شہید کربلا اور یزید، مولانا محمد طیب قاسمی کا نقطۂ نظر

اسلام ٹائمز: امام حسینؑ کے پاک باطن ہونیکے بارے میں اہل سنت والجماعت کا عقیدہ مولانا طیب قاسمی یوں واشگاف انداز سے بیان کرتے ہیں: “بہرحال امام حسین رضی اللہ عنہ کے بارے میں عمومی اور خصوصی نصوص شریعہ کی روشنی میں اہل سنت والجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ وہ جزو رسول اور صحابی جلیل ہونے کیوجہ سے پاک باطن، پاک نیت اور عادل القلب تھے۔ خواہ انکا عمل گھریلو تھا یا میدانی، وہ مدینہ کے مقدس مقام میں رہ کر بھی رجس باطن سے پاک تھے اور کربلا کے میدان میں جا کر بھی پاک ضمیر اور رجس ظاہر و باطن سے پاک اور پاک نہاد تھے۔ جس سے اللہ ہی نے انھیں پاک کرنیکا ارادہ ظاہر فرما دیا تھا۔ انکے ساتھ سوئے ظن یا بدگوئی یا دل میں غل و غش رکھنا شرعی تصریحات کی مخالفت ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ اہل سنت کا عقیدہ ہے، نظریہ نہیں۔ نظریہ عقل سے بنتا ہے اور عقیدہ خدا اور رسول کی خبر سے، عقیدہ دین ہوتا ہے اور نظریۂ رائے۔”

تحریر: ثاقب اکبر

مولانا محمد طیب قاسمی مرحوم 1898ء میں پیدا ہوئے۔ 1930ء میں دارالعلوم دیوبند کے مہتمم اعلٰی بنے۔ مکتب دیوبند کے بزرگ اور ممتاز علماء میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کی علمی خدمات کی فہرست بہت طویل ہے۔ انھوں نے ایک کتاب ’’شہید کربلا اور یزید‘‘ کے عنوان سے سپرد قلم کی۔ یہ کتاب رسوائے زمانہ ناصبی محمود احمد عباسی کی بے بصیرانہ کتاب ’’خلافتِ معاویہ و یزید‘‘ کے جواب میں لکھی گئی ہے۔ تاریخی تحقیق کے نام سے محمود عباسی نے جس دھوکہ دہی کی واردات کا گستاخانہ ارتکاب کیا، اس نے تمام اہل ایمان کے اندر ایک ایمانی ردعمل پیدا کیا۔ علمائے محققین نے اس ابلیسی کتاب کے علمی و تحقیقی جوابات لکھے اور نبی کریمؐ کے اہل بیتؑ خصوصاً امام حسینؑ سے اپنی گہری اور بصیرانہ عقیدت کا اظہار کیا۔ ان کاوشوں نے اس گمراہ کنندہ سازش کو عمدگی سے ناکام بنا دیا۔ انہی عظیم اور اکابر علماء میں سے مولانا محمد طیب قاسمی بھی ہیں۔ ان کی کتاب بہت منظم ہے۔ اس میں محمود عباسی کے افکار کی تمام بنیادوں کا ترتیب وار جائزہ لیا گیا ہے اور ان کے ابطال کے لئے جہاں قرآن و سنت سے استفادہ کیا گیا، وہاں تاریخی حوالوں کو بھی قرآن و سنت کے فہم کے تحت رکھا اور پیش کیا گیا ہے۔ اہل سنت علماء و فقہاء اور ماہرین علم کلام کے نظریات کو بھی پیش نظر رکھا گیا ہے اور یوں اہل سنت کے اصولِ مذہب کی روشنی میں امام حسینؑ کے اقدام کا جائزہ لیا گیا۔ آپؐ کے مقام اور اقدام کو بیان کیا گیا ہے، نیز یزید کی ماہیت کو بھی کھول کر بیان کر دیا گیا ہے۔ آیئے کتاب کے چند مطالب پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

نوٹ: یہ تمام عبارات مولانا محمد طیب قاسم کی کتاب ’’شہید کربلا اور یزید‘‘ سے ماخوذ ہیں، جسے ادارہ اسلامیات، لاہور نے شائع کیا ہے اور اس پر مولانا کے صاحبزادے مولانا محمد سالم قاسمی کی تقریز بھی موجود ہے، جس میں انھوں نے لکھا ہے کہ:’’یہ کتاب جماعت دارالعلوم دیوبند کے متفقہ مسلک حق کی ترجمان ہے۔”

امام حسین ؑ کی صحابیت

محمود عباسی نے اپنے گمراہ کن افکار کی پہلی بنیاد یہ بنائی ہے کہ امام حسینؑ صحابی رسول نہیں ہیں۔ اس کے لئے انھوں نے امام احمد سے منسوب ایک قولِ غریب کا سہارا لیتے ہوئے اولاً امام حسنؑ ہی کی صحابیت کی نفی کر دی ہے، تاکہ امام حسینؑ کی صحابیت کی نفی بدرجہ اولٰی ہو جائے۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ ایک صحابی کی حیثیت سے امام حسینؑ کا جو احترام پایا جاتا ہے، اسے ختم کر دیا جائے اور پھر آسانی سے امام حسینؑ اور ان کے اقدام پر تنقید کی جاسکے۔ مولانا قاسمی نے ان کے اس نظریئے کو باطل ثابت کرنے کے لئے بہت سے دلائل پیش کئے ہیں اور حسنین کریمین دونوں کی صحابیت کو ثابت کیا ہے۔ محمود عباسی نے انھیں بچہ قرار دے کر ان کی روایات کو بھی ناقابل اعتناء قرار دیا ہے۔ اس پہلو سے بھی محمود عباسی کے انحراف کو مولانا قاسمی نے واشگاف کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: حافظ ابن عبدالبراستیعاب میں تحریر فرماتے ہیں: حفظ الحسن بن علی عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احادیث و رواھا عنہ منھا حدیث الدعأ فی القنوت ومنھا انّا ال محمد لا تحل لنا الصدقۃ(استیعاب،ج۱،ص۱۴۲) “حسن بن علی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے متعدد حدیثیں حفظ کی ہیں اور حضور سے انھوں نے کئی روایتیں کیں۔ جس میں سے ایک حدیث دعا قنوت کی ہے اور انہی سے یہ بھی ہے کہ ہم آل محمد کے لئے صدقہ لینا حلال نہیں۔”

حافظ ابن حجر عسقلانی نے تہذیب التہذیب میں فرمایا: الحسن بن علی بن ابی طالب الھاشمی سبط رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وریحانتہ من الدنیا و احد سیدی شباب اھل الجنۃ روی عن جدہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وابیہ علی واخیہ حسین وخالہ ھند بن ابی ھالہ(تہذیب التہذیب،ج۲،ص ۲۹۵) “حسن بن علی بن ابی طالب ہاشمی سبط رسول اور ریحانہ رسول دنیا میں اور جنت کے نوجوانوں کے دو سرداروں میں سے ایک، انھوں نے روایت کی ہے اپنے جد پاک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور اپنے والد حضرت علی سے اور اپنے بھائی حسین سے اور اپنے ماموں ہند بن ابی ہالہ سے۔” اس پر حافظ نے (خت۴) کا نشان دے کر بتلایا ہے کہ حضرت حسن کی روایات کے رجال تاریخ بخاری اور سنن اربعہ کے رجال میں داخل ہیں۔ یعنی حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی یہ روایت موثق مانی گئی ہیں، جن کے ثبوت میں کوئی شبہ نہیں، پھر یہ بھی ظاہر ہے کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو حضور سے روایت حدیث کرتے وقت خود بھی اپنے تحمل روایت کا یقین و اذعان تھا، ورنہ وہ اداء روایت کیسے فرماتے؟ تو دوسرے لفظوں میں یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ انھیں خود بھی اپنے صحابی اور صاحب روایت صحابی ہونے کا پورا پورا یقین اور اس کا دعویٰ تھا جس پر یہ اداء روایت شاہد ہے۔ اس بناء پر یہ دعوائے صحابیت و محدثیت حسن بلکہ صحابیت اطفال خورد سال جہاں آئمہ حدیث کا مسلک ثابت ہوتا ہے، وہیں ایک جلیل القدر صحابی اہلبیت کا مسلک اور عملی دعویٰ بھی ثابت ہوتا ہے۔

