تحریک خلافت، تحریک ترک موالات اور تحریک ہجرت پر ایک نظر

تحریک خلافت کی کوکھ سے تحریک ترک موالات کے ساتھ تحریک ہجرت نے بھی جنم لیا۔بالعموم اس تحریک کا سرسری ذکر کر کے مورخین آگے نکل جاتے ہیں، جس سے عام قاری اس کی اہمیت سے واقف نہیں ہوتا۔راجا رشید محمود نے تحریک ہجرت کی اہمیت پر اسی نام “تحریک ہجرت 1920” کے نام سے کتاب لکھی ہے۔جس کو دارالنعمان (اب ورلڈ ویو پبلشر) نے شائع کیا ہے۔

راجا صاحب نے تاریخی حوالے سے بتایا کہ برصغیر کے سلاطین اپنے آپ کو خلیفہ کا نمائندہ کہتے تھے گو کہ برصغیر خلافت سے آزاد تھا مگر کئی حکمرانوں نے اپنے آپ کو مرکزی خلافت کا نمائندہ قرار دیا۔اس لیے برصغیر کے مسلمانوں کی خلافت سے وابستگی تاریخی اعتبار سے قائم تھی اس لیے جب خلافت پر برا وقت آیا تو یہاں تحریک خلافت چلی۔
تحریک خلافت کی بنیاد مولانا عبدالباری فرنگی محلی رح نے رکھی تھی۔اس میں جان ڈالنے کے لئے مولانا ابوالکلام آزاد،مولانا شوکت علی، مولانا محمد علی جوہر اور مولانا ظفر علی خان کا کردار بھی اہم ہے۔
جمعیت علمائے ہند کی بنیاد بھی اس ہی تحریک سے رکھی گئی۔
مولانا آزاد کی گاندھی جی سے پہلی ملاقات اسی پلیٹ فارم پر ہوئی جس کے بعد مولانا آزاد، گاندھی جی کے عمر بھر مداح اور پروموٹر بن گئے۔
گاندھی جی کی شان میں اس زمانے میں مسلم علماء کی طرف سے خوب قصیدے پڑھے گئے،ان قصیدہ خواں علماء و لیڈران میں مولانا محمد علی جوہر،مولانا شوکت علی،مولانا ثناءاللہ امرتسری،مولانا ظفر علی خان،مولانا ظفر الملک اسحاق علوی نمایاں نام ہیں۔بلکہ اخر الذکر شخصیت نے تو گاندھی جی کی شان میں اس حد تک مبالغہ آرائی کی۔کہ معاذ اللہ گاندھی جی کو نبوت تک حقدار قرار دیا۔
اس ہی عرصے میں گاؤ کشی کے خلاف مہم چلی اور کئی سرکردہ علماء نے گائے کی قربانی کے خلاف فتویٰ جاری کیے۔

پہلے بھی ذکر ہو چکا کہ تحریک خلافت کی کوکھ سے تحریک ہجرت نے جنم لیا تھا جس میں برصغیر کو دارالحرب قرار دے کر یہاں سے ہجرت کرنے کے فتویٰ دئیے گئے۔
عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ برصغیر کو دارالحرب قرار دے کر ہجرت کا فتویٰ مولانا عبد الباری فرنگی محلی رح دیا تھا جبکہ راجا رشید محمود صاحب نے بتایا کہ ہجرت کے فتاوی مولانا فرنگی محلی رح کے فتویٰ سے پہلے بھی آ چکے تھے جس میں لاہور کے مولوی غلام محی الدین لاہوری اور مولانا شوکت علی نے پہلے ہی ہجرت کرنے کا فتویٰ دے دیا تھا
پھر علامہ فرنگی محلی رح نے اپنے فتویٰ میں ہجرت کو مستحب لکھا جبکہ اس کے برعکس ایک فتویٰ مولانا ابوالکلام آزاد کی جانب سے دیا گیا جس میں برصغیر کو دارالحرب قرار دے کر ہجرت کو فرض عین قرار دیا گیا۔
مولانا آزاد اور مولانا فرنگی محلی رح کے فتاوی کا تقابل کرتے ہوئے راجا رشید صاحب نے لکھا کہ مولانا آزاد کا فتویٰ واضح، دو ٹوک اور غیر مبہم تھا جبکہ مولانا فرنگی محلی رح کا فتویٰ مبہم تھا جس سے نتیجہ اخذ کرنا آسان نہیں تھا۔

