حضرت علی ؓ اور غلطیہائے مضامین

حضرت علی ؓ اور غلطیہائے مضامین

ناصبیتِ قدیمہ و جدیدہ کے احمقانہ و احسان فراموشانہ اعتراضات کے جواب میں امام المحققين علامہ مولانا سید مناظر احسن گیلانی دیوبندی ؒ کی نادر تحریر, جو آجکل کے حالات کے حسبِ حال بھی ہے،کتاب :امام ابو حنیفہ کی سیاسی زندگی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک طبقہ ایسا پیدا ہوگیا ہےجو بنوامیہ کے سلاطین جمعین کے مقابلہ میں بےچارے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو محلِ طعن و ملامت بناتے رہتے ہیں۔ مرتضی علیہ السلام سے ان لوگوں کو اس کی شکایت ہے کہ کفار کے مقابلہ میں مسلمان صف آرا تھے اور فتوحات پر فتوحات حاصل کئے چلے جارہے تھے کہ حکومت کی باگ جوں ہی حضرت علیؓ کے ہاتھ میں آئی انہوں نے کفار کے محاذ سے مسلمانوں کے رخ کو پھیر کر ان لوگوں کے مقابلہ میں ان کو کھڑا کر دیا جو خود بھی اپنے آپ کو مسلمان ہی کہتے تھے اور بجائے حضرت علیؓ کے سمجھتے تھے اقتدارِ حکومت کے صحیح اور جائز حقدار وہی ہیں.کہتے ہیں کہ جو مقابلہ غیروں سے ہو رہا تھا حضرت علیؓ نے غیروں سے ہٹا کر اس مقابلہ اور مقاتلہ کو خود باہم مسلمانوں کے اندر قائم کردیا۔ سمجھا جاتا ہے کہ مسلمانوں کے مقابلہ میں مسلمانوں کی تلوار نکالنے کی سنت سب سے پہلے حضرتؓ ہی نے قائم کی۔ اس سلسلے میں حضرت علی کرم اللہ وجہ کے ساتھ جن احسان فراموشیوں کا ارتکاب کرنے والے کر رہے ہیں, اور جن الفاظ میں اللہ کے اس برگزیدہ بندے کو یاد کرنے والے یاد کر رہے ہیں, الی اللہ المشتکی کے سوا اس کے جواب میں اور کیا کہا جاتا ہے, ان کے دورِ حکومت کے نقشے کو دکھلا دکھلا کر پوچھا جاتا ہے کہ اسلامی دائرہ اقتدار میں بتایا جائے کہ زمین کا کتنا حصہ انہوں نے داخل کیا اور اسی کو دکھا کر اعلان کر دیا جاتا ہے کہ مسلمانوں کے حکمرانوں میں حضرت علیؓ سے زیادہ ناکام حکمران اسلامی تاریخ میں کوئی نہیں گزرا۔ ناکامی کی دلیل یہ ہے کہ چار سال نو ماہ کی اپنی مدت حکومت میں ایک انچ کا اضافہ بھی مسلمانوں کے فتوحات کی اٹلس میں ان کے زمانہ میں نہیں ہوا بلکہ باہمی خانہ جنگی کی وجہ سے مسلمانوں کی سیاسی قوت کو شدید صدمہ پہنچا.