پس عباسی صاحب نے تو امام احمد کے ایک مجروح قول سے حضرت حسن کی صحابیت کی نفی کرکے حضرت حسین کی صحابیت کی بھی نفی کرنی چاہی تھی، مگر ان کی قسمت کہ حضرت حسن کی صحابیت کی ساتھ اور الٹا ان کی روایت اور حضور سے سماع حدیث کا ثبوت بھی ہوگیا اور دو حافظ حدیث یعنی ابن عبدالبر اور ابن حجر ان کے صاحب روایت صحابی ہونے کے قائل اور شاہد عدل نکل آئے، بلکہ ان کی تائید عملی طور پر خود حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے بھی ہوگئی اور ساتھ ہی حسن کے صاحب روایت ہونے کی حقیقت ان تمام محدثین کا مسلمہ مسئلہ ہوگیا، جنھوں نے اپنی کتب حدیث میں یہ روایتیں نقل کیں اور جنھوں نے ان روایتوں کو پڑھا اور تسلیم کیا۔ گویا امت کے جم غفیر کا یہ ایک مسلمہ مسئلہ ہوگیا اور اس طرح سے امام احمد کا وہ غریب قول شک سے گزر کر یقین کی حد تک غیر ثابت شدہ ہوگیا جس سے عباسی صاحب کی تاریخی ریسرچ کے اوپر سے ایک غلیظ پردہ اور اٹھ گیا، بلکہ ان روایات سماع سے ایک لطیفہ اور مستزاد یہ پیدا ہوگیا کہ عباسی صاحب تو حضرت حسین کو عمر میں حضرت حسن سے چھوٹا دکھلا کر ان کی صحابیت کو ختم کرنا چاہتے تھے، مگر ان حفاظ حدیث نے حضرت حسین کو حضرت حسن کا استاد دکھلا کر انھیں حضرت حسن سے بھی زیادہ مضبوط اور آپ کی قسم کی صحابی ثابت کر دیا۔ اب یہ بالکل ایک تقریری بات ہے، جس میں بیچارے عباسی صاحب کر ہی کیا سکتے تھے، انھوں نے تو نفی صحابیت حسین کے لئے ساری ہی کوششیں تمام کر لیں، مگر جب وہی حفاظ حدیث نہ مانیں، جن کے سر رکھ کر عباسی صاحب نے نفی صحابیت کی یہ کوششیں کی تھیں بلکہ صحابیت کے ساتھ وہ ان کا سماع روایت ہی ثابت کر ڈالیں تو اس کا کیا علاج۔؟

غالباً یہی بنیادیں ہیں جن پر مبنی کرکے حافظ ابن حجر نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ صحابی ہونے کے لئے بالغ ہونے کی قید ہرگز صحیح نہیں، ورنہ حسن صحابیت سے خارج ہو جائیں گے۔ گویا حسن کا صحابی ہونا ایک مسلمہ کل حقیقت تھی، جس کو حجت کے طور پر پیش کرکے حافظ اور محدثین نے بلوغ کی قید کو اڑایا۔ ہماری ان نقول بالا کی پیش کش سے اس مسئلہ کے مسلمہ کل ہونے کی حقیقت کھل جاتی ہے کہ جب محدثین حضرت حسن کی روایات حدیث قبول کئے ہوئے ہیں اور آگے تک ان کی روایت چل رہی ہے اور ان کو صاحب روایت صحابی باور کرتے آرہے ہیں تو کیوں نہ ان کی صحابیت کو مسلمات فن میں سے سمجھتے۔ بہرحال جبکہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی صحابیت بے غبار ہوگئی اور وہ ان کی تابعیت والا غریب مقولہ ہی ثابت شدہ نہ رہا تو اس پر قیاس تفریع کرکے حضرت حسین کی صحابیت کی نفی کا کوئی سوال ہی باقی نہ رہا کہ اس پر کوئی رد و قدح کیا جائے؟ جب قیاس کی بنا ہی منہدم ہوگئی تو قیاس کہاں سے ثابت ہوا کہ اس کے رد کی کوئی ضرورت ہو اور حضرت حسین کی صحابیت سے نفی کو دفع کرنے کے لئے کوئی کلام کیا جائے۔ تاہم ان کی صحابیت کی اثبات کے دلائل میں سے بطور مثال پھر بھی ہم چند نمونے پیش کئے دیتے ہیں، جن سے اس تابعیت والے مقولے کی اور زیادہ قلعی کھل جائے۔ اول تو عباسی صاحب نے جن حافظ ابن کثیر کی روایت سے حضرت حسین کی عمر صرف پانچ سال کی نقل کرکے ان کی صحابیت کی نفی کرنی چاہی تھی، وہی حافظ ابن کثیر خود اپنا مذہب اس بارہ میں یہ بیان کر رہے ہیں: والمقصود ان الحسین عاصر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و صحبہ، الی ان توفی وھوعنہ راضٍ ولکنہ کان صغیرا۔(البدایہ،ج۸خص۱۵۰) “اور مقصود یہ بیان کرنا ہے کہ حسین معاصر رسول ہیں، جنھوں نے (حضور کا زمانہ پایا اور) حضور کی صحبت اٹھائی، تاآنکہ حضور نے وفات پائی اور آپ ان سے راضی تشریف لے گئے۔ البتہ حسین خورد سال تھے۔”

اس عبارت میں حافظ ابن کثیر نے انھیں صغیر کہہ کر بھی ان کی معاصرۃ اور صحبت کا اقرار کیا ہے، جس کے صاف معنی یہی ہیں کہ حافظ ابن کثیر کے نزدیک صحابیت میں صغر سنی مانع نہیں اور حضرت حسین بلاشبہ صحابی ہیں۔ پھر اس سے بھی زیادہ صاف لفظوں میں ابن کثیر نے ایک دوسرے موقعہ پر ان کی صحابیت کا اعلان اس عنوان سے فرمایا ہے کہ: فانہ من سادات المسلمین وعلماء الصحابۃ وابن بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم التی ھی افضل بناتہ وقدکان عابداً و شجاعاً و سخیّاً۔(البدایہ،ج۸،ص۲۰۳)”(حسین) سادات مسلمین میں اور علماء صحابہ میں سے ہیں اور اللہ کے رسول کی سب سے افضل صاحبزادی کے بیٹے ہیں اور وہ عابد بہادر اور سخی تھے۔”

امام حسینؑ پنجتن پاک میں سے ہیں

مولانا قاسمی نے امام حسینؑ کی صحابیت کے علاوہ ان کے اہل بیتؑ کے فرد ہونے کو بھی بیان کیا ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے بتایا ہے کہ امام حسینؑ آیت تطہیر اور آیت مباہلہ کے مصادیق میں سے بھی ہیں، اس طرح ان کی طہارت و صداقت قرآن حکیم میں ثابت ہے۔ نیز انھوں نے اس امر پر اپنے سوز کا اظہار کیا ہے کہ کفار تک آپ کے مقام نورانیت کو پہچان لیتے تھے، لیکن محمود عباسی جیسے سیاہ باطن آپ کے مرتبے کو نہ پہچان سکے۔ ان کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے: جب آیت تطہیر ٗ اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا۔ نازل ہوئی تو آپ نے اپنی رداء مبارک میں اپنے اہل بیت کو جمع فرمایا، جس میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے اور دعا کی: اللھم ھولا اھل بیتی فاذھب عنھم الرجس (رواہ مسلم)”اے اللہ! یہ میرے اہل بیت ہیں ان سے رجس دور فرما۔”

