئے پھر آپ کے چچا جان حضرت ابو طالب نے آپ کی کفالت فرمائی ۔

مشہور مفسر علامہ شیخ محمد شربینی الخطیب اپنی تفسیر میں سورہ والضحیٰ کی آیت مبارکہ”اَلَمْ یجوک یتیماً فاٰویٰ ” کے ذیل میں رقم طراز ہیں :

”ای بان ضمک الی عمک ابی طالب فاحسن تربیتک”

”یعنی نبی کریم ۖ کو حضرت ابو طالب کی آغوش میں دے دیا تو انہو ں نے آپ کی بہت اچھے طریقے سے تربیت فرمائی ”٣

علامہ فخر الدین الرازی مذکور ہ بالا آیت مجیدہ ،کی تفسیر میں تحریر کر تے ہیں :

”وکان عبد المطلب یوصی اباطالب بہ لان عبداللہ وابا طالب کان من ام واحدہ فکان ابو طالب ھو الذی یکفل رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم ”

”حضرت عبدالمطلب نے جناب ابوطالب کو رسول ۖ کی کفالت کی وصیت فرمائی تھی کیونکہ حضرت ابو طالب ـ اور حضرت عبد اللہ ـ (والد پیغمبر ۖ)دونوں ایک ہی ماں کے بطن اطہر سے پیدا ہو ئے تھے اور حضرت ابو طالبـ وہ ہیں جنہوں نے پیغمبر اسلام ۖ کی کفالت فرمائی تھی ” ٤

حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنھمااس آیت کی تشریح میں فرماتے ہیں:

”یتیماً بلا أ ب ولاام فاوی فاواک الی عمک ابی طالب”
”بغیر ماں باپ کے فاویٰ ،آپ کو ان کے عم محترم ابو طالب کی آغوش عطا فرما دی ”٥

حافظ ابن کثیر الد مشقی لکھتے ہیں :

”ولہ العمر ثمان سنین فکفلہ عمہ ابو طالب ثم لم یزل یحوطہ وینصرہ والا حوی ویرفع من قدرہ ویوقرہ ویکف عنہ اذی قومہ ”

”آپۖ کی عمر مبارک اس وقت آٹھ برس تھی جب آپۖ کے عم محترم ابو طالب نے ان کی کفالت فرمائی حضرت ابو طالب ہمیشہ نبی مکرم ۖ کا احاطہ کیے رہے اور آپ کی نصرت و حمایت کر تے رہے اور آپ کو ہر اس چیز سے بچاتے رہے جو آپ کی عزت و توقیر پر حرف لا نے والی ہو اور ہر حال میں ان (کفار مکہ )کی اذیتوں سے آپ کو بچاتے رہے ۔٦

عظیم مفسر علامہ نظام الدین حسن نیشاپوری اپنی تفسیر غرائب القرآن بھامش تفسیر ابن جریر پ٣٠،ص١٠٩مطبعة بولاق مصر ١٣٢٩ھ میں مندرجہ بالا آیت مبارکہ کے ذیل میں یوں صراحت کرتے ہیں ۔

”فکفل ابو طالب رسول اللہ ۖ الی ان اتبعتہ اللّٰہ للرسالة فقام بنصرتہ مدت مدیدة وعطفہ اللہ علیہ فاحسن تربیتہ”

”حضرت ابو طالبـ نے رسول ۖکی کفالت فرمائی حتی کہ آپ کی بعثت کا وقت قریب آگیا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو منصب رسالت پر متمکن فرمادیا، اس طویل عرصے میں حضرت ابو طالب ـ آپ کی نصرت کرتے رہے اور ان کی زیر کفالت اللہ تعالیٰ اپنے (رسول ۖ )کی بہترین تربیت فرما تا رہا ”

علامہ جمال الدین یوسف ابن المبرد متوفیٰ ٩٠٩ ھ،نے اپنی بیش بہا تصنیف ”الشجرة النبوےة فی نسب خیر البریہ ، ص١١٧،١٢٢،١٨٣ ،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ١٤٢٦ ھ میںبالتصریح تحریر کیا ہے کہ حضرت عبدالمطلب نے وصیت کی تھی کہ محمد ۖ کی کفالت حضرت ابو طالب کریںاور انہوں نے ہی آپۖ کی کفالت وپرورش کی ہے۔

بعینہا یہی صراحت بہت سی مستند کتب میں دیکھی جا سکتی ہے چند ایک کے نام یہ ہیں،

(١)شرف المصطفیٰ للحافظ عبد الملک بن ابی عثمان الخر کوشی النیشاپوری المتوفی٤٠٦ ھ جلد اول ٣٨٩ھ تاص٣٩١
طبع دارالبشائر الاسلامیہ مکہ المکرمہ الطبعة الاولیٰ١٤٢٤ ھ
(٢)(لباب التاویل للخازن،ج٧،ص٢١٦مطبعة التقدم مصر،٣٣٢اھ)
(٣)(تفسیر معالم التنزیل للبغوی،ج٤،ص٢٣٩،مطبع فتح الکریم بمبیٔ،١٣٠٩ھ)
(٤)تفسیر صاوی علیٰ الجلالین للشیخ احمد الصاوی المالکی،ج٤،ص٢٧٨ طبع داراحیاء الکتب العربیہ مصر
(٥)تفسیر فتوحات الا لھیہ بتوضیح تفسیر الجلالین المعروف بہ جمل ،ج٤،ص٦٤٤،طبع اکمل المطابع دہلی،١٢٨٥ھ
(٦)تفسیر جلالین مع صاوی ،ج٤،ص٢٧٨

نیز شاہ عبد العزیز دہلوی نے تفسیر عزیزی پارہ نمبر ٣٠،ص٢١٩،٢٢٠ مطبع محمدی لاہور ، ١٣٠٠ھ میں بھی بالتصریح ذکر کیا ہے بلا شبہ حضرت ابو طالب ـ نے اپنے والد بزرگوار کی وصیت کے مطابق سرور کا ئنات ۖکو اپنی آغوش تربیت میں لیا اور نہایت حسن وخوبی سے وہ تمام فرائض جو ایک مربی کے لیے ضروری ہیں انجام دئیے جس کا اعتراف ہر عہد کے مورخ نے کیا ہے چنانچہ مشہور مورخ محمد بن سعد بصری متوفی٢٣٠ ھ نے واشگاف الفاظ میںتحریر کیا ہے ۔

