جاوید احمد غامدی اور بنو امیہ کے سرکاری تاریخی بیانیہ کی ترجمانی

جاوید احمد غامدی صاحب کی سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے۔ اس ویڈیو میں ان سے حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ اور معاویہ ابن ابی سفیان کے بارے میں سوال ہوا کہ کس کا موقف درست تھا۔ اس کے جواب میں انھوں نے جو گفتگو کی اس کا لب لباب یہ تھا:

غامدی صاحب کی رائے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا خیال یہ تھا کہ ان کی خلافت کا انعقاد ویسے ہی ہوا ہے جیسے باقی خلفا کا ہوا تھا۔ اس لیے اب سب مسلمانوں کا بیعت کرنا فرض بنتا ہے۔معاویہ ابن ابی سفیان کا خیال تھا کہ مسلمانوں کے خلیفہ قتل ہوچکے ہیں اور ان کو قتل کرنے والے گروہ نے ہی علی ابن ابی طالب کو خلیفہ بنایا ہے اس لیے وہ ان کو خلیفہ تسلیم نہیں کریں گے۔

اب یہ دونوں موقف کو بیان کرنے کے بعد غامدی صاحب اپنی رائے بیان کرتے ہیں جس کا لب لباب یہ بنتا ہے کہ دونوں موقف اپنی جگہ درست ہیں ۔

لیکن آگے چل کر غامدی صاحب جتنی توجہیات اور تشریحات پیدا کرتے ہیں وہ دو مقدمات پر مشتمل ہیں

حضرت علی کی خلافت کا انعقاد خلیفہ کے انتخاب کے متعین طریقہ کار سے نہیں ہوا- طریقہ انتخاب میں نقائص کے علاوہ وہ اپنی خلافت کی رٹ بھی قائم نہیں کرپائے۔ اپنی اس رائے کی مزید وضاحت کے لیے انھوں نے قرآن پاک کی ایک آیت پڑھی ۔

وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ

“اپنے معاملات میں وہ باہمی مشاورت کرتے ہیں” ۔

غامدی کے نزدیک خلیفہ کے انتخاب کا طریقہ “اہل مدینہ ” کا اتفاق ہے-

غامدی کہتے ہیں کہ شوری حکم عام ہے اور اس آیت کی رو سے مسلمانوں کی حکومت کا فیصلہ بھی ہر ایک مسلمان کی مشاورت سے ہونا چاہئیے۔ وہ کہتے ہیں کہ پہلی صدی ھجری میں چونکہ ہر ایک مسلمان سے مشاورت ممکن نہیں تھی تو اس لیے مسلمانوں کے نمائندگان کی ایک کونسل کے سپرد /مجلس شوری کے سپرد یہ کام کردیا گیا-

غامدی سارے اہل مدینہ کو مجلس شوری کہتے ہیں۔ اور اس بنیاد پہ کہتے ہیں کہ تین خلفاء راشدین کا انتخاب “بالاتفاق” ہوا تھا۔ وہ پہلے تین خلفا کی نامزدگی کے لیے ثقیفہ ، خلیفہ کی طرف سے نامزدگی اور شوری برائے انتخاب خلیفہ کے تین مشہور طریقہ کار کی موجودگی سے انکار کردیتے ہیں۔ یہ تاریخ کا انکار ہے ۔

غامدی صاحب نے خود قرآن پاک کی آیات کو باہم اکٹھا کرکے نتائج اخذ کرنے سے گریز کیا ہے۔ قرآن پاک میں السابقون من الاولون من المہاجرین والانصار کے بارے میں واضح حکم فرمایا کہ ان کی پیروی بھلائی کے ساتھ کرنا لازم ہے۔

وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ

لا يَسْتَوِي مِنْكُمْ مَنْ أَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ

سبقت اسلام رکھنے والے مہاجرین و انصار میں کون شامل ہیں؟ اس حوالے سے ایک گروہ کا خیال ہے اس سے مراد بیعت رضوان تک کے صحابی ہیں ۔ اور ایک گروہ جو اکثریت میں ہے وہ کہتا ہے کہ اس سے مراد وہ صحابی ہیں جنھوں نے قبلہ اول و قبلہ دوم دونوں طرف نماز پڑھی ۔ ایک گروہ اسے صلح حدیبیہ کے موقعہ تک مسلمان ہوجانے والوں تک بڑھا دیتا ہے۔

