مولانا ابو الاعلٰی مودودی انقلاب اسلامی ایران کو اسلامی انقلاب تصور کرتے تھے، انکی ہمدردیاں انقلاب اسلامی ایران کیساتھ تھیں۔ انہوں نے ہمیشہ انقلاب اسلامی ایران کی تائید اور حمایت کی۔ وہ انقلاب اسلامی کے فوری بعد ایک وفد لیکر امام خمینی کی خدمت میں گئے، گیارہ فروری کو انقلاب کامیاب ہوا اور وہ ستائیس فروری کو وہاں پہنچ گئے۔ پوری دنیا کی اسلامی تحریکوں کے نمائندوں کا وفد تھا، جو چارٹرڈ طیارہ لیکر امام خمینی کے پاس گیا اور کہا کہ آپ کو جس تعاون کی ضرورت ہو، ہم حاضر ہیں۔ لیکن مولانا مودودی اسی سال رحلت کر گئے۔ جب وہ بیمار ہوئے تو انکے بیٹے نے انہیں علاج کے لئے امریکہ بلایا، انکی وفات کے بعد مولانا مودودی کے بیٹے نے تعزیت کے دوران لاہور میں اسلامی جمہوری ایران کے قونصلیٹ کے وفد کو بتایا کہ ہمارے والد محترم نے مجھ سے اس بات کا ذکر کیا تھا کہ اگر میری طبیعت زیادہ ناساز نہ ہوتی تو میں ایران سے ہو کر امریکہ آتا۔ مولانا مودودی نے جو اگلا جملہ کہا وہ بڑا اہم تھا کہ میرا دل انقلاب اسلامی ایران کیساتھ دھڑکتا ہے۔ اسی طرح امام خمینی نے انقلاب اسلامی کی کامیابی سے پہلے مولانا مودودی کو 19 جنوری 1979ء میں خط لکھا اور دو رکنی وفد کیساتھ یہ خط بھیجا۔ یہ میری کتاب کا حصہ ہے، اس کے مندرجات سے ظاہر ہوتا ہے کہ مولانا مودودی نے امام خمینی کو خط لکھا تھا، اور امام خمینی نے اس کا جواب لکھا تھا، کیونکہ اس میں شکریہ کے الفاظ بھی ہیں کہ آپ کا خط ملا۔
مولانا مودودی نے امام خمینی کو اس وقت خط لکھا تھا، جب امام خمینی ابھی پیرس میں تھے، اس کے فوری بعد امام خمینی ایران تشریف لائے۔ مولانا مودودی کے قریبی لوگوں نے بتایا کہ مولانا کے پاس پوری دنیا سے ہزاروں وفد آتے تھے، لیکن اتنا تکلف انہوں نے کسی کے لئے نہیں کیا، جس طرح امام خمینی کے دو رکنی وفد کا پرتپاک انداز میں استقبال اور اہتمام کیا۔ امام خمینی کے متعلق مولانا مودودی نے کہا کہ امام خمینی ایک الٰہی انسان ہیں۔ اسی طرح جب مولانا مودودی کی رحلت ہوئی تو امام خمینی نے انہیں عالم اسلام کا عظیم رہنما قرار دیا۔ اس طرح امام خمینی سے مولانا مودودی کی مکہ میں ملاقات ہوئی
میری کتاب میں موجودہ ولی فقیہ آیت اللہ سید علی خامنہ ای کا خط بھی شامل ہے، جس میں انہوں نے انقلاب سے پہلے مولانا مودودی کی کتب کے عربی ترجمے میں کچھ کمزوریوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مجھے اجازت دی جائے کہ ان چار کتابوں کے اس ترجمے کی تصیحح کر دوں، اس بات کا تذکرہ پہلے کہیں نہیں ہے، یہ ایک نئی بات ہے، مولانا مودودی سے متعلق۔ مولانا مودودی کی رحلت ہوگئی انقلاب اسلامی کی کامیابی کیساتھ ہی، اسی طرح جنگ شروع ہوگئی، لیکن مولانا مودودی کی وفات امام خمینی کے انقلاب پر مکمل اعتماد اور تعاون کیساتھ ہوئی۔ شاید مولانا مودودی کی وفات کے بعد مولانا کے پائے کی کوئی شخصیت جماعت کے پاس نہیں رہی، لیکن جماعت میں ایسے لوگ ہمیشہ موجود رہے ہیں، جو انقلاب اسلامی سے محبت کرتے ہیں، وہ اب بھی ہیں۔