”کان یحبہ حباً شدیداً لا یحبہ ولدہ وکان لا ینام الا الی جنبہ ویخرج فیخرج معہ و صب بہ ابو طالب صباےة لم یصبّ مثلھا بشی ء قط وکان یخصہ بالطعام ”

”حضرت ابو طالب حضور نبی کریم ۖسے بے پناہ محبت کرتے اور اپنی اولاد سے زیادہ آپۖ کو چاہتے تھے آپ ہی کے پہلو مبارک میں سوتے ،جب حضرت ابو طالب ـ کہیں باہر جا تے تونبی کریم ۖ کو اپنے ساتھ لے جا تے اور دنیا جہان کی ہر چیز سے زیادہ آپ ۖ پر فریضة و گرویدہ تھے ”٧

حضرت ابو طالب آپ ۖ سے اس قدر محبت کر تے تھے کہ آپ کو دیکھتے ہی ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جا تے کیونکہ انہیں مسلسل یہ خطرہ رہتا تھا کہ کہیں کو ئی دشمن رسول اللہ ۖکو رات کے وقت سوتے ہو ئے قتل نہ کر دے۔ لہذا حضرت ابو طالب ـ کا یہی وطیرہ رہا کہ رات کا کچھ حصہ گز ر جانے کے بعد وہ نبی کریم ۖ کو ان کے بستر سے اٹھا کرکہیں اور سلا دیتے تھے اور اس جگہ اپنے بیٹے حضرت علی کو سلا دیا کر تے تھے ایک روز ایسے موقع پر حضرت علی ـ نے کہا بابا جان ! کیا میں یہاں قتل کر دیا جائوں گا ۔حضرت ابو طالب ـ اپنے بیٹے کے اس سوال سے نہایت متاثر ہو ئے او ر فرمایا بیٹا علی ـ ہم نے تمہیں اس شدید ابتلا کے زمانے میں رسول اللہ ۖ کا فدیہ بنا دیا ہے ۔


حضرت ابوطالب رضی الله عنہ تاجرانہ حیثیت سے ایک قافلے کے ساتھ شام کی جانب روانہ ہو نے لگے تو حضور ۖ کو اپنے ساتھ ہی ہمسفر رکھا ان کی جدائی گوارا نہ کی ،دوران سفر کے معجزات ،ابر کے ٹکڑے کا سایہ فگن ہو نا ،درخت کی ڈالیوں کاآپ پر جھکنا تاریخ اور سیرت کی کتابوں میں عام ملتا ہے نصرانی راہب کا لات وعزی کی قسم دے کر حضور ۖ سے یہ کہنا کہ جو بات میں پوچھوں بتائے جائیں اور آپ کا یہ جواب دینا کہ ”لا تسالنی بالات والعزی شۓًا فو اللہ ما ابغضت شۓًا قط بغضھما ” ” لات وعزی کی قسم دے کر مجھ سے کو ئی بات نہ پو چھ ،خدا کی قسم مجھے ان دونوں سے جتنا بغض ہے اور کسی چیز سے کبھی نہیں رہا ”

آپ ۖ کا یہ جواب سن کر وہ ششدر ہو کر رہ گیا پھر اس نے آپ کی پشت مبارک دیکھی دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت کا نشان اس مقا م پرموجود تھا، جہاں نصرانی راہب کی کتاب میں اُس کا تذکرہ مرقوم تھا ،نصرانی نے حضرت ابو طالب ـ سے دریافت کیا ،اس لڑکے کا آپ سے کارشتہ ہے ؟ انہوں نے فرمایا میرا بیٹا ہے راہب نے کہا یہ آپ کا بیٹا نہیں ہو سکتا اس لڑکے کا باپ زندہ نہ ہو نا چاہیے ،حضرت ابو طالبـ رضی الله عنہ نے فرمایا کہ یہ میرے بھائی کا بیٹا ہے نصرانی راہب نے کہا پھر اس کا باپ کہاں ہے ۔آپ نے جواب دیا کہ اُن کا انتقال ہو چکا ہے تب راہب نے کہا آپ نے سچ کہا اپنے اس بھتیجے کو لے کر اپنے شہر کو واپس جائو اور یہودسے اس کی حفاظت کرو ،اگر انہوں نے دیکھ لیا اور وہ سب کچھ جان لیا جو میں نے سمجھ لیا ہے تو وہ اسے ضرور نقصان پہنچائیں گے ۔
حضرت ابو طالب رضی الله عنہ تجارت سے فارغ ہو تے ہی جلد مکہ چلے آئے ۔حضور ۖ اب عالم شباب کے میدان میں قدم رکھ رہے تھے ۔زندگی کا یہ وہ دور ہو تا ہے جس سے شخصیت کے متعلق اندازہ کیا جا تا ہے ۔نبی مکرم ۖ کے معاملات پر کسی فرد کو بھی انگشت نمائی کا موقعہ نہ ملا بلکہ ہر ایک نے صادق اور امین کہہ کر پکارا ۔

حضرت خدیجہ رضی الله عنہا حسب ونسب میں اعلیٰ ترین قریش تھیں ،مال ودولت کے لحاظ سے بھی ان کا کوئی ہمسر نہ تھا متمول اور خوشحال قبائل کے افراد آپ سے نکاح کرنے کے خواہش مند تھے مگر آپ نے ہر کسی کی خواہش کو ٹھکرایا اور اپنی خاص سہیلی نفیسہ کی وساطت سے حضرت سرور کائنات ۖکی خدمت میں اپنے ارادے کا اظہار کیا ، آپ نے اپنے چچا حضرت ابو طالب ـ سے اس کا ذکر فرمایا تو آپ نے اسے منظور کیا چنانچہ نکاح کی تاریخ مقرر ہو گئی اور وقت مقررہ پر حضرت ابو طالب ـ اور تمام روسا ء خاندان جن میں حضرت حمزہ بھی تھے ۔حضرت خدیجہ کے ہاں تشریف لا ئے حضرت ابو طالب ـ نے خطبہ نکاح پڑھا ،خطبہ کی ابتدا بسم الله کے بعد ان الفاظ سے ہو تی ہے : ”الحمد للہ الذی جعلنا من ذرےة ابراہیم وزرع اسماعیل وضئضیٔ معدٍّ وعنصر مضرِّ وجعلنا حضنة بیتہ ۔۔۔۔۔۔۔الخ”

