اسلامی فرقوں پر تحریف قران کا مکروہ الزام اور خارجی سازش

فرقہ پرست انتہا پسندوں کی کوشش ہے کہ امت مسلمہ میں سنی اور شیعہ فرقہ واریت کی آگ بھڑکائی جائے تاکہ اسلام دشمن اور پاکستان دشمن قوتیں اور خوارج اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب ہوں – وقتا فوقتا اس طرح کے بد بخت عناصر مختلف ناموں اور پردوں سے فرقہ وارانہ نفرت اور منتخب شدہ جھوٹ پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں ، یا د رہے کہ اتحاد امت کے لئے سنی، شیعہ، بریلوی، صوفی، دیوبندی، اہلحدیث سب کی ذمہ داری کہ اپنے فروعی یا سطحی اختلافات کو پس پشت ڈال کر قران کریم اور آقا کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نام پر اکھٹے ہو جائیں، جب کوئی بد بخت یہ کہے کہ بریلوی، شیعہ یا دیوبندی وغیرہ سے ان کا اختلاف فروعی نہیں ہے بلکہ اصولی ہے تو اس کا صاف صاف مطلب یہ ہے کہ وہ خارجی اور تکفیری ہے، اس کی نظر میں اہل سنت صوفی مسلک سے اختلاف اصولی ہے، وہ مزارات اور میلاد النبی کا بھی دشمن ہے اور عاشورہ کا بھی، بد بخت خوارج ، اہلسنت پر جھوٹا الزام لگاتے ہیں کہ وہ اولیا الله کی قبور کی پوجا کرتے ہیں، یہ ایک لغو پراپیگنڈا ہے، اسی طرح خوارج ، شیعہ پر تحریف قران اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی الوھیت کا بے بنیاد الزام لگاتے ہیں جس میں کوئی حقیقت نہیں،تاریخی کتابوں میں سے چنندہ اور مجہول روایتیں ڈھونڈ کر سنی اور شیعہ پر گھٹیا الزامات لگانا مناظرانہ مولویوں کا کاروبار ہے جس سے خوارج فائدہ اٹھاتے ہیں جن کا مقصد پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک میں خانہ جنگی کروانا اور شام، عراق اور لیبیا کی طرح تباہی اور بربادی ہے

قدیم علمائے تاریخ نے اسلامی فرقوں کے بارے میں بہت سی کتب تحریر کی ہیں جیسے عبدالکریم شہرستانی کی کتاب “الملل و النحل”ہے اور ان تمام کتب میں یہ بات صراحت سے لکھی ہوئی ہے کہ قدیم زمانے میں ایک فرقہ نصیریہ تھا جس کا عقیدہ یہ تھا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم خدا تھے اور اس فرقے کے علاوہ کسی اور مسلک یا فرقے کے بارے میں مسلم تاریخ کو مدون کرنے والوں نے کبھی یہ نہیں لکھا کہ وہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی الوھیت کا قائل تھا اور شیعہ اثنا عشری مسلک کے بارے میں کسی مستند تاریخ میں عقیدہ الوھیت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی نسبت مذھب امامیہ کی طرف نہیں کی گئی، اہل تشیع کے علمائے اصول کے ہاں عقیدہ توحید میں تنزیہہ کی اہمیت ہے،
میں اہل سنت کے اشاعرہ مسلک سے تعلق رکھنے والا ایک عرب مسلم ہوں اور فقہ شافعی کا پیروکار ہوں اور جامعہ الازھر کے شیخ الاسلام مفتی اعظم سمیت بہت سے عرب علمائے اسلام شوافع،مالکی،حنبلاء و حنفی سے واقف ہوں جنھوں نے کبھی مذھب امامیہ پر یہ الزام عائد نہیں کیا کہ مذھب امامیہ حضرت علی کے خدا ہونے کے قائل ہیں کیونکہ یہ سب علماء بہت اچھی طرح سے واقف ہیں کہ عقیدہ توحید کے حوالے سے امامیہ جو اقوال اور ارشادات حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی جانب منسوب کرتے ہیں اور جس طرح سے اپنے اصول توحید کو بیان کرتے ہیں اس کے بعد تجسیم و تشبیہ کا ہلکا سا شائبہ بھی مذھب امامیہ کے عقیدہ توحید میں آنا ناممکن ہے اور اگر شیخ صدوق کی الاعتقاد،شیخ مظفر کی الامامیہ،شیخ محمد حسین کی “اصل و اصول شیعہ”کا مطالعہ کیا جائے تو بات بہت واضح ہوجاتی ہے لیکن جب مقصد جھوٹ بولنا ہو اور لوگوں میں فتنہ پھیلانا ہو تو پھر حقیقت ایسے ہی مسخ کی جاتی ہے جیسے خوارج اور تکفیری انتہا پسند کرتے ہیں،