جوگروہ اسے صلح حدیبیہ تک بڑھاتا ہے اس میں بنوامیہ کے حامی اور مشکوک تاریخ سازوں میں سب سے اہم کردار عامر بن شراحیل الشعبی ہیں ۔ اور یہ بات ہمیں معلوم ہے کہ شامی مدرسہ تاریخ، معاویہ ابن ابی سفیان کے بارے میں ایسی روایات لے کرآتا ہے جس سے وہ صلح حدیبیہ کے موقعہ پر اسلام لانے والے بن جاتے ہیں۔ یہ شعوری یا لاشعوری طور پر مقصدمعاویہ ابن ابی سفیان کو مدینہ کے السابقون الاولون مہاجر و انصار صحابہ کرام کی صف میں لاکر کھڑا کرنا تھا۔

غامدی صاحب ماضی کے شامی اور اموی تاريخ سازوں سے ایک قدم آگے بڑھ گئے وہ جب سارے اہل مدینہ کو مجلس شوری کا درجہ دے دتے ہیں ۔ حالانکہ اگر ہم تین خلفا راشدین کا انتخاب دیکھیں تو ان میں غامدی صاحب کے بیان کردہ طریقے کی پیروی نظر نہیں آتی ۔ انھیں ثقیفہ بنوساعدہ میں خلیفہ کے انتخاب ، سیدنا ابوبکر الصدیق کی طرف سے حضرت عمر ابن خطاب کی نامزدگی اور ان کی طرف سے خلیفہ کے لیے چھ مناسب امیدواروں کا چناؤ اور ان میں سے عبدالرحمان ابن عوف کا حضرت عثمان ابن عفان کو نامزد کرنا جیسے ناقابل انکار تاریخی واقعات کا انکار بھی اپنے خودساختہ اصول کی وجہ سے کرنا پڑا۔

غامدی صاحب کی رائے میں اپنی اپنی جگہ پر خلیفہ راشد مولا علی کرم اللہ وجہہ اور ان کے باغی معاویہ بن ابو سفیان دونوں بر حق ہیں اور ہمیں ان میں سے کسی کی طرفداری نہیں کرنی چاہیے بلکہ ہر دو فریق کے نقطہ نظر سے اس وقت کے حالات کو سمجھنا چاہیے – اس وڈیو میں دس منٹ کے مقام پر یہ دلیل دی گئی ہے ۔

https://youtu.be/6acN6lm5g40

یہی دلیل عام طور پر معاویہ و یزید کے وکلا ئے صفائی اور نواصب دیتے ہیں ۔اسی دلیل کو استعمال کیا جائے تو پھر ختمی مرتبت ص اور ابو جہل اور سیدنا حمزہ اور ہندہ جگر خوارہ بھی اپنی اپنی جگہ پر اپنے موقف میں حق بجانب نظر آتے ہیں ۔ راستی و مکاری اور حق و باطل کا جھگڑا ہی ختم ہو گیا اور اقبال کے اس فلسفہ کی نفی بھی ہو گئی کہ

موسی و فرعون، شبیر ویزید ۔ ایں دو قوت از حیات آید پدید

دلچسپ چیز یہ ہے کہ غامدی صاحب کی دلیل کو مانا جائے تو خلافت راشدہ میں پہلے تین خلفا کی خلافت پر بھی سوالات کھڑے ہو جاتے ہیں کیونکہ باقاعدہ ایوان نمائندگان وجود نہ رکھتا تھا اور نامزدگی و بیعت میں اختلاف بھی پیدا ہوا

ہم اگر حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا موقف دیکھیں تو ان کے مطابق مدینہ کے مہاجر و انصار صحابہ کی اکثریت کا اتفاق کسی مہاجر قریشی شخص کے خلیفہ ہونے کا تعین کردیتا ہے۔ اور اس کی پیروی باقی مسلمانوں کو کرنا ہوگی چاہے وہ کسی بھی شہر میں رہتے ہوں۔

غامدی نے مدینہ کے مہاجر و انصار صحابہ کی اکثریت کے اتفاق کو سارے اہل مدینہ کے اتفاق سے بدل ڈالا۔ کیونکہ ذہین فطین غامدی کو اچھے سے پتا ہے کہ حضرت علی ابن ابی طالب کی خلافت پر اہل مدینہ کا مجموعی اتفاق تو ممکن ہی نہیں تھا اور نہ وہ ہوا لیکن اکثریت کے اتفاق کا ثبوت تو میسر آجاتا ہے۔

