حضرت عمر فاروقؓ کادورِ خلافت، اسلام کا روشن نظام حیات

سیدنافاروق اعظم ؓ وہ ہستی ہیں جن کے دور خلافت میں اسلام ایک جیتے جاگتے نظام حیات کی شکل میں سامنے آیا۔ حضرت عمرفاروق ؓ کی شخصیت اتنی عظیم ا و ر ا ن کا مقام اتنا بلند ہے کہ آپ” عمر”کہیں، تب بھی کوئی شخص ابہام کا شکار نہ ہوگا۔ کائنات میں کتنے ہی عمر ہوئے ہیں مگر جب بھی کوئی شخص یہ کہے کہ “عمر نے کہا”تو ہر سننے والا فورا ًسمجھ جاتا ہے کہ یہ حضرت عمر بن خطاب ؓ کے بارے میں گفتگو ہو رہی ہے۔ کسی دوسرے کی جانب خیال جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتااور یہ بھی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ کوئی شخص سیدنا عمرفاروق ؓ کو تو جانتا ہو مگر ان کے دور خلافت سے آگاہ نہ ہو۔ سیدنا عمر فاروق ؓ کا مقام اور ان کے “دس برس چھ ماہ چار دن”پر مشتمل مختصر”دور خلافت” میں کامیابیاں ہمہ پہلو ہیں۔

جمادی الآ خر 13ہجری میں خلیفہ اول سیدنا ابو بکر صدیق ؓنے اپنی مرض الوفات میں سیدنا عمر ؓ کو خلیفہ مقرر کرنے کا عہد نامہ لکھوایا، اور پھر اپنے مکان کے بالا خانے میں جا کر لوگوں سے جو نیچے جمع تھے مخاطب ہوئے اور کہا:”میں نے اپنے کسی بھائی بند کو خلیفہ مقرر نہیں کیا بلکہ عمر کو مقرر کیا، کیا تم لوگ اس پر راضی ہو؟ توسب نے “سمعناواطعنا”کہا۔ 22جمادی الآ خر 13ہجری میں خلیفہ اول سیدنا ابو بکر صدیق ؓ کی وفات کے بعد، مسلمانوں کے متفقہ طور پر سیدنا عمر فاروق ؓ کے ہاتھ پر بیعت خلافت کرنے کے بعد سیدنا عمر فاروق ؓ مسند آرا خلافت ہوئے۔

خلافت کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد پہلے ہی دن آپ ؓ نے لوگوں کے سامنے اس بات کی وضاحت کردی تھی کہ لوگوں سے حکومت کس طرح معاملہ کرے گی۔ آپ ؓ نے کہا:”لوگو ! وحی کا سلسلہ تو منقطع ہو چکا ہے۔ اب ہم تمہارے ساتھ جو بھی معاملہ کریں گے وہ تمہارے ظاہری حالات اور اعمال کے مطابق ہوگا۔ ظاہراًجس نے خیر و بھلائی کا رویہ اپنا یا ہماری طرف سے اسے امن و امان کی ضمانت ہے۔ باطنی حالت اور چھپے ہوئے راز کی ٹوہ ہم نہیں لگائیں گے۔ یہ معاملہ اور اللہ بندے کے درمیان ہے اور اللہ باطن کے مطابق اور نیتوں کے لحاظ سے بندوں سے حساب لے لے گا۔ اسی طرح جس شخص سے شر اور فساد ظاہر ہو ہم اس کے خلاف قانونی کاروائی کریں گے۔ اگر وہ کہتا بھی رہے کے دل اور نیت سے اس کا ارادہ فتنہ و فتور کا نہ تھا تو ہم اس کے ظاہری عمل کے مقابلے پر اس کے اس دعوے کو قبول نہ کریں گے۔ “

اس بنیادی اصول کے مطابق سیدنا عمر ؓ نے خلافت کی ذمہ داریاں نبھائیں۔ وحی فی الحقیقت منقطع ہو چکی تھی اور اس کے اصول قرآن و سنت کی صورت میں واضح اور محکم تھے، پس مخلوق کے لیے اگرچہ حاکم وقت ہی کیوں نہ ہو یہ حق نہ تھا کہ وہ ظاہری اعمال سے صرف نظر کرکے یہ فیصلہ دینا شروع کردے کہ لوگوں کے دلوں میں کیا ہے۔ اسی مضمون کوخود صاحب وحی ﷺ نے یوں بیان فرمایاہے “مجھے یہ حکم نہیں دیا گیا کہ لوگوں کے دل چھید کر دیکھوں یا ان کے پیٹ چاک کر کے راز معلوم کروں۔ ” (بخاری)

