خلافت راشدہ کے بعد امت کا زوال – علامہ سلمان ندوی، دار العلوم ندوۃ العلماء

ندوۃ العلماء لکھنؤ میں شیخ الحدیث علامہ سلمان ندوی صاحب نے اپنے بیان میں تحقیق اور حریت فکر حق ادا کر دیا اور خلافت راشدہ کے بعد امت میں جو ملوکیت در آئی ، اس کا اہم تجزیہ پیش کیا ۔ اس بابت ان کا موقف اکابرین اہلسنت جیسا کہ امام ذہبی، امام احمد بن حنبل، امام شافعی ، امام مالک ، امام ابو حنیفہ، ملا علی قاری، علامہ آلوسی، ابن جوزی، مولانا محمد قاسم نانوتوی، شاہ عبد العزیز دہلوی اور مجدد الف ثانی کے نقطہ نظر کا آئنہ دار ہے

اپنے تحقیقی خطاب میں مولانا ندوی نے امیر معاویہ کی خلافت اور انکے دور حکومت کا کسی بھی مسلک یا فرقے سے بالا تر ہو کر غیر جانبدارانہ تجزیہ پیش کیا ۔ جو خوارج اور نواصب یزید پلید اور دیگر ملوک بنو امیہ کی حمایت یا حضرت علی و امام حسین رضی الله عنہم پر ملفوف تنقید کرتے ہیں اور دشمنان اہلبیت کو صحابیت کے پردے میں محفوظ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان کے بارے میں علامہ ندوی نے نہایت عمدہ دلیل پیش کی اور فرمایا :

“اور یہ بھی اصول بنالیا گیا ہے کہ جس نے ایمان کی حالت میں رسول کو دیکھ لیا اور ایمان کی حالت میں انتقال ہوگیا تو وہ صحابی ہوگیا یہ بالکل صحیح نہیں ہے۔لہذا محض ایک دیدار ہو جانے سے کوئی صحابی نہیں ہوجاتااور صحابی ہو بھی جاتے ہیں تو صحابہ میں سب طرح کے لوگ تھے۔”

مولانا ندوی نے فرمایا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بعض فیصلے دباؤ میں کئے، تو انقلاب آیا تھا اور اس رد عمل میں حضرت عثمان رضی الله عنہ کی مظلومانہ شہادت ہوئی ، انہوں نے مزید کہا کہ:
“جناب معاویہ نے موروثی نظام شروع کیا… جناب معاویہ نے قران کے اصولوں کو کنارے ڈال دیا۔”

اور کہاکہ:

“بعد کا جو دور ہے’معاویہ’ کا پھریزید کا وہ تو اتنا مجرمانہ ہے، اتنانامسعود ونامبارک ہے، ایسا قاتلانہ ہےاسکوتوصرف اس لیے بیان کرنا چا ہئے کہ اس پر لعنت برسائی جائے، اس سے دست برداری اختیار کی جائے، اسکو پیش کیا جائے ایک ‘کفر’ کے نمونے کے طور پر یا ‘نفاق’ کی علامت کے نمونے کے طور پر ۔”

مولانا سلمان ندوی صاحب نے اپنی اس تقریر میں سیرت نبی کریم صلی الله علیہ والہ وسلم اور اسوہ اہلبیت و سابقون الاولون رضی الله عنہم کو خلافت راشدہ کے بعد بھٹک جانے والی ملوکیت اور اس سے ملحقہ خارجیت اور ناصبیت سے ممیز کر دیا، حریت فکر اور تحقیق کی ایسی شمع فروزاں ندوہ العلما کی مرہو ن منت ہے، این سعادت بزور بازو نیست

واقعاتی تاریخ بیان کرنا اگر غلط ہے اگر اپنی تاریخ سے نفرت ھے تاریخی باتوں کو دہرانے سے کسی پر گستاخی کا فتوی لگ سکتا ہے تو جس نے ان واقعات کو سب سے پہلے نقل کیا ان کو اپنے سروں پر کیوں اٹھائے پھر رہے ہیں؟

