مسئلۂ تکفیر اور اہل سنت کا معتدل منہاج

طاہر اسلام عسکری

سوال : میں نے لا علمی میں اباضی فرقے کے امام کی اقتدا نماز پڑھ لی تھی ؛ کیا ان کے پیچھے ادا کی گئی نماز دہرانی ہو گی ؟
جواب : ان کے پیچھے نماز درست ہے ؛ دہرانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ تمام مسلمان مکاتب فکر کے پیچھے نماز جائز ہے خواہ شیعہ ہوں یا خوارج ؛ حنفی ، شافعی مالکی ہوں یا حنبلی ؛ دیوبندی ، بریلوی ہوں یا اہل حدیث ۔ کیوں کہ اصول یہ ہے کہ جب تک کوئی گروہ مسلمانوں میں شامل ہے اور اس کو معین طور پر کافر نہیں ٹھیرایا گیا ، اس کے ساتھ مسلمانوں کا سا معاملہ کیا جائے گا ؛ پس اس کے افراد کی اقتدا میں نماز بھی جائز ہے ۔ واللہ اعلم بالصواب

فرقہ بندی کی لعنت نے ہماری وحدت کو پارہ پارہ کر دیا ہے ! اللہ ہدایت نصیب کرے

مسئلۂ تکفیر اور اہل سنت کا معتدل منہاج

کسی فرد یا گروہ کو کافر کہنے کے متعلق مختلف فرقوں نے افراط و تفریط کی راہ اپنائی ہے ۔ چناں چہ خوارج اور معتزلہ نے ان امور پر بھی لوگوں کو کافر ٹھیرایا جو موجب کفر نہ تھے ، مثلاً چوری ، بدکاری ایسے کبیرہ گناہوں کو بھی انھوں نے وجۂ کفر جانا ، حالاں کہ ان سے انسان فاسق ہوتا ہے ، نہ کہ کافر ۔ ان کے برعکس ایک طائفہ دوسری انتہا پر ہے ؛ اس کے نزدیک کلمہ پڑھنے کے بعد انسان جو مرضی کفر کرتا رہے ، وہ کافر ہوگا ، نہ اس کے ایمان میں کوئی خلل آئے گا ؛ یہ گروہ مرجیہ کہلاتا ہے ۔ آج کل کچھ لوگ اس سے بھی آگے چلے گئے ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ یہود و نصاریٰ ، ہندو اور سکھ کو بھی کافر نہیں کہا جا سکتا ! اہل سنت و جماعت کا موقف ان انتہاؤں کے بیچ میں ہے ؛ یہ نہ تو گناہوں کی بنا پر مسلمانوں پر کفر کا فتویٰ لگاتے ہیں اور نہ ہی تکفیر کو علی الاطلاق ممنوع گردانتے ہیں بل کہ تمام تر شرعی احتیاطوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے کفر و شرک کے مرتکب افراد پر اتمامِ حجت کے بعد انھیں کافر کہنے کو جائز اور ممکن مانتے ہیں ۔ اسی کے پیش نظر علماے اسلام نے قادیانیوں ، اسماعیلیوں اورنصیریوں ایسے شوریدہ سر فرقوں کی تکفیر کی ہے اور بعض گم راہ افراد کو بھی حجت تمام کرنے کے بعد کافر قرار دیا ہے جیسے معروف منکر سنت غلام احمد پرویز؛ جن کے فتواے کفر پر ایک ہزار علما و فقہا نے صاد کیا ہے ! اہل سنت میں بعض لوگ مختلف فیہ مسائل کی بنا پر ایک دوسرے کی بھی تکفیر کرتے ہیں جو نامناسب رویہ ہے ؛ علماے سلف کا طرز عمل یہ ہے کہ جب تک کسی فرد یا گروہ کے بہ ظاہر کفریہ قول و فعل میں ایک فی صد بھی درستی کا امکان ہو تو اس کی تاویل کو قبول کرتے ہوئے اسے کافر کہنے سے احتراز کیا جائے گا کیوں کہ یہ انتہائی خطرناک معاملہ ہے ۔ واضح رہے کہ کسی پر کفر کا حکم لگانے کا فیصلہ بھی کبار علما ومجتہدین کریں گے نہ کہ عوام الناس !

تکفیر مسلم : امام اشعریؒ ، حافظ ابن تیمیہؒ اور علامہ ذہبیؒ

میں [ذہبی] نے علامہ ابو الحسن اشعریؒ کی ایک بات دیکھی جو مجھے بے حد پسند آئی ؛ یہ ان سے ثابت بھی ہے کہ اسے بیہقیؒ نے باسند روایت کیا ہے ۔ چناں چہ زاہر بن احمد السرخسیؒ کہتے ہیں کہ امام اشعریؒ بغداد میں میرے گھر میں قیام پذیر تھے ؛ جب ان کی وفات کا وقت قریب آیا تو مجھے بلایا ؛ میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو فرمانے لگے : ’’ تم میری اس بات پر گواہ بن جاؤ کہ میں اہل قبلہ میں سے کسی کو کافر نہیں کہتا کیوں کہ سبھی ایک ہی معبود برحق کی طرف اشارہ کرتے ہیں ؛ یہ تمام تر اختلاف محض تعبیر و بیان کا ہے ۔ ‘‘ میرا[ذہبیؒ] بھی یہی عقیدہ ہے اور اسی طرح ہمارے شیخ حافظ ابن تیمیہؒ بھی اپنے آخری ایام میں فرمایا کرتے تھے کہ ’’ میں امت میں سے کسی کی تکفیر نہیں کرتا کیوں کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ ’’ صرف مومن ہی وضو کی پابندی کرتا ہے ۔ ‘‘ پس جو باوضو ہو کر نمازوں کا التزام کرتا ہے ، وہ مسلمان ہے ۔ ‘‘ [ بہ حوالہ سیر اعلام النبلاء ]

تنبیہ: یہاں اہل قبلہ سے مراد وہ لوگ ہیں جو ضروریات دین کو تسلیم کرتے ہوں ؛ جو ان میں سے کسی چیز کے منکر ہوں ، وہ اہل قبلہ میں شامل نہیں ہیں جیسے قادیانی کہ وہ ختم نبوت کے منکر ہیں ۔ ( مترجم )