حسین احمد مدنی بارے علامہ اقبال کے اشعار

تحریر: وحیدالزمان طارق

کچھ لوگ یہ کہہ رہے ہیں کی حضرت علامہ اقبال رح نے ان اشعار سے رجوع کر لیا تھا وہ ادھر ادھر کی مار رہے ہیں۔یہ کبھی نہیں ہوا اور ان کے پاس اگر کوئی بھی دلیل ہے تو پیش کریں۔

علامہ محمد اقبال نے ان اشعار سے کبھی رجوع نہیں کیا۔ یہ حضرت کے آخری اشعار تھے جو میاں محمد شفیع کو آپ نے املاء کروائے تھے جب علامہ کی بصارت جواب دے چکی تھی۔ اس کا ذکر زندہ رود میں موجود ہے۔ اس سلسلہ میں میری مفصل بات حضرت جسٹس جاوید اقبال اور ڈاکٹر اسرار احمد سے ہوئی تھی۔ ان اشعار کو حذف کرنے کی درخواست مولانا احمد علی لاہوری رح نے کراچی میں یوسف سلیم چشتی سے بھی کی تھی۔ جسٹس جاوید اقبال سے بھی 1946ء میں درخواست کی گئی تھی مگر یہ اشعار حذف نہیں ہوئے۔ اگر اقبال ان اشعار سے رجوع کرتے تو دو قومی نظریہ سے انحراف ہوتا۔اس کی تفصیل آپ سید نور محمد کی کتاب “علامه اقبال کا آخری معرکه” میں پڑھ سکتے ہیں۔ یہ اخبار احسان کا تراشا، مولوی طالوت کے خطوط اور یوسف سلیم چشتی کی وضاحت خود بخود زائل ہو جاتی ہے۔ علامہ اقبال رح کے یہ اشعار ہماری کے لئے حقیقت کے آئینہ دار رہیں گے۔

مولانا حسین احمد خان دیوبندی کا علم اور تقوی اپنی جگہ مگر جنوری 1938 میں دہلی کی جامع مسجد کے منبر سے ان کا ہندی قومیت پر قرآنی دلائل کے ساتھ خطبہ انتہائی خوفناک رجحان کو جنم دے سکتا تھا جس کی تردید کرنے کی بر وقت جرآت صرف اور صرف علامہ اقبال کی عظیم اور جاندار شخصیت ہی کر سکتی تھی۔ جیسا کہ ڈاکٹر اسرار احمد نے وحدت الوجود والے اپنے تربیتی طویل خطبہ میں کیا ہے۔ ہندی قومیت کی وحدت کا تصور اقبال کے نظریہ کی نفی تھی اور شاید یہ ملت اس منفی تصور کے باعث ختم ہو کر رہ جاتی۔

حُسین احمد

عجم ہنوز نداند رموزِ دیں، ورنہ

ز دیوبند حُسین احمد! ایں چہ بوالعجبی است

سرود بر سرِ منبر کہ مِلّت از وطن است

چہ بے خبر ز مقامِ محمدِؐ عربی است

بمصطفیٰؐ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست

اگر بہ او نرسیدی، تمام بولہبی است

عجم کو ابھی تک رموز دیں کی خبر نہیں، ورنہ دیوبند کے حسین احمد یہ بوالعجبی نہ کرتے۔ یہ تو گویا منبر پر سرود بجانے کے مترادف ہے کہ قوم وطن سے بنتی ہے۔ یہ مقامِ محمد عربی سے کس قدر بے خبری ہے۔ خود کو مصطفیٰ کی بارگاہ میں پہنچاﺅ کہ دین پورے کا پورا ان سے عبارت ہے۔ اگر تو اس تک نہ پہنچا تو سب کچھ بولہبی ہے۔