باوجود دیکھنے کے جو نہیں دیکھنا چاہتے ہیں ان کو کیسے دکھایا جا سکتا ہے۔ حضرت علیؓ پر تنقید کرنے والوں کی طرف سے اس قسم کی باتیں جب میرے کانوں میں پہنچتی ہیں تو ہمیشہ دل میں یہ خیال آیا کہ حضرت علیؓ کی پچھلی زندگی پر تنقید کرنے والے ان کی زندگی کی ابتدائی خدمات سے اپنے آپ کو کیوں اندھا بنا لیتے ہیں۔ وہ اسلامی اٹلسی ایران و مصر اور شام و عراق کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں, لیکن میں پوچھتا ہوں کہ قادسیہ میں جو کامیابی مسلمانوں کو نصیب ہوئی کیا بدر کی فیصلہ کن کامیابی کے بغیر بھی نصیب ہو سکتی تھی, وہ خوش ہوتے ہیں کہ یرموک ندی کے ساحل پر معجزا نہ شکست ان کے دشمنوں کو اٹھانی پڑی لیکن یرموک کی فتح پر خوشی کے شادیانے بجانے والوں سے کون پوچھے کہ ارے محسن کشو؛ یرموک تک تم پہنچ بھی سکتے تھے اگر کھولنے والا تم پر خیبر کے پہاڑی قلعوں کے دروازوں کو نہ کھول دیتا۔ سچ کہتے تھے حضرت ابو ہریرہؓ جب کسی ملک کی فتح کی خبر مدینے پہنچتی تھی کہ خبر گو آج آئی ہے لیکن فتح کا یہ واقعہ تو اسی دن پیش آچکا تھا جب مدینہ کے اطراف میں اللہ کا رسولﷺ اور رسولﷺ کے ساتھی خندق کھودنے میں مصروف تھے۔ تم نے تو دجلہ کے کنارے دیکھا کہ سعد بن ابی وقاصؓ اپنی فوج کو تراتے ہوئے مدائن کی طرف لے جا رہے ہیں لیکن دیکھنے والوں نے اسی واقعہ کو اسی وقت دیکھ لیا تھا جب مدینہ کے خندق کو پھاند کر عمرو بن عبدود عرب کا سورما اس شخص سے مبارزت طلب کر رہا تھا جس نے ایک ہی وار میں سو کے برابر سمجھے جانے والے اس پہلوان کو دو ٹکڑے کر کے رکھ دیا تھا۔ یقینا حافظے بھی کمزور ہوتے ہیں مگر ایسا بھی کیا کہ ہر دوسرے قدم کو اٹھانے کے بعد دماغ سے یہ بات نکل جائے کہ دوسرا قدم اٹھ ہی نہیں سکتا اگر پہلا قدم نہ اٹھتا۔ یہ فطرت کی انتہائی دنادت اور گندگی ہے کہ جس نے سارے جسم سے کانٹوں کو نکالا اس کے احسانوں کا صرف اس لئے انکار کر دیا جائے کہ آنکھ جب کھلی تھی تو اس وقت ہمارے سامنے صرف وہی تھا جس نے آخر میں آنکھ کے کانٹوں کو کھینچ لیا تھا.

میں نے اس کتاب پر کسی موقع پر حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ کا وہ پر مغز اور حکیمانہ فقرہ نقل بھی کیا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے دین کا داعی بنا کر بھیجا تھا نہ کہ جابی, یعنی ٹیکسوں کے وصول کرنے کے لئے, خدا نے ان کو رسول نہ بنایا تھا جو سب سے زیادہ آدمیوں سے ٹیکس وصول کرنے میں کامیاب ہو۔ اگر لوگوں کے سامنے اسلامی نقطہ نظر سے بھی وہی سب سے بڑا کامیاب ہے اور محصول ادا کرنے والوں کی تعداد میں جو اضافہ نہ کر سکا وہی اسلام کا سب سے ناکام آدمی ہے تو اب ایسوں سے آپ ہی بتائیے کہ کیا بات کی جائے۔ ٹیکس ادا کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ کرنے والوں کی دنیا میں کب کمی رہی ہے. آج بھی اس زمین کے کرہ پر ایسی ایسی محصول وصول کرنے والی قومیں پائی جاتی ہیں کہ ان کے محصول ادا کرنے والوں کے سامنے سے کہتے ہیں کہ آفتاب کبھی غائب نہیں ہوتا۔ تاریخ کی مختلف منزلوں پر ایسی قومیں اور ایسے اشخاص نظر آتے ہیں۔ اگر فضائل و کمالات کا لے دے کر سارا معیار محصول ادا کنندوں کی تعداد کا اضافہ ہی ہے. اور صرف اسی معیار کو پیش کرکے حضرت علیؓ کے مقابلہ میں بنی امیہ کی حکومت سراہی جارہی ہے تو سراہنے والوں کا یہ گروہ اس وقت کیا کرے گا جب ان کے ہی سامنے ان کو لا لا کر کھڑا کر دیا جائے جن کے محصول ادا کنندوں کی تعداد کے مقابلہ میں بنی امیہ کے محصول ادا کرنے والے شاید وہ نسبت بھی تو نہیں رکھتے جو کسی سیاہ رنگ کی گائے کے سیاہ بالوں میں ان چند سفید بالوں کی ہوتی ہے جو کہیں کہیں پیدا ہو جاتے ہیں۔ ان سے پہلے بھی ایسوں کی کمی نہ تھی اور ان کے بعد بھی کمی نہیں رہی بلکہ شاید ان کے زمانہ میں بھی ایک سے زیادہ ایسی قومیں پائی جاتی تھیں.