اسی طرح جب آیت مباہلہ نازل ہوئی تو پھر آپ اپنے اہل بیت کو لے کر نصاریٰ کے مقابلہ میں مباہلہ کے لئے تشریف لے گئے، جن میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے اور فرمایا کہ اللھم ھولاء اھل بیتی جیسا کہ صحیح مسلم میں روایت موجود ہے تو کیا نبی کے ساتھ رہنا بلکہ نبی کی چادر، میں نبی کے بدن مبارک سے قریب تر ہو کر رہنا صحبت و مجاورۃ نہیں؟ حتٰی کہ اس موقع پر نصاریٰ کے اسقف (لاٹ پادری) نے ان آفتاب و مہتاب چہروں کو دیکھ کر جن میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں، کہا تھا کہ اے گروہ نصاریٰ! میں یہ ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر وہ اللہ سے پہاڑوں کو ٹل جانے کا سوال بھی کریں گے تو اللہ پہاڑوں کو ٹلا دے گا۔ اس لئے ان سے مباہلہ کرکے اپنے کو تباہی میں مت ڈالو۔ گویا اس اسقف نے بھی اہل بیت اور حسن و حسین کے مبارک چہروں پر مقبولیت اور نور فطرۃ کا مشاہدہ کر لیا اور کفار تک بھی نبی کے رفقاء اور ساتھیوں کے آثار، مقبولیت و محبوبیت کو دور سے دیکھ کر پہچان لیتے تھے۔ جو اسی شرف صحبت کے آثار تھے تو کیا یہ شرف صحبت کا ثبوت نہیں۔؟ امام حسینؑ اور قرابت نبوی کے بارے میں مولانا قاسمی نے آگے چل کر مزید وضاحت کی ہے اور ایک مرتبہ پھر آپ کو آیہ تطہیر کا ایک مصداق قرار دیتے ہوئے ناصبی ٹولے کو ان کی گمراہی پر ٹوکا ہے: پھر حضرت حسین رضی اللہ عنہ نہ صرف صحابی ہیں بلکہ قرابت نبوی کی خصوصیت سے بھی مالامال ہیں۔ جو اہل بیت کا مخصوص حصہ تھا اور اس کی بناء پر ان کی قلبی تطہیر اور رجس و نجس باطن سے پاکی اور بھی زیادہ مؤکدہ ہو جاتی ہے، کیونکہ خدائے برتر نے اہل بیت کی تطہیر کا خصوصی ارادہ ظاہر فرمایا:اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا۔”اللہ تعالٰی کو یہ منظور ہے کہ اے گھر والو تم سے آلودگی کو دور رکھے اور تم کو پاک و صاف رکھے۔”

امام حسینؑ کے پاک باطن ہونے پر اہل سنت کا عقیدہ

امام حسینؑ کے پاک باطن ہونے کے بارے میں اہل سنت والجماعت کا عقیدہ مولانا طیب قاسمی یوں واشگاف انداز سے بیان کرتے ہیں:”بہرحال امام حسین رضی اللہ عنہ کے بارے میں عمومی اور خصوصی نصوص شریعہ کی روشنی میں اہل سنت والجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ وہ جزو رسول اور صحابی جلیل ہونے کی وجہ سے پاک باطن، پاک نیت اور عادل القلب تھے۔ خواہ ان کا عمل گھریلو تھا یا میدانی، وہ مدینہ کے مقدس مقام میں رہ کر بھی رجس باطن سے پاک تھے اور کربلا کے میدان میں جا کر بھی پاک ضمیر اور رجس ظاہر و باطن سے پاک اور پاک نہاد تھے۔ جس سے اللہ ہی نے انھیں پاک کرنے کا ارادہ ظاہر فرما دیا تھا۔ ان کے ساتھ سوئے ظن یا بدگوئی یا دل میں غل و غش رکھنا شرعی تصریحات کی مخالفت ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ اہل سنت کا عقیدہ ہے، نظریہ نہیں۔ نظریہ عقل سے بنتا ہے اور عقیدہ خدا اور رسول کی خبر سے، عقیدہ دین ہوتا ہے اور نظریۂ رائے۔”

امام حسینؑ کے اقدام کی حیثیت
یہ امر غم ناک ہے کہ بعض جاہل امام حسینؑ کے یزید کے مقابلے میں قیام کو نعوذ باللہ بغاوت قرار دیتے ہیں۔ اس کی نفی میں مولانا طیب قاسمی نے تفصیلی گفتگو کی ہے۔ ہم اختصار سے اس کا کچھ حصہ نقل کرتے ہیں: “جہاں تک الزام بغاوت یا نفی شہادت کا تعلق ہے، اس کے بارے میں اہل سنت اور متقدمین کا جو کچھ نقطۂ نظر ہے، اس کے لئے ملا علی قاری شارح مشکوۃ شریف کی یہ ایک ہی عبارت کافی ہوسکتی ہے، جو علاوہ موثق نقل ہونے کے اہل سنت والجماعت کا عقیدہ بھی ہے۔ شارح ممدوح عقیدہ ہی کی ترجمانی کرتے ہوئے شرح فقہ اکبر میں تحریر فرماتے ہیں: واما ماتفّوہ بعض الجھلۃ من ان الحسین کان باغیاً فباطل عنداھل السنۃ والجماعۃ ولعلّ ھذا من ھذیانات الخوارج الخوارج عن الجادہ۔ (شرح فتہ اکبر،ص۸۷)”اور یہ جو بعض جاہلوں نے افواہ اڑا رکھی ہے کہ حسین باغی تھے تو اہل السنۃ والجماعت کے نزدیک باطل ہے، شاید یہ خوارج کے بذیانات ہیں، جو راہ مستقیم سے ہٹے ہوئے ہیں۔”

یزید کا فسق
محمود عباسی کی نامحمود اور نامبارک کوششوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ یزید کو ’’نیک اطوار‘‘ قرار دیا جائے۔ حضرت مولانا قاسمی نے ان کا بھی واضح اور عمدہ جواب دیا ہے۔ مختلف عبارتیں نقل کرتے ہوئے وہ ابن خلدون کی ایک عبارت اپنے مقدمے کے ساتھ یوں پیش کرتے ہیں:”اس سے بھی زیادہ صاف ذیل کی عبارت ہے، جس سے کھلے لفظوں میں واضح ہے کہ اس دور کے تمام لوگوں کے نزدیک یزید کا فسق مسلم تھا، جس کے مقابلہ کے لئے حضرت حسین رضی اللہ عنہ اپنی قلبی عزیمت کی بناء پر کھڑے ہوگئے۔ ابن خلدون لکھتا ہے:واما الحسین فانہ لما ظھر فسق یزید عند الکافۃ من اھل عصرہ بعثت شیعۃ اھل البیت بالکوفۃ للحسین ان یاتیھم فیقوموابامرہ فرای الحسین ان الخروج علی یزید متعین من اجل فسقہ الخ(مقدمہ ابن خلدون،ص۱۸۰)”تو جب یزید کا فسق و فجور اس کے دور کے سب لوگوں کے نزدیک نمایاں ہوگیا تو کوفہ کی اہل بیت کی جماعت نے حضرت حسین کے پاس پیام بھیجا کہ وہ اہل کوفہ کے پاس تشریف لے آویں تو وہ سب ان کی اطاعت میں کھڑے ہو جائیں گے تو اس وقت حضرت حسین نے سمجھ لیا کہ اب یزید کے خلاف کھڑے ہو جانا متعین ہے، اس کے فسق کی وجہ سے۔” عبارات بالا سے صاف واضح ہے کہ یزید کے فسق کے بارے میں صحابہ کی دو رائیں نہ تھیں بلکہ اس کے خلاف کھڑے ہونے میں دو رائیں تھیں اور وہ بھی اس کی اہلیت و نااہلیت کے معیار سے نہیں جب کہ فسق مسلمہ کل تھا بلکہ وہی اثارۃ فتنہ کے خطرہ سے جس کی بنیادی وجہ بنی امیہ کی عصبیت و قوۃ اور اس وقت کی چھائی ہوئی شوکت تھی، جس سے عہدہ برآ ہونا دشوار تھا۔

