مادام نور جہاں کی آواز میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کی لکھی ہوئی خوبصورت نعت رسول مقبول صلی الله علیہ والہ وسلم
لم یات نظیرک فی نظر، مثل تو نہ شد پیدا جانا
جگ راج کو تاج تو رے سر سو ہے ، تجھ کو شہ دوسرا جانا
البحر علا والمود طغےٰ ، من بیکش و طوفاں ہوشربا
منجدھار میں ہوں بگڑی ہے ہوا، موری نیّا پار لگا جانا
یا شمس نظرت الیٰ لیلی ، چو بطیبہ رسی عرضے بکنی
توری جوت کی جھلمل جگ میں رچی، مری شب نے نہ دن ہونا جانا
لک بدر فی الوجہ الاجمل، خط ہالہءِ مہ زلف ابر اجل
تورے چندن چندر پرو کنڈل، رحمت کی بھرن برسا جانا
انا فی عطش و سخاک اتم، اے گیسوئے پاک اے ابر کرم
برسن ہا رے رم جھم رم جھم، دو بوند ادھر بھی گرا جانا
یا قا فلتی زیدی اجلک، رحمے بر حسرتِ تشنہ لبک
مورا جیر الرجے درک درک، طیبہ سے ابھی نہ سنا جانا
واھا لسویعات ذھبت، آن عہد حضور بار گہت
جب یاد آوت موہے کر نہ پرت، دردا وہ مدینہ کا جانا
القلب شح والھم شجوں، دل زار چناں جاں زیر چنوں
پت اپنی بپت میں کا سے کہوں، مورا کون ہے تیرے سوا جانا
الروح فداک فزد حرقا، یک شعلہ دگر بر زن عشقا
مورا تن من دھن سب پھونک دیا، یہ جان بھی پیارے جلا جانا
بس خامہءِ خام نوائے رضا، نہ یہ طرز مری نہ یہ رنگ مرا
ارشاد احبا ناطق تھا، ناچار اس راہ پڑا جانا
*****
اس کلام کا پس منظر
علامہ عبدالستار ہمدانی فرماتے ہیں
“چار زبان پر مشتمل یہ نعت نظم فرمانے کی وجہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ احبا اور ناطق نام کے دو شاعر جو امام احمد رضا خان بریلوی کے معتقد تھے انہوں حضرت رضا علیہ لرحمہ کی خدمت میں گذارش کی کہ اردو ادب میں صنعت تلمیع میں بہت کم اشعار پائے جاتے ہیں ۔ لہذا آپ دو زبانوں پر مشتمل ایک نعت نطم فرما ئیں تو اردو ادب پر احسان ہوگا ۔ آپ نے احبا اور ناطق کی گذارش کو شرف قبولیت سے نوازتے ہوئے دو کے بجائے چار زبانوں پر مشتمل مذکورہ نعت نظمر فرمائی اور مقطع میں ارشاد اور ناطق کے لفظ استعمال فرما کر دونوں فرمائش کنندہ کے نام کا ذکر بھی فرما دیا “