لگائیں امام طبری پر کفر کا فتوی’
فتوی لگائیں امام ابن اثیر اور ابن کثیر پر
فتوی لگائیں امام بخاری و مسلم و ترمذی و نسائی پر
ابن سعد، ابن خلدون، شاہ عبدالعزیز دہلوی، امام ذہبی،
جنہوں نے امیر شام جناب معاویہ رضی الله عنہ کی غلط پالیسیوں کو صحیح سند کے ساتھ لکھا ہے۔ آگ لگا دیجیے اس ذخیرے کو اگر اتنی ہی نفرت ہے اپنی تاریخ سے تو ۔
بات یہاں صاف ھے اور پوری طرح مطلع صاف ھوچکا ھے اور اب صاف صاف اس حقیقت کو بیان کرنے کا وقت آگیا ھے

—-

مولانا سلمان ندوی کا ناصبیت سے متعلق واضح موقف:

مولانا سید سلمان حُسینی ندوی نے اپنے ویڈیو کلپ میں اسلام میں ملوکیت کے آغاز اور یزید کی ناجائز ولی عہدی کے حوالے سے دو چار باتیں کیا کہیں کہ سوشل میڈیا پر شور بپا ہے، اِسی تناظر میں اُنھوں نے اپنا واضح موقف پیش کیا ہے، جو برادر نفیس ندوی کی وال سے ماخوذ ہے:

حضرت علی اور حضرت معاویہ کے بارے میں میرے بعض بیانات پر ناواقفوں کم علموں اور نام نہاد مولویوں نے جو شور و غوغا مچایا، اس نے الحمد اللہ مجھے اب واضح بیان دینے کا موقع فراہم کیا. امت میں اہلسنت وہ ہیں جو رافضیت اور ناصبیت کے بیج کا موقف رکھتے ہیں، (جو) رافضی شیعہ (ہیں وہ) برسر باطل ہیں، (یہ وہ ہیں) جو حضرات ابوبکر و عمر و عثمان ۔رضی اللہ عنھم۔ پر لعن طعن کرتے ہیں، حضرت عائشہ صدیقہ ۔رضی اللہ عنہا۔ پر تہمت لگاتے ہیں، اکثر صحابہ کی تکفیر کرتے ہیں، وہ ملعون ہیں۔

امت میں ناصبی وہ ہیں جو حضرت علی رضی اللہ عنہ پر حضرت معاویہ کو ترجیح دیتے ہیں، حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں یزید کا دفاع کرتے ہیں۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی متواتر حدیث

“اذکرکم اللہ فی اھل بیتی،ترکت فیکم امرین لن تضلوا ماتمسکتم بہما کتاب اللہ وعترتی_اہل بیتی”
یہ حدیث ٢٠ سے ٢٥ کبار صحابہ سے منقول ہے، اس کی صحت پر تمام محدثین کا اتفاق ہے کہ بیان سے گریز کرتے ہیں اور اس کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتے وہ ناصبی ہیں، جو اہل بیت کی تعظیم نہیں کرتے ان سے محبت نہیں کرتے، جو حضرت زین العابدین، حضرت زید بن علی، حضرت محمد الباقر، حضرت محمد جعفر الصادق اور ائمہ اہل بیت کو اپنا امام نہیں مانتے جبکہ امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی اہل بیت سے تعلق کی بنیاد پر کوڑوں اور جیل کی سزا برداشت کرتے رہے۔

ایسے لوگ نام نہاد اہل سنت ہیں دراصل اہل سنت میں گھس بیٹھیے یہ ناصبی ہیں۔

علمائے حق سے میں یہ پوچھتا ہوں کہ امیر المومنین خلیفہ راشد حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں حضرت معاویہ باغی تھے کہ نہیں؟

اگر خلیفہ راشد کے خلاف بغاوت کے باوجود اور تمام علمائے اہل سنت کے نزدیک فاسق یزید کو بڑے بڑے صحابہ کو چھوڑکر جانشین بنانے کے باوجود، جمعہ کے خطبوں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ پر ان کے گورنروں کے لعن طعن کے باوجود، جس کی روایتیں اہل سنت علماء، محدثین اور مورخین کی کتابوں میں بکثرت موجود ہیں؛ وہ تنقید سے بالاتر ہیں?

تحریر: سلمان ندوی

بتاریخ ٢٥محرم الحرام۔١٤٤٠ھ