کربلا کا سفر، کچھ یادیں ۔ مبشر علی زیدی

بُلاوا

میری پیاری امی کا انتقال ہوچکا ہے۔ میں قرآن پاک خریدتا ہوں اور امی کی طرف سے مسجدوں میں رکھ دیتا ہوں۔ چاہے کوئی سُنی پڑھے، شیعہ پڑھے، مقلد پڑھے، غیر مقلد پڑھے، کچھ ثواب امی کو بھی پہنچتا ہوگا۔امام حسین علیہ السلام کا حرم بھی خدا کی مسجد ہے۔ یہاں بھی نماز پڑھی جاتی ہے۔ یہاں بھی قرآن پڑھا جاتا ہے۔ جگہ جگہ طاقچے بنے ہیں جن میں قرآن پاک رکھے ہیں۔ تسبیحیں رکھی ہیں۔ کوئی زمین پر سجدہ نہ کرنا چاہے تو سجدہ گاہیں رکھی ہیں۔

پچھلی بار میں کربلا آیا تو دیکھا کہ حرم کے خدام بہت چوکس ہیں۔ نہ کچھ لانے دیتے ہیں، نہ لے جانے دیتے ہیں۔ میں نے باہر ایک دکان سے چار قرآن پاک خریدے اور چپکے سے حرم میں داخل ہوگیا۔ ایک طاق میں رکھنے کو تھا کہ ایک خادم نے پکڑلیا۔ میں گھبرا گیا۔

وہ نرم لہجے میں کچھ کہتا تھا لیکن عربی بولنے کی وجہ سے میری سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ وہ میرے بازو کو گرفت میں لے کر ایک دفتر میں پہنچا۔ میں سمجھا کہ اب خیر نہیں۔ نہ جانے کیا حشر کریں۔ خادم نے شیخ الخدام کو کچھ بتایا۔ انھوں نے جھک کر مجھے سلام کیا۔ عربی، فارسی اور اردو کی آمیزش سے میرا شکریہ ادا کیا۔ قرآن پاک کو بوسہ دیا۔ پھر مجھے تحفے میں ایک چھوٹی سی تھیلی پیش کی۔ اس میں امام حسین علیہ السلام کی قبر کی چند چٹکی مٹی تھی۔

لوگ اسے خاک شفا کہتے ہیں۔ جب کبھی میری طبیعت خراب ہوتی تھی تو امی کہتی تھیں، میرے لال، تجھے کچھ نہیں ہوگا۔ کم از کم میری زندگی میں تجھے کچھ نہیں ہوگا۔ ہر ماں اپنے بچے کو ایسے ہی دلاسا دیتی ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی والدہ کے انتقال کے بعد ایک دن کہیں جارہے تھے۔ راستے میں انھیں ٹھوکر لگی۔ خدا نے آواز دی، موسیٰ سنبھل کر۔ اب تیرے لیے دعا کرنے والی ماں نہیں رہی۔

امی کا انتقال ہوا اور میری آنکھوں میں تکلیف ہوئی تو میں ڈاکٹر ہاشمانی کے اسپتال گیا۔ ڈاکٹر شریف ہاشمانی نے بتایا کہ میری آنکھوں میں موتیا اتر رہا ہے۔ سفید موتیا نہیں، کالا موتیا۔ سفید موتیا کے آپریشن کے بعد آنکھیں صاف ہوجاتی ہیں۔ کالا موتیا آنکھیں لے کر چھوڑتا ہے۔ ڈاکٹر نے کہا، ہم بیماری کو روکنے کی کوشش کرسکتے ہیں لیکن بینائی گئی تو واپس نہیں آئے گی۔ علاج نہیں کرو گے تو سال دو سال میں اندھے ہوجاؤ گے۔ ہم ٹریٹمنٹ کریں گے تو چار پانچ سال مل جائیں گے۔

لوگ تصویر کا روشن رخ دیکھتے ہیں۔ دھندلی آنکھوں والوں کو ہمیشہ تاریک پہلو دکھائی دیتا ہے۔ میں سمجھ گیا کہ آنکھیں گئیں۔ ان حالات میں پچھلی بار کربلا آیا تھا۔امام حسین علیہ السلام کے روضے سے خاک شفا لینے کے بعد میں حضرت عباس علیہ السلام کے روضے پر آیا۔ قرآن پاک خریدنے کے بجائے حرم کے اندر موجود دفتر پہنچ گیا۔ وہاں خدام سے تڑخی ہوئی عربی، شکستہ فارسی اور شستہ اردو میں پوچھا کہ کیا میں یہاں قرآن پاک رکھ سکتا ہوں؟ خدام کی سمجھ میں کوئی اور بات آئی۔ ایک نے قرآن پاک کا چھوٹا نسخہ اٹھاکر مجھے دیا۔ اس پر روضے کی مہر لگی ہوئی تھی۔ اس نے کہا، وعدہ کرو، اسے روز پڑھو گے؟ میں نے وعدہ کرلیا۔

خاک شفا آنکھوں پر مل لی۔ قرآن کا ایک صفحہ روز کھول کر دیکھ لیتا ہوں۔ بینائی بحال ہے۔ ہاشمانی اسپتال کے ڈاکٹر اب کہتے ہیں، پہلے ہماری مشین میں کوئی گڑبڑ تھی۔ غالباً تمھاری آنکھوں کی بناوٹ دھوکا دیتی ہے۔ تمھیں کالا موتیا لاحق نہیں۔ کسی علاج کی ضرورت نہیں۔ کسی دوا کی ضرورت نہیں۔ کسی آپریشن کی ضرورت نہیں۔ میرے پاس رپورٹس موجود ہیں۔ ریکارڈ موجود ہے۔ کراچی میں کوئی دیکھنا چاہے تو حاضر ہے۔

میں نظر کا چشمہ لگاتا ہوں لیکن پھر بھی آنکھوں میں درد ہوتا ہے۔ ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ میری آنکھیں ضرورت سے زیادہ خشک رہتی ہیں۔ مصنوعی آنسوؤں کے ڈراپس ملتے ہیں۔ آنکھوں میں جب درد ہو، ایک دو قطرے ٹپکالیا کرو۔ میں دس مہینے وہ ڈراپس جیب میں رکھتا ہوں۔ محرم میں ضرورت نہیں پڑتی۔

امام حسین علیہ السلام کی ضریح کے قریب ایک قبر حبیب ابن مظاہر کی ہے۔ یہ امام کے بچپن کے دوست تھے۔ کوفے میں کھانا کھارہے تھے کہ امام کا خط ملا۔ کھانا چھوڑکے کربلا کا رخ کیا۔ عاشور کے دن حبیب نے حبیب سے پہلے اپنی جان دی۔

لوگ کہتے ہیں کہ حبیب ابن مظاہر ؓکی ضریح پر ہاتھ سے کسی دوست، کسی رشتے دار، کسی محلے دار کا نام لکھ دیں تو کربلا کا بلاوا آجاتا ہے۔ گویا یہ کوئی نوٹس بورڈ ہے۔ گویا یہ کوئی حاضری کی درخواست کا مقام ہے۔ سچ سچ بتاؤں؟ ہم کئی سال سے کربلا کا ارادہ کررہے تھے۔ پیسے بھی تھے، شوق بھی تھا، ہمت بھی تھی لیکن بلاوا نہیں تھا۔

ہم چھ سات سال پہلے ایک خاتون کے مکان میں کرائے پر رہتے تھے۔ اب ہم وہاں نہیں رہتے لیکن میری بیوی نے ان کے ہاں بیسی ڈالی ہوئی ہے۔ وہ اس ماہ بیسی دینے گئی تو آنٹی نے بتایا، وہ کربلا گئی ہوئی تھیں اور انھوں نے حبیب ابن مظاہرؓ کی ضریح پر میرا نام لکھ دیا ہے۔ اب کربلا کا بلاوا آنے والا ہے۔ میری بیوی حیران رہ گئی کہ ہم تو واقعی چند دن میں روانہ ہونے والے ہیں۔

….

نجف اشرف سے کربلائے معلیٰ کا سفر

نجف اشرف سے کربلائے معلیٰ کا سفر شروع ہورہا ہے۔ خبر ہے کہ کربلا کو چاروں طرف سے سیل کیا جارہا ہے۔ آج جو لوگ پہنچ گئے، پہنچ گئے۔ پھر عاشور تک مزید لوگ نہیں جاسکیں گے۔ بہت بڑی تعداد میں عزادار اس طرف جارہے ہیں۔ ہمارے لیے حرم امام حسین کی خاص گاڑیاں آئی ہیں۔ یہ خاص گاڑیاں بھی حرم سے بہت دور اتاریں گی۔ ہمارا ہوٹل حرم کے قریب ہے۔ ہمیں سامان کے ساتھ بہت دور تک چلنا پڑے گا۔ میں نہیں جانتا کہ وہاں انٹرنیٹ ہے یا نہیں۔ میں نہیں جانتا کہ وہاں کچھ لکھ سکوں گا یا نہیں۔ اس وقت نہیں تو بعد میں کچھ نہ کچھ ضرور لکھوں گا۔
کئی سال پہلے میں کربلا آیا تھا۔ وہ عاشور کا موقع نہیں تھا۔ اس وقت بیوی بچے ساتھ نہیں تھے۔ میں نے واپس جاکر ایک صفحہ لکھا۔ وہ تحریر بہت سے دوست پڑھ چکے ہیں۔ میں خود بھی بار بار پڑھتا رہتا ہوں۔ تحریر پرانی نہیں لگتی۔ ایک بار اور پڑھنے میں کیا ہرج ہے؟ کوئی ہرج نہیں۔

سجدہ

آج رجب کی بائیسویں ہے، میری سال گرہ کا دن۔ سنہ ساٹھ ہجری میں امیر معاویہ کا انتقال اسی تاریخ کو ہوا تھا۔ اس کے چند دن بعد امام حسین کو مدینہ چھوڑنا پڑا۔ وہ پہلے مکے گئے اور پھر کربلا۔ پتا ہے، میں بھی یہ تینوں شہر دیکھ چکا ہوں۔ اور اتفاق کی بات ہے کہارے تم میری بات بیچ میں کیوں کاٹ دیتی ہو؟ کیا کہا تم نے؟ میری آنکھیں ہر وقت لال کیوں رہتی ہیں؟ کس نے کہا؟ اچھا، یہ بات تم بعد میں بھی کرسکتی تھیں۔ پہلے میری سنو۔

میں یہ کہہ رہا تھا کہ کربلا دیکھ چکا ہوں۔ تم حیران کیوں ہونے لگتی ہو؟ ہاں ہاں، میرا مذہب سے کیا واسطہ۔ سچ کہ نماز نہیں پڑھتا، سچ کہ روزے نہیں رکھتا۔خون کا ماتم کرنا تو دور کی بات، کبھی سینے پر ایک ہاتھ نہیں مارا۔ کبھی مارے بندھے محرم کی مجلس میں جابیٹھا تو مصائب سن کر ایک آنسو نہ نکلا۔ میرے دوست مجھے پتھر کہا کرتے تھے۔وہ سب درست لیکن بچپن سے کربلا والوں کی اتنی کہانیاں سن رکھی تھیں کہ ایک بار بے قرار ہوکر ایک ٹور آپریٹر کے پاس نام لکھوادیا۔

کربلا پہنچے تو قافلے کے شرکا کا عقیدت سے برا حال تھا۔ سب کے سب باادب لوگ پاکیزہ مقام پر جانے سے پہلے غسل اور طہارت مں لگ گئے۔ میں بدتمیز سر جھاڑ منہ پہاڑ، ایسے ہی حرم کی طرف چل پڑا۔جو لوگ پہلی بار روضے پر جاتے ہیں، انھیں بتایا جاتا ہے کہ پہلے وضو کریں، پھر باب قبلہ سے اندر داخل ہوں۔مجھے یاد نہیں کہ وضو کیا تھا یا نہیں۔ یہ بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ کون سے دروازے سے داخل ہوا۔ لیکن یہ ضرور یاد ہے کہ ایک شخص نے بازو پکڑکے کہا، جو یہاں زیارت کو آتا ہے، پہلے اسے دو رکعت نماز پڑھنا ہوتی ہے۔ چلو پڑھو نماز۔

میں مصلے پر ہکا بکا کھڑا تھا۔ آخری بار نماز کب پڑھی تھی، یاد نہیں آیا۔ نماز بھی یاد نہیں آئی۔ نیت کرنا بھی بھول گیا۔ کچھ دیر یونہی قیام کے بعد رکوع میں چلاگیا، پھر سجدے میں گرگیا۔ہونٹ خاموش تھے، آنکھیں بند تھیں، ذہن میں خیالات کا ہجوم تھا۔ مجھے خیال آیا کہ دو چار گز ادھر یا دو چار گز ادھر، امام حسین نے آخری نماز پڑھی ہوگی۔لوگ کہتے ہیں، امام کے سب دوست، رشتے دار اور انصار شہید ہوچکے تھے لیکن وہ پھر بھی اکیلے آخر تک شیروں کی طرح لڑتے رہے۔ بڑا کمال کیا۔

وہ بھی کمال تھا۔ لیکن مجھے تو یہ خیال آیا کہ اٹھارہ سال کے بیٹے کے سینے میں چُھرا اور چھ مہینے کے بیٹے کے گلے میں تیر پھنسا ہوا دیکھنے کے بعد اُس شخص نے شُکر کا سجدہ کس دل سے کیا ہوگا؟سجدے میں پڑے پڑے میرا دل بگڑگیا۔ میری وہ نماز ادھوری رہ گئی جو مجھے آتی بھی نہیں تھی۔جب میں کسی طرح سیدھا ہوکر بیٹھا تو میرے برابر میں موجود شخص نے بتایا کہ مجھ پتھر کی پتھرائی ہوئی آنکھوں نے خون کا ماتم کیا ہے۔ہاں، تو تم کچھ دیر پہلے کیا پوچھ رہی تھیں؟ میری آنکھیں ہر وقت لال کیوں رہتی ہیں؟

….