نہج البلاغہ میں اولین خطبہ توحید کے بیان پر مشتمل ہے اور اس کو پڑھنے کے بعد کوئی آدمی کیسے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی الوھیت کا قائل ہوسکتا ہے
کائن لاعن حدث،موجودلاعن عدم مع کل شیء لابمزایلۃ الخ
شیعہ اثنا عشری یا مذھب امامیہ پر یہ بہتان لگانا کہ وہ قران میں تحریف کے قائل ہیں خوارج کی روش ہے، بہت سے فرقہ پرست تنگ نظر تکفیری لوگ حقیقت میں یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ اپنی عربی دانی کے بل بوتے پر اور بے تکان کتابوں کے حوالے دیکر یا کتابوں کی عبارتوں کو ان کے سیاق و سباق سے ہٹاکر بیان کرتے ہوئے اپنے معتقدین کو جو چاہیں گے کسی بھی مسلک یا شخص کے بارے میں بتادیں گے اور وہ اس کو مان جائیں گے، ایسا پاکستان کے اندر زیادہ تر اس لیے ہورہا ہے کہ اکثر عوام عربی تو دور کی بات ہے اپنی زبان اردو بھی ٹھیک سے پڑھ نہیں پاتے اور پھر دیوبندی اور وہابی مکا تب فکر میں اہلسنت بریلوی، صوفی اور شیعہ کے بارے میں اسقدر نفرت پھیلادی گئی ہے کہ اس کا عام آدمی کبھیبریلوی اور شیعہ علماء سے پوچھنے کی کوشش ہی نہیں کرتا کہ ان کا کیا عقیدہ ہے جیسا کہ ہماری عرب دنیا میں وہابی اکثر وبیشتر صوفی سنی اور شیعہ کے بارے میں جھوٹا اور مسخ شدہ پروپیگنڈا کرتے رہتے ہیں اور وہابی سلفی نوجوان اکثر کتب ہائے اہلسنت و علمائے شیعہ سے واقف ہی نہیں ہوتے-
میں نے جب اہل تشیع کے علمائے اصول و فقہا کی کتب کی تلاش شروع کی اور ان کے قران کریم کے بارے میں اعتقاد کی تلاش شروع کی تو میرے سامنے کوئی ایک شیعہ عالم ایسا نہیں تھا جس نے قران جیس کی اس وقت 114 سورتیں ہیں اور جو آج ہمارے سامنے موجود ہے اس کی ایک آیت کے بارے میں بلکہ اس کے ایک لفظ کے بارے میں یہ کہا ہو کہ وہ قران نہیں ہے یا اس کے بارے میں یہ کہا ہو کہ اس میں کسی ایک لفظ یا حرف کی کمی ہوگئی ہو
علما ئے اہل تشیع نے قران کے غیر محرف ہونے اور اس کے اپنے نزول سے لیکر ابد تک تحریف سے پاک ہونے اور اس میں کسی جانب سے کسی باطل کے داخل نہ ہونے پر بالاتفاق اجماع قطعی ہونے کا زکر کیا ہے اور اس اجماع کے خلاف اگر کوئی جاتا ہے تو اس کے جانے کی کوئی اہمیت نہیں ہے
میں اس سے پہلے کہ ان علماء اور ان کے اقوال باحوالہ کتب درج کروں جنھوں نے قران کے غیر محرف ہونے کی بات درج کی اور قران کی موجودہ صورت پر ایمان کا اظہار کیا یہ بتانا ضروری خیال کرتا ہوں کہاگر آپ اہل سنت کی صحاح ستۃ اور اہل تشیع کی کتب ہائے حدیث اور بہت سی ديکر اخباری کتابوں کا مطالعہ کریں گے تو آپ کو بہت سی ایسی حدیثیں مل جائیں گی جن کو پڑھنے سے قران میں کمی یا زیادتی کا شآئبہ پیدا ہوسکتا ہے اور شیعہ اور اہل سنت میں ایسے تنگ نظر لوگوں کی موجودگی ہر زمانے ميں رہی ہے جو ایک دوسرے پر یہ الزام انھی جیسی روایات کے تناظر میں لگاتے رہے کہ وہ تحریف قران کے قائل ہیں لیکن جید علمائے اہل سنت اور اہل تشیع نے کبھی بھی ان الزامات کو سنجیدگی سے نہیں لیا

