تاریخ سے ایک ورق: شہید ملت وزیر اعظم لیاقت علی خان نے مولاناشبیرعثمانی کو مسلم لیگ کے مرکزی حلقہ سے کیوں علیحدہ کیا
مولانا شبیر احمد عثمانی نے اگرچہ اپنے ہم مسلک دیوبندی علما کے مقابلے میں پاکستان کی حمایت کی تھی لیکن اپنے ایجنڈے اور مسلک کے بارے میں ان کا رویہ کچھ سخت تھا – انہوں نے ایک بشارت کا خواب سنا کر وزیر اعظم لیاقت علی خان کو اسلامی نظام کی طرف متوجہ کرنا چاہا، قائد اعظم محمد علی جناح کے جنازے کی امامت کرائی ، قرارداد مقاصد میں لبیک یا رسول الله کو پاکستان کا قومی مشن بنانے میں حائل ہوئے – بعد میں شہید لیاقت علی خان بھانپ گئے کہ مولانا عثمانی کے نظریات مسلک پرستی پر مبنی ہیں
یہی وجہ ہے کہ شہید ملت لیاقت علی خان نے ان کو مسلم لیگ سے علیحدہ کر دیا ، اس کے بعد مولانا عثمانی نے اپنے مسلک کی جماعت جمیعت علما اسلام کی بنیاد رکھی – دیوبند کے مولانا محمد فیاض سواتی لکھتے ہیں
“علامہ عثمانی رح بھی بہت جلد ہی بھانپ گئے تھے ، جو لوگ ان کی قربانیوں کو کیش کرتے ہوئے ان ہی کے کندھوں پر سوار ہو کے اسمبلیوں میں پہنچے تھے ، سب سے پہلے ان ہی نے انہیں ڈھنسا تھا ، میں نے اپنے والد ماجد رح سے یہ بات سنی تھی کہ ” جب مولانا عثمانی رح اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے تھے اور اسمبلی کے اجلاس میں انہوں نے یہ نقطہ اعتراض اٹھایا تھا کہ یہاں ارکان اسمبلی اپنی تقریریں انگلش کی بجائے اردو میں کریں تاکہ ہمیں بھی سمجھ آئے کہ کیا کہا جارہا ہے اور پھر ہم بھی اس بحث میں حصہ لے کر اپنی رائے کا اظہار کریں تو بجائے اس کے کہ ان کی اس معقول بات کو کوئی اہمیت دی جاتی الٹا ان کو توہین آمیز انداز میں یہ کہا گیا کہ مولانا آپ اپنی نشست پر بیٹھے رہیں ہم نے تو آپ کو صرف دعا کے لئے بلایا ہے ، اس ناروا سلوک پر صدمہ سے مولانا کئی دن تک بہت ہی روئے تھے اور پھر انہوں نے اپنے مخلص ساتھیوں اور شاگردوں سے فرمایا تھا کہ آپ لوگ میرے ارد گرد اکٹھے ہوجائیں تو انہوں نے جمعیت علماء اسلام کی بنیاد رکھی تھی ۔ ”
مومن خان سواتی لکھتے ہیں
“حضرت علامه عثمانی مرحوم جب آخری سفر میں بھاولپور آئے تو ایک شاگرد نے ان سے کها حضرت هم آپ کی صحت کے لئے دعاگو ھیں جس پر علامه نے حسرت بھرے لهجے میں فرمایاتھا که کونسی صحت اور کونسی زندگی کی بات کرتے ھو میں تو اس دن مرچکا ھوں جس دن آزادی کے بعد مجھے لیاقت علی خان نے کہا تھا مولانا، اب اسلامی (یعنی دیوبندی) نظام کے لئے زیاده سرگرمی دکھانے کی ضرورت نھیں آپ گھر بیٹھ جائیں جب کبھی ضرورت پڑے گی تو ھم آپ کو خود بلالیاکریں گے فرمایا میں تو اسی دن مرچکا ھوں”