کربلا کے بارے میں گھڑی گئی سازشی تھیوریاں اور آلِ صدیقؓ کی سیرت ۔حمزہ ابراہیم

”سازشی تھیوری“ حالات و واقعات کی ایسی تشریح کو کہا جاتا ہے جس میں اصل اسباب کو چھپانے کے لیے تاریخ کے مستند حصوں پر پردہ ڈالا جاتا ہے اور مبہم حصوں اور کمزور روایات ڈھونڈ کر سارے تاریخی عمل کو متاثرین ہی کی سازش کا نتیجہ قرار دیا جاتا ہے۔ عموماً یہ سازشی تھیوری صرف نظریاتی تعصب کے شکار مریدوں کی تشفی کے کام آتی ہے اور علمی اور عوامی حلقوں میں نتائج دینے سے قاصر رہتی ہے۔ کربلا کے معاملے میں ڈاکٹر اسرار احمد اور غلام احمد پرویز وغیرہ جیسے ناصبی حضرات کے بیانیے کا یہی حال ہے۔ ناصبی ملحدین (سابقہ پرویزی/اہل قرآن) بھی اسی مخمصے کا شکار نظر آتے ہیں۔ وہ طاقتور شامی مافیا کے کردار کو دھونے کے لیے سارے تاریخی عمل کو ایک نومسلم عبد الله ابن سبا کے سر پر گھما دیتے ہیں، یا افسانہ قرار دیتے ہیں۔ لیکن اس کام کے لیے انھیں بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ آل ِصدیقؓ کی سیرت کو ابنِ سبا کی پیروی نہیں کہہ سکتے ورنہ ان کو اہلِ سنت سے الگ ہونا پڑے گا۔ چنانچہ اس کو چھپا دیتے ہیں۔
ادھر صفوی دور میں شیخین کے خلاف پیدا کئے گئے تعصب کی وجہ سے شیعہ بھی آلِ صدیقؓ کے کردار کا ذکر نہیں کرتے، جو کہ امام حسینؑ کے اہلِ بصرہ کے نام لکھے خط جیسی شیخین کے حق میں شیعہ کتب کی روایات کے برعکس ہے۔

آغاز میں ہی مسلمان دو نہیں، چار فرقوں میں بٹ گئے تھے: سنی، شیعہ، ناصبی اور خوارج۔ ان کی قیادت چار سیاسی رجحان کر رہے تھے: آلِ صدیقؓ کا خلافتِ راشدہ کا رجحان، آلِ رسولؐ کا امامتِ دین کا رجحان، طلقاء کا آمرانہ بادشاہت کا رجحان اور خوارج کا انارکیت کا رجحان۔ طلقاء وہ لوگ تھے جو رسول اللہؐ کی زندگی کے آخری سال مسلمان ہوئے مگر قرآن نے بعد از فتح مکہ مسلمان ہونے والی جماعت کی نیکیوں کو بھی سوره الحدید کی 10ویں آیت میں “لا يستوي منكم من أنفق من قبل الفتح وقاتل أولئك أعظم درجة من الذين أنفقوا من بعد” کہہ کر مہاجرین و انصار کی شان میں نازل ہونے والی آیات سے الگ کر دیا۔ جب طلقاء کو حکومت ملی تو ان کے طرزِ حکومت کو سنت رسولؐ میں تبدیلی قرار دے کر سب سے زیادہ مزاحمت آلِ رسولؐ اور آلِ صدیقؓ نے کی۔ مسلمانوں کی بدقسمتی ہے کہ آلِ فاروقؓ اپنے جد حضرت عمرؓ کے آؤٹ سپوکن کردار کے بالکل برعکس غیر سیاسی ہوگئی۔ طلقاء کے حامی ناصبی کہلائے۔ ہمارے دور میں اس گروہ کا دوبارہ ظہور انکارِِ تاریخ و حدیث کی شکل میں ہوا ہے اور انھوں نے اہلِ قرآن کا لقب اختیار کیا ہے۔

حضرت ابوبکر صدیقؓ نے حضرت علیؑ اور حضرت خدیجہؓ کے بعد اسلام قبول کیا۔ آپ رسول اللہؐ کے قریبی ترین دوست تھے۔ بعد از وصالِ پیغمبر خلفائے راشدین میں سے حضرت علیؑ کا طرز حکومت حضرت ابوبکرؓ کے طرز حکومت سے سب سے زیادہ ملتا ہے، خصوصًا بیت المال کی تقسیم کے معاملے کو مذہبی مقام سے الگ رکھنے کی پالیسی میں ان دونوں خلفاء کا اجتہاد ایک جیسا ہے۔ دونوں کو عربوں سے جنگ کرنا پڑی البتہ حضرت ابوبکرؓ کے خلاف ہتھیار اٹھانے والوں میں سے اکثر اسلام کو بھی چھوڑ چکے تھے۔ مدینہ کے قریب حضرت ابوبکر کے خلاف ہتھیار اٹھانے والوں سے جو لشکر لڑنے گیا اس کا علم حضرت علی کے پاس تھا۔