اہلسنت کی صحاح وغیرہ میں روایات تحریف
صحاح و غیرہ میں بہت سی روایتیں ایسی ملتی ہیں جو تحریف قرآن پر دلالت کرتی ہیں ۔اگر ان روایتوں کو صحیح مان لیا جائے تو تحریف قرآن کا نظریہ اختیار کرنا پڑے گا۔ہم اس مقام پر ان میں سے چند روایتیں پیش کررہے ہیں:
۱۔‘‘……ابراھیم ابن علقمہ کہتے ہیں کہ جب میں عبداللہ کے اصحاب کے پاس شام پہونچا اور ابو درد ا ءکو خبر ہوئی تو وہ ہمارے پاس آئے اور کہا کیا تم میں کوئی قرآن پڑھنے ولا ہے؟ہم نے کہا ‘‘ہاں’’ تو ابودرداء نے کہا‘‘وہ کون ہے’’تو لوگوں نے میری طرف اشارہ کردیا،ابو درداء نے کہا ‘‘پھر پڑھو’’۔میں نے پڑھا‘‘والیل اذا یغشی والنھار اذا تجلی والذکر ولا نثیٰ۔’’ابو درداء نے کہا کیا تم نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دہن مبارک سے اسے سنا ہے ؟’’میں نے کہا‘‘جی ہاں’’تو ابو درداء نے کہا‘‘میں نے بھی پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دہن اقدس سے اس کو سنا ہے لیکن یہ لوگ میری بات کا انکار کرتے ہیں۔’’(۴۷)
۲۔…….. انس ابن مالک نے بیان کیا کہ رعلا،ذکوان ،عصیہ اور نبی کیان نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے (اپنے دشمنوں سے نجات پانےکے لئے)مددطلب کی، پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان (۷۰)سترہ انصار کو مدد کے لئے بھیجا جن کو ہم قراء کہتے تھے،جو دن کو لکڑیا ں جمع کرتے تھے اور رات کو نمازیں پڑھتے تھے جب وہ برٔ معونہ پر تھے تو ان کے ساتھ ان لوگوں نے بے وفائی کی اور ان کو قتل کر دیا۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک جب یہ بات پہونچی تو آپ نے ایک مہینہ تک صبح کی نماز میں قنوت میں رعلا،ذکوان ،عصیہ اور نبی کیان پر بددعا کی۔انس فرماتے ہیں کہ ہم نے ان کے درمیان قرآن پڑھا تھا
‘‘بلغو اعنا قو منا انّا قد لقیناربنا فرضی عناارضانا’’لیکن اب یہ آیت نہیں ہے۔(۴۸)
۳۔عمر کا بیان ہے کہ اگر مجھ کو لوگوں کے یہ کہنے کا خوف نہ ہوتا کہ عمر نے کتاب خدا میں اضافہ کردیا ہے تو میں آیۂ رجم کو اپنے ہاتھوں سے لکھ دیتا۔(۴۹)
اس کا مطلب یہ کہ عمر قرآن میں کمی اور تحریف کے قائل تھے اس لئے کہ آیہ رجم موجودہ قرآن میں نہیں ہے اور عمر نے منسوخ التلاوت ہونے کی بات بھی نہیں کہی ہے اس لئے کہ وہ اس آیت کو لکھدینا چاہتے تھے مگر لوگوں کے خوف کی بنا پر نہ لکھ سکے۔اسی بناپر سیوطی نے صاحب البرھان زرکشی سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ:
‘‘اس کے مظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ آیہ رجم کی کتابت جائز تھی لیکن لوگوں کی ہاتوں کا خوف مانع ہو گیا،جائز چیزوں کے لئے کبھی کبھی الگ سے مانع بھی آجاتا ہے۔جب لکھنا درست تھا تو اس کا مطلب یہ نکلا کہ وہ آیت ثابت ہے اس لئے کہ مکتوب کی یہی شان ہوتی ہے۔(۵۰)
۴۔ابن مسعود سے منقول ہے کہ انہوں نے معوذتین کو اپنے مصحف سے حذف کردیا اور فرمایا کہ یہ کتاب اللہ کا جزد نہیں ہے۔(۵۱)
۵۔بخاری نے اپنی تاریخ میں حذیفہ سے روایت کی ہے ۔حذیفہ فرماتے ہیں کہ میں نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے سورۂ احزاب کی تلاوت کی مگر اس میں سے (۷۰)سترہ آیتیں بھول گیا اور اب ان کا کہیں پتہ نہیں چلتا۔(۵۲)
