سندی مباحث اور انکار تاریخ

مولانا مودودی لکھتے ہیں: “جو تحقیق میں نے خلافت و ملوکیت میں پیش کی ہے، اس میں تاریخی روایات بمع حوالہ جات موجود ہیں – بعض فرقہ پرست افراد جو کہ ہر مسلک میں موجود ہیں تاریخ کی اپنی خواہش کے مطابق تطہیر اور تحریر ثانی کرنا چاھتے ہیں، اس کاوش میں کبھی کاتب، کبھی ناشر اور کبھی راوی کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں تاکہ شخصی بتوں اور عقائد نما عصبیتوں کو بچایا جا سکے جبکہ اسی دوران تاریخ کی تدلیس ہوتی ہو تو ہو جائے – میں سندی مباحث پر سو فیصد انحصار تاریخ میں اس لیے نہیں کرتا کہ اس میں بہت فرقہ وارانہ اور شخصی عصبیت ہے اور اس سے تاریخ کا نوے فی صد مواد ضائع ہوجائے گا ۔ میں ان روایات کو مجموعی کردار کے حوالے سے پرکھتا ہوں” (سید مودودی)

مولانا مودودی کی سندی بحثوں بارے جملہ اس لیے بھی لائق غور ہے کیونکہ احادیث اور روایات کی سائنسی حیثیت ناقابل تصدیق ہے اس لیے سندی بحثیں لا یعنی ہو جاتی ہیں – تاریخ کا مجموعی کردار اور بیانیہ اہم ہے – یہی بات اہلحدیث کے مرحوم عالم مولانا اسحاق نے بھی ایک جگہ بیان کی ہے جہاں پر انہوں نے جاوید احمد غامدی کے ملفوف انکار حدیث اور انکار تاریخ کا ذکر کیا ہے