قیام حسینی کو بغاوت کہنا خود بغاوت ہے
آگے جا کر مولانا قاسمی نے واضح کیا ہے کہ امام حسینؑ کے قیام کو بغاوت کہنا بذات خود حق سے بغاوت ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:”جب وہ عادل نہ تھا بلکہ موافق و مخالف سب کے اتفاق سے فاسق تھا تو امام حسین کا اس کے خلاف کھڑے ہونا نہ صرف یہ کہ جائز اور حق بجانب تھا، جسے بغاوۃ کہنا خود بغاوت حق ہے بلکہ حضرت امام کا یہ اقدام یزید کے فسق اور اس قتل میں اس کے ناحق بجانب ہونے کے لئے اور زیادہ موکِّد اور حضرت امام کی شہادت کے لئے مثبت تھا۔” ابن خلدون لکھتے ہیں:واعلم انہ انما ینفذ من اعمال الفاسق ماکان مشروعا وقتال البغاۃ عند ھم من شرطہ ان یکون مع الامام العادل وھومفقود فی مسئلتنا فلایجوز قتال الحسین مع یزید ولا لیزید بل ھی من فعلاتہ المؤکدۃ لفسقہ والحسین فیھا شھید مثاب وھو علی حق واجتھاد۔(مقدمہ ابن خلدون،ص۱۸۱)”اور سمجھ لو کہ فاسق (امیر) کے وہی اعمال (احکام عنداللہ)نافذ ہوسکتے ہیں، جو مشروع ہوں اور باغیوں سے قتال کرنے میں اہل شرع کے نزدیک شرط یہ ہے کہ امام عادل ہو(تب اسی کیساتھ ہو کر باغیوں سے جنگ کی جاسکتی ہے) اور یہ بات اس مسئلہ میں مفقود ہے(کیونکہ یزید امیر عادل ہی نہ تھا) اس لئے حسین کے ساتھ قتال کرنا یزید کے ساتھ ہو کر یا یزید کے لئے جائز نہ تھا بلکہ یہ حرکتیں یزید کے فسق کے لئے زیادہ موید اور مؤکد ثابت ہوئیں اور حسین اس قتال میں شہید اور اجر یافتہ ثابت ہوئے جو حق اور اجتہاد پر تھے۔”

قتل حسینؑ میں یزید کا کردار
یزید کے وکیلوں کی ایک کوشش ہمیشہ یہ رہی ہے کہ وہ یہ ثابت کریں کہ قتل حسینؑ میں یزید کا کوئی ہاتھ نہ تھا اور نہ وہ اس بہیمانہ قتل پر راضی تھا، مولانا قاسمی نے مختلف روایات کی روشنی میں اس سلسلے میں یزید کی رضا مندی کو ثابت کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:”حافظ ابن کثیر نے ذخیرۂ احادیث سے بھی ایسی روایتیں نقل کی ہیں، جن سے یزید کی رضا قتل حسین سے ثابت ہوتی ہے۔ اس سلسلہ میں ایک مفصل روایت تو ابی مخنف کی ہے، جس کی روایتوں کو سبائی روایت کہہ کر عموماً ناصبی لوگ رد کر دیتے ہیں، لیکن اس مضمون کو قدرے اجمال کے ساتھ محدث ابن ابی الدنیا نے محدثانہ طریق سے روایت فرمایا ہے جس کا متن یہ ہے کہ:وقدرواہ ابن ابی الدنیا عن ابی الولید عن خالد بن یزید بن اسد عن عمار الدھنی عن جعفر قال لما وضع رأس الحسین بین یدی یزید وعندہ ابو برزۃ وجعل ینکیت بالقضیب فقال لہ ارفع قضیبک فلقد رأیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یلثمہ۔(البدایہ،ج۸،ص۱۹۸)”ابن ابی الدنیا نے ابوالولید سے، انھوں نے خالد بن یزید بن اسد سے، انہوں نے عمار دہنی سے، انہوں نے حضرت جعفر سے روایت کیا ہے کہ جب حضرت حسین کا سر یزید کے سامنے رکھا گیا اور اس کے پاس ابوبرزہ(اسلمی صحابی) بھی تھے اور یزید نے چھڑی سے (حضرت حسین کے منہ پر) چوکے مارنے شروع کئے تو ابو برزہ نے فرمایا کہ اپنی چھڑی ہٹا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس جگہ کا بوسہ لیتے ہوئے دیکھا ہے۔” کیا حضرت حسینؓ کے چہرہ مبارک کو چھڑی سے چوکا لگانا قتل حسین سے ناخوشی اور نارضائی کی دلیل ہوگی؟ اور آیا یہ گستاخانہ نازیبا اور تحقیر آمیز رویہ وہ شخص اختیار کرسکتا ہے، جو اس قتل سے ناخوش ہو یا وہ کرے گا جو دل میں انتہائی خوشی کے جذبات لئے ہوئے ہو۔ بلاشبہ یزید کا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے چہرہ مبارک سے یہ تحقیر آمیز رویہ جو ایک دشمن کے ساتھ کیا جاتا ہے، کسی طرح بھی اس قتل سے یزید کی ناخوشی کا ثبوت نہیں بن سکتا بلکہ رضا کی کھلی علامت ہے۔

کفر یزید
مولانا قاسمی نے فسق یزید کا ہی اثبات نہیں کیا بلکہ بعض علماء کا کفر یزید کے بارے میں نظریہ بھی بیان کیا ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں:”فسق تو فسق بعض آئمہ کے یہاں تو یزید کی تکفیر تک کا مسئلہ بھی زیر بحث آگیا، یعنی جن کو اس کے قلبی دواعی اور اندرونی جذبات کھلنے پر ان کی اطلاع ہوئی تو انہوں نے اس پر کفر تک کا حکم دیا۔ گو یہ جمہور کا مسلک نہیں لیکن اس سے کم از کم اس کے فسق کی تصدیق اور تاکید تو ضرور ہو جاتی ہے۔ شرح فقہ اکبر میں محقق ابن ہمام کا حسب ذیل بیان نقل کیا گیا ہے:قال ابن ھمام واختلف فی اکفار یزید۔ قیل نعم لماروی عنہ ما یدل علی کفرہ من تحلیل الخمر ومن تفوّھہ بعد قتل الحسین واصحابہ انی جازیتھم بما فعلو باشیاخ وضاد یدھم فی بدر وامثال ذلک و لعلہ وجہ ما قال الامام احمد بتکفیرہ لما ثبت عندہ نقل تقریرہ(شرح فقہ اکبر،ص۸۸)”ابن ہمام فرماتے ہیں کہ یزید کی تکفیر میں اختلاف کیا گیا ہے۔ بعض نے اسے کافر کہا کیونکہ اس سے وہ چیزیں مروی ہوئیں، جو اس کے کفر پر دلالت کرتی ہیں کہ اس نے شراب کو حلال سمجھا اور قتل حسین اور ان کے ساتھیوں کے قتل کے بعد اس نے منہ سے نکالا کہ میں نے(حسین وغیرہ سے) بدلہ لے لیا ہے، جو انہوں نے میرے بزرگوں اور رئیسوں کے ساتھ بدر میں کیا تھا یا ایسی ہی اور باتیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ امام احمد کی اسے کافر کہنے کی کہ ان کے نزدیک یزید کی اس تقریر کی نقل ثابت ہوگی۔”