ابو عبید نے کتاب فضائل میں اور ابن انباری و ابن مردو یہ نے بھی عائشہ سے ایسی ہی باتیں نقل کی ہیں ۔آپ فرماتی ہیں:
سورۂ حزاب عہد پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں دو سو آیتوں پر مشتمل تھا لیکن جب عثمان نے مصحف کو لکھا تو ان کو اتنی ہی آیتیں ملیں جتنی آ ج موجود ہیں۔(۵۳)
‘‘زربن جیش کہتے ہیں کہ ابیٔ بن کعب نے مجھ سے کہا کہ تم لوگ سورۂ احزاب کی کتنی آیتیں پڑھتے ہو تو میں نے کہا۷۳ یا ۷۴ آیتیں ۔تو ابیٔ نے کہا کہ ایسا نہیں ہو سکتا۔سورۂ احزاب تو سورہ بقرہ کے برابر یا اس سے بڑا تھا،اس میں آیہ رجم بھی تھی ۔زربن جیش کہتے ہیں کہ میں نے ان سے پوچھا کہ آیۂ رجم کیا ہے تو آپ نے فرمایا:‘‘اذاز نیا الشیخ والشیخۃ فارجموھا البتۃ نکالاً من اللہ واللہ عزیز حکیم’’یہ آیۂ رجم ہے۔(۵۴)
۶۔عمروبن دینار کا بیان ہے کہ میں نے بجالہ تمیمی سے سنا،انہوں نے کہا کہ عمر بن خطاب نے مسجد میں ایک لڑکے کی آغوش میں ایک مصحف دیکھا جس پر‘‘النبی اولیٰ بالمومنین من انفسھم وھو ا بو ھم’’لکھا ہو ا تھا۔عمر نے کہا اس کو مٹادو۔اس نے جواب دیا میں نہیں مٹاؤں گا۔یہ ابی ابن کعب کے مصحف میں موجود ہے۔وہ پھر ابیٔ کے پاس گئے ابیٔ نے کہا کہ میں رات دن قرآن میں صرف کرتا ہوں اور تمہیں بازاروں سے فرصت نہیں۔(۵۵)
۷۔ابو واقد اللیثی کہتے ہیں کہ جب پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی نازل ہوتی تھی تو ہم ان کے پاس جاتے تھے اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وحی کی تعلیم فرماتے تھے۔ایک دن میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو ا تو انہوں نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔انا انزلنا المال لاقامۃ الصلوٰۃ وایتاء الزکوٰۃ ولو ان لابن آدم واد یا لاحب ان یکون الیہ الثانی ولو کان الیہ الثانی لا حب ان یکون الیھما الثالث ولا یملاء جوف ابن آدم الا التراب ویتوب اللہ علیٰ من تاب۔(۵۶)
۸۔ابو حرب بن ابوالا سود اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ:ابو موسیٰ شعری نے اہل بصرہ کے قاریوں کو بلایا تو ان کے پاس تین سو قاری آئے۔ابو موسیٰ نے کہاکہ آپ حضرات اہل بصرہکے برگزیدہ افرااد اور قادری ہیں آپ لوگ قرآن کی تلاوت فرمائیں کہیں ایسا نہ ہو کہ کچھ زمانہ گزر جانے کے بعد آپ لوگوں کے دل بھی آپ سے پہلے والوں کی طرح سخت ہو جائیں ۔ہم لوگ عہد پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ایک سورہ پڑھا کرتے تھے جو طول و شدت میں سورۂ برأت کی طرح تھا لیکن ہم اس کو بھول گئے البتہ‘‘لوکان لابن آدم واریان من مال لا تبغیٰ واد یا ثالثا ولا یملاجوف ابن آدم الا التراب’’یاد رہ گیا ہے۔
ہم لوگ اور مسودہ بھی پڑھا کرتے تھے جو مسبحات (وہ سورہ جن کے شروع میں سبح یا یسبح آیا ہے جیسے جمعہ ،سورہ حشہ،کی طرح کا تھا میں اس کو بھی فراموش کر گیا صرف یہ آیت یاد رہ گئی ہے‘‘یا ایھا الذین اٰمنولم تقولون مالاتفعلون فتکتب شھادۃ فی اعناقکم فتسألون یوم القیامۃ(۵۷)
۹۔…… حذیفہ نے کہا کہ اب تم سورہ برأت کا چوتھا ئی بھی نہیں پڑھتے ۔(۵۸)
۱۰۔ابن عباس فرماتے ہیں جب آیہ وانذرعشیرتک الا قربین‘‘ورھطک منھم الخلصین’’نازل ہوئی۔(۵۹)