——–
امام خمینی اور مولانا مودودی – ایک تحقیقی تحریر
کسی نے روایت کی ہے کہ جناب خلیل حامدی مرحوم جو جماعت اسلامی کے بیرون ملک روابط کے انچارج تھے، بیان کرتے ہیں کہ حج کے موقع پر وہ مولانا مودودی کے ساتھ تھے۔ ایک دن وہ اپنی قیام گاہ سے اکیلے نکل کھڑے ہوئے، وہ ان کے پیچھے پیچھے چلتے رہے، مولانا ایک بلڈنگ میں داخل ہوئے پھر ایک کمرہ میں چلے گئے۔ وہ کافی دیر باہر انتظار کرتے رہے۔ وہاں پر موجود دربان سے مولانا خلیل حامدی نے دریافت کیا کہ یہاں کون شخصیت ٹھہری ہوئی ہے تو اس نے بتایا کہ آیت اللہ خمینی (رہ) ہیں۔ کوئی ڈیڑھ دو گھنٹے کے بعد مولانا مودودی (رہ) اس کمرے سے نکلے جس میں امام خمینی (رہ)ٹھہرے ہوئے تھے۔
ایک حوالہ اور ملتا ہے: نومبر 1963ء میں مولانا تیسری دفعہ رابط عالم اسلامی کے اجلاس میں شرکت کے لیے سعودی عرب گئے۔ یہ اجلاس یکم دسمبر سے 12 دسمبر تک منعقد ہوئے۔ مکہ میں قیام کے دوران آپ نے حرم شریف میں تقاریر کا سلسلہ شروع کیا۔ یہ تقریریں’’خطبات حرم‘‘ کے نام سے شائع ہو چکی ہیں۔ اس طرح مکہ میں قیام کے دوران ایرانی نوجوانوں کے ایک وفد نے آیت اللہ خمینی (رہ) کی قیادت میں آپ سے ملاقات کی۔
امام خمینی نے اپنی جدوجد کا آغاز 1963ء میں کیا جب ایران میں دس ہزار سے زائد مظاہرین شہید کر دیے گئے۔ مولانا نے اپنے ماہنامہ ’’ترجمان القرآن‘‘ میں نہ صرف اس ظلم کی مذمت کی بلکہ امام خمینی کے حق میں مضمون شائع کروایا۔
پاکستان میں چونکہ شہنشاہ ایران کا طوطی بولتا تھا تو اس جرأت رندانہ پر پرچہ ضبط کر لیا گیا اور تادیبی کارروائی بھی کی گئی۔ یہ شائد امام خمینی (رہ) کے حق میں اٹھنے والی پہلی پاکستانی آواز تھی۔ 20جنوری 1979ء کو امام خمینی (رہ) کے دو نمائندوں نے مولانا مودودی (رہ) سے ملاقات کی۔ وہ امام کا خصوصی خط لے کر آئے تھے۔ جناب رفیق ڈوگر (صحافی) نے ملاقات سے پہلے اور ملاقات کی تمام تر تفصیلات اپنی کتاب ’’مولانا مودودی سے ملاقاتیں میں درج کر دیں۔ 18جنوری 1979ء کو مذکورہ وفد کی آمد کی مناسبت سے گفتگو کرتے ہوئے رفیق ڈوگر نے مولانا مودودی سے سوال کیا کہ امام خمینی (رہ) کے بارے میں ان کی کیا رائے ہے؟ تو انہوں نے کہا: گذشتہ کئی سال سے ہمارے ان سے روابط ہیں۔ انہوں نے میری بعض کتب کا ترجمہ بھی کرایا ہے۔ وہ ان شیعوں جیسے نہیں۔ پوچھا کیا وہ بائیں بازو کے حامی ہیں؟ جواب دیا: نہیں وہ ان کے خلاف ہیں۔ مزید دریافت کیا کہ کیا وہ ایران کی سالمیت قائم رکھ سکیں گے؟ انہوں نے جواب دیا: انہیں عوام کی حمایت حاصل ہے اور یہ بات ثابت ہو گئی ہے۔
