صاحبان اس بابت اپنا موقف واضع کردیجئے
1۔ آپکا عقیدہ یہ ہے کہ کوئی صحابی غلطی نہیں کرسکتا؟
2۔ یا آپ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ صحابی سے غلطی ہوسکتی ہے مگر کسی صحابی سے کبھی کسی غلطی کا صدور نہیں ہوا؟
3۔ یا آپ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ صحابہ سے غلطی کا صدور ممکن بھی تھا اور صدور ہوا بھی مگر انکو بیان کرنا جائز نہیں اور نہ صحابہ کی کسی غلطی کو غلطی کہا جا سکتا ہے؟
ان میں سے جس بات کے بھی آپ قائل ہوں اسکی وضاحت فرمادیں
اگر آپ پہلی بات کے قائل ہیں تو وہ اہل سنت میں سے کسی کا عقیدہ بھی نہیں ہے
اگر دوسری بات کے قائل ہیں تو اسکا غلط ہونا ایسے ناقابل انکار واقعات سے ثابت ہے جو قرآن پاک اور بکثرت احادیث صحیحہ اور اکابر اہل سنت کی نقل کردہ کثیر روایات مین بیان ہوئے ہیں
اور اگر تیسری بات کے قائل ہیں تو بھی قطعی بے بنیاد ہے کیونکہ متعدد مقامات پر خود قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کی بعض غلطیوں کا ذکر فرمایا ہےاور محدثین نے انکے مفصل واقعات نقل کئے ہیں اور مفسرین میں سے شائد کسی کا بھی آپ نام نہیں لے سکتے جس نے اپنی تفسیر میں ان واقعات کو بیان نہ کیا ہو۔ اہل سنت کے نزدیک صحابہ پر طعن کرنا اور انکی مذمت کرنا جائز نہیں، اور اس فعل کا ارتکاب الحمدللہ مولانا مودودی نے اپنی کسی بھی تحریر میں نہیں کیا۔
تاریخی واقعات کو کسی علمی بحث میں بیان کرنا علمائے اہل سنت کے نزدیک کبھی ناجائز نہیں رہاہے ۔ ۔ نہ علمائے اہل سنت نے کبھی اس سے اجتناب کیا ہے اور نہ کسی عالم نے کبھی یہ کہا ہے کہ صحابی سے اگر غلطی ہو تو اسے صحیح قرار دو ۔!
مولانا نے جو واقعات بیان کئے ہیں وہ اکابر اہل سنت ہی کی کتابوں سے ماخوذ ہیں ۔
مولانا نے صحابہ کی غلطیوں کا جابجا پرچار نہیں کیا ، ڈھنڈورا نہیں پیٹا ۔۔ ۔۔۔ علمی مباحث پر مشتمل کتاب خلافت و ملوکیت میں بطور حوالہ درج کیا ہے
خدارا اپنے اکابر کی ” فتنہ مودودیت” پڑھنے یا “رئیل فیس آف مودودی” دیکھنے کی بجائے کبھی ان کتابوں پر نظر دوڑا لیں ۔ ۔ عجب نہیں کہ آپ پر جبوں اور دستارون کی بددیانتی منکشف ہوجائے
سید مودودی نے تمام واقعات مفسرین کی کتابوں سے اخذ کئے ۔ ۔اگر آپنے کتاب خلافت و مولکیت پڑھی ہوتو حوالے ملاحظہ کرسکتے تھے، کفر کے فتوے مفسرین کی پوری فہرست پر داغیئے ۔ ۔پھر اگلی بات
اگر آپ مفسرین کی تمام لڑٰی کو ہی غلط گردانتے ہیں تو ہم بھی مودودی کو غلط کہتے ہیں ۔ ۔ اب ” ایک مودودی سو یہودی” کا نعرہ ان مفسرین کے شان بھی لگائیں اور غلیظ گالیوں سے نوازنا مت بھولئے گا، درجن بھر کتابیں بھی تو لکھنا بنتیں ہیں نا انکی شان میں ۔ !!
تاریخ گواہ ہے ، مذہب پہ گفتگو کرنے والوں میں اختلاف کو برتنے پہ ایسی متانت اور برداشت سید مودودی ہی کا خاصہ تھی ۔ آپکے مولانا حسین مدنی بھی “ٹٹ پونجئے” جیسے رکید الفاظ استعمال کرنے پر اتر آئے تھے !
سیدی کے لڑیچر ہی کی بدولت جدید تعلیم یافتہ نسل کو خود اسکی زبان اور اصطلاحوں میں دینی فکر سے آشنائی ہوئی، انہیں دور جدید کی ضلالتوں کا ادراک ہوا اور ٹھیٹھ اسلامی نقطہ نظر سے دور حاضر کے مسائل کو دیکھنے کا شعور پیدا ہوا ۔ ۔ ۔ انہیں اس قابل بنایا کہ وہ جدید تعلیم یافتہ لوگوں سے آنکھ ملا کر بات کرسکیں ۔ ۔ !!
آپ نے کیا دیا ؟
فکری غلاضت، “جو نہ مانے وہ بھی کافر” کا نعرہ، اور وہ پمفلٹ جسکی سو مرتبہ فوٹو کاپی کرانے پر پانچ لاکھ روپے ملتے ہیں ۔!