یزید پر لعنت کا جواز
ابن ہمام کی مندرجہ بالا تحریر پر حاشیہ لگاتے ہوئے جناب مولانا محمد طیب قاسمی لکھتے ہیں:”اس عبارت سے یزید کا فسق متفق علیہ ہو جاتا ہے، البتہ نام لے کر لعنت کرنے میں علماء مختلف الرائے ہیں، بعض جواز کے قائل ہیں اور بعض نہیں۔ مؤرخین میں سے فخر المؤرخین حافظ عمادالدین ابن ابی کثیر جو عباسی صاحب کے یہاں بھی قابل اعتبار مورخ ہیں، گو منصوبوں کے خلاف ان کے اقوال سامنے آنے پر ممکن ہے کہ وہ اعتبار بحالہ قائم نہ رہے، اس بارے میں حسب ذیل بیان دے رہے ہیں:واستدل بھذا الحدیث وامثالہ من ذھب الی الترخیص فی لعنۃ یزید بن معاویہ و ھوروایۃ عن احمد بن حنبل اختارھا الخلال وابو بکر عبدالعزیز والقاضی ابویعلیٰ وابنہ القاضی ابو الحسین وانتصر لذلک ابو الفرج ابن الجوزی فی مصنف مفرد و جوّز لعنہ(البدایۃ والنہایۃ،ج۸،ص ۲۲۳)”اور جو لوگ یزید پر لعنت کرنے کو جائز سمجھتے ہیں، انہوں نے اس حدیث (جو گزری) اور اس جیسی اور روایات سے استدلال کیا ہے اور یہی روایت ہے امام احمد بن حنبل سے جسے خلال، ابوبکر عبدالعزیز، قاضی ابویعلٰی اور ان کے بیٹے قاضی ابوالحسین نے اختیار کیا ہے اور اس کی مدد سے ابوالفرج ابن الجوزی نے ایک مستقل تصنیف کی اور اس میں یزید پر لعنت کا جواز ثابت کیا۔” بہرحال لعنت کے مسئلے سے یزید کے فسق پر کافی گہری روشنی پڑتی ہے، جو ان محققین کے کلام سے واضح ہے۔ کتب عقائد میں سے صاحب نبر اس شارح شرح عقائد لکھتے ہیں:وبعضھم اطلق اللعن علیہ منھم۔ ابن الجوزی المحدث وصنّف کتاباً سماہ الرد علی المتعصب العنید المانع عن ذم یزید ومنھم الامام احمد بن حنبل ومنھم القاضی ابویعلی الخ(تبراس علی شرح العقائد،ص ۵۵۳)”اور بعض نے یزید پر لعنت کا اطلاق ثابت کیا ہے (نام لے کر ہو یا بلا نام کے) انہیں میں سے ابن جوزی محدث بھی ہیں اور انہوں نے اس بارہ میں ایک مستقل کتاب تصنیف کی ہے، جس کا نام رکھا الرد علی المتعصب العنید المانع عن ذم یزید اور انہیں میں سے امام احمد بن حنبل اور انہی میں سے قاضی ابو یعلی بھی ہیں۔”

علامہ د میری حیاۃ الحیوان میں یزید کے بارے میں کیا الہراسی کا قول نقل کر رہے ہیں، جس سے یزید کے بارے میں سلف اور آئمہ مجتہدین کا مسلک واضح ہوتا ہے:سئل الکیاالھراسی الفقیہ الشافعی عن یزید بن معاویۃ ھل ھومن الصحابۃ ام لا؟ وھل یجوز لعنہ ام لا؟ فاجاب انہ لم یکن من الصحابۃ لا نہ ولد فی ایام عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ واما قول السلف ففیہ لکل واحد من ابی حنیفۃ ومالک واحمد قولان تصریح وتلویح ولنا قول واحد التصریح دون التلویح و کیف لایکون کذلک وھو المتصید بالفھد واللاعب بالنرد و مدمن الخمرو من شعرہ فی الخمر۔ اقول لصحب ضمت الکاس شملھم وداعی صبابات الھویٰ یترنم خذوابنصیب من نعیم ولذۃ فکل وان طال المدیٰ یتصرم وکتب فصلاً طویلاً اضربنا عن ذکرہ ثم قلّب الورقۃ وکتب ولومددت ببیاض لاطلقت العنان وبسطت الکلام فی مغازی ھذا الرجل انتھی۔(حیوۃ الحیوان،ج۲،ص ۱۹۶و۱۹۵) “الکیاالہراسی فقیہ شافعی سے سوال کیا گیا کہ یزید بن معاویہ صحابہ میں سے ہے یا نہیں؟ اور آیا اس پر لعنت کرنا جائز ہے یا نہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ یزید صحابہ میں سے نہیں تھا کیونکہ اس کی ولادت زمانہ عثمان غنی رضی اللہ عنہ میں ہوئی ہے۔ اب رہا سلف صالحین کا قول اس (کی لعنت) کے بارہ میں تو اس میں امام ابو حنیفہ، امام مالک اور امام احمد بن حنبل کے دو قسم کے قول ہیں: ایک تصریح کے ساتھ، ایک تلویح کے ساتھ اور ہمارے نزدیک ایک ہی ہے یعنی تصریح نہ کہ تلویح (یعنی صراحۃً لعنت کا جواز) اور کیوں نہ ہو جب کہ یزید کی کیفیت یہ تھی کہ وہ چیتوں کے تو شکار میں رہتا اور نرد سے کھیلتا اور شراب خوری کرتا۔ چنانچہ اسی کے اشعار میں سے ہے کہ میں اپنے ساتھیوں سے کہتا ہوں جن کی جماعت کو دورِ جام و شراب نے جمع کر دیا ہے اور عشق کی گرمیاں ترنم کی آواز سے پکار رہی ہیں کہ اپنے نعمتوں اور لذتوں کے حصہ کو حاصل کرلو، کیونکہ ہر انسان ختم ہو جائے گا، اگرچہ اس کی عمر کتنی ہی طویل کیوں نہ ہو، لہٰذا وقت تھوڑا ہے، جو عیش کرنا ہے کرلو کہ پھر یہ زندگی ہاتھ نہ آئے گی۔ بابر بہ عیش کوش کہ عمرت دوام نیست۔” اور اسی پر الہراسی فقیہ نے ایک لمبی فصل لکھی ہے، جسے طول کی وجہ سے ہم نے چھوڑ دیا ہے، پھر انہوں نے ایک ورق پلٹا اور لکھا کہ اگر اس ورق میں کچھ اور بھی جگہ چُھوٹی ہوئی ہوتی تو میں قلم کی باگ ڈھیلی کر دیتا اور اس شخص(یزید) کی رسوائیاں کافی تفصیل سے لکھتا۔ اس عبارت سے آئمہ مجتہدین کا مسلک واضح ہو جاتا ہے کہ یہ سب حضرات یزید کے فسق کے قائل تھے، اس لئے لعنت کا مسئلہ زیر غور آیا۔ حتٰی کہ امام احمد بن حنبل نے تو قرآن پیش کرکے کہا کہ اللہ نے اپنی کتاب مبین ہی میں یزید پر لعنت بھیجی ہے۔

یزید پر لعنت کا جواز
حضرت مولانا محمد طیب قاسمی نے یزید پر لعنت کے جواز کے حوالے سے مختلف بزرگ علمائے کرام کی عبارات نقل کی ہیں۔ قبل ازیں ہم اس سلسلے میں ان کی پیش کی گئی حافظ عماد الدین ابن ابی کثیر، صاحب نبراس شارح شرح عقائد اور کیاالہراسی کی عبارات نقل کرچکے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ حتٰی امام ابن حنبل نے تو قرآن پیش کرکے کہا کہ اللہ نے اپنی کتاب مبین میں ہی یزید پر لعنت بھیجی ہے۔ اس کے بعد وہ یہ عبارت پیش کرتے ہیں: ثم روی ابن الجوزی عن القاضی ابو یعلی انہ روی فی کتاب المعتمد فی الاصول باسنادہ الی صالح بن احمد بن حنبل قال قلت لابی ان قوماً ینسبوننا الی تولی یزید فقال یا بنی وھل یتولی یزید احد یومن باللہ ولم لا العن من لعنہ اللہ فی کتابہ؟ فقلت و این لعن اللہ یزید فی کتابہ؟ فقال فی قولہ تعالیٰ فَہَلْ عَسَیْتُمْ اِِنْ تَوَلَّیْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَتُقَطِّعُوْٓا اَرْحَامَکُمْ O اُوْلٰٓءِکَ الَّذِیْنَ لَعَنَہُمْ اللّٰہُ فَاَصَمَّہُمْ وَاَعْمآی اَبْصَارَہُمْ فھل یکون فساد اعظم من ھذا القتل۔(کتاب الصواعق المحرقۃ،ص ۱۳۲)”پھر ابن جوزی نے قاضی ابو یعلٰی سے روایت کی ہے کہ قاضی صاحب نے اپنی کتاب المعتمد فی الاصول میں اپنی سند سے جو صالح بن احمد بن حنبل تک پہنچتی ہے، روایت کیا ہے کہ صالح نے اپنے والد احمد بن حنبل سے کہا کہ بعض لوگ ہم پر الزام لگاتے ہیں کہ ہم یزید کے حمایتی ہیں تو امام احمد نے فرمایا کہ بیٹا! کیا کوئی اللہ پر ایمان لانے والا ایسا بھی ہوگا جو یزید سے دوستی کا دم بھرے؟ اور میں اس پر لعنت کیوں نہ کروں، جس پر اللہ نے اپنی کتاب میں لعنت کی ہے۔” میں نے عرض کیا اللہ نے اپنی کتاب میں یزید پر کہاں لعنت کی ہے؟ فرمایا اس آیت میں (ترجمہ آیت)”پھر تم سے بھی توقع ہے کہ اگر تم کو حکومت مل جائے تو خرابی ڈالو ملک میں اور قطع کرو اپنی قرابتیں، ایسے لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی، پھر کر دیا ان کو بہرا اور اندھی کردیں آنکھیں ان کی۔” اس عبارت پر مولانا قاسمی نے یوں تبصرہ کیا ہے:”اسی عبارت سے اول تو یہ واضح ہوا کہ امام احمد کے نزدیک قتل حسین میں یزید کا ہاتھ بلاشبہ کار فرما تھا، کیونکہ امام احمد اسے فساد عظیم فرما کر یزید کو اس پر مستحق لعنت فرما رہے ہیں، جس کے معنی یزید کے قاتل حسین ہونے کے صاف نکلتے ہیں، خواہ امر قتل سے وہ قاتل ہے یا رضاء بالقتل سے قاتل ٹھہرے، اسے بھی حکماً قاتل ہی کہا جائے گا، جیسا کہ ابن کثیر نے اسی نوعیت سے اسے قاتل حسین کہا ہے جو گزر چکا ہے۔” ایک مقام پر مولانا قاسمی ایک عبرت انگیز واقعہ نقل کرتے ہیں، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یزید کی زبان سے حمایت کرنے والوں کی سزا اہل اللہ کے نزدیک کیا ہے:”حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے سامنے کسی نے یزید کو امیر المومنین کہہ دیا تھا تو انہوں نے اسے بیس کوڑوں کی سزا دی”(ملاحظہ ہو تہذیب التہذیب،ج۱۱،ص ۳۶۱)

