وحید الدین خان

‎مولانا وحید الدین خان آزاد منش مذھبی اسکالر تھے اور اُن کے ہاں ویسے تو مذاھب عالم بارے بڑی وسعت پائی جاتی تھی لیکن وہ اہلسنت کے صوفی مسلک اور شیعہ فرقہ دونوں کو قرآن اور اسلام کے متوازی مذاھب خیال کرتے تھے – ان کا خیال تھا کہ تصوف اور شیعہ دین اسلام کا حصہ نہیں بلکہ یہ اُن کے متوازی مذاھب ہیں، اس بات کا اظہار انھوں نے کئی جگہوں پہ کیا-

‎مولانا وحیدالدین خان اور بھی کئی معاملات میں رائے کی شدت کے حامل تھے لیکن وہ کسی بھی فرقے اور مذھب کے ماننے والوں کو اُن کے نظریات کی بنیاد پہ نشانہ بنانے کے حق میں نہیں تھے –

‎اُن کی کتاب “ظہورِ اسلام” سے ایک اقتباس پیش خدمت ہے

‎اسی طرح ان کی بعض تحریروں میں ناصبیت اور بغض اہلبیت کی جھلک نمایاں ہے ۔ بالخصوص الرسالہ میں امام حسین کو انہوں نے جاہ طلب اور مؤجب فساد قرار دینے کی ناپاک جسارت کی –

اس پوری لڑی جس کے سرخیل ابن تیمیہ اور ابن قیم ہیں اور برصغیر میں سید احمد شہید۔ شاہ اسماعیل، سر سید، پرویز، فراہی، اصلاحی، غامدی، راشد شاز تک کے ہاں یہی رجحان پایا جاتا ہے۔ یہ لوگ بڑی خوبصورتی اور دھیمے مزاج سے تکفیر کرتے ہیں جس کو مروجہ فقہی قوانین کے تحت تکفیر تو نہیں کہا جا سکتا لیکن “متوازی دین” اور “متصادم قرآن” جیسی شدید اصطلاحوں کا عملی تکفیر کے علاوہ کوئی اور منطقی نتیجہ بھی نہیں نکلتا۔

نزول مسیح اور تصور مہدی کے موضوعات پر بھی ان کی رائے مستند احادیث سے متصادم رہی ۔ وہ نہ ہی نزول مسیح کا قائل ہیں اور نہ ہی امام مہدی کے وجود کے قائل ہیں – وحید الدین خان نے مرزا غلام احمد قادیانی کے دفاع میں لکھا کہ اس نے نبوت کا کبھی دعوی نہ کیا تھا ۔ اسی طرح سلمان رشدی کے دفاع میں بھی سر گرم رہے ۔ مودودی صاحب کے مقابل میں فوجی آمر ایوب کے کیے نرم گوشے کا اظہار کیا

سنہ 2004 میں وہ سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی حمایت کے لیے بنائی گئی ’واجپائی حمایت کمیٹی‘ کے ایک اہم رکن تھے اور مسلمانوں سے بی جے پی رہنما کو فتح یاب کرانے کی اپیل کی تھی۔

پروفیسر محمد ریاض کہتے ہیں کہ ’مولانا کی عمدہ علمی فضیلت کے باوجود میں اس تصویر کو نہیں بھلا پاتا۔ بابری مسجد کے انہدام کے بعد اور سنہ 2002 میں گجرات تشدد کے باوجود بھی وہ اس کے ذمہ دار افراد سے کیسے امن کے لیے پرامید ہو سکتے تھے۔‘