بے چہرگی – کیا طالبان، لشکر جھنگوی اور القاعدہ بے چہرہ اور بے شناخت ہیں؟ عامر حسینی

ہمارے ہاں بہت سے ایسے سادہ لوگ بھی موجود ہیں جو صدق دل سے یہ خیال کرتے ہیں کہ مسلمان جو ہوتے ہیں وہ نہ تو مساجد پر حملہ کرتے ہیں-نہ ہی امام بارگاہوں کو نشانہ بناتے ہیں-نہ ہی وہ غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کو نشانہ بناتے ہیں-ان کا یہ بھی خیال ہے کہ مسلمان بچوں،عورتوں اور معصوم شہریوں کو بھی نشانہ نہیں بناتے-وہ یہ تسلیم کرنے سے قاصر ہیں کہ مسمانوں کے کسی بھی مسلک سے تعلق رکھنے والا کوئی فرد اس طرح کے فعل میں ملوث ہوسکتا ہے-
یہ لوگ اس بات سے بھی انکاری ہیں کہ کوئی مسلم فرقہ مسلمانوں کے دوسرے فرقوں اور غیر مسلم مذاھب کے ماننے والوں پر حملہ کرنے کی ترغیب ان کے عقیدے کے طور پر دے سکتا ہے-
یہ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ طالبان ،القاعدہ،لشکر جھنگوی وغیرہ وغیرہ اصل میں بے نام،بے چہرہ اور فیک شناختیں ہیں-ان کے پس پردہ امریکہ،اسرائیل اور انڈیا کی خفیہ ایجسنیوں کے ہائر کردہ ایجنٹ ہیں-وہ ان تنظیموں کا کسی فرقہ کی آئیڈیالوجی سے تعلق ماننے اور ان کی پرداخت میں مقامی عوامل کے ہونے سے انکاری ہوجاتے ہیں-
میں ایسے لوگوں میں صرف اور صرف پہلے ان تنظیموں کو شمار کیا کرتا تھا جو القائدہ اور طالبان جیسے لوگوں کے پالنہار ہیں اور ان کی نظریاتی آبیاری میں ان کا بہت بڑا کردار ہے-مگر اب مجھے اپنا خیان بدلنا پڑرہا ہے-کیونکہ اس میں وہ لوگ بھی شامل ہوگئے ہیں جو بہت تعلیم یافتہ بھی ہیں-اکثر مغربی تعلیمی اداروں سے پڑھ رہے ہیں یا وہاں پر رہتے ہیں-اور یہ لوگ بھی ان خیالات کا اظہار کرنے لگے ہیں-
میں ایسے لوگوں کی بے خبری کو لاعلمی پر محمول کرتا ہوں-کیونکہ ایک تو یہ مسلم فرقوں کے نظریہ ساز لوگوں کی تحریروں تک رسائی نہیں رکھتے-اکثو تحریریں اردو،عربی اور فارسی میں ہیں جن کا مطالعہ شايد ان کے لیے وہاں استعمال ہونے والی ثقیل ٹرمنالوجی کی وجہ سے ممکن نہیں ہے-
میں ان لوگوں کی خدمت میں چند معروضات رکھنا چاہتا ہوں-سب سے پہلے تو میں ان لوگوں کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ان کو مسلم تاریخ میں خوارج ،بنو امیہ و بنو عباس کے ادوار حکمرانی کی تاريخ اور ان کے ادوار میں ہونے والے واقعات کو غور سے پڑھنا چاہئے-مسلمانوں کے دو خلیفہ حالت نماز میں شہید کردئے گئے تھے-اور یہ قتل مسجد میں ہوئے تھے-جبکہ مسلمانوں کا ایک خلیفہ اپنے گھر ایسی حالت میں شہید کیا گیا تھا جب وہ قران کی تلاوت کررہا تھا-اور ان کو شہید کرنے والے مسلمان تھے-