۱۱۔…… عمر ابن خطاب نے ابئ سے کہا کہ کیا ہم کتاب خدا میں ان انتفاءکم من آبائکم کفربکم’’نہیں پڑھتے تھے تو ابی نے کہا کہ ہاں (پڑھتے تو تھے)پھر عمر نے پوچھا کہ الولد للفراش و للعاھر الحجر کا فقرہ کیا کتاب خدا میں نہیں تھا۔(۶۰)
۱۲۔ثوری کہتے ہیں کہ ہم تک یہ خبر پہونچی ہے کہ مسیلمہ کے دن وہ اصحاب نبی قتل کردئے گئے جو قاری قرآن تھے اسکی بنا پر قرآن کے حروف ضائع ہوگئے۔(۶۱)
۱۳۔حسن کہتے ہیں کہ عمر نے چاہا تھا کہ قرآن میں یہ لکھ دیا جائے :ان رسول اللہ ضرب فی الخمرثمانین۔(۶۲)
۱۴۔طبرانی نے سندموئف کے ساتھ عمر ابن خطاب سے مرفوعاً روایت کی ہے کہ__ عمر نے فرمایا کہ ‘‘قرآن میں دس لاکھ ستائیس حروف تھے’’درآں حالیکہ اب جو قرآن ہے وہ اس کے ایک تہائی سے زیادہ نہیں ہے(۶۳)
اْمید ہے کہ اہلسنت کی کتابوں میں اس طرح کی روایتوں کی موجودگی کے بعد تحریف قرآن کے عقیدہ کو شیعوں کی طرف منسوب کرنے کی کوشش نہیں کی جائے گی۔
۱۵۔عمر نے کہا کہ تم میں سے کوئی یہ نہ کہے کہ میں نے پورا قرآن حاصل کر لیا ہے۔کیا معلوم کہ پورا قرآن کیا ہے اس لئے قرآن کا بہت ساحصہ ضائع ہو گیا ہے۔ہاں یہ کہسکتے ہو کہ میں نے اس کا ظاہر حاصل کر لیاہے(۶۴)
۱۶۔عائشہ کہتی ہیں کہ قرآن میں یہ بھی تھا‘‘عشر ضعات معلومات یحرّمنّ’’(۶۵)
۱۷۔مالک نے کہا کہ جب سورۂ برائت کے ابتدائی حصّے ساقط ہوئے تو انہیں کے ساتھ آیہ بسم اللہ الرّحمٰن الرحیمبھی ساقط ہوگئی۔اس لئے کہ یہ تو ثابت ہے کہ سورۂ برائت سورہ بقرہ کے برابر تھا(۶۶)
۱۸۔…… ابن مسعود نے کہا کہ ہم عہد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آیہ بلغ کو یوں پڑھا کرتے تھے۔یا ایھا الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک ان علیا مولیٰ المومنین وان لم تفعل فما بلّغت رسالتہ واللہ یعصمک من الناس(۶۷)
۱۹۔…… عائشہ کہتی ہیں کہ آیہ ‘‘رجم’’اور آیہ ‘‘رضاع کبیر’’نازل ہوئی تھی۔میرے تکیہ کے نیچے ایک کاغذ میں لکھی ہوئی رکھی تھی ۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد جب ہم لوگ اس مصیبت میں مبتلاہوئے تو ایک بکری آئی اور اس کو چباگئی(۶۸)۔
۲۰۔ابو سفیان کلاعی نے بیان کیا کہ مسلمہ ابن مخلد انانصاری نے ایک دن ان لوگوں سے کہاکہ ‘‘مجھے قرآن کی ان دوآیتوں کے بارے میں بتاؤ جو قرآن میں درج نہیں ہیں لیکن لوگ نہ بتاسکے۔وہاں ابو الکنود سعد بن مالک بھی موجود تھے ۔تو ابن مسلمہ نے کہا وہ آیتیں یہ ہیں :ان الذین آمنوں اوھاجرو اوجاھدو افی سبیل اللہ باموالھم وانفسھم ،الا ابشر وانتم المفلحون والذین آووھم و نصروھم وجادلوا عنھم القوم الذین غضب اللہ علیھم اولٰئک لا تعلم نفس ما اخفی لھم من قرۃ اعین جزاءً بما کانو یعلموں(۶۹)
۲۱۔مسور ابن مخرمہ کا بیان ہے کہ عمر نے عبدالرحمٰن بن عوف سے کہا کہ جو آیتیں نازل کی گئی تھیں کیا ان میں تم اس آیہ‘‘ان جاھدو اکما جاھدتم اول مرّۃ ’’کو داخل سمجھتے ہو کیوں کہ اب ہم اس آیت کو (قرآن میں)نہیں پاتے عبدالرحمٰن نے کہا کہ جو چیزیں قرآن سے ساقط کردی گئیں ان کے ساتھ یہ آیت بھی ساقط کردی گئی(۷۰)
۲۲۔ابی ابن کعب سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے مصحف میں سورہ ‘‘حفد’’ اور سورہ ‘‘خلع’’بھی درج کیا تھا۔(اس کی آیتیں یہ ہیں)الّٰلھم انا نستعینک و نستغفر ک ونثتی علیک ولا نکفر و نخلع و نترک من یفجرک اللّٰھم ایاک نعبدو لک نصلی و نسجد والیک نسعی و نحفد نرجو رحمتک و نخشی عذابک ان عذابک بالکافرین ملحق(۷۱)

