قرآن شریف کی تلاوت کیسے کی جائے؟ امام احمد بن حنبل کی نصیحت

امام احمد بن حنبل علیہ رحمہ نے سنا کہ ان کے شاگردوں میں سے ایک شاگرد ساری رات عبادت میں گزارتا ہے اور پورے قران شریف کو اپنے قیام میں پڑھ لیتا ہے۔ امام صاحب کو بہت تعجب ہوا کہ پورا قران ایک رات میں کس طرح ختم کیا جا سکتا ہے؟ آپ نے اس شاگرد کو سبق سکھانے کیلئے بلا بھیجا۔
شاگرد کے حاضر ہونے پر امام صاحب نے کہا: اے میرے بیٹے، میں نے سنا ہے کہ تو اپنی ایک رات کے قیام میں پورے قران پاک کی تلاوت کر لیتا ہے؟
شاگرد نے کہا جی، بالکل ایسا ہی ہے۔ اور میں اللہ تبارک و تعالی سے دعا گو ہوں کہ وہ میری سعی کو قبول فرمائیں۔
امام صاحب نے اپنے شاگرد سے کہا: میرے بیٹے؛ اگر آج رات کو بھی تو قیام کرے تو قران پاک کو ایسے پڑھنا جیسے تو مجھے سنا رہا ہے۔
شاگرد نے کہا: حاضر میرے استاد محترم، میں نے سن لیا اور اطاعت کرونگا۔
شاگرد چلا گیا اور اس نے رات کو اپنا قیام شروع کیا۔ شعور میں یہ بات بٹھائی کہ قران ایسے پڑھنا ہے جیسے استاد کو سنا رہا ہو۔ اور استاد بھی کوئی عام تام نہیں امام احمد بن حنبل ہیں۔ اس نے تلاوت کو خوبصورت بنایا اور مکمل اصولوں کے ساتھ پڑھنا شروع کیا۔
صبح ہوئی تو امام صاحب کے پاس گیا۔ امام صاحب نے بھی دیکھتے ہی پوچھا: تو کتنا قران مجید تم نے رات بھر میں تلاوت کیا؟
شاگرد نے کہا: امام محترم؛ آج تو صبح ہو گئی اور مجھ سے قران پاک کے دس پارے بھی مکمل نا ہو پائے۔
امام صاحب نے کہا: میرے بیٹے، اگر آج کی رات بھی تونے قیام کرنا ہو تو قران پاک ایسے پڑھنا جیسے تیرے سامنے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم بذات خود موجود ہیں اور تو انہیں سنا رہا ہے۔
شاگرد چلا گیا اور اس نے رات کو قیام شروع کیا۔ شعور میں یہ بات بٹھائی کہ وہ تلاوت بارگاہ رسالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کر رہا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سُن رہے ہیں۔ اُس نے آج کی تلاوت اپنی دانست میں پورے احترام اور آداب دربار رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ملحوظ رکھ کے کی۔
صبح ہوئی تو پھر امام صاحب کی خدمت میں حاضر ہو گیا۔
امام صاحب نے دیکھتے ہی پوچھا؛ تو کل رات تو نے اپنے قیام میں کتنی تلاوت کی ؟
شاگرد نے کہا: اے امام ، صبح ہی ہو گئی مگر مجھ سے بس قران کا بس ایک ہی جزء “عم” ہی پورا ہو پایا۔
امام صاحب نے کہا: اے میرے بیٹے، اگر آج کی رات بھی تونے قیام کرنا ہو تو قران پاک ایسے پڑھنا جیسے اللہ تبارک و تعالیٰ کی بارگاہ میں کھڑے ہو کر پڑھ رہا ہو۔
شاگرد چلا گیا اور رات کو اس نے اپنے شعور میں یہ بات بٹھائی کہ وہ قران پاک ایسے پڑھ رہا ہے جیسے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر پڑھ رہا ہے۔ اس کا آج کا شعور بادشاہوں کے بادشاہ کے دربار میں کھڑے ہونا تھا۔ تلاوت تو اس نے اچھی طرح شروع کی مگر ہیبت اور خشیت سے رو رو کر برا حال ہو گیا۔
صبح کو امام صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے پوچھا؛ تو پھر کل رات تونے کتنا قران پڑھا تھا؟
شاگرد نے کہا؛ اے امام، فجر ہو گئی اور مجھ سے ایک سورت “سورۃ الفاتحۃ” بھی پوری طرح نہ پڑھی جا سکی۔

(ڈاکٹر رياض يحي الغيلي کے خطبے “فأين الله؟” سے اقتباس)