”تمام تعریف اس خدائے بزرگ وبرترکے لیے سزوار ہے جس نے ہمیں ذریت ابراہیم ـاور اولاد اسماعیل ـ ونسل معد اور صلب مضر سے پیداکیا اور ہم کو اپنے بیت (کعبہ )کا محافظ اور اپنے حرم محترم کا نگہبان مقرر فرمایا ، ہمارے لیے ایک ایسا گھر قرار دیا جس کا خلق خدا حج کر تی ہے اور ایسی متبرک زمین عطا کی جہاں اللہ تعالیٰ کی مخلوق امن پاتی ہے اللہ تعالیٰ نے ہم کو لوگوں پر حاکم بنایا ۔۔۔ ”

اما بعد میرا یہ بھتیجا محمد بن عبد اللہ جن کا اگر کسی شخص سے مقابلہ اور موازنہ کیاجائے تو ازروئے فضل وکمال اور باعتبار شرافت ودیانت یہی گرامی تر نکلے گا۔ یہ مالداراور دولت مندی میں اگرچہ کم ہے مگر مال ایک ڈھلتی پھرتی چھائوں ہے اور متغیر و مبدل ہوجانے والا حال ہے ۔محمد ۖوہ شخص ہے جس کی قرابت جوکچھ مجھ سے ہے آپ لو گ اس کو خوب جانتے ہیں اس نے خدیجہ بنے خویلد سے تزویج کا ارادہ کیا ہے ۔ اور اس طرح میں نے اپنے مال سے (خدیجہ ) کے مہر موجل (رقم مقررہ )اور صداق موجل (رقم ،مہر جو بروقت ادا کیا جا ئے)ادا کر دیا ،میں خدا کی قسم سے کہتا ہوں کہ محمد ۖ دہ شخص ہے جس کے لیے کو ئی خبر عظیم اور اعلیٰ ترین منصب نصیب ہونے والا ہے ۔٨

حضرت ابو طالب کے اس خطبے کو با ربار پڑھیے اور ایک ایک جُملہ پر غور فرمائیے کہ آپ کا ایمان بالتوحید والرسالت کس طرح ظاہر ہو رہا ہے اور اپنے آبا ء واجداد کے ایمان پر بھی کس انداز سے فخر ومباہات فرما رہے ہیں اور اپنے مال سے حق مہر کی ادائیگی کر رہے ہیں سچ ہے کہ حضرت عبد المطلب کویقین کامل تھا کہ میرا یہ بیٹا ابو طالب موحد ہے اسی لیے دنیا سے رخصت ہو تے وقت حضور ۖکو کسی اور بیٹے کی نگرانی میںنہ دیا۔آقائے نامدار علیہ الصلوة والسلام پر نزول وحی ‘اِقْرَا بِاسِمِ رَبّکَ الَّذِیْ خَلَقَ ‘کی آیت مبارکہ سے ہوا تو اس کا ذکر حضور ۖ نے اپنی زوجہ محترمہ حضرت خدیجة الکبری سے فرمایا ۔حضرت علی المرتضیٰ بھی اس وقت آپ کے پاس ہی رہتے تھے،آپ نے اپنے اخبار الہیٰ ہو نے کا جب قریش پر انکشاف کیا کہ میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے نبی ہوں تو اعلان نبوت پر قریش میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں جو کو ئی ایک دوسرے سے ملتا ہے یہی کہتا ہوا نظر آتا کہ کچھ سنا ابو طالب ـ کا بھتیجا محمد بن عبد اللہ نے نبوت کا دعویٰ کر دیا ہے یہ خبر پورے مکہ اور اس کے گردو نواح کی آبادیوں میں پھیل گئی ہر طرف سے تعجب کا اظہار ہو نے لگا کہ محمد ۖ ہمارے معبودوں کو برا کہتا ہے اور وہ اس امر کی تلقین کر تا ہے کہ کہو ‘لا الہ الا اللہ ‘اعلان نبوت کے بعد حضرت ابو طالب نے جب دیکھا کہ قریش، حضور نبی کریم ۖ کی مخالفت پر تُل گئے ہیں تو آپ نے قریش پر جس جذبہ اور جس شجاعانہ انداز سے اپنے خاندان کی عظمت ایمان بالتوحید اور رسول اللہ ۖ کی حفاظت و نصرت کے لیے جان کی قربانی تک کی پرواہ نہ کرنے کا عرب کے ملکی رواج کے مطابق اشعار میں چیلنج فرمایا ۔تقریبا ًایک سو اشعار پر مشتمل یہ قصیدہ سیرة ابن ہشام اردو کے صفحہ ٢٥٦تا ٢٦٨ پر ”ابو طالب کا مشہور قصیدہ ”کے عنوان سے موجود ہے۔ اسے قصیدہ اس لیے کہاگیا کہ اس میں اپنے خاندان کی عظمت و برتری کے ساتھ سر و ر کائنات ۖکے فضائل ومحاسن بھی شامل ہیں ۔حضرت ابو طالب ـ کی نبی کریم ۖکی حفاظت و نصرت اور حمایت وتائید اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتی ہے ۔لہذا حضرت ابو طالب اعلان نبوت سے ہی آپ ۖ کے اس مقدس مشن میں برابر کے شریک تھے ۔