ان روایات کو اہلسنت اور شیعہ علما نے رد کیا ہے کیونکہ دونوں اطراف کے علماء کا یہ متفقہ عقیدہ ہے کہ جب ایسی احادیث سامنے آئیں جو معارض قران ہوں یا اجماع امت کے منافی ہوں تو ان کو رد کردیا جائے گا اور اسی طرح اگر کوئی روایت سنت معروف کے خلاف ہو تو اسے بھی رد کردیا جائے گا اور اگر تضاد تاویل سے رفع ہوسکتا ہو تو تاویل ایسے کی جائے گی جس سے روایت موافق کتاب و سنت ہوجائے
امام علی رضا سے عیون الاخبار جلد دوم ص 20 پر شیخ صدوق نے یہ حدیث درج کی کہ جو حدیث متعارض قران ہو اسے رد کرو اور جو موافق ہو اسے قبول کرلو
امام جعفر صادق کے واسطے سے حضرت علی سے شیخ صدوق نے امالی کے ص 368 پر حدیث درج کی حق بہت واضح ہے جو قران کے مطابق ہو اسے لو اور جو اس کے خلاف ہو اسے رد کردو
تحفۃ العقول کے ص 343 پر علامہ بحرینی نے امام تقی کا قول درج کیا ہے کہ جب بھی تمہارے سامنے کوئی شئے بطور حقیقت پیش کی جائے اسے قران کے سامنے پیش کرو اگر مافق ہو تو قبول کرو ورنہ اسے رد کردو
شیخ الانصاری نے الرسائل میں ص446 پر امام جعفر صادق کا قول درج کیا کہ جب دو متضاد حدیثیں تم تک آئیں تو ان کو قران کے سامنے پیش کردو جو موافق ہو قبول کرلو جو نہ ہو اس کو رد کردو
شیعہ کے ہاں حدیث ثقلین تواتر کا درجہ رکھتی ہے اور اس حدیث میں اللہ کے رسول نے کتاب اللہ اور عترت رسول کے ساتھ تاقیامت وابستہ رہنے اور حوض کوثر پر آپ کو ملنے کی نصحیت کی اور اس حدیث کی بنیاد پر شیعہ کہتے ہیں کہ ان کے مسلک کی بنیاد اور جڑ ہی کتاب اللہ اور اہل بیت اطہار سے مکمل وابستگی ہے اور اس لیے وہ سب سے زیادہ قریب ہدائت ہونے کے دعوے دار ہیں اور اپنے آپ کو اسلام کے سب سے صافی سرچشموں سے فیض یاب ہونے کا دعوی کرتے ہیں لیکن اگر وہ ‍قران ہی میں تحریف کے قائل ہوجائیں تو پھر اخذ بالکتاب و بالعترۃ کا دعوی بے معنی ہوجائے گا اور ہدائت یافتہ ہونے کا خیال بھی بے معنی ہوجائے گا
قران پاک کے بارے میں اہلسنت اور اہل تشیع کے علماء اور رہنماء اگر تحریف کے قائل ہوتے اور موجودہ قران کے بارے میں کسی شک و شبہ کے شکار ہوتے تو ان کے علماء اور رہبروں کے ہاں فضائل تلاوت قران ،سورہ اور آیات کا زکر کثرت سے نہ ملتا اور ان کو فرض و نوافل عبادات کے اندر پڑھنے کی ترغیب نہ دلائی جاتی، علمائے اہل تشیع نے ایسی کتب لکھی جس میں آئمہ اہل بیت سے ایسی روایات کا کثرت سے ذ کر کیا جس میں عبادات کے اندر سورت اور آیات کی تلاوت کی ترغیب ہے اور اس پر ثواب کا وعدہ زکر کیا گیا ہے
اس طرح کی روایات ہمیں اصول کافی،امالی شیخ صدوق،ثواب العمل ،جواہر الکلام ،الاعتقاد وغیرہ میں بہت کثرت سے سے آئی ہیں
شیخ یعقوب الکلینی کی مرتب کردہ کتاب الکافی کی دوسری جلد ص448 اور امالی شیخ صدوق کے ص59-60پر امام باقر کی بہت مشہور حدیث ہے کہ جو قران کریم کی روز 10 آیات تلاوت کرے گا تو وہ غافلوں میں لکھا نہیں جائے گا، جو 50 آیات تلاوت کرے گا ذاکرین میں اس کا شمار ہوگا، جو 100 آیات تلاوت کرے گا شاکرین میں شمار ہوگا، جو 200آیات تلاوت کرے گا وہ خاشعین میں ہوگا، جو 300 آیات تلاوت کرے گا وہ کامیاب لوگوں میں شمار ہوگا، جو 500 آیات تلاوت کرے گا وہ مجتھدین میں شامل ہوگا، جو 1000 آیات تلاوت کرے گا بہت زیادہ اجر پانے والوں میں ہوگا، امام جعفر صادق سے روایت ہے جو آدمی وتر میں معوزتین اور سورہ اخلاص کی تلاوت کرے گا تو اس سے کہا جائے گا کہ اے اللہ کے بندے تمہارے وتر اللہ نے قبول کرلئے