کربلا میں آپ کہیں سے بھی داخل ہوں، غازی عباس آپ کا استقبال کرتے ہیں

کربلا میں آپ کہیں سے بھی داخل ہوں، غازی عباس آپ کا استقبال کرتے ہیں۔اس بات کا ایک اور مطلب بھی ہے لیکن میں یہ بتارہا ہوں کہ دور سے آپ کو غازی کے روضے کا گنبد نظر آجائے گا۔ یہ امام حسین کے روضے کے گنبد سے کچھ مختلف ہے۔ بنانے والوں نے اسے کچھ ایسے بنایا ہے کہ اس میں کشش پیدا ہوگئی ہے۔

میری پھپھو نے کوئی چار دہائیاں قبل کچھ عرصہ، شاید کئی سال کربلا میں قیام کیا تھا۔ وہ بتاتی تھیں کہ رات کو وہ بین الحرمین بیٹھ جاتی تھیں۔ پھر انھیں گنبد سے آسمان تک روشنی کا ایک سلسلہ، ایک مینار دکھائی دیتا تھا۔پھپھو نے یہ بات اس وقت بتائی تھی جب میں اتنا چھوٹا تھا کہ اسکول میں بھی داخل نہیں ہوا تھا۔ قسم خدا کی، یہ بات آج سے پہلے کبھی یاد نہیں آئی۔ گنبد دیکھا تو پھپھو کے الفاظ کان میں گونجے۔

آج رات میں بین الحرمین جابیٹھا۔ گنبد پر نگاہیں جمادیں۔ جب تک آنکھیں خشک رہیں، کچھ نظر نہیں آیا۔ جیسے ہی ان میں اشک بھرے، روشنی کا ایک مینار آسمان تک بلند ہوگیا۔

بین الحرمین کا مطلب ہے، دو حرموں کے درمیان کی جگہ۔ کربلا میں ایک راستہ ایسا ہے کہ ایک طرف امام حسین کا حرم ہے، دوسری طرف حضرت عباس کا روضہ۔ درمیان میں اشک بار سوگ وار عزادار۔ یہ اصطلاح کربلا کے علاوہ میں نے صرف مدینے میں سنی ہے۔ ایک طرف پاک نبی کا روضہ، دوسری طرف پاک ہستیوں کی آرام گاہ جنت البقیع۔ میں نے وہاں بھی بہت گشت کیا ہے۔

گشت کرنے کا ایک اور مقام مکہ میں ہے۔ ایک طرف صفا، دوسری طرف مروہ۔ ان کے درمیان سات چکر لگانے کو سعی کہتے ہیں جو عمرے کا حصہ ہے۔ کربلا والے کہتے ہیں کہ حسین اور عباس کی قبروں کے درمیان ٹھیک اتنا ہی فاصلہ ہے جتنا صفا اور مروہ کے درمیان۔ میں نے فاصلہ تو نہیں ناپا لیکن کربلا میں بھی پیاس اتنی ہی پائی جتنی اسماعیل کو لگی ہوگی اور بے قراری اتنی ہی دیکھی جتنی صفا اور مروہ کے درمیان دوڑی ہوئی ماں کو ہوگی۔

میں نے کل لکھا تھا کہ کربلا پہنچ کر امام حسین کے روضے پر جانے سے پہلے میں ایک اور مقام پر گیا تھا۔ وہ مقام حضرت عباس کا روضہ ہے۔حضرت عباس امام حسین کے چھوٹے بھائی تھے۔ بی بی فاطمہ کے نہیں، بی بی ام البنین کے فرزند تھے اس لیے امام کو بھائی نہیں، ہمیشہ آقا کہا۔ ان کی بہادری اور وفا کی مثالیں دی جاتی ہیں۔

میں نے کسی کا قول پڑھا ہے کہ کربلا میں اگر بنو ہاشم کے چار دلیر ایک ساتھ ہوتے تو جنگ کا ظاہری نتیجہ کچھ اور ہوتا۔ حسین، محمد بن حنفیہ، مسلم بن عقیل اور عباس۔عباس کی جنگ دیکھ کر لوگوں کو علی کی جنگ یاد آجاتی تھی۔ لیکن امام حسین نے انھیں لڑنے نہیں دیا، لشکر کا علم دار بنادیا۔ لشکر کٹ گیا تو بھی حملے کی نہیں، صرف دفاع کی اجازت ملی۔ بچوں کی پیاس دیکھ کر مشکیزہ لے کر نکلے اور لڑتے لڑتے دریا تک پہنچ گئے لیکن پانی نہیں پیا۔ واپسی پر گھیر کے شہید کردیا گیا۔

کبھی سنا ہے کہ کوئی شخص پانی نہیں لایا لیکن اس کا نام سقا پڑگیا؟ آج آٹھ محرم ہے۔ کسی شیعہ گھر میں جھانکیں۔ ہرا لباس پہنے کوئی نہ کوئی بچہ سقا بنا ہوا نظر آئے گا۔ ہاتھ میں علم ہوگا، علم پر مشک ہوگی۔ مشک میں پانی نہیں ہوگا۔ مشک پیاسی ہوگی۔

دریا سے واپسی پر عباس کے ایک ہاتھ میں علم تھا، دوسرے میں مشک۔ جنگ کیسے کرتے۔ ایک ظالم نے تلوار سے وار کرکے ان کا دایاں بازو کاٹ دیا، دوسرے نے بایاں۔ کربلا میں ان دونوں مقامات کے نشان موجود ہے۔ ان کے درمیان زیادہ فاصلہ نہیں ہے۔ عباس کے روضے کے ایک طرف امام حسین کا روضہ ہے اور یہ مقامات دوسری طرف۔ اب وہاں بازار بن گیا ہے اور بہت سی دکانیں ہیں۔ تبرکات کی دکانیں۔ علم کی دکانیں۔ پرچموں کی دکانیں۔ مشکیزوں کی دکانیں۔ لوگ علم کا پھریرا خریدتے ہیں اور سامنے روضے میں جاکر جالی سے مس کرلیتے ہیں۔

کبھی کراچی میں امروہے والوں کا جلوس دیکھا ہے؟ جلوس تو خیر امام حسین کا ہوتا ہے لیکن امروہے والے اٹھاتے ہیں۔ یہ چھ محرم کو رضویہ میں، سات محرم کو انچولی میں اور آٹھ محرم کو نشترپارک سے برآمد ہوتا ہے۔ اس جلوس میں روایتی طور پر سڑک پر ماتم نہیں ہوتا۔ صرف حسین حسین کی صدائیں ہوتی ہیں اور علم ہوتے ہیں۔ پھریرے کے علم، تلواروں کے علم، مشکیزے کے علم، پھولوں سے لدے ہوئے علم۔

امروہے والے ایک خاص قسم کا علم بناتے ہیں جو مجھ کم علم نے کہیں اور نہیں دیکھا۔ اس میں ایک بڑی کمان کے دونوں جانب دو تلواریں لٹکائی جاتی ہیں۔ پھر اسے گلاب کے پھولوں اور موتیے کی لڑیوں سے سجادیا جاتا ہے۔ بعضے لوگ اتنا پھول چڑھادیتے ہیں کہ علم کو اٹھانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں رہتی۔

تین دہائیاں پہلے جب ہم خانیوال میں رہتے تھے تو میرے ماموں وہ علم سجاتے تھے۔ چھ محرم اور عاشور کو جلوس اٹھتا تھا تو ایک چوک میں علم کی سلامی دی جاتی تھی۔ کوئی جوان وہ بھاری علم لے کر بیچ میں آتا تھا اور اسے تیزی سے گردش دیتا تھا۔ تلواریں ہوا میں رقص کرتی تھیں۔ پھول اڑان بھرتے تھے۔ فضا معطر ہوجاتی تھی۔ میں حیرت سے اس نظارے میں گم ہوجاتا تھا۔ کچھ دیر کو کربلا پہنچ جاتا تھا۔

آج سچ مچ کربلا پہنچ گیا ہوں۔میں نے کراچی میں ویسی سلامی نہیں دیکھی۔ آج غازی کے روضے پر ایک علم دار کو پھریرے والے پرچم کی سلامی دیتے ہوئے دیکھا تو اس نظارے میں گم ہوگیا۔ کچھ دیر کو تین دہائیاں قبل خانیوال پہنچ گیا۔

حضرت عباس دریا کے کنارے شہید کیے گئے تھے۔ روایت ہے کہ جب امام حسین ان کے پاس پہنچے تو لبوں پر دم تھا۔ جاتے جاتے کہا کہ میری لاش یہیں رہنے دیں، خیموں کی طرف نہ لے جائیں۔ ان ننھے بچوں کا سامنا کیسے کروں جن کے لیے پانی نہیں لے جاسکا۔ حضرت عباس کی قبر وہیں بنائی گئی۔

آپ روضے میں داخل ہوں گے تو ضریح دکھائی دے گی۔ قبر اس کے نیچے زیر زمین ہے۔ اسے سرداب کہتے ہیں۔ دریا صدیوں پہلے راستہ بدل چکا۔ آج کربلا میں کوئی دریا نہیں۔ لیکن عباس کی قبر کے چاروں طرف پانی ہے۔ یہ پانی کہاں سے آتا ہے؟ یہ پانی اتنا شرمندہ کیوں ہے؟ یہ پانی اس قبر کا طواف کیوں کرتا رہتا ہے؟

…..

سفر کربلا اور رو ضہ امام حسین پر حاضری

خانیوال کے مرکزی امام بارگاہ میں ایک ضریح رکھی ہے جو میرے دادا ظفر حسن نے رام پور سے بنوائی تھی۔ شاید قیام پاکستان سے پہلے بنوائی ہوگی۔ بابا میرا ہاتھ تھام کے اس ضریح کے سامنے کھڑے ہوجاتے تھے۔ میرا بچپن تھا۔ میں ضریح کو تکتا رہتا تھا۔ بابا کہتے تھے کہ یہ امام حسین علیہ السلام کے روضے کی شبیہہ ہے۔

شاید تبھی امام حسین علیہ السلام سے محبت ہوگئی تھی۔آج کربلا پہنچ گیا ہوں۔ رات کا جاگا ہوا تھا۔ دوپہر کا کھانا نہیں کھایا تھا۔ لیکن اسی عالم میں حرم کی طرف چل دیا۔ لوگ کہتے ہیں کہ حسین علیہ السلام کا لشکر تین دن تک بھوکا پیاسا رہا۔ سات محرم کو پانی بند ہوگیا تھا۔ آج سات محرم ہی تو ہے۔

امام حسین علیہ السلام کے روضے پر جانے سے پہلے ایک اور جگہ گیا۔ وہ کون سی جگہ ہے، یہ کل بتاؤں گا۔ وہاں سے امام کے روضے پر پہنچا۔ بیٹے کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا۔میرا بیٹا اتنا چھوٹا بھی نہیں کہ چھوٹی چھوٹی باتیں سمجھانی پڑیں اور اتنا بڑا بھی نہیں کہ بڑی بڑی باتیں سمجھ جائے۔ لیکن آج میں نے اسے ایک بڑی بات بتائی۔ جب بڑا ہوجائے گا تو سمجھ جائے گا۔

حرم کے دروازے سے امام کی قبر کی جالی تک، جسے ضریح کہا جاتا ہے، میں نے کہا کہ تم بڑے ہوکر جی چاہے تو سنی بن جانا،جی چاہے تو شیعہ، یا مرضی ہو تو کچھ بھی نہیں۔ یہ تمھارا اپنا فیصلہ ہونا چاہیے۔تم کسی بھی مذہب کا انتخاب کرنا لیکن یاد رکھنا کہ جس ہستی کے نام پر تمھارا نام رکھا ہے، اس کا دامن مت چھوڑنا۔​

پھر میں نے گنبد کے نیچے دونوں حُسینوں کو گواہ بناکر کہا کہ میں نے دونوں کو ملادیا۔ آگے اُس حسین علیہ السلام کی مرضی کہ دوبارہ بلاتا ہے یا نہیں اور اِس حسین کی مرضی کہ لوٹ کے آتا ہے یا نہیں۔نجف سے کربلا آتے ہیں تو راستے میں جگہ جگہ خیمے لگے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ زائرین کے مہمان خانے ہیں۔ عاشور پر اور چہلم پر، جسے یہاں اربعین کہا جاتا ہے، لوگ نجف سے پیدل چلتے ہیں اور تین دن سفر کرکے کربلا پہنچتے ہیں۔ راستے میں خیمے لگاکر بیٹھے مقامی افراد انھیں مہمان بناتے ہیں۔ کھانا کھلاتے ہیں۔ ٹھنڈا پانی پلاتے ہیں۔ انھیں آرام دہ بستر فراہم کرتے ہیں۔

مقتل میں لکھا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد ان کے اسیر خاندان کو اسے راستے سے کوفہ لے جایا گیا۔ کوئی مہمان خانہ نہیں تھا۔ کسی نے کھانا پانی نہیں پوچھا۔ لوگ تماشا سمجھ کر راستے میں کھڑے ہوجاتے تھے اور پتھر مارتے تھے۔

کربلا میں قیامت کا رش ہے۔ عراق بھر سے اور پوری دنیا سے حسین علیہ السلام کے ماننے والے آئے ہوئے ہیں۔ بیرون ملک سے آنے والے ہوٹلوں کا انتظام کرکے پہنچے ہیں۔ مقامی لوگ کسی انتظام کے بغیر آجاتے ہیں۔ کوئی قیام گاہ مل گئی تو اچھا ہے، نہیں تو زمین پر بیٹھ جاتے ہیں۔ کھلانے والے لنگر بہت، پلانے والی سبیلیں بہت۔ گرمی ہے تو درخت کے نیچے لیٹ کر سوگئے۔ سردی ہے تو حرم کی جانب سے ہزاروں کمبل تقسیم کیے جاتے ہیں۔ لیکن لاکھوں کے مجمع میں ہزاروں سے کیا ہوتا ہے۔

پچھلی بار آیا تھا تو سردی تھی۔ اس بار آتے ہی بارش دیکھنے کو ملی۔ پہلے موسلادھار بارش۔ پھر موسلادھار جلوس۔ ایک کے بعد ایک جلوس۔ طرح طرح کے جلوس۔میں نے کراچی میں عاشور پر سنی بھائیوں کے جلوس دیکھے ہیں۔ ان میں بچے لکڑی کی تلواریں چلاتے ہیں۔ بعض اہل تشیع اعتراض کرتے ہیں کہ غم کے دن یوں نہیں کرنا چاہیے۔​

کربلا آکر دیکھیں، یہ سب یہاں ہوتا ہے۔ شاید یہ روایت کربلا ہی سے ہمارے ہاں پہنچی ہے۔ میں نے آج کئی جلوس دیکھے، عراقی قبیلوں، مقامی تنظیموں کے جلوس، جن میں کچھ نوجوان لشکر حسین کے نوجوانوں کا لباس پہنچے ہوئے تھے۔ ان کے ہاتھوں میں تلوار تھی، زبان پر رجز تھا۔ ایک کو گھوڑے پر بھی سوار دیکھا۔ ہر جلوس کے آگے اسکاؤٹ کے بجائے ملٹری بینڈ۔ نقارہ بج رہا ہے، اسلحے کی جھنکار ہے۔ پہلے آپ کو یاد آئے گا کہ یہ کربلا ہے۔ پھر یاد آئے گا کہ محرم ہے۔ تاریخ آپ کو مجسم دکھائی دے گی۔ کچھ دیر کے لیے آپ چودہ سو سال پیچھے پہنچ جائیں گے۔

امام حسین علیہ السلام کے روضے پر ایک گورا نظر آیا۔ مجھے بہت تعجب ہوا۔ وہ کچھ دیر ہاتھ باندھ کر خاموش کھڑا رہا۔ پھر باہر نکل آیا۔

میں بھی باہر نکلا۔ سوچا کہ اپنی انگریزی کا امتحان لینا چاہیے۔ اس سے پوچھا، کہاں سے آئے ہو۔ اس نے بتایا، امریکا کا ہوں۔ میں نے سوال کیا، کوئی پروڈیوسر ہو؟ ڈاکومنٹری بنانا چاہتے ہو؟ اس نے جواب دیا، میں فنانشل اینالسٹ ہوں۔ میرا فلم ولم سے کوئی تعلق نہیں۔ تعطیلات پر مشرق وسطیٰ گھوم رہا ہوں۔

میں نے کہا، تعطیلات پر ہو تو دبئی عمان کیوں نہیں گئے؟ امام حسین علیہ السلام کے روضے پر کیسے آگئے؟وہ امریکی بھڑک گیا۔ کہنے لگا، تم واشنگٹن آتے ہو تو کیا ہم پوچھتے ہیں کہ ابراہام لنکن کے مقبرے پر کیسے آگئے؟ لوگ نجات دہندوں کو سلام کرنے، حاضری دینے آتے ہی ہیں۔ میں نے امام بارگاہوں میں لکھا دیکھا تھا، ان الحسین مصباح الھدیٰ سفینۃ النجاۃ۔ اس کا مطلب سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ اس غیر مسلم سے گفتگو کرکے گرہ کھل گئی۔

….

