جمع و تدوین قرآن، اہلسنت اور اہل تشیع علما کا نکتہ نظر – ڈاکٹر طفیل ہاشمی

فقہاء اور علماء اصول فقہ کے ہاں جمع و تدوین قرآن کا مسئلہ سرے سے اپنا وجود نہیں رکھتا کیونکہ انہوں نے کتاب اللہ کی تعریف میں “المنقول عنہ نقلا متواترا بلاشبھۃ” کے الفاظ شامل کر کے قرآن کی ایسی تعریف کر دی کہ روایات آحاد یا مشہور کے لیے ممکن نہیں رہا کہ کوئی شبہ پیدا کر سکیں لیکن سنی محدثین اور شیعہ اخباریین کے ہاں ایسی روایات ملتی ہیں جن سے یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ متن قرآن کی ترتیب، جمع و تدوین عہد نبوی کے بعد ہوئی اس لئیے کچھ آیات دانستہ یا نادانستہ قرآن میں شامل ہونے سے رہ گئیں. سنی مصادر کے مطابق ایک آیت ایسی بھی ہے جس کے الفاظ اور حکم دونوں باقی ہیں لیکن گواہی کا مطلوبہ معیار پورا نہ ہونے کے باعث متن قرآن میں درج نہیں کی گئی. سنی مآخذ کچھ آیات کے بارے میں کہتے ہیں کہ انہیں بکری کھا گئ تھی جبکہ شیعہ مآخذ ایسی آیات کا ذکر کرتے ہیں جن میں اہل بیت اطہار کی تعریف و توصیف کی گئی تھی. فرق یہ ہے کہ شیعہ اہل علم نے کئی صدیاں پہلے اخباریین اور ان کی روایات کو اپنے مسلکی تسلسل سے بے دخل کر دیا تھا اور موجودہ متداول متن قرآن کے مکمل ہونے پر اجماع کر لیا. سنی مکاتب فکر بھی موجودہ قرآن کو ہی مکمل متن تسلیم کرتے ہیں تاہم اس ضمن میں دیگر روایات کی تاویل، توجیہ کر کے انہیں بھی کسی نہ کسی درجے میں برقرار رکھتے ہیں. عمومی طور پر دونوں مکاتب فکر قرآن کے موجودہ متن کی صحت، جامعیت اور کاملیت پر اتفاق کے باوجود سنی مناظرہ کار شیعہ کے بارے میں یہ بیان کرتے رہتے ہیں کہ وہ موجودہ متن قرآن کو مکمل نہیں مانتے.
اس موضوع پر ماضی قریب میں نامور پاکستانی عالم مولانا احسان الہی ظہیر نے، جو سعودی ایرانی پراکسی وار میں پاکستان میں سعودی عرب کی طرف سے ہراول دستہ میں شامل تھے عربی میں ایک کتاب “الشیعہ والسنة” تالیف کی، جس میں شیعہ کے اس عقیدے کا ذکر کیا کہ وہ موجودہ متن قرآن کو محرف قرار دیتے ہیں. حال ہی میں اس کے جواب میں ایک شیعہ عالم علی الکورانی العاملی نے تدوین القرآن کے نام سے ایک ضخیم کتاب عربی زبان میں 1418 ھ میں مطبع باقری دارالقران ردمک سے شائع کی.

کتاب کی کچھ فصول ان شیعہ اور سنی روایات کا احاطہ کرتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں مکاتب فکر قرآن کے بارے میں یکساں رائے رکھتے ہیں کہ کچھ آیات شامل ہونے سے رہ گئی تھیں. چونکہ یہ ایک مناظرانہ کتاب کا جواب ہے اس لیے اس حصے میں مناظرانہ جوابات دئیے گئے کہ ایں گناہےاست کہ در شہر شما نیز کنند
یعنی اگر ہم قرآن کو مکمل نہیں مانتے تو اہل سنت بھی مکمل نہیں مانتے.

لیکن کتاب کے اگلے حصے میں جو میری دلچسپی کا ہے انہوں نے اتنی کثرت سے وہ روایات جمع کردی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ سارا متن قرآن عہد نبوی میں مرتب اور مدون ہو کر بکثرت نقول کی شکل میں موجود تھا. یہ حصہ اس اعتبار سے بہت اہم ہے کہ زھری کی جس روایت کی بنا پر بہت سے شکوک و شبہات پیدا ہوئے اور مستشرقین نے اس روایت کی بنا پر پورے متن قرآن اور اس کی ترتیب کے بارے میں شکوک پیدا کردیئے اس کے متبادل مستند کتب احادیث بلکہ بخاری اور مسلم سے ایسی روایات پیش کی گئی ہیں جن کی طرف بادی النظر میں اس حوالے سے توجہ نہیں ہوتی

قرانیات کا ذوق رکھنے والوں کے لیے ایک قابل مطالعہ کتاب ہے بشرطیکہ آپ شیعہ مولفین سے الرجک نہ ہوں.