افغانستان کے امیر امان اللہ خان کی جانب سے پہلے مہاجرین کو پناہ دینے کے بارے میں رضا مندی ظاہر کی گئی مگر جب مہاجرین آنا شروع ہوئے تو امیر صاحب نے التواء کی درخواست کر دی۔
یہاں کے اخبارات بالخصوص زمیندار نے امیر امان اللہ خان کے اس بیان کو افواہ قرار دیا اور کہا کہ انگریز گھبرا گیا اور یوں مزید لوگوں کو ہجرت پر اکساتے رہے۔بالاخر افغانستان نے سرحد بند کر کے مزید مہاجرین کا داخلہ بند کر دیا۔ امیر امان اللہ خان کے اس اقدام کی بنیادی وجہ اقتصادی بوجھ تھا کہ اس کے اندازے سے زائد لوگ افغانستان آ گئے تھے۔
افغانیوں نے مہاجرین کو انگریزوں کا جاسوس قرار دے کر انھیں مختلف حیلے بہانوں تنگ کیا۔
(آج بھی جب افغانی ہم کو امریکہ کے غلام کہتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ اس قوم کا پرانا وطیرہ ہے)
پھر جس طریقے سے یہ مہاجرین واپس آئے یہ ایک دردناک داستان ہے جس کو اس کتاب کا حصہ بنایا گیا ہے۔

اس وقت ہجرت کی حمایت اور مخالفت کرنے والے علماء و لیڈران کا ذکر بھی اس کتاب کا حصہ ہے۔
علامہ اقبال رح شروع میں خلافت کمیٹی کے ممبر تھے مگر جلد ہی اس سے الگ ہو گئے وجہ ہندو مسلم اتحاد میں حد اعتدال سے تجاوز تھا۔
اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رح، خواجہ حسن جان سرہندی رح، اعلیٰ حضرت گولڑوی رح اور مولانا اسلم جیراجپوری نمایاں نام ہیں جو ہجرت سے روکتے رہے۔اس حوالے سے اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رح نے کافی سرگرمی دکھائی اور ہجرت اور ترک موالات کے خلاف فتویٰ و رسائل لکھے۔
اعلیٰ حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی خلافت کی حق تک حامی تھے مگر ہجرت کی حمایت نہ کی۔اس لیے جب مہاجرین کا قافلہ راولپنڈی میں رکا تو ان کی طرف سے استقبال کرنے کوئی بھی ذمہ دار نہیں گیا۔

مفتی مظہر اللہ دہلوی رح امام جامع مسجد فتحپوری دہلی کے بارے میں ان کے فرزند پروفیسر مسعود احمد نقشبندی رح نے دعویٰ کیا کہ وہ بھی ہجرت کے مخالفین میں سے تھے مگر راجا صاحب نے پروفیسر صاحب کے اس دعویٰ کو بے بنیاد قرار دیا ہے اور وجہ اس کی یہ بیان کی کہ فتحپوری مسجد اس تحریک کا مرکز تھی اور مفتی صاحب رح کے فتاوی جو کے ان کے صاحبزادے پروفیسر صاحب نے ہی مرتب کیے میں ہجرت کے خلاف کوئی فتویٰ نہیں ملتا۔

مولانا احمد علی لاہوری ہجرت کر کے افغانستان گئے مگر وہاں ان کے لیے مولانا عبیداللہ سندھی نے انتظام کیا تھا۔
باقی مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری سے لیکر مولانا آزاد تک سب علماء مسلمانوں کو ہجرت پر اکساتے رہے مگر خود یہاں پر ہی رہے۔اس طرح کی دوغلی پالیسی پر بھی اس کتاب میں روشنی ڈالی گئی ہے۔

اس ہنگامے میں دو اخبارات کا کردار بہت اہم رہا ان دونوں کے کردار کا بھی راجا صاحب نے جائزہ لیا ہے۔
زمیندار اخبار جس کے ایڈیٹر مولانا ظفر علی خان تھے نے جذبات کو ابھارنے اور ہجرت کو کامیاب بنانے کےلئے بہت زور لگایا،ساتھ ہی ہندو مسلم اتحاد کو فروغ دینے میں بھی یہ پیش پیش رہا
منشی محبوب عالم صاحب کے زیر نگرانی شائع ہونے والے اخبار “پیسہ” نے ذمہ دار رپورٹنگ کی۔اس نے خلافت کے حق میں مگر ہجرت اور ہندو مسلم اتحاد کی تباہ کاریوں پر توجہ دلائی مگر جذبات غالب آئے اور نقصان اٹھانا پڑا۔
راجا صاحب اس پر گلہ کرتے ہیں کہ ہمارے ہاں زمیندار اور مولانا ظفر علی خان کے بارے میں تو کافی مواد دستیاب ہے مگر پیسہ اور منشی محبوب عالم پر کسی نے کام نہیں کیا۔