کربلا میں سویم امام حسین

پاکستان میں امام حسین کا سوئم 12 محرم کو منالیا جاتا ہے۔ کربلا میں امام کا سوئم 13 محرم کو ہوتا ہے۔ امام حسین اور ان کے رفقا کو قتل کرنے کے بعد تمام شہیدوں کے سر کاٹ لیے گئے تھے۔ پھر لاشوں پر گھوڑے دوڑائے گئے۔ کوئی جسم سلامت نہیں بچا۔ اہل بیت کے جو لوگ بچے، انھیں قیدی بنالیا گیا۔ اب لاشوں کو کون دفن کرتا۔

مقامی قبیلوں کے لوگ امام حسین کے لشکر میں شامل اپنوں کی لاشیں لے گئے۔ امام عالی مقام اور اہل بیت کے شہیدوں کی لاشیں 3 دن بے گور و کفن میدان میں پڑی رہیں۔ کوفے میں ایک قبیلہ بنی اسد آباد تھا۔ حبیب ابن مظاہر کا تعلق بنو اسد ہی سے تھا۔ حاکم ظالم تھا۔ مرد ہچکچاہٹ کا شکار تھے۔ بنو اسد کی خواتین باہر نکلیں اور انھوں نے 13 محرم کو کفن دفن کا انتظام کیا۔ بعد میں مرد بھی آئے۔

آج کربلا میں 13 محرم ہے۔ اس دن بنو اسد کی خواتین کا جلوس آتا ہے۔ آج امام حسین کا روضہ خواتین کے حوالے۔ آج خواتین آگے ہیں، مرد پیچھے ہیں۔

کربلا میں عاشور کے بعد رش چھٹ گیا تھا۔ میں نے ایک صاحب سے کہا، اس بار بہت لوگ آئے۔ انھوں نے کہا، نہیں اس بار کم تھے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 70 لاکھ عزادار آئے۔ ان میں سے 30 لاکھ بین الحرمین دوڑے۔ میرے ہاتھ میں کیلکولیٹر تھا۔ میں نے روضہ حسین کے تمام دروازے دیکھے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ کسی دروازے سے ایک وقت میں پانچ سے زیادہ آدمی نہیں نکل سکتے۔ ایک سیکنڈ میں پانچ افراد نکلیں تو 30 لاکھ افراد کے گزرنے میں 166 گھنٹے لگیں گے۔ یہ پورا جلوس دو تین گھنٹوں میں کیسے گزر جاتا ہے؟

عاشور پر مقامی عراقی اتنے نہیں آئے، جتنے چہلم امام پر آتے ہیں۔ زیارت کے ہر مقام کی کوئی خاص تاریخ ہے۔ اسے یہاں مخصوصی کہتے ہیں۔ چہلم، جسے اربعین کہتے ہیں، کربلا کی مخصوصی ہے۔ میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ 2013 میں سوا دو کروڑ اور گزشتہ سال ڈھائی کروڑ عزادار آئے تھے۔ میں 70 لاکھ افراد ایک مقام پر دیکھ کر دم بخود رہ گیا۔ اس کے تین گنا افراد یہاں کیسے سماجاتے ہیں؟

میں دو دن پہلے یہ لکھ بیٹھا کہ حبیب ابن مظاہر کی قبر پر اپنی انگلی سے کسی کا نام لکھ دیں تو کربلا کا بلاوا آجاتا ہے۔ اس کے بعد بہت سے دوستوں نے فرمائش کی کہ ان کا نام وہاں لکھ دوں۔ نام بہت زیادہ تھے۔ وہاں اتنا موقع نہیں ملتا۔ میں نے سب نام ایک کاغذ پر لکھے اور عریضے کی طرح ضریح میں ڈال دیے۔ اب آپ جانیں اور حبیب ابن مظاہر۔
کسی کا بلاوا نہ آئے تو مجھے معاف کردے۔ کسی کا بلاوا آجائے تو پھر اس نے ادھار چکانا ہے۔ یہاں میرا نام لکھنا ہے۔

جس شہر، جس بستی کے نام کے ساتھ مقدس کا لاحقہ لگ جائے، اس سے کچھ معجزے، کچھ کرامات منسوب ہوجاتی ہیں۔ ماحول کا اثر بھی ہوتا ہے، زائرین بھی خاص کیفیت کا شکار ہوتے ہیں۔سلمان بھائی کہتے ہیں، کربلائے معلیٰ انتہائی مقدس ہے، یہاں سوچ سمجھ کر دعا مانگنی چاہیے۔ بولنا بھی سوچ سمجھ کر چاہیے۔ منہ سے نکلی ہوئی بات پوری ہوجاتی ہے۔ ابھی آپ نے کسی دوست کو یاد کیا اور وہ سامنے آگیا۔ ابھی آپ نے کسی چیز کی خواہش کی اور وہ دسترس میں آگئی۔ دنیا بھر کے دکان داروں کی طرح یہاں کے فروش کنندگان بھی اپنی چیزیں بیچنے کے لیے جھوٹ بولتے ہیں، واللہ خسارہ واللہ خسارہ کہتے ہیں۔ انھیں واقعی کاروبار میں خسارہ ہوجاتا ہے۔

سلمان بھائی نے یہ بھی سمجھایا کہ اگر کوئی کرشمہ، کوئی کرامات دیکھو تو کسی سے ذکر مت کرو۔ اس کا نقصان بھی بتایا۔ میرا خیال ہے کہ بیشتر لوگ کچھ مانگنے کربلا نہیں آتے۔ بیشتر لوگ کوئی کرشمہ دیکھنے کربلا نہیں آتے۔ بس عشق حسین میں چلے آتے ہیں۔ کیا عشق سے بڑا بھی کوئی کرشمہ ہے؟

پاکستان میں مذہبی تہواروں اور غم کے ایام میں تعطیل مل جاتی ہے۔ لوگ چھٹی کرلیتے ہیں۔ یہاں عاشور کے دن دکانیں کھلی دیکھیں۔ لنگر اور سبیلیں بہت تھیں لیکن کھانے پینے کی دکانیں بھی کھلی تھیں۔ کپڑوں کی دکانیں کھلی تھیں۔ جلوس گزررہا ہے تو دروازہ بند کردیا۔ جلوس گزر گیا تو کھول دیا۔ ہمارے ہوٹل کے سامنے ایک حجام کی دکان ہے۔ وہ عاشور کے دن کھلی تھی۔ جلوس آیا تو وہ روتا ہوا باہر نکل آیا۔ سینے پر ہاتھ مار کے پرسہ دیا۔ جلوس گزر گیا تو اندر جاکر بال کاٹنے لگا۔ یہ لوگ غم حسین کسی خاص دن، کسی خاص وقت نہیں مناتے۔ غم حسین ان کی زندگی کا حصہ بن گیا ہے۔

میں پچھلی بار آیا تھا تو شارع سدرہ کے ہوٹل المہدی میں قیام تھا۔ ہوٹل تھری اسٹار، فور اسٹار، فائیو اسٹار ہوتے ہیں۔ یہ مائنس اسٹارز میں سے کوئی ہوٹل تھا۔ شکستہ استقبالیہ۔ لابی میں چار آدمی نہیں بیٹھ سکتے تھے۔ ہمیں جو کمرا ملا اس میں ایک بستر تھا اور ہم تین آدمی۔ ہمارے کمرے میں ایک نوجوان عالم تھے جو اب کراچی کے مشہور ذاکر ہیں۔ ہم نے بااصرار انھیں بیڈ پر سلایا۔ میں اور کینیڈا کا ایک دوست زمین پر سوئے۔ باتھ روم میں سمٹ کر نہانا پڑتا تھا۔

اس بار ہوٹل اسرا و المعراج میں قیام ہے۔ یہ شاہراہ جمہوریہ کی امام علی روڈ پر ہے۔ اچھا ہوٹل ہے، کمرا چھوٹا سہی لیکن چار بیڈ ہیں۔ ایئر کنڈیشنر، ٹی وی اور فریج بھی ہے۔ باتھ روم کشادہ اور گرم پانی دستیاب۔ وائی فائی کا معقول انتظام ہے۔ البتہ سات آٹھ منزلہ ہوٹل میں لفٹ فقط ایک۔ چار افراد سے زیادہ کی گنجائش نہیں۔ لیکن ہماری قوم نے اسے گدھا گاڑی بنالیا ہے۔ ایک وقت چھاپا مارا گیا تو بارہ زائرین نکلے۔ ہوٹل والے بار بار سمجھاتے ہیں کہ لفٹ ٹھیک کرنے والا موجود نہیں۔ لفٹ بند ہوگئی تو ہم ذمے دار نہیں۔ زائرین امام حسین کے روضے کی طرف منہ کرکے سلام کرتے ہیں اور لفٹ میں چڑھ جاتے ہیں۔

کربلا میں بھی بجلی چلی جاتی ہے۔ آج بھی دو بار جاچکی ہے۔ لفٹ میں پھنسے ہوئے لوگ نعرہ حیدری لگاتے ہیں۔ باہر کھڑے لوگ یاعلی چلاتے ہیں۔ ریسپشنسٹ بھاگ کر جنریٹر چلاتا ہے۔ اس کا نام کلب علی ہے۔

کربلا سے سامرہ کا سفر

کچھ دوست کہتے ہیں، امام کے نام کے ساتھ علیہ السلام لکھو، کچھ دوست کہتے ہیں رضی اللہ تعالیٰ عنہ لکھو۔ کچھ دوست کہتے ہیں مزار لکھو، کچھ دوست کہتے ہیں روضہ لکھو۔ کچھ دوست کہتے ہیں قتل نہیں شہید لکھو۔ ہم بھی عجیب لوگ ہیں۔ الفاظ کو بھی شیعہ سنی بنادیا ہے۔ دوستو جب میں امام کا نام لکھوں تو اپنے عقیدے کے مطابق دل میں رضی اللہ تعالیٰ عنہ یا علیہ السلام کہہ لیا کرو۔ میرا دل ہائے حسین کی صدا لگاتا ہے تو ساتھ القابات لگانا بھول جاتا ہے۔

کربلا سے سو کلومیٹر دور بغداد ہے۔ مزید سو کلومیٹر آگے جائیں تو بلد ہے۔ مزید پچاس ساٹھ کلومیٹر دور سامرہ ہے۔ اس سڑک کے دائیں طرف کا پورا عراق، حکومت کے کنٹرول میں ہے۔ بائیں طرف بعقوبہ اور رمادی ہیں جن میں حکومت کی رٹ نہیں۔ اس سے آگے کے سب علاقے داعش کے قابو میں ہیں۔ سامرہ سے آگے جائیں تو بہت سے علاقے کرد باغیوں کے قبضے میں ہیں۔
کل میں نے زندگی اور موت کی اس شاہراہ پر سفر کیا۔ آپ کسی علاقے کے بارے میں نہ جانتے ہوں کہ وہاں خطرہ ہے تو کوئی خوف نہیں۔ اگر آپ جانتے ہیں کہ راستے میں خطرہ ہے تو پھر خطرہ بھی ہے اور خوف بھی ہے۔ میرے اندر کا سیاح ڈر گیا۔ میرے اندر کا زائر غیر جانب دار ہوگیا۔ میرے اندر کا صحافی کود کر باہر آیا۔ کہنے لگا، چلو کوئی کہانی ڈھونڈیں۔ سامرہ وہی شہر ہے ناں، سامری جادوگر والا؟

عراق جنگ سے کتنا متاثر ہوا ہے، یہ جاننے کے لیے صرف بغداد سامرہ شاہراہ پر سفر کرلیں۔ جگہ جگہ لڑائی کے آثار۔ گاڑیاں جلی ہوئی۔ عمارتیں ایسے تباہ جیسے زلزلے سے گری ہوں۔ ہر دو کلومیٹر پر فوجی چیک پوسٹ۔ ہر چار قدم پر عراق کا پرچم۔ چیک پوسٹوں کی دیواروں پر جنگی نعرے۔ کہیں کہیں فوج کے ان جوانوں کی تصویریں جو جنگ میں کام آگئے۔

میں ایک بار کربلا سے مشرقی سرحد تک بائی روڈ سفر کرچکا ہوں۔ سڑک کے دونوں طرف تاحد نگاہ میدان تھے۔ اتنی مٹی کہ اس کا اندازہ لگانا مشکل۔ قریب ترین بستی بھی نظر سے اوجھل۔ چرند پرند کا کیا کام۔ بغداد سامرہ شاہراہ کے ایک طرف میدان، دوسری طرف جنگل۔ کہیں کہیں چند گھروں کی بستی۔ جنگل میں کھجور کے درخت اور اونچی اونچی جھاڑیاں۔ کوئی پرندہ بھی نظر نہیں آیا۔ فضا میں بارود کی بُو ہو، زمن پر خون بہہ رہا ہو، آسمان پر گولیاں ناچ رہی ہوں تو مہاجر پرندے تک راستے بدل لیتے ہیں۔

عراق کے شر بلد کا نام انگریزی میں لکھیں تو انگریزی والا بلڈ ذہن میں آتا ہے۔ اس بلد میں بھی بہت خون بہا ہے۔ عراق جنگ کے دوران بھی اور اس کے بعد بھی۔ گزشتہ سال یہاں کبھی ایک گروپ کا قبضہ ہوا، کبھی دوسرے کا۔ جسے موقع ملا، اس نے مخالفین کا بلاامتیاز قتل عام کیا۔ بلد فوجی شہر ہے، یعنی چھاؤنی۔ یہاں کتنی فوج ہے، کتنے ٹینک ہیں، یہ مجھے معلوم نہیں۔ اتنا بتاسکتا ہوں کہ یہاں سید محمد کا روضہ ہے۔

سید محمد اہل تشیع کے دسویں امام علی الہادی کے فرزند تھے۔ لوگ کہتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی میں بھی صاحب کرامات تھے اور انتقال کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ لوگ ان کے روضے پر آکر دعا مانگتے ہیں اور پوری ہوجاتی ہے۔ دنیا بھر سے بے اولاد لوگ یہاں آتے ہیں اور دعا مانگتے ہیں۔ میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ دعا خدا ہی سے مانگی جاتی ہے۔ لیکن جیسے ہم دنیادار لوگوں کو اپنی درخواستیں لے کر سرکاری دفتر جانا پڑتا ہے، بہت سے لوگ اپنی درخواستیں لے کر پاک مقامات پر حاضری دیتے ہیں۔

میں یہ بتارہا تھا کہ بے اولاد جوڑے سید محمد کے روضے پر آتے ہیں اور پھر ان کی مراد پوری جاتی ہے۔ دوسری دعائیں بھی قبول ہوتی ہیں۔ منت پوری ہونے کے بعد سید محمد کے روضے پر ایک گوسفند یعنی بکرے یا بھیڑ کی قربانی کی جاتی ہے۔ میں نے دیکھا کہ روضے کے اطراف بکروں، دنبوں اور بھیڑوں کے گلے ہیں۔ میں نے پاکستان ایران ہی نہیں، امریکا کینیڈا اور انگلینڈ سے آئے ہوئے زائرین کو بھی دیکھا۔ یاد رہے کہ یہ علاقہ وار زون میں ہے۔

زائرین نے گلے بانوں سے بھاؤ تاؤ کیا۔ کسی نے ایک جانور کے سو ڈالر مانگے، کسی نے ڈیڑھ سو۔ میرے سامنے ایک صاحب نے ڈھائی سو ڈالر دے کر تین دنبوں کا سودا کیا۔ اب کیا کریں؟ دنبہ کیسے قربان کریں؟ کیسے اس کا گوشت بنائیں؟ فکر نہ کریں، روضے کے پہلو میں قصاب موجود ہیں۔ عام قصاب نہیں، پھرتیلے کاری گر۔ آپ روضے میں جائیں، سلام کریں، زیارت کریں، نماز پڑھیں۔ آدھے گھنٹے میں آئیں گے تو گوشت تیار ملے گا۔ لوگ آدھا گوشت وہیں تقسیم کرتے ہیں، کیونکہ یہ شرط ہے، باقی آدھا گھر لے جاتے ہیں۔ مقامی لوگ کہتے ہیں کہ یہ گوشت پکاکر بیمار کو کھلائیں تو شفا ملے گی۔

میرا خیال تھا کہ ڈھائی سو کلومیٹر کی شاہراہ پر فوجیوں کے سوا کوئی نظر نہیں آئے گا۔ صبح کو چلے تو کئی مقامات پر بچے اسکول جاتے دکھائی دیے۔ اس کا مطلب ہے کہ لوگ اس جنگ زدہ علاقے میں رہتے ہیں۔ امن کی امید پر ہی جیتے ہوں گے۔ نہ جانے وہ کس طرح کاروبار زندگی چلاتے ہیں۔ وہ بچے مجھے نہیں دیکھ رہے تھے لیکن میں نے گاڑی میں بیٹھے بیٹھے ہاتھ سر پر لے جاکر انھیں سلام کیا۔ ان کی سلامتی اور اعلیٰ تعلیم کے لیے دعا مانگی۔ کاش ان بچوں کو طویل عمر ملے۔ کاش ان کی زندگی میں صرف امن رہے۔ یہ بچے اسکول جائیں گے، اعلیٰ تعلیم حاصل کریں گے تو امن ممکن بنائیں گے۔

