تاریخِ خلافتِ اسلامیانِ عالم: جستہ جستہ حقائق

حافظ صفوان

.

1: حضورِ پاک علیہ السلام کے وصال کے بعد مدینہ میں انصار اور مہاجرین کے درمیان خلافت یعنی سیاسی اقتدار کے حصول کے لیے خاصی بحث اور تیزم تازا ہوئی کیونکہ انصارِ مدینہ اپنے علاقے کے سیاسی اقتدار کو مہاجرین کے سپرد کرنے پر آمادہ نہ تھے۔ اقتدار پر مہاجرین کی بلاشرکتِ غیرے عملداری کے مطالبے پر اصرار پر انھوں نے شراکتِ اقتدار یعنی ایک انصاری اور ایک مہاجر کے خلیفہ ہونے کی پیشکش بھی کی تاہم حضرت ابوبکر خلیفہ چن لیے گئے۔ البتہ انصار کی طرف سے امیدوارِ خلافت جنابِ سعد بن عبادہ نے ان کی بیعت نہیں کی۔ اسی طرح جنابِ علی نے بھی بیعت نہیں کی۔

2: حضرت ابوبکر کے انتقال کے بعد بھی جنابِ سعد بن عبادہ خلیفہ نہ بن سکے اور حضرت عمر کے دورِ خلافت کے شروع میں ایک نزاع کے بعد مدینہ چھوڑ کر اپنی جاگیر پر منتقل ہوگئے، جہاں انھیں جنوں نے زہر میں بجھا تیر مار کر شہید کر دیا۔

3: حضرت عمر کو اندیشہ تھا کہ بعض مسلمان ان کی جان لینے پر آمادہ ہیں اس لیے جب ابولولو فیروز نے انھیں خنجر مارا تو ہوش میں آتے ہی انھوں نے پہلا سوال یہ کیا کہ ان پر قاتلانہ حملہ کرنے والا کون ہے، اور جواب میں ابولولو کا نام سن کر خدا کا شکر ادا کیا کہ قیامت کے دن ان کے قاتل کے سجدے اس کی سزا میں حارج نہ ہوں گے، یعنی ان کا قاتل مسلمان نہیں ہے۔

4: حضرت عثمان مدینہ میں مسلمانوں کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ ان کا دور آتے تک مدینہ میں پیدا ہونے والی نئی یعنی غیر صحابی نسل جوان ہوچکی تھی اور اسے حضرت عثمان کی خلافت پر کئی بے سروپا سیاسی اعتراضات تھے۔ ان فسادی اہلِ مدینہ کی شورش فرو کرنے میں ریاست کی لیت و لعل نے قتلِ عثمان کا سانحہ کرا کے چھوڑا۔

5: حضرت عثمان کی شہادت کے بعد حضرت علی خلیفہ ہوئے۔ وہ مہاجرین میں سے مدینہ میں خلافت سنبھالنے والے آخری خلیفہ تھے اور انھیں مدینہ میں قرار واقعی مقامی حمایت مہیا نہ ہونے کی وجہ سے مدینہ چھوڑ کر کوفہ منتقل ہونا پڑا۔ ان کے بعد خلافت کا مرکز مدینہ کبھی نہیں رہا اور نہ کوئی انصاری کبھی خلیفہ بنا۔

6: حضرت عثمان کے ورثا نے حضرت علی سے قصاص کا مطالبہ کبھی نہیں کیا بلکہ حضرت علی کے بار بار پوچھنے کے باوجود ان کے بیٹے قاتلوں کا نام تک نہیں بتاسکے۔

7: حضرت معاویہ کے خلیفہ بننے کے بعد بھی کسی نے حضرت عثمان کا قصاص نہیں لیا۔ حضرت معاویہ حج پر آئے تو حضرت عثمان کے گھر سے ان کی بیٹی کا نوحہ سنائی دیا کہ میرے والد کا قصاص لینے والا کوئی نہیں تو حضرت معاویہ نے کھڑے مجمعے کو بھگا دیا اور ان کی بیٹی سے کہا کہ یہ آواز میں آئندہ نہ سنوں۔