یزید بے دین اور جہنمی
مولانا ایک حدیث کی روشنی میں یزید کو بے دین اور جہنمی بھی ثابت کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:”حافظ ابن کثیر نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث بھی نقل کی ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ سنہ 60 ھ کے بعد ایسے خلف ہوں گے، جو نمازوں کو ضائع کریں گے اور شہوتوں کی پیروی کریں گے تو انجام کارغی(جہنم کی ایک وادی) میں جا گریں گے۔ اشارہ یزیدی پارٹی کی طرف ہے جو سنہ60 ھ سے ابھری۔” یزید کے فسق کے بارے میں بحث کو سمیٹتے ہوئے مولانا طیب قاسمی صاحب اسے متفق علیہ مسئلہ ثابت کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں کبار علماء و محققین کی رائے کا خلاصہ ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں:”راسخین محدثین فقہاء مثل علامہ قسطلانی، علامہ بدرالدین عینی، علامہ ہیثمی، علامہ ابن جوزی، علامہ سعد الدین تفتازانی، محقق ابن ہمام، حافظ ابن کثیر، علامہ الکیاالہراسی جیسے محققین یزید کے فسق پر علماء سلف کا اتفاق نقل کر رہے ہیں اور خود بھی اسی کے قائل ہیں۔ پھر بعض ان میں سے اس فسق کے قدر مشترک کو متواتر المعنی بھی کہہ رہے ہیں، جس سے اس کا قطعی ہونا بھی واضح ہے۔ پھر اوپر سے آئمہ اجتہاد میں سے امام ابو حنیفہ، امام مالک امام احمد بن حنبل کا یہی مسلک الہراسی نقل کر رہے ہیں اور خود شافعی ہیں اور فتویٰ دے رہے ہیں تو ان کی نقل ہی سے یہ مسلک امام شافعی اور فقہ شافعی کا بھی ثابت ہوتا ہے تو اس سے زیادہ یزید کے فسق کے متفق علیہ ہونے کی شہادت اور کیا ہو سکتی ہے؟”

یزید کی حکومت کا احادیث میں ذکر
کتاب کے آخری حصے میں مولانا قاسمی نے چند معتبر روایات کی مدد سے ثابت کیا ہے کہ یزید کی حکومت کا متعین طور پر ذکر رسول اللہ نے اپنی پیش گوئیوں میں فرما دیا تھا اور بزرگ صحابہ میں سے کئی ایک ان سے واقف تھے۔ اس سلسلے میں علامہ قاسمی چند احادیث نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:”یہ متعین ہوگیا کہ جس امارہ صبیان سے ابو ہریرہؓ پناہ مانگتے تھے اور 60 ھ کے جن صبیان کی بدعملی اور شہوت رانی حدیث ابو سعید خدریؓ میں مذکور تھی، وہ یہی امارت تھی جس کا اولین سربراہ یزید تھا، جو چونتیس سالہ جوان تھا۔ عمر بلوغ کی تھی، مگر عقل و تدبیر اور دین کے لحاظ سے نابالغ اور صبی تھا۔” سنہ 60 ھ والے اس نئے صاحب اقتدار نے اپنے اقتدار سے کارنامہ کیا انجام دیا؟ وہ یہ کہ اس چار سالہ دور حکومت میں بہت جلد اس کے اردگرد ایسے نوخیز سفہا جمع ہوگئے، جو دینی مذاق اور دینی امانت و دیانت سے متاثر نہ تھے، یا کسی حد تک ہوں تو ہوائے نفس کے غلبہ سے وہ تاثر کالعدم تھا۔ یہ صبیان جونہی برسراقتدار آئے اور اپنی امارۃ کے نفسانی مقاصد کی راہ میں شیوخ دین، اکابر ملت اور دینی ذوق کے پرانے تجربہ کاروں کو راستہ کا کانٹا دیکھتے، جو انہیں قدم قدم پر دینی معیار سے روک ٹوک کرسکتے تھے تو یکے بعد دیگرے انہیں راستہ سے ہٹانا شروع کیا، تاکہ امارۃ الشیوخ ختم ہو کر امارۃ الصبیان اس کی جگہ پر آجائے اور وہ آزادی سے اپنے نفسانی مقاصد پورے کرسکیں، جس سے صاف واضح ہے کہ یہ امارۃ الصبیان درحقیقت امارۃ الشیوخ کی تخریب پر قائم ہوئی، جس کی حدیث نے خبر دی اور یہی وہ ملک عضوض تھا جس کا قیام خلافت کی اوکھاڑی ہوئی اینٹوں پر کیا گیا۔ پس اس کا قیام ہی دین اور اہل دین کی تباہی کے ہم معنی تھا۔

چنانچہ حافظ ابن حجر تحریر فرماتے ہیں: والذی یظھر ان المذکورین من جملتھم وان اوّلھم یزید کما دلّ علیہ قول ابوھریرۃ راس الستین وامارۃ الصبیان فان یزید کان غالباً ینتزع الشیوخ من امارۃ البلدان ویولیھاالا صاغر من اقاربہ انتھی۔(فتح الباری،ج۱۳،ص۸) “اور اس بیان ماسبق سے جو بات کھلی وہ یہ ہے کہ یہ مذکورین (مذکور شدہ قریشی لڑکے) انہی صبیان میں سے ہیں اور ان میں سے پہلا یزید ہے، جیسا کہ ابو ہریرہ کا قول راس ستین اور امارۃ الصبیان کا ہے، کیونکہ یزید غالب احوال میں شیوخ (اور اکابر امت) کو امارۃ (کے عہدوں) سے برطرف کرتا تھا اور ان کی جگہ اپنے رشتہ داروں میں سے نوخیز (اور نوعمروں) کو بھرتی کرتا جاتا تھا۔” علامہ بدرالدین عینی بھی اس امارۃ الصبیان والی حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:و اولھم یزید علیہ ما یستحق وکان غالباً ینزع الشیوخ من امارۃ البلدان الکبار ویولیھا الاصاغرمن اقاربہ۔(عمدۃ القاری،ج۱۱،ص ۳۳۴)”اور ان صبیان میں سے پہلا یزید ہے۔ اس پر وہی پڑے جس کا وہ مستحق ہے اور اکثر احوال میں وہ شیوخ و اکابر کو بڑے بڑے شہروں کے ذمہ دارانہ عہدوں سے برطرف کرکے اپنے نو عمر عزیزو اقرباء کو (کلیدی عہدے) سپرد کرتا جاتا تھا۔” بہرحال امارت کا نقشہ بدل گیا۔ شیوخ کے بجائے صبیان اور اتقیاء کی جگہ اشقیاء آنے لگے۔ ان روایات اور ان سے اخذ شدہ نتائج کا جائزہ لینے کے بعد مولانا قاسمی فرماتے ہیں:”انہی اجتماعی تباہ کاریوں کا جامع عنوان حدیث نبویؐ میں ’’امارۃ الصبیان‘‘ فرمایا گیا ہے، جس کی پیش گوئی لسان نبوہ پر پہلے سے کردی گئی تھی۔”