حضرت ابو طالب ہی وہ شخصیت ہیں جنہوں نے حبشہ کے بادشاہ کو اسلام کی دعوت دی، وہی جنہوں نے اپنے بیٹے کو دعوت دی اور حکم دیا کہ نماز میں اپنے چچا زاد بھائی(ص) سے جاملیں۔ وہی جنہوں نے اپنی زوجہ مکرمہ اپنی زوجۂ مکرمہ فاطمہ بنت اسد(س) اور اپنی اولاد کو اسلام کی دعوت دی ہے۔ اور اپنے بھائی حمزہ کو دین اسلام میں ثابت قدمی کی تلقین کی اور ان کے اسلام لانے پر سرور و شادمانی کا اظہار کیا اور اپنے بیٹے حضرت علی کی حوصلہ افزائی کی انھوں نے بیٹے علی رضی الله عنہ کو رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا تو انہيں منع نہيں کیا بلکہ بیٹے جعفر رضی الله عنہ سے کہا کہ جاکر بائیں جانب سے ان کی جماعت میں شامل ہوجائیں اور نماز ادا کریں۔

انھوں نے رسول خدا(ص) کا ساتھ دیتے ہوئے تمام مصائب کو جان کی قیمت دے کر خریدا اور زندگی کے آخری لمحے تک آپ(ص) کی حمایت سے دست بردار نہ ہوئے۔ اور حتی کہ موت کے لمحات میں قریش اور بنو ہاشم کو جو وصیتیں کیں وہ ان کے ایمان کامل کا ثبوت ہیں۔

حضرت ابو طالب(رض ) کی وصیت قریش کے نام:

إنّ أباطالب لمّا حضرته الوفاة جمیع إلیه وجوه قریش فأوصاهم فقال: یا معشر قریش أنتم صفوة الله من خلقه ـ إلى أن قال: ـ وإنّی أوصیكم بمحمد خیراً فإنه الأمین فی قریش، والصدیق فی العرب، وهو الجامع لكل ما أوصیتكم به، وقد جاءنا بأمر قبله الجنان، وأنكره اللسان مخافة الشنآن، وأیم الله كأنی أنظر الى صعالیك العرب وأهل الأطراف والمستضعفین من الناس قد أجابوا دعوته، وصدقوا كلمته، وعظموا أمره۔۔۔ یا معشر قریش ابن أبیكم، كونوا له ولاة ولحزبه حماة، والله لا یسلك أحد سبیله إلاّ رشد، ولا یأخذ أحد بهدیه إلاّ سعد، ولو كان لنفسی مدة، وفی اجلی تأخیر، لكففت عنه الهزاهز، ولدافعت عنه الدواهی۔

ترجمہ: جب حضرت ابو طالب کا آخری وقت ہؤا اور قریش کے عمائدین ان کے گرد جمع ہوئے تو آپ نے انہیں وصیت کی اور فرمایا: “اے گروہ قریش! تم خلق الله میں خدا کی برگزیدہ قوم ہو میں تمہیں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ کے بارے میں نیکی کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ وہ قریش کے امین اور عالم عرب میں صادق ترین (سب سے زیادہ سچے اور راست باز) فرد ہیں؛ آپ(ص) ان تمام صفات محمودہ کے حامل ہیں جن کی میں نے تمہیں تلقین کی؛ وہ ہمارے لئے ایسی چیز لائے ہیں جس کو قلب قبول کرتا ہے جبکہ دوسروں کی ملامت کے خوف سے زبان اس کا انکار کرتی ہے۔ 

خدا کی قسم! گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ حتی دیہاتوں اور گرد و نواح کے لوگ اور لوگوں کے پسماندہ طبقات آپ(ص) کی دعوت قبول کرتے ہیں اور آپ(ص) کے کلام کی تصدیق کرتے ہیں اور آپ(ص) کے امر (نبوت و رسالت) کی تکریم و تعظیم کرتے ہیں ۔۔۔ اے گروہ قریش! آپ(ص) تمہارے باپ کے فرزند ہیں لہذا آپ(ص) کے لئے یار و یاور اور آپ(ص) کی جماعت کے لئے حامی و ناصر بنو۔ 

خدا کی قسم! جو بھی آپ(ص) کے راستے پر گامزن ہوگا وہ ہدایت پائے گا اور جو بھی آپ(ص) کی ہدایت قبول کرے گا، سعادت و خوشبختی پائے گا؛ اور اگر میرے اجل میں تأخیر ہوتی اور میں زندہ رہتا تو آپ (ص) کو درپیش تمام مشکلات [بدستور] جان و دل سے قبول کرتا اور بلاؤں اور مصائب کے سامنے [بدستور] آپ(ص) کا تحفظ کرتا

حضرت ابو طالب نے بنو ہاشم سے وصیت کرتے ہوئے کہا:

يا معشر بني هاشم! أطيعوا محمدا وصدقوه تفلحوا وترشدوا ۔
ترجمہ: اے جماعت بنی ہاشم حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ کی اطاعت کرو اور ان کی تصدیق کرو تاکہ فلاح اور بہتری اور رشد و ہدایت پاؤ۔

مشہور عالم دین ابن ابی الحدید کہتے ہیں کہ تمام مسلمانوں پر ابو طالب(ص) کا حق واجب ہے۔ اور متعدد اسناد سے ابن عباس و دیگر سے روایت کرتے ہیں کہ ابوطالب رضی الله عنہ دنیا سے رخصت نہیں ہوئے حتی کہ انھوں نے شہادتین زبان پر جاری کردیں اور ایک اور مقام پر کہتے ہیں: اگر ابو طالب نے ہوتے تو اسلام کا نام و نشان نہ ہوتا اور مزید کہتے ہیں کہ اگر ابو طالب اپنا ایمان آشکار کرتے تو قریش کے ہاں اپنی عزت اور سماجی حیثیت کھو بیٹھتے اور قبیلے کے سربراہ کی حیثیت سے اسلام کا دفاع و تحفظ کرنے کے قابل نہ رہتے