غامدی خلیفہ اسلام عثمان ابن عفان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے انتخاب کے عمل کو مشتبہ بنانے کے لیے یہ بھی کہتے ہیں کہ پورے مدینہ پر “بلوائیوں کا قبضہ تھا ،یہاں تک کہ مسجد نبوی پر بھی ان ہی کا قبضہ تھا”۔ اب سوال یہ جنم لیتا ہے کہ غامدی نے شہادت عثمان ابن عفان رضی اللہ عنہ کے بعد مدینہ میں ہر جگہ پہ بلوائیوں کے قبضے کی معلومات کہاں سے لیں؟ ہمارے پاس تاریخ اور احادیث کا جو مجموعہ ہے اس میں جو روایات زھری و شعبی و سیف بن عمر سے مروی ہیں مدینہ کے اس زمانے کے بارے میں وہ تو یہ کہتی ہیں کہ کوفی گروہ جس کی قیادت مالک الاشتر کررہا تھا اس نے اہل مدینہ بشمول مہاجر و انصار صحابہ کو حضرت علی کی بیعت پر مجبور کیا۔ دوسری طرف جو روایات محمد بن السائب الکلبی ، ہشام الکلبی ، ابن اسحاق ، ابو مخنف اور نصر بن مزاحم سے محمد بن حنفیہ، امام حسن، عبداللہ ابن عباس، ابو قتادہ انصاری، ابوایوب انصاری، حضرت علی ابن ابی طالب سے منسوب روایات و اخبار ہیں ان سب میں لب لباب یہ ہے کہ مہاجرین و انصار صحابہ کی اکثریت نے امام علی ابن ابی طالب سے کہا کہ وہ خلیفہ بنیں۔ اور یہ دعوت دینے والوں میں خود حضرت زبیر و حضرت طلحہ بھی شامل تھے۔ زھری ، شعبی اور سیف بن عمر،صالح بن کیسان یہ چاروں بنوامیہ کے دربار سے وابستہ رہنے والے لوگ ہیں۔ اور باقی جو ہیں وہ حضرت علی ابن ابی طالب کے ساتھی ہیں۔ ابو مخنف کو کسی صاحب جرح و تعدیل نے جھوٹا نہیں کہا جبکہ سیف بن عمر کے لیے یہ خطاب سب نے ہی دیا ہے۔

غامدی صاحب مدینہ میں بلوائیوں کا مکمل کنٹرول دکھاتے ہیں تو بالواسطہ طور پر بنا کہے ہی وہ بنوامیہ کا موقف مان لیتے ہیں کہ حضرت علی کی خلافت کا انعقاد قاتلان عثمان نے کیا تھا اگرچہ وہ زبان سے حضرت علی اور معاویہ ابن ابی سفیان کو اپنی اپنی جگہ ٹھیک کہتے ہیں لیکن وہ جس طرح سے بلوائیوں کا مدینہ پہ کنٹرول بتاکر، سارے اہل مدینہ کے اتفاق کو شرط خلافت بتاتے ہیں اور تین خلفا کے انتخاب میں اپنائے گئے طریقہ کار کا انکار کرتے ہیں اس سے تو صاف پتا چلتا ہے کہ وہ حضرت علی ابن ابی طالب کے انعقاد خلافت کو قاتلان عثمان کا اقدام بتانے والے بنوامیہ کے سرکاری موقف کی تائید کرتے ہیں۔ اور یہ قطعی غیر جانبدار پوزیشن نہیں ہے۔

مدینہ میں صحابہ اور تابعین کی اکثریت نے حضرت علی کی بیعت کی اور جوچندصحابہ کرام غیر جانبدار رہے ان میں سب سے نمایاں شخصیت عبداللہ بن عمر اور حضرت سعد بن ابی وقاص کی تھیں۔ ان دونوں نے بھی کسی ایک مقام پر بھی یہ نہیں کہا کہ معاویہ بن ابی سفیان کا موقف حضرت علی ابن ابی طالب کی خلافت کے بارے درست ہوسکتا ہے یا وہ بھی درست ہیں اور حضرت علی بھی درست ہيں۔

کیا علی المرتضی انعقاد خلافت کے بعد اپنی رٹ قائم رکھنے میں ناکام رہے تھے؟

غامدی نجانے کیوں حضرت علی المرتضی کی طرف سے جنگ جمل، جنگ نھروان میں عسکری برتری کے ساتھ ساتھ ان کی حکومت کا حجاز، عراق ، مصر ، فارس میں قائم رہنا نظر انداز کردیتے ہیں؟ اور وہ صرف شام کو بنیاد بناکر آپ کی رٹ قائم نہ ہونے کا عذر تراش لیتے ہیں۔ جبکہ بنوامیہ کی حکومتوں کے معاملے میں ہر ممکنہ عذر تلاش کرکے اسے مستحکم حکومت قرار دتیے ہیں جبکہ وہ یہ بات بھی فراموش کردیتے ہیں کہ اموی حکومتوں کو اہل مدینہ کا اتفاق حاصل نہیں رہا جسے خودساختہ طور پر انھوں نے خلافت کی بنیادی شرط قرار دیا تھا۔