چودہ صدیاں قبل حضرت عمر ؓ نے ایک صالح معاشرہ کے لیے بنیادی اصول وضع کر دیے تھے۔ حکمران کے حقوق بھی ہوتے ہیں اور فرائض بھی۔ اسی طرح رعایا کے حقوق اور فرائض ہوتے میں۔ تنظیم خیر خواہی اور اطاعت کے ستونوں پر قائم ہوتی ہے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: “اطاعت ہوگی تو جماعت قائم رہے گی۔ اطاعت کے بغیر جماعت قائم نہ رہ سکے گی۔ “سچی بات یہ کہ اطاعت کے بغیر نہ کوئی جماعت قائم رہ سکتی ہے، نہ ادارہ، نہ خاندان، نہ تنظیم۔ سیدنا عمر فاروق ؓ نے اپنے دور ِ خلافت میں اپنے فرائض ادا کرنے کے بعد، رعایاسے ان کے فرائض سے متعلق باز پرس کی۔ اس سے ایک ایسا مثالی معاشرہ قائم کیا جس میں ہر فرد اپنے دینی، معاشرتی وسماجی فرائض اورقانونی واجتماعی ذمہ داریوں کواحسن طریقے ادا کرنے لگا۔ جس سے ایک قابل رشک صوت حال پیدا ہوگئی، جسے لوگ آج بھی یاد کرتے ہیں اور اپنے مسائل کا حل سمجھتے ہیں۔

حضرت ابوبکر ؓ نے اوآخر جمادی الثانی وفات پائی، اور حضرت عمر ؓ مسند آرائے خلافت ہوئے۔ سابق خلیفہ کے عہد میں جھوٹے مدعیان نبوت، مرتدین عرب، اورمنکرین زکوٰۃ کے خاتمے کے بعد فتوحات کا آغاز ہوچکاتھا، یعنی 12ہجری میں عراق پر لشکر کشی کی گئی تھی، اور حیرہ کے تمام اضلاع فتح ہوگئے تھے۔ اسی طرح13ہجری میں شام پر حملہ ہوا۔ اور اسلامی فوجیں سرحدی اضلاع میں پھیل گئیں۔ ان مہمات کا آغاز ہی تھا کہ خلیفہ وقت کاانتقال ہوا۔ اور سیدنا عمر فاروق ؓنے عنان حکومت ہاتھ میں لی تو ان کا سب سے اہم فرض ان ہی مہمات کو تکمیل تک پہنچانا تھا۔

آپ ؓ کے عہد خلافت میں ہونے والی فتوحات کا حال بہت طویل ہے۔ حضرت عمر ؓ کے وصال کے وقت اسلامی مملکت کارقبہ 2511665 مربع میل تھا۔ اس رقبہ میں تقریباً1309501مربع میل خود سیدنا فاروق اعظم ؓ کے حس تدبر کی بدولت اسلامی قلمرو میں شامل ہوا۔ سیدنا عمر ؓ کی عدیم النظیر حکمت عملی اور خوبی مہارت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے دور حکومت میں اسلامی فوجیں روزانہ تین سو مربع میل رقبہ اسلامی حکومت میں شامل کرتی تھیں۔ 23ہجری کے اختتام پر فتوحات فاروقی کی حدیں یہ تھیں: شمال میں بحر خزر کے مغربی کنارے کے ساتھ ساتھ مقام دربندسے تقریباًسو میل آگے شمال تک (کوہ قاف کے آگے تک)۔ جنوب میں دن اور اس کے جنوب میں واقع جزائر تک، مشرق میں پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں مکران تک، مغرب میں لیبا کے شہر طرابلس تک۔

سید نا عمر فاروق ؓ کے اپنے دور خلافت میں اتنے بڑے بڑے کارہائے نمایاں سر انجام دیئے ہیں کہ انسان اپنی تمام تر شعوری کوششوں کے باوجود یہ فیصلہ نہیں کر سکتا کہ آپ ؓ کے کس کارنامے کو سب سے بڑااور اصل کارنامہ سمجھے۔ ہم سید نا عمر فاروق ؓ کا سب سے بڑا کارنامہ یہ سمجھتے ہیں کہ، آپ ؓ نے دینی شورائی بنیادوں پر ایسا آئین حکومت وضع کیا اور عادلانہ نظام قائم کیا جو مسلمانوں کی جملہ سعادتوں اور ترقیوں کے ساتھ ساتھ انسانوں کے بنیادی حقوق، بلا تفریق مذہب اور رنگ و نسل کا ضامن تھا۔

حضرت عمر ؓ مومن مخلص کی قوت، بہادر و جانباز مجاہد فی سبیل ا للہ کی الوالعزمی، جہاندیدہ بزرگ کی تجربہ کاری، فطری قابلیت رکھنے والے ہوشیار شخص کی زیرکی وفطانت کے ساتھ تخت خلافت پر متمکن ہوئے۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے انہوں نے قیصر و کسریٰ کی سلطنتوں کو زیر نگیں کر لیا۔ حضرت عمر فاروق ؓ نے قیصر و کسریٰ کو اپنے جوتے کی نوک پر ایسے اڑادیا تھا جیسے چٹیل میدان میں فٹ بال کھیلا جاتا ہے”انہوں نے اپنی انفرادی صلاحیتوں سے عرب کی اس وادی غیر ذی زرع کے اندر رہ کر وہ کارہائے نمایاں انجام دیے جو بڑی بڑی حکومتوں اور مجلسوں کے لیے بھی انتہائی دشوارتھے۔ گورنروں کا تقرر، ججوں کا انتخاب، فوجی افسروں کا چناؤ، لشکروں کی تربیت و تنظیم، فوجی نقل و حرکت کے احکام، کمک بھیجنا، نقشے بنانا، شہروں کی حدیں کھینچنا، قانون سازی، تقسیم مال غنیمت، حدود و تعزیرات کا اجرا وغیرہ، الغرض یہ تمام خدمات آپ ؓ اپنی صوابدید، اصابت رائے، تیزی ذہن، دوربینی و عزیمت سے انجام دیتے رہے۔ ان جلیل القدر خدمات کے ساتھ آپ خاک نشین تھے۔ عوام کے ساتھ مل جل کر رہتے، یہی وجہ ہے کہ آپ ؓ کی خلافت کا زمانہ آج تک عدل و امن اور انتظام کے لحاظ سے دنیا کا اعلیٰ ترین مثالی دو رمانا گیاہے۔

