وصیت امام علی علیہ السلام

”میں تم دونوں (حسن اور حسین ع) کو وصیت کرتا ہوں کہ تقویِٰ الہی اختیار کئے رہنا اور دنیا تمھاری کتنی ہی طلب گار ہو تم دنیا کے طلب گار نہ بننا اور دنیا کی جس چیز سے تمھیں محروم کردیا جائے اس کا غم نہ کھانا، جو کہو حق کی حمایت میں کہو اور جو عمل کرو اجرِ الہی کیلئے کرو ،ظالم کے مخالف اور مظلوم کے مدد گار رہو۔

میں تم دونوں کو اور اپنی تمام اولاد کو اور اپنے کنبہ کو اور جس کے پاس بھی یہ میری تحریر پہنچے وصیت کرتا ہوں کہ اللہ کا تقوی اختیار کریں، اپنے ہر کام میں نظم کا خیال رکھیں اور باہمی تعلقات درست رکھو کیونکہ میں نے تمھارے نانا حضرت محمد مصطفی ۖ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ لوگوں کے درمیان اصلاح کرنا ایک سال نماز روزے سے افضل ہے۔

دیکھو! یتیموں کے بارے میں اللہ کو یاد رکھو ایسا نہ ہو کہ انہیں فاقہ کرنا پڑے اور نہ ایسا ہونے پائے کہ وہ تمھارے سامنے (کسمپری کی حالت میں) ضائع ہوجائیں اور خدا سے ڈرتے ہوئے اپنے پڑوسیوں (کے حقوق) کا خیال رکھنا، کیونکہ وہ تمھارے نبی کی وصیت (کے مصداق) ہیں ،آپ برابر ان کے بارے میں وصیت و نصیحت فرماتے رہے یہاں تک کہ ہمیں گمان ہوا کہ آپ انھیں حق وراثت بھی عطا کرنے والے ہیں۔

اور دیکھو قرآن کے بارے میں خدا کو نہ بھولنا, ایسا نہ ہوکہ اور لوگ اس (کے احکام) پر عمل کرنے میں تم سے آگے نکل جائیں۔ نماز کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہو کیونکہ یہ تمھارے دین کا ستون ہے ۔ اور خدارا اپنے پرودگار کے گھر کو جب تک جیتے رہو خالی نہ چھوڑنا کیونکہ اگر اسے چھوڑ دیا گیا تو تمہیں مہلت نہیں ملے گی اور بلا میں گرفتار ہو جاؤ گے’۔

اور خدا کی راہ میں مال، جان اور زبان سے جہاد کرنے کے بارے میں خدا کو یاد رکھنا۔ باہمی تعلقات کو استوار رکھنا اور آپس کی داد و دہش میں فرق نہ آنے دینا اور خبر دار نہ ایک دوسرے سے پیٹھ پھیرنا، نہ ایک دوسرے سے الگ رہنا۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ترک نہ کرنا ورنہ بد کردار لوگ تم پر مسلط کر دئیے جائیںگے پھر دعائیں بھی مانگو گے تو قبول نہ ہونگی۔

اے اولادِ عبد المطلب! خبردار ایسا ہرگز نہ ہونے پائے کہ (میرے قتل کا بدلہ لینے کے لئے) تم مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے لگو ”امیر المومنین قتل کر دئے گئے۔

‘یاد رہے کہ میرے قصاص کے طور پر صرف میرے قاتل کو ہی قتل کرنا ، اس کی ضربت سے اگر میری موت واقع ہوجائے تو قاتل کو ایک ضربت کے بدلے ایک ہی ضربت لگانا اور (دیکھو) اس شخص کی لاش مثلہ نہ کی جائے (ناک کان اور اس کے دوسرے اعضاء نہ کاٹے جائیں) کیونکہ میں نے رسول خدا ۖ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”خبردار کسی کی لاش کو مثلہ نہ کرنا اگر چہ کاٹنے والا کتا ہی کیوں نہ ہو”

_____________________

(حوالہ جات)

(1):ابو حاتم سجستانی ،المعمرون و الوصایا : ص١٤٩ ۔تاریخ طبری :ج٦ ص٨٥ ۔تحف العقول:ص١٩٧۔من لا یحضرہ الفقیہ :ج٤ ص١٤١۔کافی :ج٧ :٥١۔مروج الذھب (ج٢ ص٤٢٥ میں اس کا کچھ حصہ نقل کیا گیا ہے ۔مقابل الطالبین :ص٣٨.

(2) نہج البلاغہ مکتوب نمبر ٤٧۔

(3) مناقب آل ابی طالب :ج٣، ص٣١٣۔ تذکرة الخواص: ص١١٢ ۔ تاریخ یعقوبی: ج ٢،ص٢١٣۔