مہاجرین کی تعداد کے بارے میں متضاد آراء ہیں۔ زیڈ اے سلہری نے اٹھارہ ہزار بتائی، جانباز مرزا نے چالیس ہزار لکھی،مولانا ابوالاعلیٰ مودودی صاحب نے دو لاکھ لکھی۔راجا صاحب نے مختلف آراء کے ذکر کے بعد بتایا کہ یہ تعداد کم از کم ایک لاکھ سے اوپر تھی۔

ایک لاکھ سے زائد مسلمانوں کو ایک بے مقصد تحریک میں جھونکنے پر ان قائدین کا محاسبہ ہونا چاہئے۔

اس تحریک کی بدولت جو معاشی نقصان ہوا، کئی لوگوں نے اپنی جائیداد و املاک کوڑیوں کے دام بیچ دی اور واپسی پر بھیگ مانگنے پر مجبور ہوئے یہ ایک دردناک داستان ہے۔
مہاجرین کو مختلف جگہوں پر لوٹا بھی گیا ان میں سے ایک ڈاکو ببرک تھا جو بنوں وزیرستان سرحد پر مہاجرین کو لوٹتا تھا جس کو بعد میں مارا گیا۔لیاقت علی خان کو شہید کرنے والا سید اکبر اسی ببرک کا بیٹا تھا۔
تحریک ہجرت نے مسلمانان برصغیر کو کس حد تک نقصان پہنچایا یہ کتاب اس کی ایک جھلک ہے۔
یہ کتاب محترم محمد قاسم چشتی صاحب نے تحفتاً عنایت کی تھی جس پر ان کا خصوصی شکریہ۔


منشی محبوب عالم صاحب کے زیر نگرانی شائع ہونے والے اخبار “پیسہ” نے ذمہ دار رپورٹنگ کی۔اس نے خلافت کے حق میں مگر ہجرت اور ہندو مسلم اتحاد کی تباہ کاریوں پر توجہ دلائی مگر جذبات غالب آئے اور نقصان اٹھانا پڑا۔
راجا صاحب اس پر گلہ کرتے ہیں کہ ہمارے ہاں زمیندار اور مولانا ظفر علی خان کے بارے میں تو کافی مواد دستیاب ہے مگر پیسہ اور منشی محبوب عالم پر کسی نے کام نہیں کیا۔

مہاجرین کی تعداد کے بارے میں متضاد آراء ہیں۔ زیڈ اے سلہری نے اٹھارہ ہزار بتائی، جانباز مرزا نے چالیس ہزار لکھی،مولانا ابوالاعلیٰ مودودی صاحب نے دو لاکھ لکھی۔راجا صاحب نے مختلف آراء کے ذکر کے بعد بتایا کہ یہ تعداد کم از کم ایک لاکھ سے اوپر تھی۔

ایک لاکھ سے زائد مسلمانوں کو ایک بے مقصد تحریک میں جھونکنے پر ان قائدین کا محاسبہ ہونا چاہئے۔

اس تحریک کی بدولت جو معاشی نقصان ہوا، کئی لوگوں نے اپنی جائیداد و املاک کوڑیوں کے دام بیچ دی اور واپسی پر بھیگ مانگنے پر مجبور ہوئے یہ ایک دردناک داستان ہے۔
مہاجرین کو مختلف جگہوں پر لوٹا بھی گیا ان میں سے ایک ڈاکو ببرک تھا جو بنوں وزیرستان سرحد پر مہاجرین کو لوٹتا تھا جس کو بعد میں مارا گیا۔لیاقت علی خان کو شہید کرنے والا سید اکبر اسی ببرک کا بیٹا تھا۔
تحریک ہجرت نے مسلمانان برصغیر کو کس حد تک نقصان پہنچایا یہ کتاب اس کی ایک جھلک ہے۔
یہ کتاب محترم محمد قاسم چشتی صاحب نے تحفتاً عنایت کی تھی جس پر ان کا خصوصی شکریہ۔

راجہ قاسم محمود