یہ تو صحیح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جو چوتھے جانشین تھے ان کو پہلا جانشین یا خلیفہ اول کیسے کہا جاسکتا ہے۔ کیا واقعہ کا انکار کیا جائے, لیکن کہنے والوں نے جیسے یہ کہا ہے کہ خلافت کی یہ ترتیب ہر خلیفہ کی وفات کی ترتیب تھی ان میں سے کوئی ایک بھی اپنی جگہ سے ہٹ جاتا تو قدرت جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانشینی کے شرف سے مشرف کر چکی تھی وہ اس شرف سے محروم ہو جاتے۔ اسی طرح کم از کم میرا تو ذاتی خیال یہی ہے کہ ردہ کے داخلی فتنے سے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے باندھے ہوئے شیرازے کو بکھرنے سے بچانے کے لیے صدیقِ اکبرؓ کے آہنی ارادے کی ضرورت تھی. وہ نہ ہوتے تو جو کچھ بعد کو ہوا کچھ بھی نہ ہوتا اور اندرونی فتنے کو فرو ہو جانے کے بعد اسلام کی اس جدید اجتماعی طاقت کو منتشر کرنے کے لیے ایک طرف سے رومیوں اور دوسری طرف ایرانیوں کی خارجی قوتوں نے جب سر نکالا تو ان دونوں طاقتوں کو واپس کر کے خود ان پر چھا جانے کے لیے فاروقی عزم و ارادہ مسلمانوں کو عطا کیا گیا اور ثروت و دولت کا جو طوفان اس کے بعد مسلمانوں کے گھر گھر میں ابلنے لگا یقینا” اس بے ہوش و بدحواس کرنے والی دنیا کے ساتھ دینی زندگی کے مطالبات کی تکمیل شاید مشکل ہو جاتی اگر خدا کے اس راستباز بندے کا نمونہ مسلمانوں کے سامنے نہ ہوتا جو غنا اور تونگری کی بلند ترین منزلوں پر پہنچنے کے بعد بھی دین کے ہر ہر جزئی مطالبے کو زندگی کے آخری لمحوں تک پوری کرتا رہا۔ اگر ان سارے واقعات کا ظہور اسلام کی تاریخ میں ٹھیک اپنے اپنے وقت پر ہوتا رہا تو مسلمان قدرت کی اس غیبی امداد کے شکریہ سے کیا سبکدوش ہو سکتے ہیں کہ جب دین کو چاہا جا رہا تھا کہ دنیاوی جاہ و جلال, شوکت و اقتدار کا صرف ایک حیلہ اور بہانے کی حیثیت عطا کر کے اس کے سارے زور اور واقعت کو ختم کر دیا جائے. دنیا کو بھی دینی کامیابیوں کا ذریعہ بنا کر دنیا کو بھی دین بنا لیا جائے۔ جو اسلام اس کی تعلیم دینے کے لئے آیا تھا خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ کہیں اس کو بھی دنیا کی اس چلتی پھرتی چھاؤں کی تاریکیوں میں گم نا کر دیا جائے تو کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ اس وقت سب سے بڑی فیصلہ کرنے والی قوت عین وقت پر ہر چیز سے بے پرواہ ہو کر وہ سب کچھ کرنے کے لیے اگر تیار نہ ہو جاتی جس کے تصور سے بھی آج مسلمانوں کے رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ تو کیا اسلام جو صرف دین ہے دین کے سوا اور کچھ نہیں ہے, اپنے دین ہونے کی اس حیثیت کو برقرار رکھ سکتا تھا۔ نا سمجھنے والوں کو کون روک سکتا تھا؟

