نوائے وقت
19 March 2020
معزز قارئین!۔ پاکستان سمیت دُنیا بھر کے مسلمان ’’ فاتح خیبر ‘‘ حضرت علی مرتضیٰ ؓ کواپنے اپنے انداز میں یاد کرتے ہیں۔
7 ہجری میں پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم کی قیادت میں ،مدینہ منّورہ سے دو سو میل شمال میں یہودیوں کا قلعہ خیبرؔ (قموص ) فتح کرنے کے لئے لشکر ِ اسلام نے پہلے 40 دِن تک حضرت ابو بکر صدیق ؓ اور پھر حضرت عمر فاروق ؓ کی قیادت میں جدوجہد کی لیکن، قلعہ فتح نہ ہوسکا۔
پھر وحی ٔ الٰہی کے مطابق حضور پُر نُور ؐ نے ایک دِن اعلان فرمایا کہ ’’ کل لشکرِ اسلام کا عَلم ایک ایسے مجاہد کو دِیا جائے گا جو، مردِ میدان بھی ہے اور کرّار ؔ اور غیر فرارؔ بھی۔ ( یعنی۔ بڑھ بڑھ کر حملہ کرنے والا اور کبھی مُنہ نہ موڑنے والا) ۔ ہے اور اللہ اور اُس کے رسول ؐ بھی اُس سے محبت کرتا ہے ‘‘۔
صبح ہُوئی ، حضرت علی مرتضیٰ ؓ آشوبِ چشم میں مُبتلا تھے ۔ حضور ؐ نے اپنا لعاب دہن آپ ؓ کی آنکھوں پر ملا اور لشکر کا عَلم آپ ؓ کو عطا فرمایا۔ قلعہ کا فولادی دروازہ بہت وزنی تھا اور بہت گہرا اور چوڑا۔ خندق پار کر کے اُس کے پاس پہنچا جاسکتا تھا ۔ حضرت علی مرتضیٰؓ ؓ نے ایک ہی جست میں خندق کو پار کرلِیااور زورِ خُدا سے دروازے میں اپنی انگلیاں گاڑ کر اُس کی چُولیں ہلا دِیں اور ایک کو اَڑا کر خندق پر پُل بنا دِیا۔
تواریخ کے مطابق ۔’’ لشکرِ اسلاؔم اُس پُل سے قلعے میں داخل ہوگیا ۔ یہودی پہلوان (جرنیل) مرحبؔ اور عنترؔ جو، ہزاروں فوجیوں کا مقابلہ کرنے میں مشہور تھے ، حیدر کرّار ؔ، حضرت علی ؓ کی ایک ایک ضرب سے ہی واصلِ جہنم ہوگئے‘‘ ۔
ہمیں اِس سے قبل 2 ہجری کے ’’ غزوۂ بدر ‘‘ کو یاد کرنا ہوگا، جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ’’مالِ غنیمت ‘‘ میں ایک تلوار ’’ذوالفقار ‘‘ ملی تھی ۔ ذوالفقار پر دندانے اور کھدی ہُوئی لکیریں تھیں۔ پیغمبر انقلاب ؐ نے ’’ذوالفقار ‘‘ حضرت علی مرتضیٰ ؓ کو عطا کردِی تھی، پھر اُس کا نام ’’ذوالفقارِ علیؓ ‘‘پڑگیا ، بعد ازاں حضرت علی مرتضیٰ ؓ نے کئی غزوات میں ’’ ذوالفقار علی ؓ ‘‘ سے بہت سے کافروں کو جہنم رسید کردِیا ،جس کے باعث حضرت علی مرتضیٰ ؓ ایک بہت ہی بہادر اور جنگ جو شخصیت تسلیم کرلئے گئے۔
غیر مسلم مؤرخین نے بھی حضرت علیؓ کو جنگِ خیبرؔ کا”Hero” قرار دِیا ہے ۔ قدیم یونان میں دیوتائوں کے منظورِ نظر اور مافوق اُلفطرت خصوصیات کے حامل شخص اور کسی نظم ، تمثیل یا کہانی کے خاص مرکزی مردانہ کردار کو “Hero” کہا جاتا تھا اور قدیم ہندوستان میں سُورما (مہا بلی یا جنگجو ) کہا جاتا تھا ۔
بہت ہی اہم واقعہ 18 ذوالحجہ 10 ہجری کو ’’ غدیر خُم‘‘ کے مقام پر رونما ہُوا جب، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم نے حضرت علی مرتضیٰؓ کا ہاتھ پکڑ کر اپنے خطبے میں فرمایا تھا کہ ۔’’ جِس کا مَیں مولا ہُوں۔ اُس کا علی ؓ بھی مولا ہے۔ اے اللہ ! تُو اُس شخص کو، دوست رکھ ، جو علی ؓ کو دوست رکھے اور جو علیؓ سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ ۔!‘‘۔ عربی زبان میں مولاؔ کے معنی ہیں ۔’’ آقا، سردار اور رفیق‘‘ اور مولا علی ؓ کے پیرو کار کو ’’ مولائی‘‘ ۔ کہا جاتا ہے ۔
عاشقِ رسول ، مصّور پاکستان ، علاّمہ محمد اقبالؒ نے اپنا تعارف کراتے ہُوئے کہا کہ …
بُغض ، اصحابِ ثلاثہ سے ،نہیں اقبالؒ کو!