ایمان ابوطالب رضی الله عنہ پرتاریخی اثباتی دلیلیں

اسلام سے پہلے آپ دین ابراہیم علیہ السلام پر تھے چنانچہ ان کی بت پرستی کی کوئی ایک روایت بھی نہیں ملتی۔
آپ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نکاح پڑھایا تھا جس کا آغاز کلمہ بسم اللہ سے ہوا تھا۔ اللہ کا نام وہ لوگ استعمال کرتے تھے جو دینِ ابراہیمی پر عمل کرتے تھے۔
ان کی زوجہ فاطمہ بنت اسد نے اسلام قبول کیا تو ان کا نکاح فسخ نہ ہوا جبکہ اگر کسی مشرک یا کافر کی زوجہ اسلام قبول کرتی تو اس کی شادی فسخ ہو جاتی۔
آپ نے علی بن ابی طالب رض کو مسلمان ہونے پر کچھ نہ کہا حالانکہ وہ سن و سال میں چھوٹے تھے۔
آپ کے اشعار جو سیرت ابن اسحاق، سیرت ابن ہشام، تاریخ طبری وغیرہ کے علاوہ عربی ادب میں عموماً ملتے ہیں، آپ کے ایمان پر سند ہیں۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اسلام کے عمومی اعلان کے بعد بھی ابو طالب کے دسترخوان پر کھانا کھاتے جبکہ کسی مشرک و کافر کے ساتھ نہ کھاتے۔
جس سال ابوطالب اور خدیجہ بنت خویلد کا انتقال ہوا، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو شدید دکھ ہوا اور انہوں نے اس سال کا نام عام الحزن (یعنی غم کا سال) رکھا۔
ابوطالب نے ہمیشہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حفاظت کی یہاں تک کہ ان کے بستر پر بدل بدل کر اپنے بیٹوں خصوصاً حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو سلاتے تاکہ قریش حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو نقصان نہ پہنچا سکیں۔ یہ بھتیجے کی محبت کے علاوہ اسلام سے بھی محبت کا ثبوت ہے کیونکہ بھتیجے کی محبت بیٹوں سے فوقیت نہیں رکھتی۔
سیرت ابن ہشام و سیرت ابن اسحاق کے مطابق وفات کے وقت ایک صحابی نے کان لگا کر سنا تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کہا کہ خدا کی قسم یہ وہی کلمات کہہ رہے ہیں جو اس سے قبل آپ ان کو کہنے کے لیے کہہ رہے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انہیں کلمہ پڑھنے کو کہا تھا۔


نعتیہ اشعار 

حضرت ابوطالب رضی الله عنہ نہایت فصیح شاعر تھے اور ان کے بے شمار اشعار تاریخ میں ملتے ہیں۔ ان کی ایک نعت بہت مشہور ہے جس کا ابن کثیر نے تذکرہ و تعریف کی ہے۔ یہ سو سے زیادہ اشعار پر مشتمل ہے اور تمام حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مدح و ثنا میں ہے۔ ایک شعر کا ترجمہ کچھ یوں ہے : میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں محمد ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا سچا جانثار ہوں۔ اور انہیں اللہ کا سچا رسول مانتا ہوں۔ خدا نے انہیں دنیا کے لیے رحمت قرار دیا ہے۔ کوئی ان کا مثل نہیں ہے۔ ان کا معبود ایسا ہے جو ایک لمحہ کے لیے بھی ان سے غافل نہیں ہوتا۔ وہ ایسا ممتاز ہے کہ ہر بلندی اس کے آگے پست ہے۔ اور اس کی حفاظت کے لیے ہم نے اپنے سینوں کو سپر بنا لیا ہے۔ خدا اس کو اپنی حمایت و حفاظت میں رکھے اور اس کے نہ مٹنے والے دین کو دنیا پر غالب کر دے۔

تاریخ ابوالفداء میں بھی ان کے اشعار موجود ہیں۔ ابوالفداء کے دیے ہوئے اشعار میں سے ایک کا ترجمہ یہ ہے: بخدا کفارِ قریش اپنی جماعت سمیت تم (محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) تک نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ میں زمین میں دفن نہ ہوجاؤں۔ اے محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) تم کو جو خدا کا حکم ہے اس کا بے خوف اعلان کرو۔ اے محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) تم نے مجھ کو اللہ کی طرف دعوت دی ہے۔ مجھے تمہاری صداقت و امامت کا محکم یقین ہے اور تمہارا دین تمام مذاہبِ عالم سے بہتر اور ان کے مقابلے میں کامل تر ہے۔سیرت ابن ہشام میں بھی ان کے اشعار موجود ہیں۔

سرورِ کائنات کی شان میں جو مدحیہ اشعار جناب ابوطالب نے ارشاد فرماے ہیں ان کا ذکر بہت سی شیعہ اور سنی کتابوں میں ملتا ہے ۔علامہ امینیؓ نے اپنی مشہور کتاب الغدیر کی آٹھویں جلد می مندرجہ ذیل کتابوں سے جمع کر کے یہ ذخیرہ کیا ہے – تاریخ ابن کثیر، فتح الباری،بلوغ العرب،تاریخ ابو الفدا، سیرة النبوی، شرح نھج البلاغہ ابن ابی الحدید وغیرہ۔

اس کتاب سے کچھ اشعار یہاں پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں۔

وَ اللهِ لَنْ يَصِلُوْا إِلَيْكَ بِجَمْعِهِمْ حَتَّى أُوَسَّدَ فِي التُّرَابِ دَفِيْنًا
قسم خدا کی (اے میرے بھتیجے) یہ کفّار تم تک اس وقت تک نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ میری پشت میری قبر کی مٹی سے نہ جا ملے اور مجھ کو زمین میں دفن نہیں کردیا جاے۔

فَاصْدَعْ بِأَامْرِكَ مَا عَلَيْكَ غَضَاضَةً وَ ابْشِرْ وَ قِرَّ بِذَاكَ مِنْهُ عُيُوْنًا.
پس تم اپنے کام کو مکمل کرو اور کسی کا خوف نہ رکھو۔ اپنی تبلیغ سے لوگوں کو بشارت دیتے رہو اور اس کے ذریعے سے آنکھوں کو سرور اور ٹھنڈک پہنچاتے رہو۔