اسلام کے متعلق بھی اگر وہ یہی سمجھنے لگتے ہیں کہ جیسے بیسیوں حیلے مختلف ناموں سے سیاسی اقتدار کے حاصل کرنے کے لیے دنیا میں آئے دن تراشے جاتے ہیں, پہلے بھی تراشنے والے تراشتے رہے اور اب بھی تراش و خراش کا سلسلہ جاری ہے انہی تراشے ہوئے حیلوں میں ایک خود تراشیدہ حیلہ اسلام بھی ہے, تو الزام لگانے والوں کے اس الزام کی تردید کی آخر شکل ہی کیا ہوتی۔ ہر قسم کے اصول سے بے پرواہ ہو کر حصولِ مقصد کے لیے وقت کا جو اقتضا ہو اسے پورا کرنا چاہیے, کرنے والوں نے جب یہ کرنے کا ارادہ کرلیا تھا بلکہ یہی کرنے بھی لگے تھے اور شاید انہوں نے یہی کیا بھی ہو؟ تو خود ہی سوچنا چاہیے کہ جو کچھ کیا جا رہا ہے, شائستگی اور تہذیب کے پھیلانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ جیسے یورپ کی استعماری اور استبدادی قوتوں کے اس اعلان یا اسی قسم کے خوشنما دعووں کو سن کر لوگ مسکرا مسکرا کر رہ جاتے ہیں, کیا اسلام کو بھی تحقیری خندوں کے ان تھپیڑوں سے کوئی بچا سکتا تھا۔ مسلمان مر رہے ہیں مارے جا رہے ہیں, کٹ رہے ہیں اور کاٹے جارہے ہیں لیکن اسلام بچ رہا ہے اور بچایا جا رہا ہے۔ اس بلند حوصلہ اور فولادی عزم کے ساتھ خدا کے دین کی آخری مشکل کو بچانے کے لئے کھڑا ہونے والا اگر جمل اور صفین کے میدان میں سینہ تان کر کھڑا نہ ہو جاتا تو کیا اسلام کو وہ بچا لینے میں کامیاب ہو سکتے تھے؟ جو صرف مسلمانوں کو یا اپنے آپ کو مسلمان کہنے والوں کو بڑھانا چاہتے تھے بلکہ زیادہ صحیح ہے کہ ان مسلمانوں کے ٹیکس دہندوں کو بڑھانا چاہتے تھے اور یہ طے کرکے بڑھانا چاہتے تھے کہ اسلام اس کی وجہ سے گھٹ رہا ہوں تو گھٹنے دو۔

بہرحال لوگوں کا کچھ ہی خیال ہو لیکن اسلامی تاریخ کے طویل مطالعہ نے مجھے اس نتیجہ تک پہنچایا ہے کہ خلفاء اربعہ میں سے ہر خلیفہ کا وجود اس خاص وقت کی ضرورت کی پکار کا قدرتی جواب تھا۔ الحیات الدنیا جس میں آدمی قرآن کی رو سے کبھی خیر سے آزمایا جاتا ہے اور کبھی شر سے, اسی الحیات الدنیا کا وہ دور جو حضرت مرتضی علیہ السلام کے سامنے آ گیا تھا۔ یعنی ایک طرف اسلام تھا اور دوسری طرف مسلمان تھے, ان دونوں چیزوں میں پیدا کرنے والوں نے ایک ایسا تعلق پیدا کر دیا تھا کہ ایک کو اگر پکڑا جاتا ہے تو دوسری چیز بگڑتی ہے۔ پھر کیا جائے, ایک ایسا مشکل مسئلہ تھا کہ قضاہم کی قوت فیصلہ اگر مسلمانوں کو اس وقت نہ مل جاتی تو ممکن تھا کہ مسلمان نام رکھنے والی کوئی قوم دنیا میں رہ جاتی لیکن اسلام بھی باقی رہتا یا نہیں اس کی پیشگوئی مشکل تھی اور سچ تو یہ ہے کہ اسلام کے غائب ہو جانے کے بعد یہ کہنا کہ مسلمان قوم تو باقی رہ گئی کچھ بے معنی سی بات ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ مسلمانوں کے مقابلہ میں مسلمانوں کو صف آرا کرنے میں لوگ کامیاب ہو چکے ہیں۔ مسلمانوں کے امام اور خلیفہ کے سامنے ایک عجیب صورت حال پیش ہوتی ہے کہ کیا کیا جائے, ان کے مقابلہ میں تلوار اٹھائی بھی جائے یا نہ اٹھائی جائے۔ پھر تو جنگ میں ان کے ساتھ بھی وہی طریقہ اختیار کیا جائے جو غیر مسلموں کے ساتھ اختیار کیا جاتا ہے۔ ان کے زخمیوں کے ساتھ کیا برتاؤ کیا جائے, شکست کھانے والے جس مال و متاع کو چھوڑ کر بھاگیں گے اس کا انجام کیا ہو گا۔ الغرض یہ اور ایسے بیسیوں پریشان کن سوال تھے جنہیں وہی حل کر سکتا تھا جسے پیغمبرﷺ کی زبان مبارک نے مسلمانوں کا سب سے بڑا قاضی قرار دیا تھا۔ قدرت کی ان مصلحتوں کو کون جانتا تھا کہ اسلام جب ان الجھنوں سے دوچار ہو گا تو الجھنوں کی سب سے بڑی سلجھانے والی طاقت کے ہاتھ میں اسلام کی سیاسی باغ اسی زمانے میں آجائے گی۔ امام ابو حنیفہؒ کا اسی سلسلے میں ان کے مشہور شاگرد نوح بن دراج جو یہ قول نقل کیا کرتے تھے یعنی جب حضرت علیؓ کے زمانے کے واقعات (جمل و صفین) کے متعلق امام سے پوچھا جاتا تو نوح کہتے ہیں کہ امام اس کے جواب میں فرماتے ہیں کہ “حضرت علیؓ نے ان مواقع میں عدل کی روش اختیار کی اور مسلمان باغیوں کے ساتھ اسلامی حکومت کو کیا برتاؤ کرنا چاہیے اس کے قوانین حضرت علیؓ ہی نے سکھائے اور بتائے۔” امام کے ان مختصر الفاظ کی وہی تشریح ہے جو میں نے اس سے پہلے درج کی۔ “عدل کی روش” سے مرتضی علیہ السلام کے اس متوازن فیصلہ کی طرف اشارہ ہے جس سے انہوں نے اس موقع پر صادر کیا۔ اہل بغی کے ساتھ جنگ کے قوانین سو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ گو واقعہ بعد کو پیش آیا لیکن وقوع سے برسوں پہلے قرآن میں آیت نازل ہوچکی تھی یعنی ترجمہ “ایمان والوں کے دو گروہ آپس میں اگر لڑ پڑیں تو ان میں جس نے سرکشی اختیار کی ہو اسی گروہ سے مسلمانو جنگ کرو تا این کہ خدا کے فیصلہ پر معاملہ جائے (یعنی جو حق پر ہو وہ غالب ہو جائے)”

لیکن ظاہر ہے کہ جیسا کہ قرآن کا قاعدہ ہے جس قانون کو بھی اس نے دیا ہے اسی قسم کے اجمال کے رنگ میں دیا ہے اس وقت اندازہ کرنا مشکل ہے لیکن پہلی دفعہ جب یہ صورتِ حال پیش آئی ہوگی قرآن کے اس اجمالی قانون کے تمام تفصیلات کا سوچنا اور ہر ایک کے متعلق فیصلہ صادر کرنا کتنا دشوار ہوگا۔ لیکن جنگ جمل و صفین کے حالات پڑھیے اور دیکھیے اس بوکھلا دینے والے ماحول میں بھی مرتضی علیہ السلام نے کتنے ٹھنڈے دماغ سے ہر موقع پر اس کے مناسبِ حال رائیں قائم کی ہیں, ان پر خود عمل کیا ہے اور جہاں تک آپ کے امکان میں تھا دوسروں سے عمل کرایا ہے۔

