بنو امیہ کے حکمرانوں کا صحابی رسول حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے ساتھ سلوک

(1) عَن أَزْهَر بْن عَبْد الله قَالَ كنت فِي الْخَيل الَّذين سبوا أنس بْن مَالك وَكَانَ فِيمَن يؤلب على الْحجَّاج وَكَانَ مَعَ عَبْد الرَّحْمَن بْن الْأَشْعَث فوسم فِي يَده عَتيق الْحجَّاج فَقَالَ لَوْلَا أَنَّك خدمت رَسُول اللَّهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسلم لضَرَبْت عُنُقك

ازھر بن عبداللہ نے کہا :

میں ان گھوڑوں پر تھا جن پر ان لوگوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو گرفتار کیا تھا، اور وہ (سیدنا انس بن مالک) ان میں سے تھے جو حجاج کے خلاف اکھٹے ہوئے تھے اور آپ عبد الرحمن بن اشعث رحمہ اللہ کے ساتھ (ان کے گروہ میں شامل) تھے تو (حجاج) نے آپ کے ہاتھ پر تپتے لوہے سے “حجاج نے آزاد کیا” داغ دیا (دوسری روایت میں ہے سیسے کی سیلائی سے) اور کہا :

اگر تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت نہ کی ہوتی تو تمہاری گردن ماردیتا۔

(الثقات لابن حبان 4/40، تاریخ دمشق 9/371 وسندہ حسن)

(2). عن الأعمش قال شكونا الحجاج بن يوسف قال فكتب أنس إلى عبد الملك إني خدمت النبي (صلى الله عليه وسلم) تسع سنين والله لو أن اليهود والنصارى أدركوا رجلا خدم نبيهم لأكرموه

اعمش کہتے ہیں ہم نے حجاج بن یوسف کی شکایات کی، فرمایا کہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے عبد المالک کو خط لکھا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نو سال خدمت کی۔

اللہ کی قسم اگر یہود ونصاریٰ ایسے شخص کو پاتے جس نے ان کے نبی کی خدمت کی ہوتی تو اس کی عزت واحترام کرتے۔

(تاریخ دمشق 9/371 وسندہ حسن).

نوٹ : یہاں اعمش، انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت بیان نہیں کر رہے بلکہ وہ بتارے ہیں جو ان کے سامنے واقع ہوا اور انہوں ںے انس بن مالک کو پایا اور دیکھا ہے لیکن احادیث سماعت نہیں کی۔ لیکن یہ سند صحیح ہے کیونکہ یہاں وہ قصہ بیان کر رہے جو ان کی آنکھوں کے سامنے ہوا۔ اور وہ خود بھی شکایات کرنے میں شامل تھے۔

(3). علی بن زید فرماتے ہے :

كنت في القصر مع الحجاج وهو يعرض الناس ليالي ابن الأشعث فجاء أنس بن مالك فقال الحجاج (٣) هي يا خبيث جوال في الفتن مرة (٤) مع علي بن أبي طالب ومرة مع ابن الزبير ومرة مع ابن الأشعث

میں حجاج کے ساتھ قصر میں تھا اور وہ لوگوں کو پکڑ رہا تھا ابن شعث کی رات کو (جب بغاوت ہوئی) انس بن مالک رضی اللہ عنہ ائے تو حجاج نے کہا :

ادھر ہے یہ خبیث فتنوں میں گشت کرتا پھیرتا ہے، کبھی علی بن ابی طالب کے ساتھ، کبھی عبداللہ بن زبیر کے ساتھ اور کبھی ابن اشعث کے ساتھ۔

(تاریخ دمشق 9/372 وسندہ لا بأس به)

اس قصہ کو بیان کرنے والے فقیہ بصرہ علی بن زید بن جدعان ہے جن پر خفیف جرح موجود ہے لیکن بعض علماء نے صراحت کی ہے صدوق ثقہ فیہ لین ہیں جیسے یعقوب بن شیبہ، ابن عدی، ترمذی، عجلی، ذھبی وغیرہ اور آپ کی حدیث لکھی جائے گی یعنی تاریخ، مغازی وغیرہ میں آپ مقبول ہیں بالخصوص اس قصہ کے آپ خود عینی شاہد ہیں اور حدیث میں ضعیف ہونے کے علاوہ دین کے عالم فقیہ تھے۔ اور کئی ثقات نے یہ چیزیں بیان کی ہیں تو قرائن بھی اس تائید میں دلالت کرتے ہے۔

اس طرح کی مرویات ایسے راویوں سے مقبول ہوتی ہے، جس پر میں ایک مضمون لکھ چکا ہوں۔

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ : رشدین بن سعد جو جمہور کے نزدیک ضعیف ہے کی بابت فرماتے ہے :

رشدين ليس به بأس، في الأحاديث الرقاق.

رشدین میں رقائق کی احادیث میں کوئی حرج نہیں۔

“العلل” رواية المروذي (481)

جب کہ یہ تو مرفوع حدیث بھی نہیں، بلکہ محض ایک قصہ کے عینی شاہد ہیں فقیہ اور ادنیٰ درجے کے توثیق اور خفیف جرح کے باوجود جب کہ حجاج سے صحیح سند سے ثابت ہے وہ لوگوں سے زبردستی ان لوگوں ہر لعنت کرواتا تھا۔

🖊️ محمد کاشف خان

۔۔۔۔۔

“میں اپنے دِل میں کسی دُنیوی معاملہ کے بارے میں حسرت نہیں رکھتا سوائے اِس کے کہ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا ساتھ دیتے ہوئے باغی گروہ کے خلاف لڑائی نہ کر سکا”۔

– سیدنا عبداللہ ابنِ عمر ؓ

(ابنِ عبد البر فی الاستیعاب، 3-1117)

(ابنِ سعد فی الطبقات الکبرٰی، 4- 187)

(ابن الاثیر الجزری فی اسد لغابہ، 3-612)

(الذہبی گی سیر علام النبلاء، 3- 231 ، 232)