اللہ کا گھر بیت اللہ کو بنو امیہ کے حکمران عبدالمالک بن مروان کے حکم پر مسلم بن عقبہ نے پتھر مارکر تباہ کر ڈالا تھا-مسجد نبوی میں گھوڑے باندھے گئے تھے اور مکّہ و مدینہ کے شہریوں کو قتل ان کی عورتوں سے زنا جبری طور پر کیا گیا تھا-یہ سب کرنے والے بھی خود کو مسلمان کہتے تھے-کوفہ میں مسلم بن عقیل کے معصوم بچوں کا متل اور کربلاء میں نواسہ ء رسول کا قتل اور اہل بیت کی عورتوں سے چادریں چھین لینے ،ان کے حیمے جلانے اور ان کو پابازنجیر کرکے کوفہ و دمشق کی گلیوں میں پھرانے کا کام بھی خود کو مسلمان کہلانے والوں نے کیا تھا-
کیا آپ کو علم ہے کہ بنو امیہ کی حکمرانی میں جب معاویہ برسراقتدار آئے اس وقت سے لیکر عمر بن عبدالعزیز کے آنے سے پہلے تک اور ان کے مرجانے کے بعد پھر سے بنو امیہ کے اقتدار کے خاتمے تک بلاد اسلامیہ کی تمام جامع مسجدوں کے خطبہ جمعہ اور خطبہ عیدین کے موقعہ پر منبر پر خطباء کو حکم تھا کہ وہ حضرت علی اور ان کے ساتھیوں پر سرعام لعنت بھیجیں اور ان پر سب کریں؟
کیا آپ کو علم ہے کہ عباسی خلیفہ معتصم باللہ کے دور میں شہزادہ ابوبکر نے سرکاری فوج کے ساتھ بغداد کے محلے کرخ پر دھاوا بولا تھا اور وہاں کی ساری آبادی کو تہہ تیغ کردیا تھا-اور وہآں تمام مکانات کو جلاکر راکھ کردیا گیا تھا-اور اس کرخ محلے کی ساری آبادی شیعہ تھی-یہ وہ محلہ ہے جہاں امام موسی کاظم کی اولاد کی اکثریت آباد تھی؟
کیا آپ کو علم ہے کہ محمود غزنوی نے وسط ایشیا،افغانستان اور ہندوستان میں اکثر ان شہروں پر حملے کئے جہاں جہاں اثناء عشری اور اسماعیلی شعیہ آباد تھے اور ان ساری آبادیوں کو تہہ تیغ کردیا گیا اور ان کی عورتوں اور بچوں کو لونڈیاں اور غلام بنالیا گیا-بچوں سے لواطت جیسا بھیانک کام بھی کیا گیا؟تہہ تیغ ہونے والوں میں ملتان کے شیعہ بھی شامل تھے-اور ملتان شہر کو جلاکر راکھ کردیا گیا تھا-اور بچ جانے والوں کو عقیدے کی تبدیلی پر بھی مجبور کیا گیا تھا-
کیا آپ کو معلوم ہے کہ نجد سے اٹھنے والے محمد بن عبد الوہاب اور سعود کی قیادت ميں عربی وہابی بدؤں نے مکّہ ،مدینہ،طائف اور نجف اشرف پر دھاوا بولا اور وہاں رہنے والے اہل سنت اور شیعہ کا قتل عام کیا-لوٹ مار کی-عورتوں کو لونڈیاں بنا لیا اور ان شہروں کو زبردستی وہابی عقیدہ اختیار کرنے پر مجبور کیا؟
کیا آپ جانتے ہیں کہ ایسا ہی کام شاہ ولی اللہ کے پوتے شاہ اسماعیل دھلوی اور احمد بریلوی نے بالا کوٹ اور خیبر پختون خوا کی عوام کے ساتھ کرنے کی کوشش کی تھی اور مارے گئے تھے؟
عقیدے کے نام پر مغل بادشاہ اورنگ زیب نے شہزادہ دار شکوہ،سرمد سرمست،گرو گوبند سنگھ ،قاضی نور اللہ شوستری سمیت کئی شیعہ،سکھ،صوفی سنّی لوگوں کو مروادیا تھا اور سکھوں،شیعہ اور صوفی مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو مسمار کرڈالا گیا-شیعہ کو فتاوی عالمگیری میں کافر قرار دے دیا گیا-یہ اورنگ زیب نے ایک ہزار مولویوں سے تیار کرایا تھا-