شام کو واپسی ہوئی تو میں سوچ رہا تھا کہ اس بار کوئی بچہ نظر نہیں آئے گا۔ لیکن وہ بچے سڑک کے دونوں جانب فٹبال کھیل رہے تھے۔ فٹبال غریبوں کا کھیل ہے۔ ایک گیند سے بائیس بچے کھیل سکتے ہیں۔ فٹبال کی عالمی تنظیم فیفا کو یہاں آکر دیکھنا چاہیے۔ ان بچوں کے لیے کچھ کرنا چاہیے۔ میرے پاس کیمرا ہوتا تو ٹھہر کر ان بچوں کی وڈیو بناتا۔ کوئی ہمت والا پروڈیوسر پڑھے تو ان بچوں پر ڈاکومنٹری فلم بنائے۔

کربلا میں گزرے چند دن

ایک دوست نے لکھا ہے کہ میں شیعوں کے ساتویں امام، شیعوں کے گیارہویں امام کیا کرتا رہتا ہوں۔ یہ تمام مسلمانوں کے لیے مقدس ہستیاں ہیں۔ ان کے نام مدینے کی مسجد میں بھی لکھے ہوئے ہیں۔ بالکل درست۔ میں نے مدینے کی مسجد میں سب نام ڈھونڈ ڈھونڈ کے دیکھے ہیں۔ یہ اہل بیت پاک سے تعلق رکھنے والے امام ہیں۔ شیعہ ان اماموں سے بہت محبت کرتے ہیں لیکن انھیں شمار کرکے مانتے ہیں۔ اہل سنت کا طریقہ زیادہ اچھا ہے۔ وہ آئمہ اہل بیت کو بے حد، بے شمار مانتے ہیں۔ میں اور بہت سے معاملات کی طرح اس معاملے میں بھی سنی ہوں۔ ویسے میرا خیال ہے کہ اثنا عشری سلسلے کے لوگوں نے اماموں کی درجہ بندی نہیں کی، انھیں ان کے شجرے کی ترتیب سے یاد کرتے ہیں۔

عاشورہ گزر گیا، امام کا سوئم ہوچکا، اب کیا باقی رہ گیا؟ وطن واپس جائیں گے تو لوگ ملنے آئیں گے۔ انھیں تبرک نہیں دیں گے؟ کچھ پیسے جیب میں ہیں؟ آئیں بازار چلتے ہیں۔ کربلا دنیا کا واحد مقام ہے جہاں سے لوگ کچھ لانے کی فرمائش نہیں کرتے، سوائے مٹی کے۔ وجہ وہی کہ یہاں کی مٹی خاک شفا کہلاتی ہے۔ کچھ لوگ سونے کے بھاؤ ملنے والی دوا کھاکر صحت مند نہیں ہوتے لیکن یہ خاک چاٹ کر اچھے ہوجاتے ہیں۔ سب اعتقاد کی باتیں ہیں۔

خاک شفا بازار میں ملتی تو ضرور خرید لیتے۔ بازار میں ایک وہی دستیاب نہیں۔ اور سب کچھ ملتا ہے۔ حضرت عباس کے روضے کے سامنے شارع علقمے اور امام حسین کے روضے کے سامنے شارع سدرہ میں بہت سی دکانیں ہیں، جن میں تبرکات ملتے ہیں۔ تسبیحیں، سجدہ گاہیں، جائے نماز، نگینے، انگوٹھیاں، علم کے پنجے، ضریح سے مس کرکے لے جانے کو سبز کپڑے اور طغرے۔ اماموں کی شبیہوں والی چادریں بھی دستیاب ہیں۔

یہ تسبیح کتنے کی ہے؟ پلاسٹک کی تسبیح چار سو دینار، مٹی کی تسبیح ڈھائی ہزار دینار، عقیق کی تسبیح آٹھ ہزار دینار، چھوٹی سجدہ گاہ ایک ہزار دینار کی چالیس عدد۔ بڑی سجدہ گاہ دو ہزار کی چالیس عدد۔ لیکن آغا، آپ زیادہ شاپنگ کریں گے تو کچھ رعایت بھی ملے گی۔ کچھ چیزیں مفت بھی مل سکتی ہیں۔

عراقی دینار کی قدر کم ہے لیکن عراق مہنگا ملک ہے۔ پاکستان کے ایک ہزار روپے کے بدلے گیارہ ہزار دینار مل جاتے ہیں۔ سو ڈالر کے بدلے ایک لاکھ بیس ہزار دینار۔

عقیدت مند روضوں پر حاضری دیتے ہیں تو چڑھاوے بھی کرتے ہیں۔ جی چاہے تو ضریح میں پیسے ڈال دیں، جی چاہے تو اس کام کے لیے بنے ہوئے دفتر میں دے جائیں۔ دفتر میں پیسے دینے سے رسید بھی ملتی ہے اور کوئی تحفہ بھی۔ عموما سبز یا سیاہ کپڑا۔ پچھلی بار میں آیا تھا تو حضرت عباس کے روضے سے ایک قرآن پاک تحفے میں ملا تھا۔ میں وہ قرضہ تو نہیں اتار سکتا لیکن اس بار دفتر میں جاکر کچھ پیسے دیے۔ خدام نے مجھے رسید کے ساتھ ضریح کی ایک خوب صورت تصویر دی۔

کربلا میں ہمارے ہوٹل کے کمرے میں جو پنکھا لگا ہے، اس پر لکھا ہے جی ایف سی۔ زائرین کے علاوہ کوئی ایک شے تو پاکستانی دکھائی دی۔ ایئر کنڈیشنر، فریج، ٹی وی اللہ جانے کن ملکوں کے بنے ہوئے ہیں۔ میں نے ان کمپنیوں کے نام پہلے کبھی نہیں سنے۔ میرے بیٹے کو گاڑیوں کے نام یاد رہتے ہیں۔ وہ بتاتا رہتا ہے کہ یہاں شیورلیٹ، ہائنڈائی اور کیا گاڑیاں زیادہ ہیں، ٹویوٹا اور ہونڈا کم۔ سائیکلیں اور موٹرسائیکلیں بہت ہیں اور کم عمر لڑکے اسکوٹی چلاتے پھرتے ہیں۔

ہمارے ہاں فقہ جعفریہ کے لوگ فجر، ظہرین اور مغربین کی نمازیں پڑھتے ہیں۔ کربلا میں ان کے نام الصبح، الظہرین اور العشائین ہیں۔ الصبح کا وقت آج کل 4 بجکر 50 منٹ، الظہرین کا دن 11 بجکر 50 منٹ اور العشائین کا شام 5 بجکر 30 منٹ ہے۔ یہ میں اپنے ہوٹل کی لابی میں لگا پرچہ دیکھ کر پڑھ رہا ہوں۔ ہوٹل کے دروازے پر بھی ایک اعلامیہ دو زبانوں میں چپساں ہے۔ اخی الزائر الکریم، زیارۃ مقبول، لا توجد غرف فارغۃ، سمجھ آیا؟ فارسی میں پڑھیں، زائر گرامی، زیارت مقبول، اتاق خالی موجود نیست یعنی اے زائر محترم، خدا تعالیٰ آپ کی زیارت قبول فرمائے، آپ کی جھولی بھرے لیکن ہمارے سارے کمرے بھی بھرے ہوئے ہیں۔ کوئی کمرا خالی نہیں۔ اندر گھس کر ریسپشنسٹ کو زحمت نہ دیں۔ وہ اپنے مہمانوں کے الٹے سیدھے سوالوں سے ویسے ہی پریشان بیٹھا ہے۔ آپ کے سوال سن کر اس کا پارہ چڑھ سکتا ہے۔

آج ایک دوست سے ملنے گیا۔ صدر دروازے سے داخل ہوتے ہوئے ہوٹل کا نام پڑھا، فندق زین البارودی۔ گھبرا کے ٹھہر گیا۔ دوست کو فون کرکے باہر بلالیا۔ اس سے چائے پینے کے بجائے اپنے پلے سے قہوہ پلایا۔ ڈر لگا کہ بارودی ہوٹل دھماکے سے نہ پھٹ جائے۔ پتا نہیں عربی میں بارودی کا کیا مطلب ہے۔ ہمارے ہاں کوئی اپنے ہوٹل کا نام بارودی رکھ لے تو سیکورٹی ادارے پہلی فرصت میں اسے ڈی فیوز اور اس کے مالک کو فیوز کردیں گے۔

ایک نماز کربلا میں – مبشر علی زیدی

میں نے حرمِ امام حسین کے ایک طاقچے سے قرآن پاک اٹھایا اور آخری صفحات کھولے۔ جو سورۃ سامنے آئی، اُس کا ایک ہی لفظ پڑھ کر دل لرزنے لگا۔ والعصر- میں مصلے پر کھڑا ہوا اور نمازِ عصر کی نیت باندھ لی۔ مجھے صبحِ عاشور کا خیال آیا جب کربلا میں تیر چلنا شروع ہوگئے تھے۔ امام حسین کے انصار انھیں گھیر کے کھڑے ہوگئے تاکہ وہ نماز پڑھ لیں۔ وہ نماز تیروں کے سائے میں ادا کی گئی۔
میں نے نماز توڑ دی۔ وہ نماز قبول نہیں ہوتی جس میں خدا کے سوا کسی کا خیال آجائے۔

میں نے پھر نیت کے الفاظ دوہرائے۔ الحمد شریف میں پڑھا، اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ۔ مجھے حُر کا خیال آیا جو شبِ عاشور تک سیدھے راستے پر نہیں تھا۔ لیکن پھر دل پلٹ گیا۔ اسے سیدھا راستہ مل گیا۔ وہ شخص جس نے امام کے گھوڑے کی باگ پکڑ کر ان کا راستہ روکا تھا، وہ رسی سے ہاتھ باندھ کر ان خدمت میں پیش ہوگیا۔ پھر جان دینے والوں میں آگے آگے رہا۔ اب پتا چلا کہ امام نے ایک رات کی مہلت اپنے لیے نہیں، حُر کے لیے مانگی تھی۔

میں نے نماز ادھوری چھوڑ دی۔ حُر صراط المستقیم پر آگیا تھا لیکن میرا ذہن کیوں بھٹک گیا۔میں نے دوبارہ نیت کرلی۔ الحمد شریف پوری پڑھ لی۔ خیال آیا کہ یہ تو سورہ فاتحہ ہے۔ یہ تو شہیدوں کے سرہانے پڑھی جاتی ہے۔ وہ سامنے شہید حبیب ابن مظاہر کی قبر ہے۔ پچھتر سال کا بوڑھا میدانِ جنگ میں کیسے اترا ہوگا؟ تلوار کیسے سنبھالی ہوگی؟ زخم کہاں کھائے ہوں گے؟

مجھے پھر نماز چھوڑنا پڑی۔ میں قبر پرست نہیں ہوں۔ میں خدا پرست ہوں۔میں نے نئے سرے سے نیت باندھ لی۔ الحمد شریف ختم کرلی۔ سورہ کوثر پڑھنے لگا۔ مجھے خیال آیا کہ امام حسین کے انصار اور اہلِ بیت تین دن کے پیاسے تھے۔ وہ شہید ہوکر جنت پہنچے ہوں گے تو امام حسن حوضِ کوثر کے جام لیے کھڑے ہوں گے۔ وہ بھی تو جنت کے سرداروں میں ایک سردار ہیں۔ وہ انصار کی پیاس بجھاتے ہوں گے اور پوچھتے جاتے ہوں گے، میرا علی اصغر کس حال میں ہے؟ میرا علی اکبر کس عالم میں ہے؟ قاسم اُن کی ڈھال بنا یا نہیں؟ وہ جنگ کرنے آرہا ہے یا نہیں؟

میں کھڑا کا کھڑا رہ گیا۔ سورہ کوثر کے معنی پر غور کرتا رہ گیا۔میں نے ایک بار پھر نیت کی اور پوری توجہ سے نماز پڑھنے لگا۔ الحمد پڑھی، سورہ کوثر پڑھی۔ پھر اللہ اکبر کہہ کر رکوع میں چلا گیا۔ دونوں ہاتھ گھٹنوں پر رکھ لیے۔ اچانک عباس کا خیال آیا۔ اُن کے دونوں ہاتھ ظالموں نے قطع کردیے تھے۔ ابھی حرم میں آتے ہوئے شباب قطع کفین کی سبیل سے پانی پیا تھا۔ شباب قطع کفین یعنی وہ جوان جس کے بازو کاٹ دیے گئے؟

میں نے سجدہ نہیں کیا۔ نماز روک دی۔ اپنے سر پر تھپڑ مارے۔ خدا تعالیٰ سے معافی کا طلب گار ہوا۔ خود سے وعدہ کیا کہ اب پورے خشوع و خضوع سے نماز پڑھوں گا۔میں نے عصر کی نماز کی نیت ٹھہر ٹھہر کر کی۔ خود کو متوجہ رکھنے کے لیے باآواز بلند نماز پڑھنے لگا۔ قیام میں رہا، خدا کا دھیان رہا۔ رکوع میں گیا، خدا کا دھیان رہا۔ سجدے میں گیا تو کسی نے کان میں کہا، چودہ سو سال بعد نماز پڑھ رہے ہو تو کبھی حُر کا خیال آرہا ہے، کبھی حبیب ابن مظاہر کے بارے میں سوچ رہے ہو، کبھی قاسم اور عباس یاد آرہے ہیں، کبھی اکبر اور اصغر کے لیے آنسو بہارہے ہو۔ حسین نے عصر کی نماز کیسے پڑھی ہوگی؟

زخموں سے چور اُس بدن کا قیام کیسا رہا ہوگا؟ ٹوٹی ہوئی کمر والا بوڑھا رکوع میں کیسے گیا ہوگا؟ پیشانی پر پتھر کھانے والے امام نے سجدہ کیسے کیا ہوگا؟میں نے ایک چیخ ماری اور تڑپ کر اٹھ گیا۔ حسین وہ نماز پوری نہیں کرسکے تھے۔ شمر نے انھیں شہید کردیا تھا۔ میں بھی نماز پوری نہیں کرسکا۔ عصر کا وقت گزر گیا۔ نماز قضا ہوگئی۔ قضا کے سارے مطلب آج سمجھ میں آگئے۔

….