یہ امالی ص60 اور ثواب العمل کے ص157 پر موجود ہے
ثواب العمل کی ص 146 پر امام جعفر کی روائت ہے کہ، قران کی تلاوت تم پر فرض ہے کیونکہ جنت میں درجات کا تعین تلاوت آیات کی تعداد کے مطابق ہوگا اور قیامت کے روز قاری قران کی تلاوت کے مطابق اجر دیا جائے گا
امام جعفر صادق کہتے ہیں کہ،ہمارے شیعہ پر فرض ہے کہ شب جمعہ وہ سورہ جمعہ کو پڑھے
اور امام باقر نے فرمایا جو مکّہ میں دو جمعہ کے دوران قران مکمل کرے تو اس کو دونوں جمعوں تک مشغول عبادت سمجھا جائے گا
آپ اگر معروف شیعہ کتاب جواہر الکلام کی جلد 9 کے ص 400 سے 419 تک پڑھیں تو اس میں آپ کو فرض نمازوں میں جن سورتوں یا آیات کا پڑھنا مستحب ہے کا بیان ہے اور اسی طرح سے اکر آپ شیخ صدوق کی ثواب العمل کے ص 130 سے 158 تک یعنی 28 صفحات اور الاعتقاد کا ص 93 پر نمازوں میں قران کی آیات کی تلاوت کے حوالے سے درجنوں روایات درج کی ہیں
نہج البلاغہ کے اندر درجنوں خطبات ایسے ہیں جس میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے قران کریم کی فضیلت،اس کا کسی شک وشبہ سے بالاتر ہونا،اس میں کسی باطل کے درآنے کا احتمال نہ ہونا اور اس کے محفوظ و مامون ہونے کا زکر کیا اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے اپنے مخالفوں اور دشمنوں سے مباحثے کے دوران قران کی آیات سے استدلال کیا اس حوالے سے نہج البلاغہ کا خطبہ 158،176،133،198،183،1،18کو ملاحظہ کرنا چاہئیے اور اس حوالے سے امالی میں شیخ صدوق ،تفسیر قمی میں علی بن ابراھیم قمی ،قتال نیشاپوری نے شیعہ مجتھدین اور آئمہ اہل بیت نے مباحثوں کو قران کی آیات کے حوالے دیئے جانے کا زکر کیا ہے
یہ داخلی شہادتیں ہیں شیعہ کی کتب سے جو انھوں نے قران پاک کی فضیلت اور اس کے ناقابل تحریف ہونے کے بارے میں ہمیں ملتی ہیں اور یہ اتنی واضح ہیں کہ ان کے بعد یہ کہنا کہ شیعہ تحریف قران کے قائل ہیں ایک سنگین جرم اور بدیانتی کے زمرے میں آتا ہے اور جو شخص ایسا کہتا ہے وہ تو کسی عام سے معاملے میں بھی گواہی دینے کے قابل نہیں رہتا اور پایہ ثقاہت سے گرجاتا ہے اور کاذب ثابت ہوتا ہے اور اب فرقہ پرست خوارج اور تکفیری حضرات کو یہ بتانے کی ہرگز ضرورت نہیں ہے کہ جو مہتم بالکذب ہو تو اس کی تو کوئی روائت بھی قابل قبول نہیں ہوتی اور اس کا کذب ثابت ہوجائے تو پھر اس کا کوئی اعتبار نہیں کرتا
قران پاک کے بارے میں شیعہ علماء کی رائے
شیخ صدوق نے الاعتقاد کے ص92-93اور تفسیر صافی کے ص13 پر ان کے حوالے سے درج کیا گیا کہ انھوں نے کہا کہ قران کے بارےمیں ہمارا عقیدہ ہے یہ اللہ کا کلام ہے ،یہ وحی ہے ۔۔۔۔۔۔اور اس میں باطل اوپر ،نیچے،دائیں بائیں کسی سمت سے داخل نہیں ہوسکتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قران جس کی 114 سورتیں کسی بھی قسم کی تحریف ،اضافے یا کمی سے پاک ہے
(شیخ صدوق کی وفات 381ھ میں ہوئی)
محمد بن نعمان بغدادی متوفی 413ھ کا قول ہے کہ قران کے الفاظ،سورتوں اور آیات میں کوئی تحریف نہیں ہوئی