کیا آپ کو معلوم ہے کہ تاریخ میں سب سے پہلے مسلم عالم علامہ ابن تیمیہ نے شیعہ اور صوفی سنی مسالک کو یہودی اور نصرانی مذاھب کی کاپی قرار دیا اور سواد اعظم اہل سنت تر شرک کا الزام لگایا-اسی عالم کی تعلیمات سے متاثر ہوکر مجمد بن عبدالوہاب نجدی نے اپنے مسلک کی بنیاد رکھی تھی جس کو عرب میں سلفیت اور ہندوپاک میں وہابیت کے نام سے جانا جاتا ہے-
سلفی مسلک کی بہت بنیادی کتابیں علامّہ ابن تیمہ کے فتاوی جات کا مجموعہ،ابن وہاب کے مجموعہ فتاوی،کتاب التوحید ،کتب ہائے تصانیف حافظ ابن قیم و ابن الہادی،اور برصغیر میں نواب صدیق خاں قنوجی کی تصانیف،اسماعیل دھلوی کی “تقویۃ الایمان اور شیخ الاساتذہ مفتی اعظم رشید گنگوہی کا مجموعہ فتاوی ہیں-
ان بنیادی کتب پر ہی شیخ ابن باز،ناصر البانی ،حق نواز جھنگوی ،فاروقی،اعظم طارق ،امیر حمزہ،عبدالرحمان مکی اور ان تمام لوگوں کی تصانیف اور تحریریں ہیں جو آج عالمی جہاد کے علمبردار ہیں-اور تکفیری فتنہ کا ظہور جدید بھی انہی بنیادی کتابوں سے اخذ کردہ نتايج کا نتیجہ ہے-اگر آپ ان کتب اور ان سے نکلنے والے عقائد و خیالات سے بے خبر ہیں تو پھر آپ تحریک طالبان،القائدہ،لشکر جھنگوی سمیت دنیا بھر کی دھشت گرد تنظییمں کے مجاہدوں کے لیے ڈرائیونگ فورس کا پتہ چلانے میں کبھی کامیاب نہیں ہوں گے اور سازشی تھیوریز میں الجھے رہیں گے-
ان تکفیری لشکروں کے فٹ سولجرز اور دوسرے درجے کے سپاہیوں کو سعودیہ عرب،قطر،بحرین،پاکستان،ترکی سمیت اور دوسرے ملکوں کی جانب سے ملنے والی مدد کے اغراض و مقاصد سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی کیونکہ یہ تو ان کتابوں اور تقریروں سے ملنے والی عقیدے کی افیون میں مست ہوجاتے ہیں-یہی وجہ ہے کہ جب عالمی جہاد کا نعرہ امریکی سپورٹ سے لگا تو عرب و پاک و ہند و افریقہ سے اس آئیڈیالوجی سے متاثر ہونے والے دھڑا دھڑ افغانستان چلے آئے-
سلفی لٹریچر اور سلفی تبلیغ و پروپیگنڈا کے مراکز سرکاری اور غیر سرکاری امداد سے جہاں جہاں قائم ہوئے وہاں وہاں اس مسلک سے ہٹ کر دوسرے مسالک کے لوگوں کے عقائد،کلچر،رسوم رواج اور ان کی مذھبی تقریبات کا انعقاد روز بروز خطرے میں پڑتا چلا گیا-عید میلاد النبی،عاشور کے جلوس،عرس ہائے بزرگان دین ،مزارات،مساجد،امام بارگاہیں،بازار،محلے ،چرچ سبھی حملے کی زد میں آگئے اور جتنے غیر سلفی لوگ تھے چاہے وہ مسلم تھے یا غیر مسلم وہ سب نشانے پر آگئے-جبکہ جہاں جہاں سلفی آئیڈیالوجی سفر کرکے گئی وہاں وہاں تکفیری بازار گرم ہوگیا اور غیر سلفی مسالک کی عوام،علماء،سول و ملٹری آفیسر سب کے سب نشانہ پر آئے-اور اس کے ساتھ ساتھ ان ملکوں میں سوشلسٹ،کمیونسٹ،سیکولر،لبرل اور پروگریسو بھی نشانے پرآئے-
