جنرل ضیاء الحق کی وفات پر جاوید احمد غامدی کی یاد گار تحریر

“صدر جنرل محمد ضیاء الحق اس ملك كی تاریخ میں پہلے سربراہِ مملكت ہیں جنہوں نے اسلام كے ساتھ اپنے تعلق كو بغیر كسی معذرت كے پورے اعتماد كے ساتھ ظاہر كیا۔ اسے برملا اس مملكت كی اساس قرار دیا۔ اس كے بارے میں صاف صاف كہا كہ وہ جس طرح ہماری انفرادی زندگی كا دین ہے، اسی طرح ہماری ریاست كا بھی دین ہے۔ اپنی سربراہی كے پہلے دن سے اس كے نفاذ كے لیے كوشاں ہوئے۔ علماء اور اہلِ دین كے ساتھ بہت عقیدت مندانہ رویہ اختیار كیا۔ ہر قومی اور بین الاقوامی پلیٹ فارم پر، جہاں انہیں موقع ملا، وہ قرآن كی آیات پڑھتے اور اسلام پر اپنے غیرمتزلزل یقین كا اظہار كرتے نظر آئے، اور اس ملك میں جہاں اكثر اربابِ سیاست اب بھی اس حماقت میں مبتلا ہیں كہ مذہب انسان كا انفرادی معاملہ ہے اور ریاست كے معاملات سے اس كا كوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے وہ ہر جگہ اور موقع پر اس تصور كی بیخ كنی كرتے رہے۔ صدر صاحب كی وفات كے بعد اب اس ملك كے در و دیوار ان حقائق كا اعتراف كر رہے ہیں — یہ قوم ان كی ہر بات فراموش كر دے سكتی ہے، لیكن جہادِ افغانستان كے معاملے میں وہ جس طرح اپنے موقف پر جمے رہے اور جس پامردی اور استقامت كے ساتھ انہوں نے فرزندانِ لینن كے مقابلے میں حق كا علم بلند كیے ركھا، اسے اب زمانے كی گردشیں صبحِ نشور تك ہمارے حافظے سے محو نہ كر سكیں گی۔ میں جب فیصل مسجد كے بلند و بالا میناروں كے سائے میں ان كے مرقد كو دیكھتا ہوں تو مجھے بے اختیار اپنے وہ شعر یاد آ جاتے ہیں جو میں نے اب سے برسوں پہلے، غالباً 1973ء میں (سید احمد اور سید اسماعیل کی) شہادت گاہ بالا كوٹ كی زیارت كے موقع پر كہے تھے – یہی مقام ہے اس قافلہٴ حق كا مقام، گواہ جس كی شہادت پہ عصمتِ جبریل، مری نگاہِ تمنا كی جستجو كا كمال، نواحِ مشہدِ احمد ، مقامِ اسماعیل، میں اس مقام كے ذرّوں كو آسماں كہہ دوں، اور اپنی منزلِ فردا كے رازداں كہہ دوں”

(جاوید احمد غامدی، ’’شذرات‘‘ ، ماہنامہ اشراق، جلد١، شمارہ١، ستمبر 1988ء، صفحات:6 تا 8)