بحوالہ تفسیر الرحمان ص 17،مراۃ العقول ص171جلد1
سید مرتضی علی بن الحسین موسوی متوفی 436ھ کہتے ہیں آج جو قران موجود ہے یہ وہی ہے جو جناب رسالت مآب کے دور میں تھا
بحوالہ تفسیر مجمع البیان ص15،تفسیر الصافی ص34
شیخ محمد بن حسن ابوجعفر طوسی شیخ الطآئفہ متوفی کا قول التبیان فی تفسیر القران ص3 جلد 1،البیان فی تفسیر القران جلد1ص3،تفسیر الرحمان ص17تفسیر الصافی ص36پر قران کے ناقابل تحریف ہونے اور محفوظ ہونے پر شیعہ امامیہ کے اجماع کا پر مبنی موجود ہے
فضل بن حسن المعروف شیخ طبرسی متوفی 548ھ کا کہنا ہے کہ تحریف قران کے بارے میں جو بھی قول ہو غلط ہے اور شیعہ کا عقیدہ اس کے خلاف ہے
علامہ ابن آشوب نے مناقب آل علی ابن طالب کی جلد 1ص187پر قران پاک کے تحریف سے پاک ہونے کا زکر کیا ہے
سید الرضی نے حقائق التاویل ص102پر قران کے ناقابل تحریف ہونے کا عقیدہ بیان کیا اور اسے اصول دین سے قرار دیا
علامّہ ابن المطاہر الحلّی متوفی 726ھ نے اپنی کتاب وسائل ص121 پر قران کے ناقابل تحریف ہونے کا زکر کیا ہے
شیخ فتح اللہ کاشانی متوفی 688ھ نے منھاج الصادقین میں قران میں کسی اضافے اور کمی کو مسترد کیا اور قران کے ناقابل تحریف ہونے کو اصول دین سے قرار دیا
محمد بن حسن بہاءالدین عاملی متوفی 1031ھ نے علی الرحمان ص26،قاضی نوراللہ شوستری مصائب النوائب ص105 مقدمہ تفسیر حقانی ص23جلد 1،صدر الدین ملّا صدر الدین شیرازی متوفی تفسیر آیت الکرسی ص332 ،علامہ محسن فیض کاشانی متوفی 1091ھ تفسیر الصافی جلد 1 ص23،ملّا باقر مجلسیمتوفی 1111ھ مراۃ العقول جلد3ص31،بحارالانوار جلد89ص75،جلد 9 ص 113،محمد الحسن بن الحرالعاملی متوفی 1104ھ افصول المھمہ فی تالیف الامہ ص166،ابن ابی حمید احصائی المجلّہ ص302،علامّہ عبداللہ بشرینی خراسانی شرح وافیہ ص52،شیخ ابو جعفر موسوی البیان فی تفسیر القران جلد 1ص3،ملّا صادق امولی تفسیر حقانی جلد 1ص63،شیخ ابراھیم کلباسی اصبہانی اشارات الاصول ،ابوالقاسم القمی ،شیخ جعفر الغطاء ،محمد رضا مظفر ،صادق تہرانی ،عبدالحس شرف الدین العاملی اجوبۃ المسائل ص28-37،عبد الحس طیب کلم الطیب ص 291-295،جواد مغنیہ،علمہ طباطبائی،شریف حسین بن علی علوی ،سید ابو القاسم خوئی ،علامہ علی حیدری،ناصر مکارم شیرازی،محمد سعید الحکیم،آیت اللہ سیستانی العقیدہ ص 454،مجتھد فی المذھب علامّہ گلاب علی نقوی ،مفتی جعفر حسین بانی تحریک نفاذ فقہ جعفریہ سب کے سب قران کے ناقابل تحریف ہونے اور اس کے محفوظ و مامون ہونے کی صراحت کھلے عام بیان کیا ہے اور اس کے بعد کسی قسم کے شک کی گنجائش نہیں رہتی کہ شیعہ اثناء عشریہ کا قران کے بارے میں وہی عقیدہ ہے جو اہل سنت کا ہے
آخر میں ایک بات یہ کہ اکثر و بیشتر اہل تشیع کے اجماع اور بھاری اکثریت کی اس قدر تصریحات کو ںظر انداز کرکے شیخ نور طبرسی کی انفرادی تحقیق کو پیش کردیا جاتا ہے جس کی شیعہ کے اجماع کے آگے اور آئمہ اہل بیت کے واضح ارشادات کے سامنے کوئی حثیت نہیں رہتی
وہ فرقہ پرست خوارج اور تکفیری جو شیعہ یا اہلسنت کے قران کے بارے میں عقیدے کے حوالے سے جو شر پھیلاتے ہیں ان کا مقصد فساد فی الارض کے سوا کچھ بھی نہیں ہے، یہ خبیث بد بخت امت مسلمہ کے دشمن ہیں اور داعش، لشکر جھنگوی سپاہ صحابہ، طالبان اور القاعدہ جیسی خوارج تنظیموں کے لئے کام کرتے ہیں