سلفی اسلام جہاں گیا وہاں آرٹ،فلم،تھیٹر،رقص،ڈرامہ،موسیقی،مصوری بھی نشانے پر آئے-مقامی ثقافتوں سے آنے والا ڈریس کلچر کو بھی سلفیوں نے اپنے دریس کلچر سے بدلنے کی کوشش کی-یہ آئیڈیالوجی آحری شکل میں تکفیر مسلسل کی شکل میں ظہور پذیر ہوتی ہے-اور یہ آج کے عالمی جہاد اور پوری دنیا پر اسلامی حکومت قائم کرنے کا خواب دیکھنے والوں اور اس کے لیے خود کش جیکٹوں کو اپنے سینے پر باندھ کر پھرنے والوں نے اپنے منشور اور مینی فیسٹو کی شکل دے رکھی ہے-اس کے باوجود بھی میرے بہت سے دوست ان کو بے چہرہ کہتے ہیں اور بے نام کہتے ہیں-
تکفیر مسلسل کا تاج پہنے ہوئے لوگ نہ تو بے نام ہیں اور نہ ہی بے چہرہ ہیں-یہ ہمارے ہی آس پاس جنم لینے والے لوگ ہیں جن کو تکفیری فتوؤں اور تکفیر مسلسل کی تبلیغ کرنے والے مبلغوں جیسے حق نواز،احسان الہی ظہیر ،فاروقی ،اسامہ بن لادن ،ایمن الظواہری ،عبدالحمان نابینا ،یوسف القرضاوی تھے نے اس مشن پر راضی کیا-ان میں اکثر لوگ آج وہ ہیں جنہوں نے نہ تو ریگن کا دور دیکھا اور یہ لوگ ضیاء کے دور میں کسی ڈالر سے محروم رہے مگر انہزں نے آل سعود کے ریال اور ترکیوں کے لیرا کی خوشبو ضرور سونگھی ہوئي ہے-
ایک کالمسٹ ہیں جو پی ایچ ڈی کررہی ہیں اور ادیب و شاعرہ بھی ہیں اور مارکسسٹ آئیڈیالوجی سے متاثرہ بھی انہوں نے میرے ایک کالم “طالبان خان کے فکری مغالطے “پر تبصرہ کے دوران “طالبان کی بےچہرگی “کا تذکرہ کیا تو میں حیرانی کے سمندر میں غرق ہوگیا اور میں نے ان کو جو جواب لکھا وہ اس قدر اہم مجھے لگا کہ میں اس جواب کو من و عن اس آرٹیکل کا حصّہ بنا رہا ہوں-مانتا ہوں کہ اس سے یہ مضمون بہت طویل ہوجائے گا مگر یہ حصّہ اکر شامل مضمون نہ ہوا تو بات ادھوری اور خام رہ جائے گی-
” ور یہ جو آپ نے کہا کہ طالبان بے چہرہ اور بے نام ہیں یہ سادگی کی حد تک بے خبری ہے-پاکستان میں جنوبی وزیرستان اور شمالی وزیرستان و خیبر ایجنسی میں ان کے مراکز میں نے خود جاکر دیکھے-وہاں پر پڑھائے جانے والے لٹریجر اور ان کی کافی ساری سی ڈی ایز کو میں لیکر بھی آیا اور خیبر پختون خوا کی کئی دکانوں سے یہ سی ڈی ایز دستیاب بھی ہیں-نیٹو ،ایساف نے کافی سارے لوگ پکثرے اور افغان فورسز نے بھی جن کی ایک فہرست طالبان نے قطر میں امریکیوں کے حوالے کی-پاکستان کی جیلوں میں اس وقت بھی سینکڑوں قید طالبان موجود ہیں جن کی لسٹ ایک زریعہ سے مجھ تک بھی پہنچی ہے اور یہ وہ لسٹ ہے جو طالبان نے پاکستانی حکومت کے حوالے کی ہے جس میں قید طالبان کی رہاغی کا مطالبہ ہے اور اس میں جند اللہ کے کمانڈر حماد کی رہائی کا مطالبہ بھی ہے جس گروپ نے پشاور چرچ پر حملہ کیا اور طالبان اس سے تعلق ہونے سے انکاری ہیں جبکہ جند اللہ کے قید کمانڈر کی رہائی کا مطالبہ بھی کرتے ہیں-طالبان بہت مرتبہ سٹریٹجکل جھوٹ کے فن سے بھی کام لیتے ہیں-وہ ایسے حملوں کو بعض اوقات قبول کرنے سے