خطبۂ زینب، یزید کے دربار میں ۔فہمیدہ ریاض

حضرتِ زینب کھڑی تھیں اپنے خیمے کی قریب

اُن کی آنکھیں دیکھتی تھیں آخری منظر مہیب

چار سُو بوچھاڑ خوں کی، ہر طرف شورِ وِغا

روزِ محشر ہی تو اُس دن کربلا میں تھا بپا

دور تک آنکھوں کے تارے خاک پر بکھرے ہوئے

حضرتِ زینب کے پیارے خون میں لتھڑے ہوئے

دو جواں بیٹوں کی لاشیں سامنے رکھی ہوئیں

جاں سے پیارے سربریدہ بھائی کی میّت قریں

دوڑتے گھوڑے جو نعشیں روندتے تھے سر بسر

پڑ رہے ہوں گے وہ سُم زینب کی چشم و قلب پر

ایسی لاوارث کہ جن پر رحم کھاتے ہیں سماج

سارے اہلِ بیت کی خود والی و وارث ہیں آج

آپ ہیں اب اپنا لشکر، آپ ہیں اس کا علم

بابِ نو تاریخ کا اب اُن کو کرنا ہے رقم

نے تبر نے تیر نے شمشیر دستِ پاک میں

ہاں مگر دامن میں بے حد پر اثر الفاظ تھے

نطق جو اِنسانیت کی اوّلیں پہچان ہے

اور تاثیرِ بیاں تہذیب کی جو جان ہے

ابّ و جد کی بے بہا میراث لشکر کا نشاں

جوش میں آئی فصاحت، زور میں سیلِ بیاں

مرحبا بنتِ علی و فاطمہ صد مرحبا

بالمقابل تیغِ برّاں کیا علم لہرا دیا

ظلم سے سہمی ہوئی خلقت کا خوں گرما دیا

شہرِ کوفہ کے مکینوں کو لہو رُلوا دیا

سر زمینِ شام اور کوفے میں جس کی گونج تھی

کیا وہ اِک قیدی زنِ بے چارہ کی آواز تھی

فاتحوں کا فخرِ نصرت مل رہا تھا خاک میں

صرف بے چینی تھی غالب ہر دِلِ ناپاک میں

دستِ زینب اُن کے چہروں پر سیاہی مل گیا

روبرو درباریوں کے سب کو رُسوا کر گیا

وار کاری سے فصاحت کے نہ اُس کو سہ سکے

تھیں زبانیں گنگ اُن کی صرف اِتنا کہہ سکے

“باپ کی مانند ہم سے گفتگو کرتی ہیں یہ

چھوٹے چھوٹے اِن کے فقرے ہیں، بڑی تاثیر ہے”

پا برہنہ خستہ تن گلیوں میں پھروائی گئیں

رسّیوں میں باندھ کر دربار میں لائی گئیں

سامنے سفّاک قاتل تخت پر بیٹھا ہوا

تشت میں رکھا ہوا سر سیّدِ ابرار کا

اب کہاں کا خوف، کیا اندوہ، کیسی مصلحت

شام کے دربار میں یہ معجزہ تھا رُونما

جل گئی خاشاک سب، شعلہ ہویدا ہو گیا

صرف روحِ مرتضیٰ زینب کے پیکر میں نہ تھی

اِس تجلّی میں بھڑکتی روح تھی اِنصاف کی

جِس کے آگے کچھ نہیں ہے حاکموں کا جاہ و نام

بے جھجک، بے خوف، بے ابہام ہے جس کا کلام

“اک بھیانک ظلم ڈھایا تو نے اے قاتل یزید

مت سمجھ تیرے لئے ہے فتح و نصرت کی نوید

پست کا آخر ہے جس کو تو سمجھ بیٹھا ہے اوج

مشت بھر تھے مرد و زَن جن پر چڑھائی تو نے فوج

خونِ ناحق دیکھتا تھا عرش پر ربّ کریم

تو نے پہنچایا ہے خود کو ایک نقصانِ عظیم

قہر تو نے ہم پہ ڈھایا، جو ستم ہم پر کیا

تو نے کاٹی اپنی شہ رگ، اپنا خوں تو نے پیا

اہلِ بیتِ مصطفےٰ جامِ شہادت پی چکے

سر کشیدہ تھے جہاں میں، سرخ رو رخصت ہوئے

جگمگاتے ہیں فلک پر، یاد رکھے گی زمیں

اب تیرے رُخ کی سیاہی مٹ نہیں سکتی لعیں

تیری سفّاکی پہ ہر کوچے میں شور و شین ہے

لائقِ تعزیر ہے تو، قابلِ نفرین ہے”

سامنے ٹکڑے ہوئے تھے جن کے سب پیاروں کے تن

چھوڑ کر آئیں تھیں جو میداں میں لاشیں بے کفن

بے پنہ صدموں کی شدّت پر سفر وہ پُر محن

اِس قدر مظلومیت پر ایسا خطبہ پُر جلال

مل نہیں سکتی ہمیں تاریخ میں ایسی مثال

پیش کرتی ہے اُنھیں اِنسانیت زرّیں خراج

عالمِ نِسواں کے سر پر آپ نے رکّھا ہے تاج