رسول اللہؐ کے اس قریبی ترین دوست کی آل کی تاریخ بھی آلِ رسولؐ جیسی ہے، امت کا سلوک بھی ایک جیسا ہے۔ محرم آتے ہی کربلا کی تاریخ کو مختلف حیلے بہانوں سے مسخ کرنے کی کوشش ہوتی ہے تو ساتھ ساتھ کربلا کے سیاق و سباق اور آلِ صدیقؓ کی تاریخ کو بھی اتنی ہی محنت سے چھپایا جاتا ہے۔ ڈاکٹر اسرار احمد اور دیگر ناصبیتِ جدیدہ کے علم برداروں کے بیانیے میں جہاں خلافتِ راشدہ کے بعد کی تاریخ کو مستند روایات کے بجائے بنی امیہ کے گوئبلز سیف ابن عمر کی ”عبداللہ ابنِ سبا“ والی سازشی تھیوری سے کشید کرنے کا سلسلہ شروع ہوتا ہے وہیں اس سازشی تھیوری کو ملیا میٹ کرنے والے آلِ صدیقؓ کے کردار کو چھپانے کی بھی شعوری کوشش کی جاتی ہے۔ ‏اگر کسی کو آلِ رسول سے بغض ہو اور کربلا کی تاریخ مسخ کرنا چاہتا ہو تو اسے آلِ ابوبکرؓ کی تاریخ کو بھی مسخ کرنا یا چھپانا پڑتا ہے۔ لیکن چونکہ شیعوں نے کربلا کو زندہ رکھا اور سنیوں نے آلِ ابوبکرؓ کا ذکر کرنا چھوڑ دیا، لہٰذا سنیوں کی اس کمزوری کا فائدہ طلقاء اور خوارج کے حمایتیوں نے اٹھا کر ان کا کردار چھپا لیا۔

ناصبیتِ جدیدہ کا ایک حربہ تاریخ کو مشکوک بنانا ہے۔ اگرچہ ان میں سے اکثر منکرین حدیث ہیں لیکن کچھ دیوبندی اور اہلِ حدیث مولوی بھی اس کام میں کود پڑتے ہیں۔

عباسی دور میں وسطی ایشیا کے کچھ علاقے فتح ہوئے اور وہاں سے مسلمانوں نے کاغذ بنانے کا فن سیکھا اور اس کے بعد تاریخ کو کتابی شکل میں محفوظ کیا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ واقعات کے رونما ہونے کے کئی سال بعد لکھی گئی کتابیں من گھڑت ہیں بلکہ اس دوران مسلمانوں نے مختلف طریقوں سے تاریخ کو محفوظ رکھا تھا۔ نواصب واقعات کے سو یا دو سو سال بعد کتابی شکل میں جمع کی گئی تاریخ کو بے بنیاد کہہ کر تاریخ کا خلا پیدا کرتے ہیں اور پھر اس کو اپنے چودہ سو سال بعد گھڑے گئے خیالات سے پر کرتے ہیں۔ بہرحال ناصبیت کے انکار تاریخ کے رویے پر بحث اس مضمون کا موضوع نہیں۔

ابتدائی اسلامی تاریخ میں اہلِ سنت کی قیادت آلِ ابوبکرؓ کے ہاتھ میں نظر آتی ہے۔ اور اکثر اوقات شیعہ اور سنی، طلقاء کے اقتدار خلاف متحد نظر آتے ہیں۔ ‏آلِ ابوبکرؓ یزید کی ولی عہدی کے خلاف تھی۔ جب مدینے میں مروان نے پہلی بار ولی عہدی کے لیے یزید کا نام لیا تو عبدالرحمن ابن ابوبکرؓ نے اٹھ کر مخالفت کی اور حکمران کو ظالم بادشاہ قرار دیا۔ مروان نے اہلکاروں کو ان کی گرفتاری کا کہا تو وہ حجرہ عائشہؓ میں چلے گئے۔ پھر وہ مکہ چلے گئے تو ایک غار سے ان کی لاش ملی۔ حضرت عائشہؓ کو یہی گمان رہا کہ ان کو حکومت نے قتل کرایا ہے۔ حضرت عائشہؓ سانحہ کربلا سے تین سال پہلے 57 ہجری میں فوت ہوگئیں۔ ‏اسی طرح امِ سلمیٰؓ بھی یزید کی مخالف تھیں لیکن چونکہ قرآن میں امہات المومنین کو گھروں میں رہنے کا حکم ہے اس لیے کربلا نہ گئیں۔ بعد ازاں مدینے میں امام حسینؑ کی شہادت کی خبر انھوں نے ہی دی۔ امام حسینؑ کی شہادت کے بعد حضرت ابوبکر ؓکے نواسے حضرت عبداللہ بن زبیرؓ نے مکہ میں جنگ کی‏۔ ابنِ زبیر ؓ نے مکہ سے یزید کے گورنر کو نکال کر اپنی خلافت قائم کی۔ مدینہ میں بھی بغاوت ہوئی تو یزید نے شام سے فوج بھیج کر کچل دی جسے واقعہ حرہ کہتے ہیں۔ پھر وہی فوج مکہ گئی تو پیچھے دمشق میں یزید کا انتقال ہوگیا۔ اقتدار مروان اور اس کی آل کے پاس آگیا۔ شروع میں ابن زبیؓر کو مختار ثقفی کی قیادت میں عراق کے شیعوں کی حمایت بھی حاصل رہی۔ بعد میں مختار اقتدار کے لالچ میں ان سے الگ ہوگیا۔ یہ فیصلہ حصرت علیؑ کی سیرت سے انحراف تھا لیکن چونکہ اس نے شہدائے کربلا کا انتقام لیا، اس لیے اس کے اس اقدام کی مذمت نہیں کی جاتی، جو کہ غلط ہے۔