کربلا میں شب عاشور – مبشر علی زیدی

کربلا میں آج 9 محرم ہے۔ تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ کربلا کی جنگ 9 محرم کو ہونی تھی لیکن امام حسین نے ایک دن کی مہلت مانگ لی۔

امام نے مہلت مانگی؟ کیا مطلب؟ کیوں؟

امام حسین نے کہا، ایک رات کی مہلت چاہیے تاکہ ہم مرنے سے پہلے جی بھر کے عبادت کرلیں۔ اس رات کو شب عاشور کہا جاتا ہے۔ لاکھوں، یا شاید کروڑوں لوگ آج کی رات نہیں سوتے۔ آپ اس رات کیا کرتے ہیں؟اگر آپ شیعہ ہیں تو آج کی رات امام بارگاہ میں گزاریں۔ اگر آپ سنی ہیں تو آج کی رات مسجد میں گزاریں۔ اگر آپ کسی مذہب کو نہیں مانتے تو آج کی رات اور کل کا دن لوگوں کی خدمت میں گزاریں۔ کسی غریب کو کھانا کھلادیں۔ کسی پیاسے کو پانی پلادیں۔ یہی انسانیت ہے۔ یہی حسینیت ہے۔

کوئی نہیں جانتا کہ کس کے پاس کتنی مہلت ہے۔ ایک رات بھی ہے یا نہیں۔
۔
اگر آپ کبھی کربلا نہیں آئے تو آپ کے ذہن میں ایک میدان کا تصور ہوگا۔ خیال ہوگا کہ اس میدان میں دو مزار بنادیے گئے ہیں۔ تصویروں میں دونوں مزاروں کے درمیان کی جگہ نظر آتی ہے۔ کربلا ٹی وی چینل ان مزاروں اور ان کے درمیانی راستے پر ہونے والی عزاداری کو چوبیس گھنٹے نشر کرتا رہتا ہے۔

میں لکیروں کے بجائے لفظوں سے موجودہ کربلا کا نقشہ کھینچنے کی کوشش کرتا ہوں۔ کربلا ایک صوبے کا نام ہے۔ اس کے بیچ میں ایک شہر ہے جس کے اطراف اب پہرا ہے۔ اندر داخل ہونے والوں کی سخت تلاشی لی جاتی ہے۔ شہر میں عمارتیں ہیں۔ نئے پرانے ہوٹل ہیں، چھوٹی دکانوں والی قدیم مارکیٹیں ہیں، ٹیڑھی میڑھی تنگ گلیوں میں گھر بھی ہیں۔

کربلا کے مرکز میں دو روضے ہیں۔ ان کے بڑے بڑے احاطے ہیں۔ چاروں طرف کمرے اور دفاتر، بیچ میں صحن اور مرکز میں گنبد۔ گنبد کے نیچے ضریح۔ میں پچھلی بار آیا تھا تو صحن کھلے تھے لیکن چھتیں ڈالنے کا انتظام ہورہا تھا۔ اس بار سب چھتیایا جاچکا ہے۔

دونوں روضوں میں داخل ہونے کے کئی دروازے ہیں۔ ہر دروازے کا ایک نام ہے۔ اس پر کوئی ایک سلام بھی لکھا ہے۔ میں وہ سب کسی آئندہ تحریر میں درج کروں گا۔ سمجھانے کو صرف ایک لکھ دیتا ہوں۔ روضہ حسین کے ایک دروازے کا نام باب قبلہ ہے۔ اس پر السلام علیک یا سید الشہدا لکھا ہے۔

ہر دروازے کے قریب جوتے اور امانتیں سنبھالنے والے بیٹھے ہیں۔ آپ جوتے اور موبائل فون ان کے حوالے کردیں۔ وہ آپ کو ٹوکن دے دیں گے۔ موبائل فون اور کیمرے اندر لے جانے کی اجازت نہیں ہے۔شمر لعین نے جہاں امام حسین کا سر کاٹا، وہ ان کی قبر سے الگ مقام ہے لیکن چند قدم دور گنبد کے نیچے ہی ہے۔ یہ ایک تنگ کمرا ہے جس میں ایک وقت میں چار چھ سے زیادہ آدمی داخل نہیں ہوسکتے۔ آپ کتنے ہی بہادر آدمی کیوں نہ ہوں، اس کمرے میں پہنچ کر گھبرا جائیں گے۔ اگر حسین سے محبت ہے تو تڑپ جائیں گے۔

میں لکھ چکا ہوں کہ امام کی ضریح کے ساتھ گنج شہیداں ہے۔ بیشتر شہدا وہیں دفن ہیں۔ کچھ فاصلے پر اسی گنبد کی عمارت کے نیچے حبیب ابن مظاہر کی قبر ہے۔

کئی قبریں اس مرکزی روضے سے دور ہیں۔ جیسے حضرت عباس، جن کی قبر پر الگ روضہ ہے۔ وہ قبر اس لیے دور ہے کہ غازی کو دریا کے کنارے شہید کیا گیا تھا۔ یہاں حُر کی قبر بھی نہیں۔ یہاں بی بی زینب کے بچوں عون اور محمد کی قبریں بھی نہیں۔ بی بی نے اپنے بچوں سے کہا تھا، امام حسین پیاسے ہیں۔ خبردار اگر دریا کا رخ کیا تو۔ بچوں نے دریا سے منہ موڑا اور لڑتے لڑتے کہیں دور نکل گئے۔ وہیں قتل ہوئے۔ وہیں دفن ہوئے۔

روضہ حسین کے سامنے ایک الگ نسبتاً چھوٹی عمارت ہے۔ اس کا نام تلہ زینبیہ ہے یعنی زینب کا ٹیلہ۔ عاشور کے دن عصر کے وقت جب شمر لعین خنجر لے کر، سجدے میں پڑے ہوئے امام کی پیٹھ پر چڑھا تو بی بی نے اس ٹیلے پر چڑھ کر وہ منظر دیکھا۔ اس مقام پر سیڑھیاں بنادی گئی ہیں۔ بہت سے لوگ ان سیڑھیوں پر نہیں چڑھ پاتے۔ جسم لرزنے لگتا ہے۔ پیروں سے جان نکل جاتی ہے۔

امام حسین کے روضے کے ایک جانب شارع سدرہ ہے۔ وہیں ایک مقام ہے جہاں امام حسین کے اٹھارہ سال کے بیٹے علی اکبر کو سینے میں برچھی مارکے قتل کیا گیا تھا۔ ایک مقام ہے جہاں چھ ماہ کے بیٹے علی اصغر کو تیر مار کے شہید کیا گیا تھا۔ شارع سدرہ پر اب ہوٹل بن گئے ہیں۔ ان کے پیچھے پتلی پتلی گلیاں اور رہائشی مکان ہیں۔ یہ دونوں مقامات ان تنگ گلیوں کے بیچ ہیں۔ وہاں زائرین کا ہجوم ہوتا ہے۔

روضوں سے کچھ دور خیمہ گاہ ہے۔ امام حسین کے لشکر کی خیمہ گاہ۔ وہاں اب بس تین چار خیمے لگے ہوئے ہیں۔ چاروں طرف عمارتیں ہونے کی وجہ سے وہ تصور تو پیدا نہیں ہوتا لیکن ایک بار آپ کسی خیمے میں جاکر بیٹھ جائیں تو کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔

حضرت عباس کے روضے کے ایک جانب ایک سڑک کا نام شارع علقمے ہے۔ وہاں دو مقامات ہیں جہاں غازی کے بازو کاٹ دیے گئے تھے۔ علقمہ اس نہر کا نام تھا جو دریائے فرات سے نکلتی تھی اور کربلا تک آتی تھی۔ وہ نہر صدیوں پہلے خشک ہوچکی۔ اب صرف اس کا نام رہ گیا ہے۔

لیکن کربلا میں ایک نہر موجود ہے۔ اس وقت میرے سامنے تاریخ کی کوئی کتاب نہیں۔ ایک مجلس میں جو سنا وہ بیان کررہا ہوں۔ لکھنو کے ایک نواب کی والدہ کربلا آئیں تو انھوں نے پوچھا، دریا کہاں ہے؟ جواب ملا کہ نہر تو خشک ہوچکی، دریا راستہ بدل چکا۔ انھوں نے کہا، دریا کے بغیر کربلا کا تصور کیسے کریں؟ انھوں نے یہاں ایک نہر کھدوائی۔ یہ نہر شارع سدرہ کے اختتام پر موجود ہے۔ اس میں آب رواں نہیں بلکہ ٹھہرا ہوا پانی ہے۔

نہر کھودنے سے جتنی مٹی نکلی، وہ بیگم صاحبہ چھکڑوں پر لدواکر لکھنو لے گئیں اور اس سے وہاں امام بارگاہ تعمیر کروایا۔ لکھنو کے کوئی دوست یہ تحریر پڑھیں تو میری تصحیح کردیں۔
۔
آج ایک نام نہاد دہریے نے مجھے کراچی سے فون کیا۔ پتا نہیں درخواست کی یا حکم دیا کہ کربلا سے ایک چٹکی خاک شفا لیتے آؤ۔ میں نے کہا، تم تو خدا کو نہیں مانتے، مذہب کو نہیں مانتے، شیعہ ازم کو نہیں مانتے۔ اس نے کہا، ہاں کسی کو نہیں مانتا لیکن حسین کو مانتا ہوں۔

شب عاشور اور کربلا – مبشر علی زیدی

کربلا میں شبِ عاشور ہے۔ ایک سڑک پر بیٹھا ہوں اور آتے جاتے لوگوں کو پھٹی ہوئی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں۔ کبھی عزاداروں کو گننے کا ارادہ کرتا ہوں۔ کبھی ہجوم کو ناپنے کی کوشش کرتا ہوں۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔سرکاری اعدادوشمار عاشورے کے بعد جاری کیے جائیں گے۔ میں صبح لکھ چکا ہوں کہ گزشتہ سال اربعین پر یہاں ڈھائی کروڑ زائرین آئے تھے۔ میں دو اور ڈھائی کروڑ کی باتیں نہیں کرنا چاہتا۔ اندازہ ہے کہ اس وقت کم از کم ایک کروڑ افراد اس چھوٹے سے شہر میں موجود ہیں۔

تھوڑی دیر کو عقیدت اور جذبات ایک طرف رکھ دیتے ہیں۔ ایک کروڑ افراد کھانا کہاں سے کھارہے ہیں؟ پانی کہاں سے پی رہے ہیں؟ کون سے باتھ روم جارہے ہیں؟ ہر سال کربلا آنے والے کہتے ہیں، کل مغرب کے بعد آپ کو یہاں چند لاکھ افراد نظر آئیں گے۔ رش چھٹ جائے گا۔ سڑکیں خالی ہوجائیں گی۔ نقل و حرکت آسان ہوجائے گی۔میں حج کرچکا ہوں۔ بیس بائیس لاکھ افراد کو مکہ سے منیٰ، منیٰ سے عرفات، عرفات سے مزدلفہ، مزدلفہ سے منیٰ اور منیٰ سے مکہ جاتے ہوئے دیکھ چکا ہوں۔

لاکھوں افراد کے آنے جانے کے لیے کتنی گاڑیوں کی ضرورت پڑتی ہے؟ پارکنگ کے لیے کتنی جگہ درکار ہوتی ہے؟ کوئی جگہ خالی کرنے کے بعد صفائی کا کیسا انتظام کرنا پڑتا ہے؟ کربلا کی انتظامیہ یہ سب کرنے کی اہل نظر نہیں آتی۔ اہل ہوتی تو یہ شہر ٹوٹا پھوٹا ہوتا؟عقیدت مند کہتے ہیں، مولا حسین کے ماننے والے کسی اور ہی دنیا سے آتے ہیں۔ انھیں گاڑیوں کی ضرورت نہیں پڑتی۔ انھیں کھانے پینے کی طلب نہیں ہوتی۔ انھیں کوئی اور حاجت نہیں ستاتی۔مجھے یہ باتیں کرنے والے کسی اور ہی دنیا کی مخلوق نظر آتے ہیں۔

جہاں ہمارا قیام ہے، وہاں قبیلہ بنی طویریج کے لوگ رہتے ہیں۔ پچاس ساٹھ سال پہلے ان کے ایک بزرگ نے عاشور کے دن ظہر کے وقت بے قرار ہوکر امام حسین کی قبر سے حضرت عباس کے روضے کی طرف دوڑنا شروع کردیا تھا۔ وہ بوڑھا دوڑتا جاتا تھا اور کہتا جاتا تھا، عباس سکینہ پیاسی ہے، پانی لاؤ، عباس پانی لاؤ۔ غازی کے روضے پر پہنچ کر اس نے ماتم کرتے ہوئے کہا، واویلا عباس واویلا۔

عاشور کے دن ظہر حضرت عباس کی شہادت کا وقت ہے۔ غازی جب گھوڑے سے گرے تو امام حسین بے قرار ہوکر اس طرف دوڑے تھے۔ چلا چلاکر کہتے جاتے تھے، عباس ایسا نہ کرو۔ سکینہ پیاسی ہے، اس کے لیے پانی لاؤ۔ غازی نے پکارکر کہا تھا، آقا، پانی نہیں لاسکا۔ میرا آخری سلام۔ پھر حسین نے بھائی کی شہادت پر واویلا بلند کیا تھا۔

بنی طویریج کے اس بزرگ نے صدیوں پرانے اس المیے کو یاد دلایا تھا۔ اس دن کے بعد یہ روایت بن گئی کہ عاشور کے دن ظہر کے وقت کچھ عزادار بنی طویریج کے محلے سے دوڑنا شروع کرتے ہیں۔ باب قبلہ سے روضہ حسین میں داخل ہوتے ہیں۔ سکینہ پیاسی ہے، عباس پانی لاؤ کا نوحہ پڑھتے ہیں اور دوڑتے دوڑتے دوسرے دروازے سے روضہ عباس کا رخ کرتے ہیں۔ گزشتہ سال ساٹھ لاکھ افراد امام حسین کے نقش قدم ڈھونڈتے ہوئے بین الحرمین دوڑے تھے۔ اس سال بھی لاکھوں تیار ہیں۔ عراق کا کربلا ٹی وی یہ مناظر براہ راست پیش کرتا ہے۔

کربلا کے عزاداروں نے کالے کپڑے بدل کر سفید لباس پہن لیا ہے۔ جنھوں نے لباس نہیں بدلا، انھوں نے کالی قمیصوں پر سفید کفن چڑھا لیا ہے۔ یہ کفن پوش شہر بھر میں گشت کررہے ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں تلواریں ہیں، خنجر ہیں، زنجیریں ہیں۔کربلا میں رضاکاروں نے مقدس روضوں کی دیواروں پر پلاسٹک کی شیٹیں چپکادی ہیں۔ فرش پر مٹی بچھادی ہے۔ باہر سڑکوں پر بھی پلاسٹک بچھادیا جائے گا۔ فجر کے بعد چھریوں کا ماتم شروع ہوجائے گا۔ سر خونم خون ہوجائیں گے۔ پیٹھیں لالوں لال ہوجائیں گی۔ سڑکیں لہو لہان ہوجائیں گی۔

میں نے کبھی خون کا ماتم نہیں کیا۔ مجھ سے خون کا ماتم نہیں دیکھا جاتا۔ عقل کہتی ہے، خون کے ماتم کا حسین سے کیا تعلق؟کبھی کسی آیت اللہ نے خون کے ماتم کی تحسین نہیں کی۔ کبھی کسی امام کعبہ نے چھریوں کے ماتم کی حمایت نہیں کی۔ خیال آتا ہے کہ غیر لوگ دیکھیں گے تو کیا کہیں گے؟ لیکن عشق نے کبھی اس بات کی پرواہ کی ہے کہ مذہب کیا کہے گا؟ لوگ کیا کہیں گے؟ عشق نے کبھی اللہ کا کہا مانا ہے جو آیت اللہ کا کہا مانے گا؟

عشق فقط یک کلام
حسین علیہ السلام

..