خدا جانے لوگ کس طرح سوچتے ہیں, میرا حال تو یہ ہے کہ حضرت امامؒ نے جیسے یہ فرمایا کہ اہل بغاوت سے جنگ کے قوانین کی تعلیم حضرت علیؓ ہی نے دی۔ اسی کے ساتھ میں یہ کہتا ہوں کہ حکومت کے جس نظام کو اسلام نے پیش کیا ہے اس میں شک نہیں کہ خلفائے راشدین میں سے ہر ایک نے اپنے عملی نمونوں سے اس نظام پر عمل کرکے دکھایا ہے۔ لیکن یہ بات کہ اپنے اس نظام کے قائم کرنے پر اسلام کو اتنا اصرار ہے کہ خواہ کچھ بھی ہو جائےمسلمانوں کا خون پانی سے زیادہ ارزاں نظر آنے لگے لیکن ہر قیمت پر اس نظام کے قائم کرنے کی کوشش میں مسلمانوں کو آخر وقت تک منہمک رہنا چاہیے۔ اسلامی نظامِ سیاست میں اتنی اہمیت صرف حضرت علی کرم اللہ وجہ کے عملی نمونے نے پیدا کردی ہے۔ اس راہ میں ادنیٰ سے ادنیٰ چشم پوشی یا مسامحت سے اگر وہ کام لیتے تو شاید نتیجہ نکالنے والے بعد کو نتیجہ نکال لینے کا اس کو بہانہ بنا لیتے کہ حکومت کے جس معیار کو خلفائے راشدین نے دنیا میں قائم کرکے دکھایا تھا, تھی تو وہ ایک معیاری حکومت لیکن اس میں ان بزرگوں کی ذاتی نیک نفسیوں کو دخل تھا ۔ خواہ مخواہ حکومت کے اسی قالب پر اصرار کرنے کی ضرورت مسلمانوں کو نہیں ہے جیسا کہ ایک بڑا گروہ خواہ زبان سے اس کا اظہار کرتا ہو یا نا کرتا ہو, لیکن دل میں شاید یہی سمجھتا رہا یا ممکن ہے اب بھی سمجھتا ہو لیکن صرف حضرت علی کرم اللہ وجہ کا طفیل ہے کہ عمل کر کے انہوں نے جو کچھ دکھایا یا زبان سے جو کچھ فرمایا وہ تو خیر اپنی جگہ پر قائم ہے اور اس میں ان کی ذات تنہا نہیں ہے, لیکن حکومت کے اس نظام کو جو بدلنا چاہتے تھے ان کے مقابلہ میں ہر قسم کی مصلحت اندیشیوں سے بے پرواہ ہو کر آستینیں چڑھائے سر بکف میدان میں کود جانا اور اس طور پر کود جانا کہ بولنے والے تو صرف زبان سے بولتے ہیں کہ ہم اپنے نصب العین کے لئے اپنے خون کا آخری قطرہ بھی بہانے کے لیے تیار ہیں, لیکن جمل و صفین میں یہ کر کے دکھا دیا گیا کہ دس پانچ نہیں ہزار ہا ہزار بقول بعض لاکھوں تک نوبت قتل و شہید ہونے والے مسلمانوں کی پہنچی چلی جاتی تھی, کشتوں کے واقعی پشتے لگتے چلے جاتے تھے,مسلمانوں کی لاشوں کا پہاڑ جمع ہوتا چلا جا رہا تھا, لیکن یہ حد تھی کسی نسب العین پر اصرار کی کہ کسی قسم کا کوئی حادثہ یا کوئی مصلحت ان کو بال برابر بھی اس سے نہ ہٹا سکی۔ میں نہیں جانتا کہ کسی نصب العین کے حصول کی کوشش میں ان کی نظیر انسانیت کی تاریخ پیش کرسکتی ہے؟ سب کچھ اسی راہ میں لٹا دیا گیا بلکہ کربلا کے میدان میں تو اسی نصب العین کے پیچھے علیؓ کے گھرانے کا ایک ایک بچہ قربان ہو گیا اور اب سمجھ آتی ہے اہمیت اس سیاسی نظام کی جسے اسلام نے دنیا میں پیش کیا ہے۔ لوگوں نے اس پر بعد کو عمل کیا یا نہیں یہ الگ سوال ہے, لیکن جمل و صفین و واقعہ کربلا کے خون سے جریدہ روزگار پر جس نہ ختم ہونے والے اسرار کا نقشہءِ دوام قائم ہوگیا ہے کیا اس کو کوئی مٹا سکتا ہے اور جب تک کہ نقش قائم ہے اسلامی نظامِ سیاست کی اہمیت بہرحال دنیا میں قائم رہے گی۔

Muhammad Arif Gul