وَ دَعَوْتَنِيْ وَ زَعَمْتُ أَنَّكَ نَاصِحِيْ وَ لَقَدْ صَدَقْتَ وَ كُنْتَ قَبْلَ أَمِيْنًا.
تم نے مجھے (اسلام کی)دعوت دی جس کی میں تصدیق کرتا ہوں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ تم میری خیر چاہنے والے امین اور ناصح ہو۔

وَ لَقَدْ عَلِمْتُ أَانَّ دِيْنَ مُحَمَّدٍ مِنْ خیر ادیان البریة دیناً۔
میں بخوبی جانتا ہوں کہ جتنے بھی دین انسانوں میں موجود ہیں ان سب سے بہتر دین- محمّدؐ کا دین ہے۔

لَمْ تَعْلَمُوا أَنَّا وَجَدْنَا مُحَمَّداً نَبِيّاً كَمُوسَى خُطَّ فِي أَوَّلِ الْكُتُبِ.
(اے قریش!) کیا تم لوگ نہیں جانتے کہ ہم نے محمّدؐ کو ویسا ہی نبی پایا ہے جیسے نبی موسیٰ تھے، اور ان کا بھی ذکر گزشتہ کتابوں میں موجود ہے۔

وَ أَنَّ عَلَيْهِ فِي الْعِبَادِ مَحَبَّةً وَ لاَ سِنَّ فِيْمَنْ خَصَّهُ اللهُ فِي الْحُبِّ.
اور یہ کہ ان کے لیے لوگوں کے دلوں میں محبت ہے اور یہ محبت ہونا بھی چاہیے کیوں کہ الله نے ان کو اپنی محبّت کے لیے چن لیا ہے۔ الغدیر- (جلد 8 علاّمہ امینی)

خوش قسمتی سے ایک کتاب ‘دیوانِ ابوطالب’ کے نام سے اردو زبان میں بھی موجود ہے جس کو ڈاکٹر محمد التونجی نے مرتب کیا ہے۔ اس کتاب سے استفادہ کرتے ہوئے یہ شعر بطور نمونہ پیش کر رہے ہیں۔

اٙنتٙ الرّٙسُولُ رٙسُول اللّٰهِ نٙعلٙمُہ
عٙلٙیکٙ نٙزٙل مِن ذِی العِزِّةِ الکُتُب

ہم یہ جانتے ہیں کہ آپ ہی رسول برحق ہیں،جسے خدا وند عالم نے مبعوث بہ رسالت فرمایا ہے اور اس عزت والے خدا نے آپ پر کتابیں نازل فرمائ ہیں۔
اسی طرح دیگر مشہور کتابوں میں ان اشعار کا ذکر ہے۔ ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں ابن عرفطہ سے نقل کیا ہے:

مکہ میں قحط پڑا،قریش نے ابوطالب سے کہا کہ وادیاں سوکھ گئی ہیں ،ہم روٹی روٹی کو محتاج ہوگئے ہیں ۔ ہمارے ساتھ آیئے تاکہ نماز استسقاء پڑھیں ۔ ابوطالب اپنے ساتھ ایک بچے کو لئے ہوئے باہر آئے جو سورج کی طرح درخشاں تھا ۔ آپ کے گرد کئی بچے تھے، ابوطالب نے اس بچے کو گود میں لے کراس کی پیٹھ کعبہ سے چسپاں کردی ،بچے نے آپ کی انگلی تھا م لی۔ اس وقت آسمان پر بادل کا کہیں پتہ نشان نہ تھا، اچانک اس قدر بارش ہوئی کہ تمام قرب وجوار اور وادیاں جل تھل ہوگئیں ۔

ایسے میں ابوطالبؑ نے یہ اشعار کہے:
وابیض یستسقی الغمام بوجھہ
ثمالُ الیتامیٰ عصمة الارامل
یلوذبہ الہلاّک من آل ہاشم
فہم عندہ من نعمة فواضلِ
و میزان عدل لا یخیس شعیرةً
ووزان صدقٍ وزنہ غیر ہائلٍ

” وہ نورانی چہرہ جس کا واسطہ دے کر پانی طلب کیاجاتاہے ، وہ یتیموں کا فریادرس اور بیواؤں کی پناہ گاہ ہے،بنی ہاشم کے فقراء اسی کی پناہ حاصل کرتے ہیں اوراسی کے پاس ناز و نعمت کے لئے زیادہ جاتے ہیں،وہ عدالت کی ایسی میزان ہے جس کا وزن ایک بال کے برابر بھی خطا نہیں کرتا اور اس کا وزن سچا وزن ہے جس میں جھوٹا دعویٰ نہیں کیا گیا ہے” ۔

شہرستانی ”ملل ونحل” (جلد 2 صفحہ 249) حاشیہ کتاب”الفصل” (جلد 3 صفحہ 225) میں جناب عبد المطلب کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

”وہ چیزیں جواس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ وہ مقام رسالت اورشرف نبوت سے واقف تھے،ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب مکہ میں زبر دست قحط پڑا اور دوسال تک بارش نہیں ہوئی تو اپنے بیٹے ابو طالب کو حکم دیاکہ گہوارے میں موجود شیرخوار کو لے آئیں ۔ آپ انھیں اپنے دونوں ہاتھوں پر اٹھا کر کعبہ کے پاس آئے اور آسمان کی طرف بلند کرکے کہا: خدایا! اس بچے کے حق کی قسم اور۔ دوسری تیسر ی مرتبہ بھی آسمان کی طرف بلندکیا اورکہا :خدا! اس بچے کے حق کی قسم ،ہم پر مسلسل اورموسلا دھاربارش کا نزول فرما۔تھوڑی دیر نہ گذری تھی کہ آسمان پر بادل چھاگئے اوربارش ہونے لگی یہاں تک کہ لوگ مسجد کے خراب ہونے سے خوفزدہ ہوگئے اس وقت ابو طالب نے اپنا قصیدہ ٔ لامیہ (جس کے ہر شعر کے آخر میں لام ہے) پڑھا جس کامطلع ہے :