عاشورہ کربلا میں – مبشر علی زیدی

مبشر صاحب میٹرک میں تھے کہ پہلا بال سفید ہوا۔ راتیں جاگتے گئے، بال سفید ہوتے گئے۔ راتیں زیادہ تھیں، بال کم، بھری جوانی میں سارے کے سارے سفید ہوگئے۔ بہنوں نے کہا، بیوی نے کہا، دوستوں نے کہا، بال رنگوالو۔ مبشر صاحب کچھ لگانے کو تیار نہ ہوئے۔

کربلا میں امام حسین کے روضے کی مٹی آسانی سے نہیں ملتی۔ اسے خاک شفا کہتے ہیں۔ مقامی لوگ کل اور آج اسے برتنوں میں لیے پھررہے ہیں۔ یہ خشک مٹی نہیں، اس میں تھوڑا پانی ملالیا ہے۔ خواتین اسے اپنے برقعوں پر لگارہی ہیں۔ مرد اسے اپنے منہ پر مل رہے ہیں۔ یہ کوئی فیشن کی بات نہیں۔ امام کا گھرانہ خاک و خون ہورہا ہے۔ امام کا لشکر مٹی پر تڑپ رہا ہے۔ عزادار اس مٹی کو سر میں ڈال رہے ہیں۔مبشر صاحب نے تھوڑی سی مٹی اپنے سر میں ڈال لی۔ آج اپنے بال رنگ لیے۔

پاکستان ہندوستان میں محرم کی مجلس ہوتی ہے تو اس میں پہلے سوز خوانی ہوتی ہے۔ اکثر انیس یا دبیر کا کوئی مرثیہ پڑھا جاتا ہے۔ پھر کوئی شاعر اپنا سلام امام کی نذر کرتا ہے۔ اس کے بعد حدیث ہوتی ہے یعنی تقریر۔ ذاکر کے پاس پچاس منٹ ہوتے ہیں۔ عموماً یوں ہوتا ہے کہ پینتالیس منٹ حضرت علی کے فضاٗئل پڑھے جاتے ہیں۔ پھر پانچ منٹ امام حسین کے مصائب بیان کیے جاتے ہیں۔ اس سے زیادہ سننے کی کسی میں تاب نہیں۔ لوگ روتے ہوئے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ نوحہ خوانی ہوتی ہے۔ ماتم ہوتا ہے۔
یہ کربلا ہے۔

آج عاشور ہے۔ فضائل کا موقع نہیں، قیامت کا دن ہے۔ یہی وقت ہوگا جب جنگ شروع ہوئی ہوگی۔ روضہ حسین کے منبر سے مصائب کا بیان شروع ہوچکا ہے۔ میں تاریخ میں لکھی باتوں کو نہیں مانتا۔ میں ذاکرین کے بیان کو نہیں مانتا۔ میں انیس و دبیر کی منظر کشی کو نہیں مانتا۔ کربلا میں جنگ نہیں ہوئی تھی، قتل عام ہوا تھا۔ امام حسین کے انصار اور رشتے داروں کو گھیر کے مار دیا گیا تھا۔

حسینی لشکر نے کئی گھنٹے تک مزاحمت کی تھی۔ کربلا کے ذاکر بھی کئی گھنٹے مسلسل مصائب پڑھیں گے۔ یہ مصائب اس وقت جاری ہیں۔ پورے کربلا میں لاؤڈ اسپیکر اور اسکرینیں لگی ہوئی ہیں۔ لوگ روضوں میں بیٹھے ہیں۔ صحنوں میں بیٹھے ہیں۔ بین الحرمین بیٹھے ہیں۔ اطراف حرمین بیٹھے ہیں۔ سڑکوں پر بیٹھے ہیں۔ مصائب سنے جارہے ہیں، اشک بہائے جارہے ہیں۔

خون کا ماتم بھی ساتھ ساتھ جاری ہے۔ کراچی میں یہ ماتم کیسے ہوتا ہے؟ امام کا گھوڑا، جس کا نام ذوالجناح تھا، اس کی شبیہہ بنائی جاتی ہے۔ ایک گھوڑے پر چادر ڈال دی جاتی ہے۔ اس پر خون جیسا رنگ لگایا جاتا ہے۔ تیر چپکائے جاتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ذوالجناح میدان کربلا سے تنہا آیا ہے۔ سوار زخمی ہوکر کہیں گرگیا ہے۔

یہ ذوالجناح جلوس میں لایا جاتا ہے۔ اسے دیکھ کر عزاداروں پر رقت طاری ہوجاتی ہے۔ اس کے سامنے زنجیر زنی کی جاتی ہے۔ اس کے سامنے سر پر قمہ لگائی جاتی ہے۔یہاں کوئی زخمی ذوالجناح نظر نہیں آرہا۔ کوئی تیروں سے چھلنی تابوت نظر نہیں آرہا۔ کوئی خون آلود جھولا نظر نہیں آرہا۔ یہ سرزمین کربلا ہے۔ اس کی مٹی سے شہیدوں کی خوشبو آرہی ہے۔

کیا جوان، کیا بوڑھے، کیا بچے، سب لمبی لمبی چھریاں لے کر ٹہل رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے ابھی خون کا ماتم کرنا ہے۔ جو لوگ سر پر چھری مار چکے ہیں، ان کے چہرے رنگین ہیں۔ کچھ دیر ہوچکی تو سر پر کچھ روئی چپکالی۔ ایمبولینسیں کھڑی ہیں لیکن کوئی ان کا رخ نہیں کررہا۔ جس سڑک پر میں کھڑا ہوں، وہاں کوئی طبی کیمپ نظر نہیں آرہا۔ اسپتال چند ایک ہیں اور دور ہیں۔

میں نے لبنانی عزاداروں سے زیادہ خطرناک خون کا ماتم کسی کو نہیں کرتے دیکھا۔ پہلی بار کئی سال قبل دمشق میں ان کا ماتم دیکھا تھا۔ مجھ سے خون کا ماتم نہیں دیکھا جاتا۔ میں وہاں ایک بازار کی وڈیو بنارہا تھا۔ اپنی آنکھ سے منظر نہیں دیکھ رہا تھا،کیمرے سے آنکھیں ٹکائی ہوئی تھیں۔ اچانک سفید لباس پہنے ایک دستہ دوڑتا ہوا آیا۔ ان کے ہاتھ میں پورے پھل کی تلواریں تھیں۔ وہ میرے قریب ہی آکر کھڑے ہوگئے اور تلواریں سر پر مارنے لگے۔ میرے سامنے سر سے پیر تک خون میں رنگ گئے۔ اسی عالم میں بی بی زینب کے روضے میں داخل ہوئے۔ ان میں کسی کو چکر نہیں آیا لیکن میں چکراکر گرگیا۔

جو لوگ حج کرلیتے ہیں، وہ زندگی بھر اس پر ناز کرتے ہیں۔ زندگی میں اس سے بڑا دن کوئی نہیں۔ یہ دن کوئی نہیں بھول سکتا۔ میں بھی نہیں بھول سکتا۔ میں حج کے دنوں میں بھی فیس بک پر اپنی ڈائری لکھتا تھا۔ کیا اس ڈائری سے ایک صفحہ آپ کو سناؤں؟ سن سکیں گے؟

یہ صفحہ 13 اکتوبر 2013 کو لکھا تھا۔

میں کئی برسوں بلکہ عشروں سے یہ جاننے کے لیے مرا جارہا تھا کہ آٹھ ڈی الحجہ کو حج کا احرام باندھ کر کیسا محسوس ہوتا ہے؟خدا کی قسم، احرام پہننے والے کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہوتا۔ کوئی عید، کوئی تہوار، خوشی کا کوئی موقع اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ سنی سنائی نہیں سنارہا، خود احرام باند کر لاکھوں حاجیوں کی مسرت کا مشاہدہ کررہا ہوں۔

سب کی آنکھیں خوشی سے بھیگی ہوئی ہیں۔ میری غم سے!سنہ ساٹھ ہجری کی آٹھ ذی الحجہ تھی جب امام حسین نے حج کے احرام کو عمرے کے احرام میں بدل دیا تھا۔ انھوں نے دیکھ لیا تھا کہ مدینہ چھوڑنے کے باوجود قاتلوں نے ان کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ انھوں نے احراموں میں چھپے ہوئے خنجر دیکھ لیے تھے۔ حرم کی حرمت کو بچانے کے لیے وہ مکہ سے نکلے اور ان کے قاتلوں نے ایک ماہ بعد انھیں کربلا میں گھیر لیا۔

میں کئی برسوں سے بلکہ عشروں سے یہ جاننے کے لیے مرا جارہا تھا کہ آٹھ دی الحجہ کو حج کا احرام باندھ کر کیسا محسوس ہوتا ہے؟ اور امام حسین کو حج چھوڑ کر کیسا محسوس ہوا ہوگا؟جنت کے طلب گار عرفات کو چلے ہوں گے اور جوانان جنت کا سردار کربلا کو چلا ہوگا۔ خود فیصلہ کیجیے، خدا نے کیا فیصلہ کیا ہوگا؟

موسیٰ بھائی کا کہنا ہے، ذاکرین غلط کہتے ہیں کہ امام حسین نے حج کو عمرے میں بدلا۔ انھوں نے تمام ارکان مکمل کرلیے تھے۔ وہ منیٰ آئے تھے۔ میدان عرفات میں ان کا خطبہ مشہور ہے۔ آج بھی سب پڑھتے ہیں۔ آپ کتابیں کھول کر دیکھ لیں۔ صرف قربانی رہ گئی تھی۔امام نے وہ قربانی کربلا آکر دی۔ ابراہیم اپنے بیٹے اسماعیل کو قربانی کے لیے لے کر چلے تھے۔ حسین اپنے بیٹے علی اکبر کو قربانی کے لیے لے کر چلے۔ ابراہیم کی قربانی قبول ہوئی، اسماعیل بچ گئے۔ حسین کی قربانی قبول ہوئی۔ علی اکبر شہید ہوگئے۔

ایرانی قوم اقبال ہندی سے محبت کرتی ہے تو اس لیے نہیں کہ وہ فارسی شاعر تھے، اقبال حسینی شاعر تھے۔ انیس کی طرح اشعار میں مجلس پڑھتے تھے۔

آں امام عاشقاں پسر بتول
سرد آزادے زبستان رسول
اللہ اللہ بائے بسم اللہ پدر
معنی ذبح عظیم آمد پسر

کربلا میں شام غریباں – مبشر علی زیدی

کربلا میں اس وقت بھی لاکھوں کا مجمع ہے لیکن پھر بھی عجیب سی خاموشی ہے۔ حرمین کے اطراف اتنی روشنی ہے جیسے کہکشائیں زمین پر اتر آئی ہوں لیکن پھر بھی اداسی ہے۔ رات بھیگ چکی ہے لیکن کسی کی آنکھوں میں نیند نہیں۔ آنکھیں بھی بھیگی ہوئی ہیں۔

کربلا میں شام غریباں ہے۔

سورج سوا نیزے پر تھا تو امام حسین لشکر کے سردار تھے، عباس علم دار تھے۔ اب حسین کا سر نیزے پر ہے اور عابد بیمار لشکر کا سردار ہے، زینب علم دار ہے۔میں بہت دیر سے لکھنے کی کوشش کررہا ہوں لیکن لکھ نہیں پارہا کہ میرا قیام شارع امام علی پر ہے۔ سامنے مخیم حسین ہے۔ مخیم یعنی خیمہ گاہ۔ آج کئی بار اس کا طواف کرکے آگیا لیکن اندر نہیں گھسا۔ پچھلی بار آیا تھا تو دیکھا تھا کہ اندر تین خیمے لگے ہیں۔ اب یہ پختہ عمارت ہے۔

امام حسین کا لشکر آیا ہوگا تو بہت سے خیمے ہوں گے۔ اہل بیت کے خیمے، اصحاب کے خیمے، انصار کے خیمے۔ وہ سب خیمے شام غریباں میں جلادیے گئے تھے۔ حضرت زین العابدین کی طبعیت خراب تھی۔ غش میں پڑے تھے۔ بی بی زینب جلتے خیمے میں داخل ہوئیں اور بیمار بھتیجے کو کھینچ کر، کچھ لوگ کہتے ہیں، پشت پر لاد کر باہر لائیں۔ پھر ایک ٹوٹا ہوا نیزہ اٹھاکر کھوئے ہوئے بچوں کو ڈھونڈنے نکلیں۔ زندہ بچے کم ملے۔

یہ سب ایک دل دوز داستان ہے۔ میں اسے نہیں سناسکتا۔کربلا والے تین دن کے پیاسے تھے۔ امام حسین کے شہید ہونے کے بعد غریبوں کے لیے پانی آیا۔ پانی کیسے آیا، کون لایا، کب آیا، میں اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔ صرف اتنا پتا ہے کہ پانی آیا تو زینب کبریٰ نے سکینہ کو بلایا۔ ایک کوزہ پانی سے بھر کے دیا۔ سکینہ نے کہا، پہلے آپ پئیں۔ زینب نے کہا، پہلے چھوٹے بچوں کو پلاتے ہیں۔ سکینہ کوزہ لے کر چلی۔ زینب نے کہا، کدھر کا ارادہ ہے؟ سکینہ نے کہا، پہلے چھوٹے بچوں کو پلاتے ہیں۔ مقتل جارہی ہوں۔ پہلے علی اصغر کو پلاؤں گی۔

حسینی لشکر شہید ہوچکا تو ظالموں نے سب کے سر کاٹ لیے۔ پھر وہ سر نیزوں پر چڑھادیے گئے۔ کربلا میں اس کی یاد منائی جاتی ہے۔ نیزوں پر مصنوعی سر اٹھائے جاتے ہیں۔ شام غریباں میں ایک دستہ خیمہ گاہ کے اطراف وہ نیزے لے کر گشت کرتا رہا۔ دور سے وہ منظر دیکھ کر خوف محسوس ہوا۔ مغرب کے بعد روضہ حسین میں شام غریباں کی مجلس ہوئی۔ میں نے ہوٹل کے ٹی وی میں دیکھا کہ روضہ مکمل بھرا ہوا ہے اور وہاں جانے کی کوئی صورت نہیں۔ السید جاسم الطریجاوی نے وہ مجلس پڑھی۔ جاسم دراصل نوحہ خواں ہیں اور نوحے کے بیچ بیچ میں مصائب بھی پڑھتے جاتے ہیں۔ یہ ایک طویل مجلس تھی۔ میں ہوٹل سے نکلا اور ادھر ادھر پھرتا رہا۔ دیکھا کہ لوگ شمعیں جلارہے ہیں۔

پاکستان میں شب عاشور کو امام بارگاہوں میں موم بتیاں روشن کی جاتی ہیں۔ کربلا میں شب عاشور کو نہیں، شام غریباں کو شمعیں جلائی جاتی ہیں۔ دنیا بھر میں آج اپنے حقوق کے لیے کیسے آواز بلند کی جاتی ہے؟ مظلوموں کی یاد کیسے منائی جاتی ہے؟ پاکستان میں مذہبی تنظیمیں جلوس نکالتی ہیں۔ سیکولر لوگ شمعیں روشن کرتے ہیں۔ سیاست دان اور سفارت کار عظیم رہنماؤں کے مقبروں پر حاضری دیتے ہیں۔ یہ سب دنیا کو کس نے سکھایا ہے؟

روضہ حسین میں شام غریباں کی مجلس ختم ہوئی۔ لوگ چھٹنا شروع ہوگئے۔ میں روضے میں داخل ہوا اور امام حسین کی ضریح تک پہنچا۔ گنبد کے نیچے نماز پڑھی۔ پھر دوسری جانب سے باہر نکلا۔ دیکھا کہ چھ آدمی اردو میں نوحہ پڑھ رہے ہیں اور ان کے فقط چھ ہی ساتھی ماتم کررہے ہیں۔ بائیں ہاتھ سے دوسرے کی قمیص پکڑے ہوئے، ایک بار جھک کر، دوسری بار اٹھ کر دایاں ہاتھ سینے پر مارتے ہوئے۔ یہ ویسا ماتم تھا جیسا امروہے والے کرتے ہیں۔ مجھ سے رہا نہ گیا۔ دو نوحوں کے بیچ کے وقفے میں ایک نوحہ خواں سے پوچھا، آپ کہاں سے آئے ہیں۔ اس نے کہا، کینیا سے۔ ہم گجراتی بولتے ہیں لیکن نوحہ اردو میں پڑھتے ہیں۔ بہت عرصے سے کینیا میں آباد ہیں۔
۔
زیارت کے بعد میں روضہ حسین سے نکلنے کو تھا کہ ہٹو بچو کی آوازیں آئیں۔ دس بارہ محافظ کسی شخص کو گھیرے میں لیے چلے آرہے تھے۔ یہ السید جاسم تھے۔ لوگ ان سے ہاتھ ملانے کے لیے بڑھتے تھے اور محافظ انھیں دھکا دیتے تھے۔ میں وہیں کھڑا رہا اور جب وہ میرے قریب آئے تو ہاتھ آگے بڑھادیا۔ دھکے تو لگے لیکن السید جاسم نے مصافحہ کرلیا۔ محنت وصول ہوئی۔
۔
قمہ کا ماتم ہمیشہ جلوس میں کیا جاتا ہے۔ لبنانی ماتم دار دستے کے ارکان ایک ساتھ مل کر چھریاں سر پر مارتے ہیں۔ میں نے کراچی میں دیکھا ہے کہ ماتمی دستے کے ارکان ایک ایک کرکے قمہ لگاتے ہیں۔