غامدی صاحب نے ایک اور بڑا مغالطہ اپنے موقف کے زریعے سے پیدا کردیا ہے۔ ان کا خیال یہ ہے کہ امت مسلمہ کا جمہور شاید دو بڑے گروہوں میں تقسیم رہا ہے۔حالانکہ اہلسنت کے جو چار بڑے مذاہب فقہ ہیں یعنی حنفی ،مالکی، شافعی اور حنبلی، ان کی مین سٹریم خلافت راشدہ کا دور تیس سال قرار دے کر پانچ خلفائے راشدین مانتی ہے جس میں چوتھے خلیفہ حضرت علی ہیں اور چھ ماہ امام حسن کے ہیں اور خطبات جمعہ و عیدین میں بھی پانچ ہی خلفاء راشدین کے نام لیے جاتے ہیں۔ معاویہ ابن ابی سفیان کا نام کسی بھی خطبے میں نہیں لیا جاتا ۔تو غامدی خلافت راشدہ میں چوتھے خلیفہ راشد کی خلافت نہ ماننے والے کے موقف کو کیسے درست قرار دے دیتے ہیں؟ ان کے ہاں شہادت عثمان ابن عفان رضی اللہ عنہ کے بعد درایت کے وہ کون سے اصول ہیں جن کی بنا پہ وہ مدینہ کے بارے میں حضرت علی اور ان کے ساتھیوں کے موقف پہ مبنی روایات کو ایک طرف رکھ دیتے ہیں اور بنو امیہ کے بیانیہ کی تائید کرنے والی روایات سے سامنے آنے والے بیانات کو تاریخی حقیقت بناکر پیش کردیتے ہیں۔

غامدی صاحب خلافت راشدہ کے باغی معاویہ ابن ابی سفیان کے دفاع کے لیے یہ عذر تراشتے ہیں کہ اس زمانے میں مدینہ سے دمشق میں خبر پہنچنے تک کئی ماہ لگ جاتے تھے۔ ہمیں کتب احادیث اور تواریخ سے پتا چلتا ہے کہ حضرت عثمان ابن عفان کی شہادت کے فوری بعد آپ نے معاویہ ابن ابی سفیان کے پاس عبد قیس کو سفیر بناکر بھیجا تھا اور ایک خط ان کو دیا تھا۔ اس خط کا جواب تین ماہ بعد صفر کے مہینے میں آپ کو ملا ۔ اس کے بعد آپ نے کوفہ میں جہاں آپ 37 ھجری رجب کے مہینے میں پہنچے تھے اور آپ نے جریر بن عبداللہ کو دمشق اپنے تفصیلی خط کے ساتھ روانہ کیا اور اس دوران آپ کی خط و کتابت جاری رہی ۔ اس میں آپ نے انتہائی تفصیل سے اپنی انعقاد خلافت، قتل عثمان سے اپنی برآت کی وضاحت کی ۔ پھر جنگ صفین ہوئی ۔ اور اس کے بعد واقعہ تحکیم پیش آیا۔ اس سلسلے میں پہلا اجتاع رمضان میں اگلا پھر ایک سال بعد ازراح کے مقام پر ہوا ۔ اور دونوں اجتماعات میں اہل مدینہ کی بھی بڑی تعداد موجود تھی۔ بنو امیہ کے مہاجر صحابہ کو چھوڑ کر کسی اور مہاجریا انصار صحابی نے چاہے وہ جنگ جمل میں بھی آپ کے خلاف صف آرا کیوں نہ ہوا قتل عثمان ابن عفان رضی اللہ عنہ کا الزام آپ پہ نہیں لگایا۔

غامدی صاحب کی ساری غیرجانبداری ان کے اس موقف کی ردتشکیل سے تحلیل ہوجاتی ہے اور اندر سے وہ بنوامیہ کے کٹر حامی ثابت ہوجاتے ہیں۔

غامدی صاحب ہوں، ان کے استاد امین احسن اصلاحی ہوں اور ان کے استادحمید الدین فراہی ہوں ان کا تصور درایت تاریخ و حدیث آخری نتیجے میں بنوامیہ کے لیے عذرخواہی والا نکلتا ہے۔ اسی وجہ سے ان کے استاد امین احسن اصلاحی نے اپنے قریبی رفیق اور اتالیق مولانا سید ابوالاعلی مودودی کا موقف جو انھوں نے خلافت و ملوکیت میں اپنایا تھا رد کردیا تھا کیونکہ مودودی صاحب کی درایت اور اخذ روایت بنوامیہ اور نواصب کے بیانیہ کو رد کرتا تھا

عامر حسینی

……..

میں بڑے دکھ سے کہتا ہوں ۔۔۔۔

مولانا طارق جمیل کا دردمندانہ اور ایمان افروز بیان