مذہب کی آڑ میں فتح – علامہ اقبال کا موقف

یہ معروف مستشرق ڈاکٹر آر اے نکلسن کے نام علامہ اقبال کے چوبیس جنوری ۱۹۲۱ کو لکھے گئے خط سے اقتباس ہے جس میں وہ ’’اسلامی فتوحات’’ سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں۔ اس کی اہمیت ایک تو اس لیے ہے کہ یہ اقبال جیسے تہذیبی خود اعتمادی رکھنے والے مفکر کے خیالات ہیں اور دوسرے اس لیے کہ اس سے دور جدیدیت میں مسلمانوں کے تاریخی شعور کی پیچیدگیوں پر روشنی پڑتی ہے۔ اس مختصر اقتباس میں اقبال نے ایک طرح سے پوری اسلامی تاریخ پر ایک تبصرہ کر دیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں، پھر اس کے کچھ پہلووں پر تبادلہ خیال کرتے ہیں۔

اقتباس کا خلاصہ یہ ہے کہ اگرچہ مسلمانوں نے مذہب کی آڑ میں بہت سے علاقے فتح کیے ہیں، لیکن یہ اسلام کے اصل پروگرام کا حصہ نہیں تھا، بلکہ اس سے جمہوری اصولوں پر معاشرے کی تنظیم کے وہ اصول مجروح ہوئے جو قرآن کے صفحات میں بکھرے ہوئے ہیں۔ مسلمانوں نے سلطنت تو بنا لی، لیکن اپنے اصل سیاسی آئیڈیلز کو دوبارہ paganize کر دیا، یعنی کافرانہ صورت دے دی۔ اسلام یقینا مختلف قوموں کو اپنے دائرے میں لانا چاہتا ہے، لیکن یہ علاقائی فتوحات کے ذریعے سے نہیں، بلکہ اپنی تعلیمات کی سادگی، عقل عام کو اپیل اور عسیر الفہم مابعد الطبیعاتی عقائد سے گریز کی خصوصیات کی بدولت کرنا چاہتا ہے۔ مسلمانوں نے چین میں جس طرح، سیاسی طاقت کی مدد کے بغیر، دعوت وتبلیغ کے ذریعے سے اسلام کو پھیلایا، اس سے اسلام کی اپنی داخلی قوت کی بنا پر پھیلنے کی صلاحیت بے حد واضح ہے۔

عمار خان ناصر