ابھی کچھ دیر پہلے میں نے حضرت عباس کے روضے کے باہر ایک تنہا بوڑھے کو تلوار سر پر مارتے دیکھا۔ تلوار ایسے ماری جاتی ہے کہ سر کی کھال کٹتی ہے۔ خون نکل آتا ہے۔ کھوپڑی کو نقصان نہیں ہوتا۔ مجھے تعجب ہوا کہ وہاں کوئی جلوس نہیں تھا۔ کوئی نوحہ نہیں پڑھ رہا تھا۔ کوئی دوسرا ماتم نہیں کررہا تھا۔گمان ہے کہ وہ بوڑھا کہیں دور سے آیا ہوگا۔ وقت پر کربلا نہیں پہنچ سکا ہوگا۔ جیسے ہی پہنچا، زمین پر بیٹھا اور تلوار نکال کر سر پر تین چار بار مار لی۔ پھر وہ کھڑا ہوا اور سر پر ہاتھ مار مار کے امام حسین کو یاد کرنے لگا۔ سر سے خون بہتا جاتا تھا، آنکھوں سے اشک۔

درِ حسین پہ ملتے ہیں ہر خیال کے لوگ – مبشر علی زیدی

گزشتہ سال امام حسین کے چہلم پر کربلا میں ڈھائی کروڑ عزادار پہنچے تھے۔ پورے کراچی کی آبادی ڈھائی کروڑ نہیں ہے۔ کیا میں نے غلطی سے دو تین صفر بڑھادیے ہیں؟یہ میں وکی پیڈیا دیکھ کر لکھ رہا ہوں۔ 2014 میں 25.1 ملین عزادار، 2013 میں 22 ملین سوگوار۔

خود اندازہ لگائیں کہ آج کربلا میں کیا حال ہے۔ میں سب دیکھ رہا ہوں۔ الحمداللہ حج کرچکا ہوں۔ میدان عرفات میں بھی لاکھوں حاجی ایک ساتھ دیکھ چکا ہوں۔ وہاں لاکھوں کو محمد نماز پڑھاتے ہیں۔ یہاں لاکھوں کو حسین نماز پڑھاتے ہیں۔ رسول کی ایک حدیث یاد آگئی۔ حسین منی و انا من الحسین
۔
کبھی سمندر میں پیراکی کی ہے؟ تیز لہریں اٹھتی ہیں۔ ہاتھ پیر چلانے پڑتے ہیں۔ جسم شل ہوجاتا ہے۔ کربلا میں انسانوں کا سمندر ہے۔ آگے بڑھنے کے لیے ہاتھ پیر چلانا پڑتے ہیں۔ کہنیاں اور دھکے کھانا پڑتے ہیں۔ جسم شل ہوجاتا ہے۔میں محمد علی بھائی کے سامنے کہہ بیٹھا، آج کتنا رش ہے۔ وہ تڑپ گئے۔ کہنے لگے، میں پہلی بار 1993 میں کربلا آیا تھا۔ محرم کے دن تھے۔ غازی عباس کے روضے پر حاضری دینے پہنچا تو وہاں صرف دو آدمی تھے۔ ان میں سے ایک میں تھا۔ تم رش سے گھبرارہے ہو؟ میں تنہائی سے گھبراگیا تھا۔ محمد علی بھائی کی آواز بھرا گئی۔

پھر انھوں نے کہا، کیا تم یقین کرو گے کہ ان دنوں مقامی افراد کو کربلا آنے کی اجازت نہیں تھی۔ کیا تم یقین کرو گے کہ حضرت عباس کے روضے کا باب قبلہ ٹوٹا ہوا تھا۔ کیا تم یقین کرو گے کہ امام حسین کے روضے میں صرف ایک ٹیوب لائٹ جل رہی تھی۔ باقی حرم میں روشنی کا انتظام نہیں تھا۔

میں نے تصور باندھنے کی کوشش کی۔ کربلا میں روشنیوں کا سیلاب دیکھ رہا ہوں اس لیے میری امیجی نیشن بھٹک گئی۔ حسین کی قبر پر اندھیرے کا عکس نہیں بناسکی۔ بی بی فاطمہ کی قبر پر اندھیرے کی تصویر کھنچ گئی۔

میرا چھوٹا بھائی کہتا ہے، دوسرے لوگ اپنی ماں کی قبر پر شمع جلاتے ہیں۔ ہم روشنی کیوں نہیں کرتے۔ میں کہتا ہوں، ہاں کسی دن یہ بات بتاؤں گا۔

میرے بیٹے نے دریافت کیا کہ کیا ہم کسی سے ملنے کربلا آئے ہیں؟ میں نے کہا، زیارت کی حد تک درست لیکن ہم کسی سے ملنے نہیں آئے۔ بیٹے نے کہا کہ یہاں نقارہ بج رہا ہے۔ کیا ہم جنگ کرنے کربلا آئے ہیں؟ میں نے کہا، نہیں۔ ہم جنگ کرنے نہیں آئے۔ اس نے سوال کیا، یہاں زنجیر زنی ہورہی ہے۔ کیا ہم خون کا ماتم کرنے کربلا آئے ہیں؟ میں نے کہا، نہیں۔ ہم خون کا ماتم کرنے نہیں آئے۔

بیٹے نے پوچھا، پھر ہم کربلا کیوں آئے ہیں؟ میں نے کہا، یہ پیاسوں کی سرزمین ہے۔ ہم یہاں پانی پلانے آئے ہیں۔ آؤ، میرے ساتھ سبیل میں کربلا کے پیاسوں کو پانی پلاؤ۔یہ حسین یہاں پانی کے جام پلائے۔ وہ حسین وہاں کوثر کے جام پلائے گا۔ کربلا میں ہر ملک کا نمائندہ موجود ہے، ہر مذہب کا بھی۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ کربلا کی جنگ میں امام حسین کے لشکر میں دو ہندو بھی شامل تھے؟

ہندوستان میں ہندو برہمنوں کا ایک خاندان دت مشہور ہے۔ فلم اسٹار سنیل دت، سنجے دت، ممتاز صحافی برکھا دت کا تعلق اسی سلسلے سے ہے۔ ان لوگوں کا دعویٰ ہے کہ ان کے بزرگ امام حسین کے محب تھے اور کربلا کی جنگ میں شریک ہوئے تھے۔ ایک بزرگ راہیب دت جنگ میں بچنے کے بعد واپس ہندوستان آگئے تھے۔ انھوں نے ہندوؤں میں عزاداری کی بنیاد رکھی۔ یہ لوگ مندر نہیں جاتے۔ محرم میں جلوس اٹھاتے ہیں۔ کچھ لوگ خون کا ماتم بھی کرتے ہیں۔ یہ خود کو مسلمان نہیں، حسینی برہمن کہلواتے ہیں۔

میں نہیں جانتا کہ یہ روایات درست ہیں یا نہیں۔ میں نہیں جانتا کہ ہندو کو شہید کہنا درست ہے یا نہیں۔ میں نہیں جانتا کہ وہ ہندو کربلا میں دفن ہیں یا نہیں۔ میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ اگر یہ سب سچ نہیں بھی ہے تب بھی حسینی برہمنوں کی حسین سے محبت سچ ہے۔

درِ حسین پہ ملتے ہیں ہر خیال کے لوگ
یہ اتحاد کا مرکز ہے آدمی کے لیے

کربلا سے شام تک

دس محرم کو یوم حسین سب مناتے ہیں۔ کراچی کی انجمن رضائے حسینی گیارہ محرم کو یوم زینب مناتی ہے۔ عاشور کے دن حسینی لشکر کے سب مرد قتل کردیے گئے۔ صرف امام زین العابدین بچے جو بیمار تھے۔ بی بی زینب نے لٹے پٹے قافلے کو سنبھالا۔ جب انھیں قیدی بناکر شام کے دربار میں لے گئے تو بی بی زینب نے وہ خطبہ دیا جس کے سامنے بڑی بڑی تقاریر ہیچ ہیں۔

ممتاز شاعرہ فہمیدہ ریاض نے بی بی زینب پر ایک نظم لکھی تھی۔

اس قدر مظلومیت اور ایسا خطبہ پُر جلال
مل نہیں سکتی ہمیں تاریخ میں ایسی مثال
پیش کرتی ہے انھیں انسانیت زریں خراج
آپ کے سر پر رکھا ہے عالم نسواں نے تاج

امام حسین سے محبت ہے تو قرآن پڑھیں۔ امام حسین کا اور قرآن پاک کا گہرا رشتہ ہے۔ اٹوٹ رشتہ! ذاکرین پڑھتے ہیں کہ امام حسین کا سر کاٹ کے نیزے پر بلند کیا گیا تو اس نے قرآن پڑھنا شروع کردیا۔ شہدائے کربلا کے سروں اور اہل بیت کے اسیروں کو شہر شہر گھمایا گیا۔ اہل بیت پاک کے لیے صرف عزت لکھی ہے۔ امام حسین کا سر قرآن پڑھتا رہا۔ اسلام کی تبلیغ ہوتی گئی۔
آپ کربلا سے دمشق تک کا سفر کرکے دیکھیں۔ راستے میں جگہ جگہ راس الحسین کے نام سے مقامات ملیں گے۔ راس عربی میں سر کو کہتے ہیں۔ میں نے کوفے کی مسجد حنانہ، مسجد سہلا، حلب کا راس الحسین اور دمشق کی مسجد امیہ دیکھی ہے۔ حلب میں موجود پتھر پر آج بھی خون جما ہوا ہے۔ کئی سال پہلے ایک پاکستانی انجمن وہاں نوحہ خوانی کررہی تھی کہ اس پتھر سے خون پھوٹ پڑا۔ اس کی وڈیو موجود ہے۔

جہاں جہاں امام حسین کا سر رکھا گیا، وہاں وہاں آج بھی تلاوت جاری ہے۔ یوں بھی کوئی تبلیغ کرتا ہے؟ یوں بھی کسی نے اسلام کو زندہ رکھا ہے؟ اہل بیت کے اسیروں کا قافلہ کوفے اور دمشق کے بازاروں میں پھرایا گیا۔ مقامی لوگ تماشا سمجھ کر ٹھہر جاتے تھے۔ کچھ شقی پتھر مارتے تھے۔

میں نے شام کا بازار دیکھا ہے۔ اسے سوق حمیدیہ کہتے ہیں۔ یہ ایک طویل بازار ہے۔ میں کئی بار سلطان صلاح الدین کے مقبرے سے مسجد امیہ تک آیا ہوں اور واپس گیا ہوں۔ وہاں پہنچ کر اہل تشیع کی ہچکیاں بندھ جاتی ہیں۔ مسجد امیہ کا احاطہ بہت بڑا ہے۔ اس میں شام کے حاکم کا دربار تھا۔ میں پانچ چھ سال پہلے گیا تھا۔ اس دربار کی نشانی موجود تھی۔ مسجد کے اندر حضرت یحیٰ کا سر دفن ہے۔ باہر برآمدے میں نکلیں تو ایک کمرے کے اوپر راس الحسین لکھا ہے۔ وہاں امام حسین کا سر رکھا گیا تھا۔ وہاں عزادار جاتے ہیں اور روتے ہوئے باہر آتے ہیں۔

مسجد کے عقبی دروازے سے نکلیں تو چند تنگ گلیوں کے بعد بی بی سکینہ کا روضہ ہے۔ اہل بیت کا قافلہ ایک سال تک دمشق میں قید رہا تھا۔ بی بی سکینہ قید خانے کے اندھیرے سے گھبراتی تھیں۔ روز پوچھتی تھی، رہائی کب ملے گی؟ سب کو رہائی مل گئی۔ بی بی آج بھی وہیں ہیں۔ روضے میں اوپر ضریح ہے اور نیچے تہہ خانہ۔ تہہ خانے میں اندھیرا۔ میں چھ سیڑھیاں اترا تھا کہ گھبرا کے واپس آگیا۔ پھر چھ راتوں تک نہیں سوسکا۔

میں کربلا میں ہوں لیکن لکھتے لکھتے کہیں سے کہیں پہنچ جاتا ہوں۔ کچھ دیر میں واپس آؤں گا۔ ذرا دمشق کا حال سنادوں۔ دمشق میں ایک قبرستان کا نام باب صغیر ہے۔ وہاں بہت سے صحابہ کرام اور اہل بیت کی قبریں ہیں۔ ایک قبر پر اردو میں لکھا ہے، یہ بی بی فضہ کی قبر ہے۔ بی بی فضہ، سیدہ فاطمہ کی کنیز تھیں۔ کربلا میں امام حسین کے قافلے میں موجود تھیں۔ باب صغیر میں ایک قبر پر بلال حبشی کا نام لکھا ہے۔ ایک قبر پر بی بی ام سلمہ کا نام ہے۔ ایک قبر پر بی بی ام کلثوم کا نام ہے۔ میں نہیں جانتا کہ یہ اصلی قبریں ہیں یا نہیں۔ بہت سی ہستیوں کے بارے میں ایک سے زیادہ مقامات کی روایات ہیں۔ بیشتر لوگ کہتے ہیں بی بی زینب کا روضہ دمشق میں ہے۔ میں نے اس کی زیارت کی ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں، بی بی جنت البقیع میں دفن ہیں۔ میں اسے دیکھ چکا ہوں۔ مصر کے شہر قاہرہ میں بھی بی بی زینب کا ایک مزار ہے۔

باب صغیر کے بالکل سامنے ایک عمارت ہے جس میں ایک ضریح بنی ہوئی ہے۔ مقامی روایت کے مطابق وہاں کربلا میں شہید کیے گئے اہل بیت کے جوانوں کے سر دفن ہیں۔ ایک روایت یہ ہے کہ سر واپس کربلا آئے اور یہاں بدن کے ساتھ دفن کیے گئے۔ دمشق کی اس عمارت میں جہاں ضریح ہے، وہاں انھیں کچھ دن رکھا گیا تھا اس لیے لوگ زیارت کرنے آتے ہیں۔ ایک مقام ہے جہاں ان سروں کو دھویا گیا۔ لوگ وہاں اشکوں سے اپنا منہ دھوتے ہیں۔

سجدہ

آج رجب کی بائیسویں ہے، میری سال گرہ کا دن۔ سنہ ساٹھ ہجری میں امیر معاویہ کا انتقال اسی تاریخ کو ہوا تھا۔ اس کے چند دن بعد امام حسین کو مدینہ چھوڑنا پڑا۔ وہ پہلے مکے گئے اور پھر کربلا۔ پتا ہے، میں بھی یہ تینوں شہر دیکھ چکا ہوں۔ اور اتفاق کی بات ہے کہ۔

ارے تم میری بات بیچ میں کیوں کاٹ دیتی ہو؟ کیا کہا تم نے؟ میری آنکھیں ہر وقت لال کیوں رہتی ہیں؟ کس نے کہا؟ اچھا، یہ بات تم بعد میں بھی کرسکتی تھیں۔ پہلے میری سنو۔

میں یہ کہہ رہا تھا کہ کربلا دیکھ چکا ہوں۔ تم حیران کیوں ہونے لگتی ہو؟ ہاں ہاں، میرا مذہب سے کیا واسطہ۔ سچ کہ نماز نہیں پڑھتا، سچ کہ روزے نہیں رکھتا۔

خون کا ماتم کرنا تو دور کی بات، کبھی سینے پر ایک ہاتھ نہیں مارا۔ کبھی مارے بندھے محرم کی مجلس میں جابیٹھا تو مصائب سن کر ایک آنسو نہ نکلا۔ میرے دوست مجھے پتھر کہا کرتے تھے۔

وہ سب درست لیکن بچپن سے کربلا والوں کی اتنی کہانیاں سن رکھی تھیں کہ ایک بار بے قرار ہوکر ایک ٹور آپریٹر کے پاس نام لکھوادیا۔

کربلا پہنچے تو قافلے کے شرکا کا عقیدت سے برا حال تھا۔ سب کے سب باادب لوگ پاکیزہ مقام پر جانے سے پہلے غسل اور طہارت مں لگ گئے۔ میں بدتمیز سر جھاڑ منہ پہاڑ، ایسے ہی حرم کی طرف چل پڑا۔

جو لوگ پہلی بار روضے پر جاتے ہیں، انھیں بتایا جاتا ہے کہ پہلے وضو کریں، پھر باب قبلہ سے اندر داخل ہوں۔مجھے یاد نہیں کہ وضو کیا تھا یا نہیں۔ یہ بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ کون سے دروازے سے داخل ہوا۔ لیکن یہ ضرور یاد ہے کہ ایک شخص نے بازو پکڑکے کہا، جو یہاں زیارت کو آتا ہے، پہلے اسے دو رکعت نماز پڑھنا ہوتی ہے۔ چلو پڑھو نماز۔