غرض حدیث نبوی کی پیش گوئی کے مطابق اس سنہ 60 ھ کی امارۃ الصبیان نے جو کچھ انقلاب امت میں برپا کیا، وہ یہ تھا کہ یزید اور اس کی پارٹی نے ملک کے اکابر و شیوخ اور بڑے بوڑھوں کو کسی کی جان لے کر، کسی کا مال چھین کر، کسی کو دونوں سے محروم کرکے، کسی کو ڈرا دھمکا کر، کسی کو مجبور کرکے کلیدی عہدوں اور منصوبوں سے علیحدہ کرکے نوخیز لڑکوں کو امارت میں بھرتی کیا، جس سے لڑکوں کی امارت یعنی امارت صبیان کا ظہور ہوا اور اس انقلاب سے امارت شیوخ کا وہ قدیم ڈھانچہ درہم برہم ہوگیا، جو ان بزرگوں کی فراست، دیانت اور تجربہ کارانہ سیاست سے قائم شدہ تھا اور دنیا اس کے برکات سے مستفید ہو رہی تھی اور ایک نیا اور ناقص ڈھانچہ اس کی جگہ آگیا، جس کے مضر اثرات وہ ظاہر ہوئے جو قیامت تک امت کے لئے انتشار و تشتت کا ذریعہ ثابت ہوئے اور پھر ان سارے فتنوں میں سب سے بڑا فتنہ خود قتل حسین و اہل بیت رسول ہے، جس پر یزید نے خوشی ظاہر کی اور بعد میں قیامت تک اپنا مستقبل تاریک دیکھ کر غم کا اظہار کیا، جو درحقیقت قتل حسین پر نہ تھا بلکہ اپنی بے آبروئی کے خیال پر تھا۔ اس طرح یہ شخص باشارۂ حدیث نبوی امت کی ہلاکت و تباہی کا باعث ثابت ہوا۔ گو ایسی بھی بعض حدیثیں ارباب سیر اور بالخصوص حافظ ابن کثیر نے ذکر کی ہیں، جنھیں یزید کا نام لے کر اس امت کی ہلاکت کا سبب بتایا گیا ہے، گویا صبیانی پارٹی کے اس سربراہ کے جو اقدامات عمومی اور کلی الفاظ میں احادیث میں ذکر کئے گئے ہیں، وہی نام لے کر بھی ان احادیث میں ذکر آگئے ہیں، جیسے ابو عبیدہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ:لا یزال امر ھذہ الامۃ قائماً بالقسط حتی یکون اول من یثلمہ رجل من بنی امیۃ یقال لہ یزید(البدایۃ والنھایۃ،ج۸،ص ۲۳۱)”میری امت کا امر و حکم عدل کے ساتھ قائم رہے گا۔ یہاں تک کہ پہلا وہ شخص جو اسے تباہ کرے گا، بنی امیہ میں سے ہوگا۔ جسے یزید کہا جائے گا۔”

لیکن ہم نے اس قسم کی روایتوں کو اس لئے پیش نہیں کیا کہ ان کی سندوں میں کلام کیا گیا ہے بلکہ صرف عمومی روایتیں پیش کر دینا کافی سمجھا ہے۔ یزید اور اس کی صیبانی پارٹی کے یہی وہ فاسقانہ کارنامے، عزل شیوخ و اکابر، توہین صحابہ، قتل حسین، اہانت اہل بیت، تحلیل مکہ اور اباحۃ مدینہ وغیرہ تھے، جن سے اسے معتوب خداوندی سمجھا گیا اور اس کی ہلاکت اور خاتمہ کو انہی الفاظ سے مورخین نے ذکر کیا ہے، جو اہل دین و تقویٰ کے مقابلہ پر آئے ہوئے ظالموں اور جابروں کے بارے میں قرآن و حدیث میں استعمال کئے گئے ہیں، چنانچہ واقعہ حرہ کے موقعہ پر جبکہ یزید نے مسلم بن عقبہ کو بھیج کر مدینہ کو تین دن کے لئے مباح کر دیا، جس سے اس ظالم و فاسق کے ہاتھ پر کتنے ہی صحابہ اور ابناء صحابہ قتل ہوئے۔ عورتوں کی بے حرمتی ہوئی اور یزید نے اپنے اس جابرانہ اور بلا شرکت غیرے نفوذ کو دیکھ کر خوشی کا اظہار کیا کہ اب اس کا ملک پائیدار ہوگیا اور قوت ایسی مستحکم ہوگئی کہ وہ کیسا بھی حکم دے دے، کوئی چون و چراں کرنے والا نہیں ہے تو اس کے ان جذبات و افعال کا نتیجہ ظاہر کرتے ہوئے حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں:وقد اخطأیزید خطأفاحشافی قولہ لمسلم بن عقبۃ ان یبیح المدینۃ ثلاثہ ایام وھذا خطأ کبیر فاحش مع ما انضم الیٰ ذلک من قتل خلق من الصحابۃ وابناء ھم وقد تقدم انہ قتل الحسین واصحابہ علیٰ یدی عبیداللہ ابن زیاد وقد وقع فی ھذہ الثلاثۃ ایام من المفاسد العظمیۃ فی المدینۃ النبویۃ ما لایحد و لا یوصف مما لا یعلمہ الا اللہ عزوجل وقد اراد بارسال مسلم بن عقبۃ توطید سلطانہ و ملکہ و دوام ایامہ من غیر منازع فعاقبۃ اللہ بنقیض قصدہ و حال بینہ وبین ما یشتھیہ فعقمہ اللہ قاصم الجبارۃ واخذہ اخذ عزیز مقتدر وَ کَذٰلِکَ اَخْذُ رَبِّکَ اِذَآ اَخَذَ الْقُرٰی وَ ھِیَ ظَالِمَۃٌ اِنَّ اَخْذَہٗٓ اَلِیْمٌ شَدِیْدٌ۔(البدایۃ،ج۸،ص ۲۲۲)”اور بلاشبہ یزید نے شدید ترین غلطی کی، جو مسلم بن عقبہ سے کہا کہ وہ مدینہ کو تین دن تک مباح الدم قرار دے۔ یہ(مجرمانہ) غلطی تھی، جس کے ساتھ یہ اور اضافہ ہوا کہ ایک بڑی تعداد صحابہ اور ابناء صحابہ کی قتل ہوگئی اور یہ پہلے آہی چکا ہے کہ اس نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کو عبیداللہ بن زیاد کے ہاتھ سے قتل کرایا۔ نیز(مدینہ کے) ان تین دنوں میں بڑے بڑے عظیم مفسدے نمایاں ہوئے، جس کو نہ بیان کیا جا سکتا ہے، نہ ان کی کوئی کیفیت بھی بتلائی جاسکتی ہے۔ انہیں اللہ ہی جانتا ہے۔ یزید نے تو مسلم بن عقبہ کو مدینہ بھیج کر یہ چاہا تھا کہ اس کا ملک مضبوط ہو جائے اور اس کی حکومت دیرپا ہو، جس میں کوئی شریک و سہیم نہ ہو، لیکن خدا نے اسے اس کے منصوبوں کے خلاف سزا دی اور جو چاہتا تھا وہ نہ ہونے دیا۔ اسے اسی طرح پچھاڑا جس طرح اس نے جابروں کو پچھاڑا ہے اور قضا کے پنجوں سے اسے پکڑا ’’اور ظالم بستیوں کے لئے تیرے رب کی پکڑ ایسی ہی سخت ہوتی ہے، اس کی گرفت بے انتہا الم انگیز اور شدید ہوتی ہے۔”