8: حضرت علی بھی ایک مسلمان کے ہاتھوں شہید ہوئے۔

9: حضرت حسین بھی مسلمانوں کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ مسلمانوں نے ان کا سر کاٹا اور بدن کو گھوڑوں تلے روندا۔

10: حضرت حسن کے بارے میں مشہور روایت یہی ہے کہ آپ کو کھانے میں زہر دیا گیا تھا۔

11: حضرت طلحہ اور حضرت زبیر دونوں عشرہ مبشرہ میں سے تھے جنھیں حضرت علی نے خلیفہ بننے کی پیشکش کی تھی، یہ دونوں بھی مسلمانوں کے ہاتھوں شہید ہوئے۔

12: جنگِ جمل میں صحابہ صحابہ کے ہاتھوں یعنی مسلمان مسلمانوں کے ہاتھوں شہید ہوئے۔

13: حضرت علی و معاویہ کے درمیان ہونے والی جنگِ صفین میں مسلمان ہی مسلمانوں کے ہاتھوں شہید ہوئے۔

14: معرکۂ نہروان میں بھی مسلمان ہی مسلمانوں کے ہاتھوں شہید ہوئے۔

15: قتلِ حسین پر یزید کے خلاف بغاوت کو دبانے کے لیے مسلم بن عقبہ کے بارہ ہزار مسلمانوں کے لشکر کے ہاتھوں مدینہ میں سات سو مہاجر اور انصاری صحابی اور ان کے بچے شہید ہوئے۔

16: معرکۂ حرہ میں مسلم بن عقبہ کے دوست معقل بن سنان الاشجعی صحابی جو فتح مکہ میں شریک تھے اور بہت سی احادیث کے راوی ہیں، مسلم سے ملاقات کے لیے مدینے سے نکل کر آئے اور قتلِ حسین پر یزید کو برا بھلا کہا، جس پر مسلم نے غصے میں آکر ان کو شہید کر دیا۔

17: ابولہب یا ابوجہل نے خانہ کعبہ کی توہین کبھی نہیں کی تاہم یہ اموی خلیفہ عبدالملک بن مروان کے لشکر کا سپہ سالار الحصین بن نمیر تھا جس نے مکہ مکرمہ کا محاصرہ کرکے منجنیق سے پتھر پھینک پھینک کر خانہ کعبہ کو منہدم کیا۔

18: مدینہ میں اور مدینے کے گرد بسنے والے طاقتور یہودی اور عیسائی قبیلوں میں سے کسی نے کبھی مسجدِ نبوی کی توہین نہیں کی مگر اموی خلیفہ یزید بن معاویہ کے بھیجے لشکر کے سپہ سالار نے تین دن کے لیے مدینہ میں قتال حلال قرار دے دیا، اور تین دن کے بعد جو مسلمان باقی بچے ان سے اس بات پر بیعت لی کہ تمھاری جانوں اور مال کا مالک یزید ہوگا۔ ان تین دنوں میں مسجدِ نبوی میں گھوڑے باندھے گئے جو وہاں لید اور پیشاب کرتے رہے۔ ان تین دنوں میں مسجدِ نبوی میں نہ اذان ہوئی نہ جماعت۔

19: خلیفہ عبدالملک بن مروان کی خلافت میں عبداللہ بن زبیر کو شہید کرکے حجاج نے ان کی لاش کو کئی دن تک الٹا لٹکائے رکھا۔ آخر خلیفہ کا خط بغداد سے آیا تب کہیں ان کی لاش کو اتار کر دفنانے کی اجازت دی گئی۔

20: اسی معرکے میں حجاج نے خانہ کعبہ پر سنگ باری کرائی اور تیل میں ڈوبے آتشیں تیر چلاکر خانہ کعبہ کے غلاف کو آگ لگا دی جو پھیل کر اندر چلی گئی اور سارے تبرکات جل گئے۔

21: اسی معرکے میں حجاج قسم کھاکر حاجیوں کو قتل کرتا رہا کہ جب تک اس کے گھوڑے کے سم حاجیوں کے خون میں ڈوب نہ گئے وہ قتال جاری رکھے گا۔ چنانچہ اپنی قسم پوری ہونے پر اس نے قتال روکا۔ یہ سیاہ کارنامہ بھی مسلمانوں کے ہاتھوں سر انجام پایا اور یہ سارے بے گناہ مقتول حج پر آئے ہوئے مسلمان تھے۔