میں مصلے پر ہکا بکا کھڑا تھا۔ آخری بار نماز کب پڑھی تھی، یاد نہیں آیا۔ نماز بھی یاد نہیں آئی۔ نیت کرنا بھی بھول گیا۔ کچھ دیر یونہی قیام کے بعد رکوع میں چلاگیا، پھر سجدے میں گرگیا۔ہونٹ خاموش تھے، آنکھیں بند تھیں، ذہن میں خیالات کا ہجوم تھا۔ مجھے خیال آیا کہ دو چار گز ادھر یا دو چار گز ادھر، امام حسین نے آخری نماز پڑھی ہوگی۔

لوگ کہتے ہیں، امام کے سب دوست، رشتے دار اور انصار شہید ہوچکے تھے لیکن وہ پھر بھی اکیلے آخر تک شیروں کی طرح لڑتے رہے۔ بڑا کمال کیا۔وہ بھی کمال تھا۔ لیکن مجھے تو یہ خیال آیا کہ اٹھارہ سال کے بیٹے کے سینے میں چُھرا اور چھ مہینے کے بیٹے کے گلے میں تیر پھنسا ہوا دیکھنے کے بعد اُس شخص نے شُکر کا سجدہ کس دل سے کیا ہوگا؟

سجدے میں پڑے پڑے میرا دل بگڑگیا۔ میری وہ نماز ادھوری رہ گئی جو مجھے آتی بھی نہیں تھی۔جب میں کسی طرح سیدھا ہوکر بیٹھا تو میرے برابر میں موجود شخص نے بتایا کہ مجھ پتھر کی پتھرائی ہوئی آنکھوں نے خون کا ماتم کیا ہے۔ ہاں، تو تم کچھ دیر پہلے کیا پوچھ رہی تھیں؟ میری آنکھیں ہر وقت لال کیوں رہتی ہیں؟

سفر نامہ کربلا لکھنے کی وجوہات

ایک دوست نے پوچھا، کیا آپ سفرنامہ لکھنے کے لیے کربلا گئے ہیں؟ کیا فیس بک کی تحریریں پلان کرکے لکھی ہیں۔ جی نہیں۔ میں پہلے بھی یہاں آچکا ہوں۔ ایک لفظ نہیں لکھا تھا۔ حج پر گیا تو کئی ڈائریاں بھردیں لیکن فیس بک پر چند صفحے ہی لکھے۔ چھاپا کچھ نہیں۔ عرب امارات، شام، ایران، بحرین، ترکی، جرمنی، اٹلی، فرانس، بیلجیم، کئی ملک گھوم چکا ہوں۔ کبھی کچھ نہیں لکھا۔

اس بار کیوں لکھنے بیٹھ گیا؟ میں یہ بتانا نہیں چاہتا تھا لیکن اذن ملا ہے تو بتارہا ہوں۔ میں سات محرم کو کربلا آیا تھا۔ امام حسین کے روضے پر پہنچا تو انھیں اپنا انتظار کرتے ہوئے پایا۔ میں نے کہا، آپ کا ہاتھ چومنا چاہتا ہوں۔ انھوں نے ضریح کی طرف اشارہ کردیا۔

میں ضریح چوم کر صحن میں آیا اور ان کے قدموں میں بیٹھ گیا۔ اس سے پہلے کہ میں کوئی سوال کرتا، امام نے پوچھا، کیا کام کرتے ہو؟ میں نے کہا، مولا! کہانیاں لکھتا ہوں۔امام حسین نے کہا، اچھا؟ کبھی ہماری کہانی بھی لکھو!

ایک اور دن روضے پر گیا تو وہاں کئی جلوس پہنچے ہوئے تھے۔ کوئی دستہ نقارہ پیٹ رہا تھا، کوئی حلقہ ماتم کررہا تھا، کوئی انجمن دائرہ بناکر گریہ کررہی تھی، کوئی قبیلہ کربلا کے واقعے کو تمثیل کررہا تھا۔ میں اندازہ نہیں لگاسکا کہ امام کو کیا اچھا لگ رہا ہے اور کیا نہیں۔

میں نے ذرا سنبھل کر امام سے سوال کیا، آپ سے محبت کرنے والے آپ کی یاد کیسے منائیں؟ امام حسین نے کہا، کچھ لوگ علم اٹھائیں۔ کچھ لوگ قلم اٹھائیں۔ہر شہر میں لوگ خوشی خوشی آتے ہیں، خوش گوار یادیں جمع کرتے ہیں، خوشی خوشی واپس چلے جاتے ہیں۔ کربلا میں لوگ روتے ہوئے آتے ہیں، روتے روتے واپس جاتے ہیں۔

کربلا سے جدائی کا وقت آن پہنچا۔ لوگ امام حسین کے روضے میں جاتے ہیں۔ الوداعی سلام کرتے ہیں اور دوبارہ طلبی کی درخواست کرکے رخصت ہوجاتے ہیں۔ میں آج روضے پر پہنچا اور امام حسین کو سلام کیا۔ عرض کیا، مولا! وطن واپس جارہا ہوں۔ اپنے چاہنے والوں کے لیے کوئی پیغام؟ امام حسین نے کہا، ہاں۔ میرے چاہنے والوں سے کہنا کہ جب پانی پئیں، میری پیاس کو یاد کریں، میرے بچوں کی پیاس کو یاد کریں، شہدائے کربلا کی پیاس کو یاد کریں۔

بہنوں بیٹیوں سے کہنا، گھر سے نکلیں تو چادر سر پر ضرور لیں، بی بی زینب کی چادر یاد رکھیں، میری بیٹیوں کا پردہ یاد رکھیں، نبی زادیوں کی حرمت یاد رکھیں۔ اور علی سے عشق کرنے کے دعوے داروں کو بتانا کہ علی کو اسلام کی پہلی صدی میں پچاس سال تک منبروں سے برا بھلا کہا گیا، ان پر تبرا کیا گیا۔ یاد دلانا کہ تبرا کرنے والے منبر باقی نہیں رہتے، صرف وہ منبر رہ جاتے ہیں جن سے محبت پھیلائی جاتی ہے۔

میں روضہ حسین کے باب قبلہ پر صحن میں کھڑا تھا۔ رخصت کی اجازت مانگ چکا تھا۔ ضریح میری آنکھوں کے سامنے تھی۔ میں اس منظر کو آنکھوں میں قید کرلینا چاہتا تھا۔ کبھی کبھی کوئی منظر ہمیشہ کے لیے آنکھوں میں بس جاتا ہے۔ پھر وہ خودبخود آپ کی نگاہوں میں گھوم جاتا ہے۔ اچانک ایک شخص میرے قریب زور سے چلایا۔ میں گھبراکے اچھل پڑا۔ وہ کوئی عرب ملنگ تھا۔ نعرہ لگارہا تھا، لا الہ الا اللہ۔ قبر حسین کا طواف کرتا جاتا تھا۔ کئی بار کہتا تھا، لا الہ، پھر ایک بار کہتا تھا، الا اللہ۔

مجھے کسی عالم کی بات یاد آئی۔ رسول پاک نے مشرکوں سے منوالیا تھا کہ اللہ تعالیٰ تمام جہانوں کا رب ہے۔ وہ اللہ کو مان گئے تھے لیکن کچھ ایسے تھے جو لا الہ نہیں کہتے تھے۔ چوری چھپے اپنے بُتوں کو پوجتے رہتے تھے۔ تبھی تو علامہ اقبال نے کہا تھا

اگرچہ بُت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکمِ اذاں، لا الہ الا اللہ

علی نے کعبے میں رکھے بُتوں کو توڑا۔ حسین نے آستینوں میں چھپے بُتوں کو توڑا۔ لا الہ کا اقرار کروایا۔ باب قبلہ پر کھڑے کھڑے میری آنکھوں کے سامنے خانیوال کا امام بارگاہ آگیا جہاں میرے دادا ظفر حسن کی قبر ہے۔ اس کے مرکزی دروازے پر خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے اشعار رقم ہیں۔ اپنے گھر میں خواجہ کی بات سمجھ نہیں آتی تھی۔ حسین کے گھر میں ملنگ کے ایک نعرے نے سمجھادی۔

شاہ است حسین، پادشاہ است حسین
دین است حسین، دین پناہ است حسین
سر داد، نہ داد دست درِ دستِ یزید
حقا کہ بنائے لا الہ است حسین

….

کربلا – ایک صحافی کی نظر سے

کربلا ایک طویل داستان ہے جو اٹھائیس رجب ساٹھ ہجری کو شروع ہوئی اور اس کا ایک باب عاشورہ محرم اکسٹھ ہجری کو اختتام کو پہنچا۔ اس کے بہت سے باب ہیں، بے شمار روایتیں ہیں اور شاید اس میں کچھ مبالغے بھی شامل ہوگئے ہیں۔

عاشورہ محرم ختم ہوا۔ میرے اندر کا صحافی بیدار ہورہا ہے۔ اگر میں کربلا کی جنگ کی کوریج کرتا تو خبر کیسے بناتا؟ شہیدوں کا خون دیکھ کر کیا سرخی نکالتا؟ کون سی سائیڈ اسٹوری کو زیادہ دلچسی سے لکھتا؟
کربلا کے المیے میں مجھے سب سے زیادہ جو بات حیران کرتی ہے، وہ حُر کا کردار ہے۔ میں ایک فکشن رائٹر بن کر سوچتا ہوں کہ اگر حقیقت میں کربلا نہ ہوتی اور یہ محض ایک داستان ہوتی، کسی نے یہ ناول لکھا ہوتا تو عاشور کے دن اس میں ٹوئسٹ کہاں آتا؟

یہ ٹوئسٹ حُر کا پلٹ جانا ہے۔ اہل بیت کا قافلہ 2 محرم کو کربلا پہنچتا ہے تو مخالف فوج کا یہ جرنیل امام حسین کے گھوڑے کی باگ پکڑ کر ان کا راستہ روکتا ہے۔ امام حسین بار بار راستہ بدلنا چاہتے ہیں لیکن یہ انھیں آگے نہیں بڑھنے دیتا۔ اسی نے ان کے قافلے کو گھیرا تھا۔ وہی پانی بند کرنے والوں میں شامل تھا۔

پھر شب عاشور اچانک کیا ہوا؟ کیا اس نے کوئی خواب دیکھا؟ کیا اسے کسی نے بشارت دی؟ کیا اسے کوئی کشف ہوا؟ عاشور کی صبح وہ اپنے ہاتھوں میں رسی باندھ کے کیوں امام کی خدمت میں پیش ہوگیا؟

ولن ایک رات میں ہیرو کیسے بن گیا؟ آج کربلا والے اسے حُر علیہ السلام کہہ کر یاد کرتے ہیں۔

حر کی قبر گنج شہیداں میں نہیں۔ مقتل میں لکھا ہے کہ جنگ ختم ہونے کے بعد امام حسین اور ان کے رفقا کی لاشیں پامال کی گئیں۔ ان پر گھوڑے دوڑائے گئے۔ لیکن اس سے پہلے حُر کے قبیلے والے وہاں پہنچ گئے۔ انھوں نے حُر کی لاش کو پامال نہیں ہونے دیا۔ وہ میت لے گئے اور اسے اپنے علاقے میں دفن کیا۔

آج میں جنابِ حُر کے مزار پر گیا۔ اس علاقے کا نام ہی حُر پڑگیا ہے۔ کسی نے بتایا کہ یہ کربلا کے مرکز سے چھ میل دور ہے۔ اتفاق سے مزار کے بالکل ساتھ ایک اسپتال ہے۔ کچھ لوگ اُدھر شفا طلب کررہے تھے، کچھ اِدھر۔

آج مجھے کربلا سے چالیس میل دور مسیب جانے کا موقع بھی ملا، جہاں مسلم بن عقیل کے دو بیٹے محمد اور ابراہیم دفن ہیں۔ میں مسلم بن عقیل اور ان کے دونوں بیٹوں کے قتل کی تفصیلات نہیں لکھنا چاہتا۔ سب کچھ تاریخ میں لکھا ہے۔ ان تینوں کی قبریں کربلا میں نہیں لیکن ان کا کربلا کے المیے سے براہ راست اور گہرا تعلق ہے۔ مسلم بن عقیل کا روضہ مسجد کوفہ سے ملحق ہے۔

مسلم کے بیٹوں کے روضے دریائے فرات کے کنارے ہیں۔ یہ کچے کا علاقہ ہے۔ دریا کے ایک طرف یہ قبریں ہیں اور دوسری طرف جنگل ہے۔ ہمارے ہاں بھی کچے کے علاقے میں ڈاکو چھپ جاتے ہیں۔ یہاں بھی ایسا ہی ہے۔ یہاں کسی دور میں حکومت کی رٹ نہیں رہی۔ حضرت علی کے دور میں خوارج اس علاقے میں پھیل گئے تھے۔ پھر جنگ نہروان اسی مقام پر ہوئی تھی۔

امام حسین کی میزبانی کی وجہ سے کربلا کی مٹی کو یہ عزت ملی کہ اسے خاک شفا کا نام دیا گیا۔ امام حسین کی قبر کی مٹی بھلا کسے نصیب! ان کا روضہ بھی پختہ ہے اور وہاں گرد کا کوئی کام نہیں۔ دیواریں سنگ مرمر کی ہیں۔ فرش پر قالین بچھے ہیں۔

شیعہ مجتہدین کہتے ہیں کہ روضے کے اطراف سات فرسخ تک کی ساری زمین خاک شفا ہے۔ شاید یہ فاصلہ گیارہ میل کے مساوی ہے۔ بغداد جانے والی سڑک کے گیارہویں میل پر حضرت عون کا روضہ ہے۔

ایک خیال یہ ہے کہ یہاں بی بی زینب کے بیٹے عون بن عبداللہ بن جعفر طیار کی قبر ہے۔ وہ کربلا میں جنگ کرتے کرتے دور نکل آئے اور جہاں شہید ہوئے، وہیں سپرد خاک کردیے گئے۔ اس روضے پر ہر جگہ انھیں کا نام لکھا ہے۔

ایک روایت یہ سننے کو ملی کہ یہ وہ نہیں، دوسرے عون ہیں۔ امام حسین کی چھٹی ساتویں پشت میں سے تھے۔ یہ کربلا کی سرحد پر خیمہ لگاکر بیٹھ گئے تھے۔ مسافروں کی میزبانی کرتے تھے۔ بھوکے پیاسے لوگوں کو کھلاتے پلاتے تھے۔ بیماروں کا علاج کرتے تھے۔ اب یہ حال ہے کہ دور دور سے بیمار وہاں آتے ہیں۔ لوگ دعا کرتے ہیں، شفا خدا دیتا ہے۔ پھر لوگ اپنی رپورٹیں یہاں چسپاں کرجاتے ہیں۔ ساتھ میں اپنا احوال لکھتے ہیں۔

امام حسین کے روضے میں کیمرے اور موبائل فون لے جانے کی اجازت نہیں۔ خدام انتہائی چوکس ہیں اور سخت تلاشی لیتے ہیں۔ لیکن آج ایک گروپ کے لیڈر نے کہا کہ ہمارے ساتھ چلیں، موبائل فون اور کیمرے لے جانے کی اجازت ہوگی۔ واقعی کسی نے تلاشی نہیں لی۔ گروپ اپنی سرگرمیوں میں مشغول ہوا اور میں ضریح کی جانب لپکا۔ سامنے سے کئی تصاویر اتاریں۔

میرے پاس آئی فون سکس ایس ہے۔ اس سے اچھا رزلٹ کسی اور فون کا نہیں۔ لیکن باہر آکر دیکھا تو قریب کے تمام فوٹو دھندلے پائے۔ کچھ فاصلے سے کھینچی گئی دو چار تصاویر ٹھیک تھیں۔ ان میں سے ایک فیس بک پر پوسٹ کردی۔