20جنوری 1979ء کو امام خمینی کے دو نمائندوں ڈاکٹر کمال اور انجینئر محمد کی آمد سے قبل جماعت اسلامی کے اکابرین سے مولانا مودودی نے فرمایا: “آیت اللہ خمینی دیگر شیعہ علماء سے مختلف نظریات رکھتے ہیں۔ انہوں نے شیعہ علماء کے اس موقف سے اختلاف کیا ہے کہ امام منتظر کے انتظار میں اسلامی احکام پر عمل معطل رکھنا چاہیئے۔ خمینی کا کہنا ہے کہ جب تک امام منتظر نہیں آتے ہم حالات و واقعات سے بےنیاز نہیں رہ سکتے۔ ہمیں اپنے طور پر حالات کو اسلام کی تعلیمات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ یہ فکری تبدیلی بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ ہمیں کوشش کرنا چاہیے کہ ایران میں خمینی اقتدار میں آ جائیں۔”
رفیق ڈوگر نے وفد کے حوالہ سے لفظوں میں جو نقشہ کھینچا وہ مولانا مودودی کی دلی کیفیت کی خوب ترجمانی کرتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: “اتنے میں مہمانوں کے لیے چائے آ گئی۔ مولانا نے انگریزی میں کہا ’’I am sorry میں بیمار ہوں، ادھر ڈرائنگ روم میں نہیں جا سکتا۔ یہیں چائے پیش کر رہا ہوں۔‘‘ مولانا کے کمرے میں بڑے بڑے لوگ آئے، علماء اور دنیا دار آج تک مولانا نے کبھی کسی سے اس قسم کے معذرت کے الفاظ نہیں کہے۔ آج جتنا تکلف کیا گیا پہلے کبھی وہ دیکھنے میں بھی نہیں آیا۔ اعلیٰ قسم کے برتن، چائے اور پھل بسکٹ وغیرہ۔ چائے کے دوران مولانا نے امام خمینی کی صحت کے بارے میں پوچھا تو انجینئر محمد نے اپنی دونوں انگلیاں اوپر کو اٹھاتے ہوئے انگریزی میں کہا ’’وہ اس طرح سیدھے چلتے ہیں ان کی صحت بہت اچھی ہے۔ انھیں ایک بہت اچھا ڈاکٹر ملا ہوا ہے، وہ سادہ غذا کھاتے ہیں۔ معمولی جھونپڑی میں رہتے ہیں اور رات کو تین گھنٹے عبادت کرتے ہیں۔ مولانا مودودی نے کہا He is a man of god. مولانا مودودی نے وفد سے جو کلمات ادا کیے ا نکا تذکرہ کیے بغیر شاید یہ گفتگو مکمل نہ ہو، مولانا نے ملاقات کے دوران فرمایا: تحریک اسلامی ایران میں کامیاب ہو یا پاکستان میں، اس سے ایک دوسرے کو فائدہ پہنچے گا۔ مسلمان کہیں بھی ہوں وہ ایک ملت ہیں۔ پاکستان کے لوگ دل و جان سے خمینی کے ساتھ ہیں۔ آپ کی آمد پر مجھے بےحد خوشی ہوئی ہے۔ آیت اللہ خمینی تک میرا شکریہ پہنچا دیں۔
مولانا نے پھر کہا: “مسلمان خواہ پاکستان میں ہوں، ترکی یا ایران میں وہ سب ایک ملت ہیں ان میں کوئی فرق نہیں، ہم میں کوئی وجہ اختلاف نہیں۔ ہمارا خدا ایک ہے۔ قرآن ایک ہے اور رسول ایک ہے۔
جب ڈاکٹر کمال نے بتایا کہ ایران میں شیعہ سنی سب اس تحریک میں شامل ہیں تو مولانا مودودی نے انہیں مطلع کیا کہ پاکستان میں بھی اس فرق کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔ یہاں بھی شیعہ سنی ہر شعبہ زندگی میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔ انجینئر محمد نے کہا:
اگر دو آیت اللہ، آیت اللہ خمینی اور آیت اللہ مودودی مل کر اعلان کریں تو عالم اسلام کا ایسا اتحاد عمل میں آ سکتا ہے جو مسلمان ممالک کی کایا پلٹ دے گا اور وہ دنیا کی سب سے بڑی قوت ثابت ہوں گے”۔
یوں یہ نشست دعاؤں اور نیک خواہشات کے ساتھ اختتام پذیر ہو گئی مگر امت کو کئی پیغامات دے گئی