22: ہشام بن عبدالملک کی خلافت میں حضرت حسین کے پوتے جناب امام زید بن زین العابدین کو ننگا کرکے بابِ دمشق پر سولی دی گئی اور انھوں نے تڑپ تڑپ کر جان دی۔ چار سال تک ان کی لاش اسی جگہ لٹکی رہی اور پھر اس سوکھی ہوئی لاش کو اتار کر جلا دیا گیا۔

23: ولید بن یزید کی وفات کے بعد اس کا جنازہ پڑھانے ولید بن عتبہ بن ابوسفیان کھڑا ہوا جسے خلیفہ چنا گیا تھا۔ وہ ابھی دوسری تکبیر ہی کہہ پایا تھا کہ کسی کی تلوار نے اس کا سر اڑا دیا۔

24: اسی جنازہ کے موقع پر ولید بن عتبہ کے بھائی عثمان بن عتبہ کو آگے کیا گیا اور کہا گیا کہ ہم آپ کی بیعت کرتے ہیں۔ اس نے کہا کہ کیا تم اس بات پر میری بیعت کرتے ہو کہ نہ تو میں تمھیں کسی مسلمان کو قتل کرنے کا حکم دوں اور نہ خود کسی کو قتل کروں؟ بنوامیہ نے انکار کر دیا جس پر وہ مکہ چلا گیا اور عبداللہ بن زبیر کے ساتھ شامل ہوگیا، اور پھر بنوامیہ ہی کے ہاتھوں قتل کر دیا گیا۔

25: اس کے بعد مروان بن حکم مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہوا۔

26: اس کے بعد عمر بن عبدالعزیز بھی اپنے خاندان کے ہاتھوں شہید ہوئے۔

27: پھر ولید بن یزید مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہوئے۔

28: پھر ابراہیم بن ولید بھی مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہوا۔

29: اس کے بعد باقی خلیفے یکے بعد دیگرے ابومسلم خراسانی کے ہاتھوں قتل ہوئے۔

30: پھر ابوالعباس سفاح نے تمام بنوامیہ اور ان کی اولاد کو قتل کر دیا سوائے دودھ پیتے بچوں کے یا ان کے جو اندلس بھاگ گئے تھے۔

31: ابوالعباس سفاح نے بنوامیہ کی قبریں کھدواکر مردے نکالے۔ حضرت معاویہ کی قبر کھودی گئی تو اس میں سوائے دھاگوں کے کچھ نہ ملا۔ یزید کی قبر کو کھودا گیا تو اس میں صرف راکھ تھی۔ عبدالملک کی قبر کھودی گئی تو اس کا بدن صحیح سالم تھا، صرف ناک کی ایک طرف تھوڑی سی خراب ہوگئی تھی۔ لاش کو نکال کر اولًا کوڑے مارے گئے اور پھر سولی دی گئی اور پھر جلایا گیا، اور اس کی راکھ کو ہوا میں بکھیر دیا گیا۔

32: ابومسلم خراسانی وہ مسلمان تھا جس نے امویوں کو بالکل نابود کر دیا۔ وہ نہ ہوتا تو عباسی سلطنت کا وجود تک نہ ہوتا۔ مامون نے ابومسلم خراسانی کے بارے میں کہا تھا کہ زمین پر تین جلیل القدر بادشاہ تھے جنھوں نے ملکوں کی تقدیر تبدیل کی: سکندر، اردشیراور ابومسلم خراسانی۔

33: ابوالعباس سفاح کے مرنے کے بعد اس کے بیٹے خلیفہ ابوجعفر المنصور نے ابومسلم کی مقبولیت سے خائف ہوکر اسے دھوکے سے مروا دیا۔

34: اس قتل کے بعد ابومسلم خراسانی کے حامی اٹھ کھڑے ہوئے اور عباسیوں اور خراسانیوں کی جنگ میں ہزاروں مسلمان قتل ہوئے۔