وابیض یستسقی الغمام بوجہہ
ثمال الیتامیٰ عصمة للارامل

پھراس قصیدے کے بقیہ اشعارنقل کئے ہیں۔

مختصر یہ کہ جناب ابوطالبؑ کے اشعار عرب کے مورخین اور ادباء دونوں نے اپنی اپنی کتابوں میں محفوظ رکھے ہیں۔ ان اشعار کا کتابوں اور عربوں کے درمیان محفوظ رہنا ان کے معیاری ہونے کی دلیل ہے۔ شاعر کا کلام نہ صرف یہ کہ اس کے عقیدہ کا پتہ دیتے ہیں بلکہ ان سے اس کے فکر کی بلندی کا بھی اندازہ ہوجاتا ہے۔ جناب ابوطالب رضی الله عنہ کے اشعار سے آپ کے موحّد اور مومن ہونے کا پتہ چلتا ہے۔ پیغمبرِ اکرم صلی الله علیہ والہ وسلم سے آپ کی محبت اور عقیدت مندی کا بھی پتہ چلتا ہے۔

تمام مورخ محقق اور محدث اس امر پر متفق ہیں کہ شان رسالت میں اولین نعتیہ کلام ختمی مرتبت کے کفیل حضرت ابو طالب نے ارشاد فرمایا۔محبت رسول میں جو کلام حضرت ابو طالب نے ارشاد فرمایا وہ عربی ادب کا عظیم سرمایہ ہے حضرت ابو طالب کا کلام عرب معاشرے اور اوائل اسلام کے رسوم و رواج کا بھی عکاس ہے۔ دیوان ابو طالب کا قدیم ترین نسخہ احمد الکردی کا مرتب کردہ سمجھا جاتا ہے۔

صحیح بخاری میں عمروبن علی، ابوقتیبہ، عبدالرحمن بن عبداللہ دینار اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے ابن عمر کو حضرت ابوطالب کا یہ شعر پڑھتے ہوئے سنا اور (محمد مصطفیؐ کا) گورا رنگ کہ ان کے چہرے کے واسطے سے بدلی سے بارش کی دعا کی جاتی ہے، وہ یتیموں کے حامی اور بیواؤں کی پناہ گاہ ہیں۔ اہل سنت کے عالم شھر ستانی اور ابن عساکر اپنی تاریخ میںجہلمہ ابن عرفتہ کا یہ مشاہدہ بیان کرتے ہیں : جہلمہ کا بیان ہے کہ میں ایک بار عین قحط کے موسم میں مکہ گیا۔ قریش سخت مصیبت میں تھے۔ ان میں سے ایک نے صلاح دی کہ لات و عزیٰ سے فریاد کی جائے، تیسرے نے کہا کہ منات سے چارہ جوئی کی جائے ان میں سے ایک معزز اور صاحب الرائے بزرگ بول اٹھا کہ مجھے اس امر کا کامل یقین ہے کہ ابھی تم لوگوں میں ایک بزرگ ایسا موجود ہے جو سلسلہ ابراہیمی کا بقیہ اور نسل اسماعیلی کا خلاصہ ہے۔ اس کی طرف کیوں نہ رجو ع کیا جائے۔ سب نے کہا کہ کیا تمہارا اشارہ ابو طالب کی طرف ہے۔ اس نے جواب دیا ہاں۔ سب مل کر ابوطالب کے مکان پر آئے اور فریاد کی ، جسے سنتے ہی حضرت ابوطالب باہر نکل آئے۔ آپ کے ساتھ ایک کمسن بچہ تھا جو جناب رسالت مآبؐ تھے۔ ان کا روئے منور آفتاب کی طرح روشن تھا۔ ابوطالب اس صاحبزادے کو انگلی پکڑائے خانہ کعبہ میں آئے۔اور رکن کعبہ سے پیٹھ لگا کر بیٹھ گئے اور اس بچے کی انگشتِ شہادت کو آسمان کی طرف بلند کردیا اور طلبِ باران کی دعا کی ۔فورا بادل نمودار ہوئے اور تھوڑی دیر بعد ایسا مینہ برسا کہ ہر طرف جل تھل ہوگیا ۔ اس موقع پر حضرت ابوطالب نے شانِ مصطفوی ؐ میں ایک قصیدہ ارشاد فرمایا جو سیرتِ ابن ہشام سمیت تمام عربی تاریخ کی کتب میں مرقوم ہے وہ یہ ہے کہ

محمد ؐ ایسے خوش جمال شخص ہیں جن کی برکت سے ابر پانی برساتا ہے جو یتیمو ں کیلئے جائے پناہ ہے اور بیوائوں کا پردہ ہے
بنی ہاشم میں جسے ہلاکت کا خطرہ ہو وہ ا س کے پاس پناہ لیتے ہیں ۔وہ اسکے پاس رہ کر خدا کی رحمت اور نعمت پاتے ہیں۔
وہ ایک ایسی میزان عدالت ہے کہ جو ایک جَوبرابر بھی ادھرادھرنہیں کرتا اور درست کاموں کا ایسا وزن کرنے والا ہے کہ جس کے وزن کرنے میں کسی شک وشبہ کا خوف نہیں ہے
وہ ایک بزرگ انسان ہے جس کا شمار سب سے مرتبے والے سرداروں میں ہوتا ہے۔وہ اس خاندان بنو ہاشم سے ہے جو بڑائیوں کے میدان میں برتری کا مالک ہے

تاریخ کی کتب میں حضرت ابوطالب کے بہت سے اشعار ملتے ہیں۔حضرت ابو طالب کے کلام کے حوالے سے امیر المومنین حضرت علی ابن ابو طالب نے ارشاد فرمایا،’’اخلاق وادب کے ساتھ ذوق ِشعریت کی تسکین حاصل کرنا ہو تو دیوان ِابو طالب کا مطالعہ کریں۔حضرت ابو طالب کے کلام کاہر ہر لفظ عشق رسالت ؐ کا عکاس ہے ۔

’’اے لوگوں کے سامنے میری گواہی دینے والے،میری گواہی دے،کہ میں نبی اللہ احمد ِمجتبیٰ کے دین پر ہوں،کوئی دین میں گمراہ ہے تورہے لیکن میں یقینارہرو ِہدایت ہوں۔