رعایا کو ایک ایسی شریفانہ، پرامن، مطمئن اور بامقصد زندگی گزارنے کا موقع ملا جس کی ماضی و حال میں مثال ڈھونڈنا، جوئے شیر لانے کے متردف ہے۔ اپنی جوابدہی اور محاسبہء نفس کا جو احساس ان میں تھا کسی دوسرے حکمران میں نظر نہیں آتا ان کے عہد میں زمین اللہ کے نور سے معمور ہوگئی۔

فاروق اعظم ؓ کا ساڑھے دس سالہ دور خلافت اگرچہ دنیا کی ہزار ہا سالہ تاریخ میں بظاہر ایک بہت ہی مختصر سا وقفہ ہے۔ لیکن اس تاریخ میں کشور کشائی، سیاست، حکومت، جمہوریت، اخوت، مساوات، آزادی، عدل اور فلاح ِ انسانی کا یہ درخشاں ترین باب ہے۔ قوموں اورملکوں کے لیے روشنی کا منبع اور ایک بہترین آئیڈیل ہے۔ تاریخ کا مطالعہ کرنے والے اسے ناقابل یقین حد تک حیرت انگیز خیال کرتے ہیں۔ نیکی و سعادت، حرکت وعمل سے مملویہ ایک ایسا سنہری دور تھا جس کا سوفیصد اعادہ خود اسلام کی تاریخ میں بھی نہ ہو سکا۔ اصل میں بات یہ ہے کہ جس طرح حضرت محمد ﷺکی بعثت دعائے خلیل ؑاورنوید مسیحا ؑکا نتیجہ تھی، اسی طرح عمربن الخطاب کا فاروق اعظم ؓ بن کر تاریخ کے سٹیج پرنمودار ہونا دعا و نگاہِ محمدی ﷺ کا فیضان تھا۔

دنیا میں جس قدر حکمران گزرے ہیں ہر ایک کی حکومت کی تہہ میں کوئی نہ کوئی مشہور مدبر یا سپہ سالار مخفی تھا۔ یہاں تک کہ اگر اتفاق سے وہ مدبر یا سپہ سالار نہ رہا تو دفعتاً فتوحات بھی رک گئیں یا نظام حکومت کا ڈھانچہ بگڑگیا۔ لیکن سیدنا عمر ؓ کو اللہ پر بھروسہ اور اپنے دست و بازو کا بل تھا۔ حضرت خالد بن ولید ؓ کی عجیب وغریب معرکہ آرائیوں کو دیکھ کر لوگوں کو خیال پیدا ہوگیا کہ فتح و ظفر کی کلید انہی کے ہاتھ میں ہے لیکن جب سیدنا عمر ؓنے ان کو معزول کر دیا تو کسی کو احساس تک نہ ہوا کہ کل میں سے کو ن ساپرزہ نکل گیا ہے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ فاتح ایران کی نسبت بھی لوگوں کو ایسا وہم ہو چلا تھا، وہ بھی الگ کر دیئے گئے اور کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ یہ سچ ہے کہ سیدنا عمر ؓ خود سارا کام نہیں کر تے تھے اور نہ کر سکتے تھے لیکن جن لوگوں سے کام لیتے تھے ان میں سے کسی کے پابند نہ تھے وہ حکومت کی کَل کو اس طرح چلاتے تھے کہ جس پرزے کو جہاں چاہا نکال لیا اورجہاں چاہا لگادیا، مصلحت ہوئی تو کسی پرزے کو سر ے سے نکال دیا اور ضرورت ہوئی تو نئے پرزے تیار کر لیے۔

فاروق اعظم ؓ کی حکومت مسلمانوں کی حکمرانی کی وہ بہترین تصویر ہے جو تاریخ نے اپنے صفحات میں محفوظ رکھی ہے۔ یہ ایک نمونہ ہے، مثال ہے، آئیڈیل ہے جو ہر مسلمان معاشرے کے لیے۔ اس آئیڈیل کی طرف سفر کا آغاز کئے بغیر اسلامی نظام کے دعوے خواہ کس قدر دلفریب ہوں، در حقیقت کھوکھلے ہیں۔