کہتے ہیں ایک بزرگ حضرت امام جعفر صادق رحمتہ اللہ علیہ کے پاس تشریف لائے، گفتگو ہونے لگی، امام ؒنے پوچھا ، آپ کے نزدیک فتوت(دلاوری ،شجاعت)کیا ہے۔ انہوں نے کہا، جب مل جائے تو شکر کرے، نہ ملے تو صبر کرے۔ امامؒ سن کر مسکرائے اور خاموش ہوگئے۔ ان صاحب نے استفسار کیا ، آپ نے کچھ فرمایا نہیں۔ امام جعفر صادق ؒ نے اس پر کہا، یہ تو ہمارے شہر کے کتے بھی کرتے ہیں، مل جاتے ہیں تو خوش ہو کر شکر ادا کرتے ہیں ، نہ ملے تو صبر سے بھوکے پڑے رہتے ہیں۔ مہمان بزرگ نے پوچھا، حضرت ! آپ کے نزدیک فتوت کیا ہے، امام ؒ نے فرمایا: مل جائے تو تقسیم کر دیاجائے، نہ ملے تو شکر ادا کرے۔ جناب امام جعفر صادق رحمتہ اللہ علیہ کی اس بات میں ایثار وقربانی کا جو سبق پوشیدہ ہے، اس کا تصور کرکے آدمی مبہوت رہ جاتا ہے۔
یہ دراصل تصوف کی روح ہے۔ تصوف کے پورے انسٹی ٹیوشن کا مقصد ہی اس انداز کی تربیت کرنا اورطالب علم (سالک )میں مومن کے وہ اوصاف پیدا کرنا ہیں جن کی ہدایت ہمارے آقا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ۔ تصوف کے خلاف بہت کچھ لکھا جاتا ہے، بیشتر بے بنیاد اور مغالطوں کے باعث۔ کوئی تصوف پر متوازی دین ہونے کی تہمت چسپاں کر دیتا ہے، کسی کو تصوف افیون لگتا ہے، بعض اسے شریعت سے متصادم سمجھتے ہیں۔ بات نہایت سادہ ہے۔ تصوف ایک ٹریننگ انسٹی ٹیوشن یا اکیڈمی ہے۔ ایک پری نرسری سکول سمجھ لیجئے۔ جہاں بچوں کو سکول جانے سے پہلے کچھ تیاری کراد ی جاتی ہے،انگریزی اصطلاح کے مطابق کیپیسٹی بلڈنگ کرائی جاتی ہے۔ جو اس کی ضرورت محسوس کرے، سو بسم اللہ، فری آف کاسٹ ٹریننگ کا انتظام ہے، جسے اس کی ضرورت نہیں،وہ اس پری نرسری سکول میں نہ آئے۔ کوئی جبر نہیں، پابندی نہیں، آنا ضروری بھی نہیں۔ اصل مقصد شریعت پر عمل کرنا اور اپنی نفسی کمزوریوں ، خامیوں کو دور کرنا ہے۔ جو اپنے طور پر تذکیہ نفس کر سکتا ہے، اچھی بات ہے، لیکن کمزور طالب علموں کے لئے ایک رعایت موجود ہے، تو اس پر تنقید کیوں؟
اس حوالے سے ہونے والے اعتراضات بھی عجیب وغریب ہیں۔ اکثر لوگ نکتہ اٹھاتے ہیں کہ اگر یہ ضروری ہوتا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی ہدایت فرماتے۔ اس کا بڑا مدلل جواب مولانا عبدالماجد دریابادی مرحوم نے دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ بھائی جس چیز کی جب ضرورت محسوس ہوگی، تب ہی اس کا اہتمام کیا جائے گا۔ آپ ﷺ کے زمانے میں کسی کو اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی۔جب ڈیڑھ دو سو سال کے بعد سماج میں اخلاقی کمزوریاں پیدا ہوئیں ، تب کچھ بزرگوں نے تربیت کے کسی نظام کی ضرورت محسوس کی،جس طرح ضرورت پڑنے پر احادیث کے مجموعے مرتب ہوئے، قرآن کی تفاسیر لکھی گئیں۔ اس پر توکوئی نہیں بولتا کہ اگر حضورﷺ ضروری سمجھتے تو خود تفسیرلکھوا سکتے تھے۔ یوں تصوف کا پوراانسٹی ٹیوشن وجود میں آیا۔ مختلف بزرگوں نے اپنے اپنے انداز میں تربیت، تزکیہ نفس کے اصول وضوابط بنائے، تو ان کے ناموں سے الگ الگ سلسلے مشہور ہوگئے، جنیدی، قادری،چشتی، سہروردی، نقشبندی، شاذلی، اویسی وغیرہ وغیرہ۔بنیادی سپرٹ ایک ہی تھی کہ طالب علموں کاتزکیہ نفس کیا جائے۔انہیں صبر، شکر، ایثار، قربانی کی عملی عادت ڈالی جائے، غیبت، چغلی،جھوٹ، لالچ، ہوس وغیرہ سے دور رہنے اور دیگر فواحش ومنکرات سے باز رہنے کی تربیت ملے۔اس کے لئے نفلی روزے رکھوائے جاتے،مسافروں اور زائرین کی خدمت پر مامور کیا جاتا، کم کھانے، کم سونے اور کم بولنے کی تلقین ہوتی ۔مجموعی طور پر صوفیا ءلوگوں کو دین اور دنیا ایک ساتھ چلانے کی تلقین کرتے رہے۔ اس کے لئے ایک فقرہ استعمال ہوتا رہا کہ ایک ہاتھ میں دین ، دوسرے میں دنیا۔
یہ بالکل غلط ہے کہ تصوف افیون کی طرح ہے یا یہ بے عملی کی طرف راغب کرتا ہے۔ حقیقی تصوف تو ایسے مرد مجاہد پیدا کرتا ہے، جو کمر باندھے ہوئے ہمیشہ عمل کے لئے تیار رہتے ہیں۔ اہل تصوف دراصل سماج کا وہ سافٹ حصہ ہیں جو اگر نہ ہو تو معاشرہ زیادہ خود غرض، سنگ دل اور وحشی ہوجائے۔ایک حقیقی صوفی محبت اور گداز کا پیکر ہے، وہ فتوے لگانے اور لوگوں کو دین کے دائرے سے باہر نکالنے کے بجائے محبت سے ان کے دل جیتتا اور انہیں دین کی حقیقی روح سے روشناس کراتا ہے۔ چشتیہ سلسلے کے نامی گرامی بزرگ حضرت غریب نواز معین الدین چشتی اجمیریؒ سے کسی نے پوچھا کہ آپ کو لوگوں کی کون سی بات ناپسند ہے؟ جواب دیا: انسانوں کو اچھوں اور بروں میں تقسیم کرنا۔ سوال ہوا، آپ کو اپنے لئے کیا پسند ہے، فرمایا: ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑنا۔ سلطان الطائفہ حضرت جنید بغدادیؒ کے پاس ایک بزرگ آئے، ان سے کسی نے سوال کیا کہ دلاوری کیا ہے، جواب میں نووارد بزرگ نے فرمایا: یہ کہ انسان اپنے ذمے کے تمام فرائض تو ادا کرے ، مگر دوسروں پر اس کے جو حقوق ہوں، وہ ان سے دست بردار ہوجائے۔ جناب جنید بغدادی کھڑے ہوئے،شاگردوں سے فرمایا، شیخ کا اکرام کرو، انہوں نے وہ بات کی ہے کہ زمین اس کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی۔