اے محمد!میرے نورِنظر،اگر کسی خطرے یا مصیبت وپریشانی کا اندیشہ ہو تو ہر شخص کو اپنی جان آپ کے قدموں پر نثار کر دینی چاہیے

جب قریش نے پیغمبر اکرم اور مسلمانوں کے ساتھ اقتصادی،سماجی اور سیاسی ہر قسم کے روابط منقطع کرلیے تو آنحضرتؐ کے واحد حامی اور مدافع ابوطالب نے اپنے تمام کاموں سے برابر تین سال ہاتھ کھینچے رکھا اور بنی ہاشم کو ایک درّے کی طرف لے گئے جو مکہ کے پہاڑوں کے درمیان تھا اور شعب ابوطالب کے نام سے مشہور تھا ۔اور وہاں پر سکونت اختیار کرلی، ان کی فداکاری ا کا یہ عالم تھا کہ ہر رات پیغمبر اکرم کو ان کے بستر سے اٹھاتے اور دوسری جگہ ان کے آرام کے لئے مہیا کرتے اور اپنے فرزندوں علی جعفر عقیل کو ان کی جگہ پر سلادیتے تاکہ اگر کوئی نقصان ہو تو میری اولاد کو ہویتیم عبد اللہ ہادی برحق نبی کریم ؐ کو کوئی گزند نہ پہنچے ۔ ایک رات علی نے اُن سے کہا،’’باباجان!میں قتل کردیا جاؤں گا‘‘توابوطالب نے اُن سے فرمایا؛

میرے بیٹے!صبر واستقامت سے کام لینا کیونکہ گھبرانے یا خوفزدہ ہونے کی بجائے ہمیشہ صبر واستقامت ہی دانشمندی کی علامت ہے (اور جہاں تک موت کا تعلق ہے تو)ہر زندہ انسان کے قدم موت کی طرف بڑھ رہے ہیں

(میرے نورِنظر!) اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کے لیے یہ ایک انتہائی سخت آزمائش ہے لیکن یہ انتہائی سخت آزمائش بھی اس ذاتِ گرامی کے لیے ایثار وفداکاری کی خاطرہے جو خود محبوب بھی ہیں اور محبوب (سیدنا عبداللہ ؑ) کے فرزندبھی (یعنی)وہ نبیِ اکرم ؐجو روشن پیشانی والے ہیں،جو نسب کے اعتبار سے ستاروں کی مانند درخشاں ہیں،فضل وشرف میں سب سے بلند ہیں،صاحب جود وکرم ہیں اور نجیب وشریف ہیں ۔اگر آپ کو(اس ایثار وفداکاری کی راہ میں) جان بھی دینا پڑے تو (کیا ہوا)موت کے تیر توچلتے ہی رہتے ہیں۔کسی کو لگ جاتا ہے اور کہیں چوک جاتا ہے ۔جب فخر موجودات حضرت محمد مصطفیؐ کا نکاح حضرت خدیجہ کے ساتھ طے پایا ، سرکار دوعالم کی وکالت رئیس بطحا، سیدنا ابوطالب نے فرمائی۔ حضورؐ کے نکاح کا خطبہ زبانِ ابوطالب سے ادا ہوا۔ماہرین عربی ادب کے مطابق حضرت ابو طالب کا دیوان شعر وادب کا عظیم ترین شاہکار ہے اور انہیں عرب کی فصیح البیانی کی ایک علامت سمجھا جاتا ہے۔ حضرت ابو طالب کوفی البدیہ شعر کہنے میں ایساید طولیٰ حاصل تھا کہ رزم ہو یا بزم ہو پوری کی پوری بات اشعار ہی میں فرما دیا کرتے ۔ حضرت ابو طالب کے ہر ہر شعر میں عشق رسالتؐ کا سمندر موجزن اور ذات مصطفوی ؐسے وابستہ معجزات کا ذکر نظر آتا ہے۔

سید نا ابی طالب کا قصیدہ لامیہ جو آپ ع نے سید المرسلین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں پڑھا ۔ ہر شعر میں عشق رسالتؐ کا سمندر موجزن اور ذات مصطفوی ؐسے وابستہ معجزات کا ذکر نظر آتا ہے

٭٭٭

حوالہ جات

١۔ اسنی المطالب فی نجاة ابی طالب ص١٩،مطبعہ محمد آفندی مصر،١٣٠٥
٢۔ الاصابہ فی تمییز الصحابہ ج٤،ص١١٥،مطبعة السعادہ مصر،١٣٢٨ الطبعة الاولیٰ
٣۔ تفسیر سراج المنیر ج٤،ص٥٥٠تا ٥٥٢ مطبوعہ نولکشور لکنہو، ١٢٩٣ ھ
٤۔ تفسیر کبیرج٨، ص ٠ ٦٠مطبوعی قسطنطینیہ، ١٣٠٨ ھ
٥۔ تنویرا لمقیاس من تفسیر ابن عباس ص٤٥٢مطبعة المشہد الحسینی قاہرہ ،١٣٩٠ ھ
٦۔ تفسیر ابن کثیر بھا مش فتح البیان ج٥،ص٢٤٦مطبعہ بولاق الطبعة الاولیٰ مصر ، ١٣٠١ھ
٧۔ طبقات ابن سعد جلداول ص٧٥ تحت ”ذکر ابی طالب وضمہ رسول اللہ ۖ ،طبع لیدن ،١٣٢٢ ھ
٨۔ المواھب اللدنیہ مع شرح الزرقانی جلد ١ص٢٠١ ،المطبعة الازھر یہ مصر، الطبعة الا ولیٰ ١٣٢٥ ھ ،
سبل الھدیٰ والرشاد للشامی جلد ٢،ص١٦٥دارالکتب العلمیہ بیروت ،١٤٦٨ ھ ،
شرف المصطفیٰ للحافظ خرکوشی النیشاپوری المتوفیٰ ٤٠٦ ھ ،جلد اول ، ص٤١٣طبع ،دارالبسئائر الاسلامیہ مکہ المکرمہ ١٤٢٤
سیرت الحلبیہ جلد ١،ص ٢٢٦،مطبعةالمصطفیٰ،مصر ١٣٨٤ ھ