35: شجرۃ الدر نے ایبک کو قتل کر دیا، ایبک کی بیوہ نے شجرۃ الدر کو قتل کر دیا۔

36: طغرل کی وفات کے بعد اس کے بھائی اور اس کے بیٹے میں چپقلش شروع ہوگئی اور عثمان نے اپنے چچا دوندار کو قتل کرکے اپنا اقتدار قائم کرلیا جس سے خلافتِ عثمانیہ شروع ہوئی۔ آج خوارج و داعش اسی خلافت کو بحال کرنے کا نعرہ مارتے ہیں۔

37: اس عثمانی خلافت میں عثمان کا پوتا مراد اول جب سلطان بنا تو اس نے اپنے بھائیوں ابراہیم اور خلیل کو اس لیے قتل کرا دیا کہ وہ اس کے اقتدار کے خلاف کوئی سازش نہ کریں۔

38: مراد اول جب کوسووو کے معرکے میں بسترِ مرگ پر تھا تو اپنے بیٹے یعقوب کا گلہ گھونٹ کر مروا دیا تاکہ وہ اپنے دوسرے بھائی کی خلافت کے خلاف سازش نہ کرسکے۔

39: سلطان محمد ثانی فاتحِ استنبول نے شرعی فتویٰ جاری کیا کہ سلطنت اور اس کے عوام کی اعلیٰ ترین مصلحت کی خاطر اس کے بھائی کا خون حلال ہے، یوں اس کے بھائی کو قتل کر دیا گیا۔

40: سلطان مراد ثالث نے اپنے باپ کے بعد تختِ خلافت پر بیٹھتے ہی اپنے پانچ بھائیوں کو اسی اعلیٰ ترین مصلحت کی خاطر موت کے گھاٹ اتار دیا۔

41: سلطان مراد ثالث کا بیٹا محمد الثالث بھی اپنے باپ جیسا درندہ تھا۔ اس نے تخت سنبھالتے ہی اپنے تیرہ بھائیوں کو خلافت کی مصلحت کی خاطر قتل کرا دیا۔ ترک مصنف رحمی تروان ایک مقالے “بادشاہوں کی یادداشتیں” میں لکھتا ہے کہ محمد الثالث نے اپنے تیرہ بھائی مروانے پر ہی اکتفا نہیں کی بلکہ اپنے سولہ سالہ بیٹے محمود کو بھی مروا دیا تاکہ وہ اپنے چھوٹے بھائی چودہ سالہ سلطان احمد کی مخالفت نہ کرسکے۔ یہ سلطان احمد بعد میں نیلی مسجد جامع سلطان احمد بنوانے کی وجہ سے مشہور ہوا جو استنبول کا سب سے مشہور سیاحتی مرکز ہے۔

42: جب عثمانی خلافت نے اپنا نفوذ قاہرہ تک بڑھانے کا فیصلہ کیا تو پچاس ہزار مصری مسلمانوں کا قتلِ عام کیا۔ سلطان سلیم نے حاکمِ قاہرہ طومان بے کو پیغام بھیجا کہ اگر وہ اس کی اطاعت کرلے تو اسے قاہرہ کی حکومت بخش دی جائے گی۔

43: طومان بے نے سلطان سلیم کی یہ پیشکش ٹھکرا دی اور جنگ کی تیاری شروع کر دی مگر خلیفہ کی فوجوں کے سامنے اس کی کوئی پیش نہ چلی اور وہ فرار ہوکر اپنے دوست الشیخ حسن بن مرعی کے پاس پناہ لینے کو پہنچا جس نے خیانت کرکے اس کی مخبری کر دی۔ یوں طومان بے قتل کر دیا گیا اور مصر ترک عثمانی خلافت کے صوبوں میں شامل ہوگیا۔

44: پھر سلطان سلیم نے اپنے دونوں بھائیوں کو قتل کرا دیا جو اس کی خونی پالیسیوں کے مخالف تھے۔