حدیث قسطنطنیہ پر ایک نظر
کتاب کے آخری حصے میں یزید کے دفاع میں پیش کی جانے والی حدیث قسطنطنیہ پر بھی مولانا قاسمی نے ایک نظر ڈالی ہے۔ اس سلسلے میں وہ علامہ عینی کی ایک عبارت نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں:”علامہ عینی کے کلام سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ اس زیر بحث غزوہ قسطنطنیہ میں یزید کی امارت و قیادت کا دعویٰ یقینی طور پر ثابت شدہ نہیں بلکہ عینی کے نزدیک اقوال میں اصح قول یہی ہے کہ یزید کی شرکت تو اس غزوہ میں ہوئی، مگر قیادت نہیں ہوئی کہ یہ اکابر صحابہ اس کے ماتحت میں دے دیئے گئے ہوں۔ پھر یہ شرکت کس نوعیت کی تھی؟ سو اس پر ابن اثیر نے روشنی ڈال دی ہے کہ یزید اس جہاد میں خود اپنے داعیہ سے شریک نہیں ہوا بلکہ اپنے والد بزرگوار کے حکم سے اور انہوں نے یہ حکم بھی اسے اگر دیا تو تعزیراً دیا، تاکہ اس کی عیش پرستی پر کوئی زد پڑے اور اسے اس تعیش پسندی اور غفلت پر وری کی سزا مل جائے، چنانچہ ابن اثیر لکھتے ہیں:وفی ھذہ السنۃ وقیل سنۃ خمسین سیّر معاویۃ جیشا کثیفاً الی بلاد الروم للغزاۃ وجعل علیھم سفیان ابن عوف۔ و امرابنہ، یزید بالغزاۃ معہم فتثاقل واعتل فامسک عنہ ابوہ فاصاب الناس فی غزاتھم جوع ومرض شدید فانشاء یزید یقول۔
شعر
ما ان ابا لی بما لاقت جموعھم
بالفرقدونۃ من حمی ومن موم
اذا اتکأت علی الانماء مرتفعاً
دلیر مران عندی ام کلثوم
وام کلثوم امراتہ وھی ابنۃ عبداللہ بن عامر فبلغ معاویۃ شعرہ فاقسم علیہ لیلحقن بسفیان فی ارض الروم لِیصیبہ ما اصاب الناس۔(ابن اثیر، ج۳،ص ۱۶۷)”اور اسی سن میں اور کہا گیا کہ 50 ھ میں حضرت معاویہ نے ایک لشکر جرار روم کے علاقوں میں بھیجا اور اس پر امیر لشکر سفیان بن عوف کو بنایا اور اپنے بیٹے یزید کو حکم دیا کہ وہ ان کے ساتھ غزوہ میں شامل ہو تو یزید بیٹھ رہا اور حیلے بہانے شروع کئے تو امیر معاویہ اس کے بھیجنے سے رک گئے۔ اس لشکر میں لوگوں پر بھوک اور بیماری کی وبا پھوٹ پڑی تو یزید نے(خوش ہوکر) کہا کہ: مجھے پرواہ نہیں کہ ان لشکروں پر یہ بخار و تنگی کی بلائیں فرقدونہ(نام مقام) میں آپڑیں، جبکہ میں دیر مران میں اونچی مسند پر تکیہ لگائے ام کلثوم کو اپنے پاس لئے بیٹھا ہوں۔ ام کلثوم بنت عبداللہ ابن عامر یزید کی بیوی تھی۔ یزید کے یہ اشعار حضرت معاویہ تک پہنچے تو قسم کھائی کہ اب میں یزید کو (اس جہاد) میں سفیان بن عوف کے پاس روم کی سرزمین میں ضرور بھیجوں گا، تاکہ اسے بھی ان مصائب کا حصہ ملے، جو وہاں کے لشکر والوں کو مل رہا ہے۔” پھر اسی کے ساتھ خود غرضی اور خود مطلبی کا یہ عالم کہ وہاں تو مجاہدین پر بھوک، پیاس اور بیماری کے پہاڑ ٹوٹ رہے ہیں اور یہاں یزید داد عیش دیتے ہوئے ترنم کر رہا ہے کہ مجھے پرواہ نہیں ہے کہ کون بھوک پیاس میں مر رہا ہے اور کون دکھ درد کا شکار ہے۔ مجھے تو دیرمران کے مکلف فرش و فروش تکئے اور ان کے ساتھ ام کلثوم کی ہم بستری چاہیے۔ کہاں کا جہاد اور کہاں کے مجاہد۔ ظاہر ہے کہ جس کے یہ عیش پرستانہ مشاغل ہوں اور مجاہدین ملت سے بے پرواہی کے یہ جذبات ہوں، اس میں قلبی داعیہ سے جہاد کی آرزو اور جان سپاری کی تمنائیں کہاں سے آسکتی ہیں۔ اسی لئے وہ اس غزوہ میں بطور سزا کے بھیجا گیا اور قہر درویش بر جان درویش کے انداز سے اس سفر میں اس نے قدم اٹھائے۔

فسق یزید نظریہ نہیں عقیدہ ہے
مولانا طیب قاسمی نے ان تمام احادیث و اقوال فقہاء و علماء اور اسناد تاریخ کو پیش کرنے کے بعد اپنا عقیدہ حرف آخر کے طور پر یوں بیان کیا ہے:”اب خلاصۂ بحث یہ نکل آیا کہ یزید کی شنیع حرکات اور اس کے فاسقانہ افعال نصوص فقہیہ اور نصوص تاریخیہ سے واضح ہیں۔ جن کی رو سے فسق یزید کا مسئلہ محض تاریخی نظریہ نہیں رہتا، جسے مورخین نے محض تاریخی ریسرچ کے طور پر قلمبند کر لیا ہو، بلکہ حدیث و فقہ کی رو سے ایک عقیدہ ثابت ہوتا ہے، جس کی بنیادیں کتاب و سنت میں موجود اور ان کی تفصیلات علماء اور اتقیاء کے کلاموں میں محفوظ ہیں۔ اسی لئے اسے نقل کرنے پر حکم لگانے اور اسے ثابت کرنے کے لئے محض مورخ نہیں بلکہ محدثین، فقہاء اور متکلمین آگے آئے اور انہوں نے اس مسئلہ پر کتاب و سنت کے اشارات اور فقہ و کلام کی تصریحات سے احکام مرتب کئے، جس سے اس کے عقیدہ ہونے کی شان نمایاں ہوئی۔ ظاہر ہے کہ عقیدہ کے خلاف تاریخی نظریہ کسی کا بھی ہو، اپنے بطلان پر خود ہی گواہ ہوگا۔ اس لئے عقیدہ کے مقابلہ پر بہر صورت تاریخ کو ترک کر دیا جائے گا یا اس کی کوئی توجیہ کرکے عقیدہ کی طرف اسے رجوع کر دیا جائے، بشرطیکہ یہ تاریخی روایت کسی ثقہ کی طرف منسوب ہو۔ اس لئے یہ عقیدہ بہر صورت محفوظ ہے اور عقیدہ ہی کے طور پر اسے محفوظ رکھا جائے گا کہ سیدنا حسینؓ صحابی جلیل اور اہل بیت رسول صحابی ہونے کی وجہ سے تقی القلب، نقی الباطن، زکی النسبۃ علی النسب، وفیّ العلم، صفیّ الاخلاق اور قویّ العمل تھے۔ اس لئے عقائد اہلسنت والجماعت کے مطابق ان کا ادب و احترام ان سے محبت و عقیدت رکھنا، ان کے بارے میں بدگوئی، بدظنی، بدکلامی اور بداعتمادی سے بچنا فریضۂ شرعی ہے اور ان کے حق میں بدگوئی اور بداعتمادی رکھنے والا فاسق و فاجر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔ختم شد۔۔۔۔۔
نوٹ: مولانا محمد طیب قاسمی کی تمام عبارات ان کی کتاب ’’شہید کربلا اور یزید‘‘ سے ماخوذ ہیں، جسے ادارہ اسلامیات، لاہور نے شائع کیا ہے اور اس پر مولانا کے صاحبزادے مولانا محمد سالم قاسمی کی تقریظ بھی موجود ہے، جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ:’’یہ کتاب جماعت دارالعلوم دیوبند کے متفقہ مسلک حق کی ترجمان ہے۔”