دِق مگر ، اِک خارجی ؔسے ، آ کے ،مولاؔئی ہُوا!
…O…
اپنی ایک نظم میں علاّمہ اقبالؒ نے کہا کہ …
خِیرہ نہ کرسکا مجھے ، جلوۂ دانشِ فرنگ!
سُرمہ ہے میری آنکھ کا ، خاکِ مدینہ و نجف!
…O…
یعنی۔’’ یورپ کے علم و حکمت کا جلوہ میری نگاہوں میں چکا چوند نہ پیدا کرسکا، اِس لئے کہ میری آنکھوں میں مدینہ منّور اور نجفِ اشرف کی خاک کا سُرمہ لگا ہُوا ہے ۔ یعنی۔ مَیں نے اِس طریق سے فیض حاصل کِیا جو، رسول اکرم ؐ اِس دنیا میں لائے اور جِس کے فیضان کا ایک کرشمہ حضرت علیؓ تھے ‘‘۔ نجفؔ۔ عراق کا ایک شہر ،جہاں حضرت علی مرتضیٰ ؓ کا روضہ مبارک ہے۔
اپنی ایک اور نظم میں علاّمہ اقبالؒ نے کہا کہ …
نجفؔ، میرا مدینہ ؔہے، مدینہ ہے میرا کعبہؔ!
مَیں بندہ اور کا ہُوں، اُمّتِ شاہ ولایت ہُوں!
علاّمہ اقبالؒ نے اپنی فارسی مثنوی ’’ اسرارِ خُودی‘‘ میں ’’ در شرح اسرارِ اسمائے علی مرتضیٰ ؓ ‘‘کے عنوان سے اپنی ایک نظم میں حضرت علی مرتضیٰ ؓ کے اسمائے گرامی کے معنوں کو مختلف انداز میں بیان کِیا ہے ۔ نظم میں ’’فتح خیبر‘‘ اور ’’ فاتح خیبر‘‘ کا بھی تذکرہ کِیا ہے ۔ مَیں صِرف دو شعر پیش کر رہا ہُوں …
’’ہر کہ زیں بر مرکبِ تن تنگ بَست!
چُوں نگیں بر خاتمِ دولت نشست!
زیرِ پاش اینجا، شکوہِ خیبر است!
دستِ اُو آنجا قسیمِ کوثر است!‘‘
یعنی۔ ’’ (1) جو شخص بھی بدن کے گھوڑے پر زِین کَس لیتا ہے ، وہ سلطنت کی انگوٹھی میں نگینے کا درجہ حاصل کرلیتا ہے ‘‘۔ (2) ’’ اِس دُنیا میں فتح خیبر ؔ کی شان و شوکت اُس کے پائوں کے نیچے ہوتی ہے اور وہاں اُس کا ہاتھ آبِ کوثر تقسیم کرتا ہے‘‘۔ علاّمہ اقبال ؒ نے اپنی ایک اور نظم ’’ الوقت سیف ’‘‘‘میں وقت کو ’’ سیف براں ‘‘کاٹنے والی تلوار کہا ہے اور پھر کہا کہ …
پنجہ حیدر کہ خیبر گیر بود!
قوت او از ہمیں شمشیر بود!
یعنی۔ ’’ سیدنا علی ؓ کا پنجہ جس نے خیبر فتح کِیا ، اُس کی قوت بھی اُسی شمشیر سے تھی‘‘۔علامہ اقبالؒ نے اپنی ایک رُباعی میں فرمایا کہ …
کبھی تنہائی ،کوہ ودمن عشق!
کبھی سوز و سرور ،انجمن عشق!
کبھی سرمایہ ٔ محراب و منبر!
کبھی مولاعلی ؓ خیبر شکن عشق!
حضرت علی مرتضیٰ ؓ کے خطبات کا مجموعہ ’’ نہج اُلبلاغہ ‘‘ کا دُنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے ۔
ہماری تواریخ میں لکھا ہے کہ ’’ حضرت علی مرتضیٰ ؓ سے کسی نے پوچھا کہ، آپ بے خطر جنگ میں کود پڑتے ہیں ۔ کیا آپ کو ڈر نہیں لگتا؟‘‘تو، آپؓ نے جواب دِیا کہ ۔ ’’ موت علی ؓ پر گِر پڑے یا علی ؓ موت پر ، ایک ہی بات ہے لیکن، فرزندِ ابو طالبؓ موت سے ہر گز بھاگنے والا نہیں ، اِس لئے کہ موت خُود زندگی کی محافظ ہے ‘‘۔یعنی۔ ’’ موت کا تو، ایک وقت مقرر ہے ، اِس لئے موت خُود زندگی کی حفاظت کرتی ہے‘‘ ۔
معزز قارئین۔ مجھے یقین ہے کہ ’’ فاتح خیبر ‘‘ مولا علیؓ کو یاد کرتے ہُوئے دُنیا بھر کے مسلمان آپؓ کے اِس قول کو ضرور یاد رکھیں گے ۔