مختار سیاسی مسائل میں امام زین العابدین کے بجائے اپنی سوچ پر عمل کرتا تھا۔ جب خلافت کے اختلاف پر ابوسفیان نے حضرت علیؑ کو حضرت ابوبکرؓ کے خلاف ہتھیار اٹھانے کا مشورہ دیا تو انھوں نے اس مشورے کو اسلام دشمنی کا شاخسانہ قرار دیا تھا۔ مختار نے حضرت علیؑ کی اس سیرت سے کھلم کھلا انحراف کر کے غلطی کی۔ اس جنگ میں اس کا سامنا امام حسینؑ کے داماد حضرت مصعب ابن زبیرؓ سے تھا اور اس نے شکست کھائی۔ لیکن جنگ جمل جیسی اس بے فائدہ جنگ کا بالواسطہ نتیجہ خلیفہ کی کمزوری اور اقتدار کی طلقاء کو منتقلی کی صورت میں نکلا۔

حضرت عبداللہ ابن زبیرؓ کی حکومت حجاج بن یوسف نے ختم کی اور ان کی لاش مسجد الحرام میں لٹکائی۔ انعام میں اس کو عراق کی گورنری ملی تو عراق میں حضرت ابوبکرؓ کے بھانجے محمد ابن الاشعث کے بیٹے عبدالرحمن الاشعث نے بغاوت کر دی۔ ان کو حجاج نے قتل کیا تو ان کے کچھ ساتھی ایران کی طرف بھاگ گئے۔ ان کو محمد بن قاسم نے پکڑ کر سزا دی جو اس وقت شیراز کا گورنر تھا۔ چنانچہ تہذیب التہذیب میں حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں کہ: حجاج ابن یوسف نے محمد بن قاسم کو لکھا کہ حضرت عطیہ بن سعد عوفؓی کو طلب کر کے ان سے حضرت علیؑ کو گالیاں دینے کا مطالبہ کرے اور اگر وہ ایسا کرنے سے انکار کر دیں تو ان کو چار سو کوڑے لگا کر ڈاڑھی مونڈ دے۔ محمد بن قاسم نے ان کو بلایا اور مطالبہ کیا کہ حضرت علؑی کو گالیاں دیں۔ انھوں نے ایسا کرنے سے انکار کیا تو محمد بن قاسم نے ان کی داڑھی منڈوا کر چار سو کوڑے لگوائے۔ اس واقعے کے بعد وہ خراسان چلے گئے۔ وہ حدیث کے ثقہ راوی ہیں۔(تہذیب التہذیب، جلد ہفتم، صفحہ 226)۔

یہی واقعہ طبقات الکبریٰ میں ابن سعد اور تاریخ طبری میں ابن جریر طبری نے بھی رپورٹ کیا ہے۔ عطیہ ابن سعد معروف تابعی ہیں اور آپ صحابی رسول حضرت جابر ابن عبدللہ انصاری کے ساتھ شہدائے کربلا کے چہلم کے دن کربلا پہنچے اور زیارت کی تھی۔ اربعین کے موقعے پر کربلا میں ہونے والا اجتماع ان کی سنت ہے۔ انھوں نے حجاج کے خلاف حضرت ابوبکرؓ کے خاندان کا ساتھ دیا، اور جب عبد الرحمن شہید ہوئے تو ایران چلے گئے۔ شیراز میں محمد بن قاسم نے سزا دی تو خراسان چلے گئے، اور اس وقت واپس آئے جب حجاج و بن قاسم کی گورنری ختم ہوئی۔

ہمارے سرکاری نصاب پر ناصبیت کا اثر اتنا ہے کہ اس تاریخی حقیقت کو کہ واد سندھ میں اسلام خلافت راشدہ کے زمانے میں آیا، چھپا کر محمد بن قاسم کو بابائے قوم بنا دیا گیا ہے