45: شہنشاہِ ہند حضرت اورنگزیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر برادر و پسر کش مغل بادشاہوں کا ذکر اس پوسٹ میں اس لیے نہیں کیا جا رہا کہ ان حکمرانوں نے اپنے اقتدار کو خلافت کا چولا نہیں اوڑھایا۔ یہ لوگ کم سے کم اتنے لبرل اور سیکولر تھے کہ اپنی اقتداری سیاست کو مذہب کے مقدس لبادے میں لپیٹ کر پیش نہیں کرتے تھے۔

46: افغانستان میں شہیدِ اسلام امیر المومنین حضرت جنرل چودھری محمد ضیاءالحق نے خلافت قائم کرائی تھی۔ اس خلیفے کا ظہور جنرل چودھری کے سرگباش ہونے کے کئی سال بعد ہوا تاہم یہ خلیفہ صرف اہلِ بصیرت کو نظر آتا تھا۔ الحمدللہ اسی سری خلافت کی برکت ہے کہ افغانستان میں گزشتہ چار دہائیوں سے خانہ جنگی جاری ہے اور بڑے بڑے امیدوارانِ خلافت آئے دن خود کش حملوں میں برادرانِ اسلام کے ہاتھوں مارے جاتے رہتے ہیں۔

47: کچھ سال پہلے 29 جون 2014 کو ایک سری خلیفہ ابوبکر عواد البغدادی کا بغداد میں ظہور ہوا جو ایک خطبہ جمعہ دینے کے بعد ابھی تک حالتِ غیبتِ صغریٰ میں ہے۔

48: الفتنۃ الکبریٰ، انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا اور دیگر مآخذ سے معلومات لے کر تصدیق کی گئی اس داستان میں آپ کو نظر آئے گا کہ شروع کے چند سال کے بعد سے اسلامی خلافت قتل و غارت گری کا مترادف ہے جس میں قاتل اور مقتول دونوں خلافت کے طلب گار تھے۔ مارنے والے بھی اللہ اکبر کی گونج میں مارتے تھے اور مرنے والے بھی شہادتین پڑھتے ہوئے جانیں دے رہے تھے۔ نبی کریم نے محارب قاتلوں کو جہنم کی خبر دی تھی، ان لوگوں میں سے ہر ایک خود کو البتہ جنتی اور شہید سمجھتا ہے۔ یہ المیہ ہے کہ فی زمانہ جس شخص کی شہادت کا نعرہ جتنا بلند آواز میں لگتا ہے وہ اتنا ہی غلیظ بدکار ہوتا ہے۔

49: انسانی سماجی تجربات نے بصورتِ جمہوریت پرامن پائیدار انتقالِ اقتدار اور سماج کو بہترین بندوبستی نظام دیا ہے۔ پہلے مذہبی و غیر مذہبی شعورِ انسانی کی تاریخ میں انتقالِ اقتدار ہمیشہ سے قریبی رشتوں ناتوں کے خون سے پیاس بجھائے بنا ممکن ہی نہ تھا۔ حکمران پیغمبر بھی اپنی ذات کی حد تک قانونی اقتداری طاقت آسمانی صحیفوں کے ساتھ ضرور لے کر آئے مگر بعد از پیغمبر انتقالِ اقتدار کا کوئی پرامن پائیدار نظام انسانی سماج کو واضح نہ ہو پایا چنانچہ ہر مذہب والوں میں خاندان میں خونی کشاکش ہی اگلا حکمران لاتی تھی۔ واضح الفاظ میں عرض ہے کہ انتقالِ اقتدار کی متذکرہ بالا خوں آشام تاریخ صرف اسلام کے ساتھ خاص نہیں ہے۔

50: سمجھنے کی اصل بات یہ ہے کہ ایسے بدکار بدمعاش ناہنجار حکمران ہونے کے باوجود اسلام آج تک موجود ہے اور ایسے مذہب فروشوں قاتلوں کے موجود ہوتے ہوئے بھی اسلام قبول کرنے والے آج سے زیادہ کسی دور میں موجود نہیں رہے چنانچہ ثابت ہوا کہ اسلام اور اقتدار کا یا اسلام اور طاقت کا یا اسلام اور مال کا آپس میں لازم و ملزوم والا کوئی تعلق نہیں ہے۔