انکاری ہوجاتے ہیں جن سے ان کے خلاف نفرت میں اضافہ ہونے کا امکان پیدا جوجاتا ہے-سخی سور،بری امام اور داتا گنچ بخش کے مزارات پر حملوں کی زما داری طالبان نے قبول نہیں کی تھی اور اس سے انکار کیا تھا مگر ان میں ملوث لوگوں کے پکڑے جانے کے بعد ثابت ہوگیا کہ اس میں طالبان ملوث تھے-ملالہ پر حملے کے وقت طالبان نے ایک عرصہ تک خاموشی اختیار کئے رکھی پہلے زمہ داری قبول کی پھر انکار ہوا اور بعد میں عدنان رشید نے اس کا اعتراف کرلیا کہ یہ حملہ طالبان کے ایک سیکشن نے کیا تھا-لوگ القائدہ اور طالبان کے بارے میں جب بے چہرہ اور بے نام ہونے کی سازشی تھیوری پیش کرتے ہیں تو مجھے بہت ہنسی آتی ہے-میں جو جنوبی وزیرستان کے اندر بیت اللہ محسود،قاری حسین محسود مرحومین اور عصمت اللہ معاویہ،رانا افضل(جوکہ میرے شہر کے ایک چک کے ہیں اور ان کو اس وقت سے میں جانتا تھا جب وہ پرائمری اسکول کے بچے تھے اور اپنے والد کے ساتھ یا بڑے بھائی کے ساتھ ہمارے گھر کے سامنے اعظم طارق کے کزن کے گھر آیا کرتے تھے)سے ملا تھا اور میں نے وہاں پنجابی طالبان کا الگ سے مدرسہ دیکھا تھا-اور اسی وقت لکھا تھا کہ پنجابی طالبان تحریک طالبان کے اتحادی ضرور ہیں لیکن ان کی شوری الگ اور ان کا آپریشنل سیٹ اپ الگ ہے-آج یہ سب کہہ رہے ہیں-تو وہآں میں نے ازبک ،تاجک اور افریقی و عرب بھی دیکھے تھے-چینی بھی وہآں تھے-پھر میں کیسے کہہ دوں کہ ان کا مادی وجود نہیں ہے-اور یہاں تک کہ مجھے تو بہاول پور میں مسعود اظہر کے مدرسہ جانے کا موقع بھی ملا ہے-وہآں جو کلاسیں جہاد فی سبیل اللہ پر ہوتی ہیں ان میں شرکت بھی کی ہے-میں سپاہ صحابہ پاکستان کے ان لوگوں کو بھی جانتا ہوں جو لؤکر جھنگوی میں آج ٹاپ کلاس کے کمانڈر ہیں اور ان میں اکثر کا لڑکپن اور جوانی کے ایام خانیوال،لیہ،چھنگ،سرگودھا،چینوٹ میں گزرے تھے-آپ بھی ان کو بے چہرہ کہیں تو حیرت ہے-تحریک طالبان پاکستان اور اس میں شامل اکثر تنظیموں فٹ سولجرز ملتان،ڈیرہ غازی خان،بہاول پور ،سرگودھا ڈویژنوں سے ملتے ہیں-اور ان فٹ سولجرز کی کثیر تعداد وہ ہے جو انجمن سپاہ صحابہ پاکستان کے بانی مولانا حق نواز جھنگوی،مولانا ضیاء ارحمان فاروقی،مولانا اعظم طارق ،مولانا شیر علی حیدری اور مولانا مسعود اظہر کی تقریروں سے متاثر ہوکر پہلے انجمن سپاہ صحابہ کے رکن بنے اور پھر یہ لشکر جھنگوی میں یا جیش محمد میں شامل ہوگئے-لشکر چھنگوی کا سب سے طاقت ور گروپ جس میں آصف چھوٹو بھی شامل تھا اس کی تشکیل میں قاری حیات کا اہم کردار تھا اور اس کا تعلق میرے ضلع سے تھا-اور یہ ایک زمانے میں بہت آزادی کے ساتھ خانیوال کی سبزی منڈی کی ایک دکان پر آیا کرتا تھا جہاں سپاہ صحابہ پاکستان کا سٹی صدر ہوتا تھا جس نے قاری حیات کو پکڑوانے کی کوشش کی تو اسی قاری حیات کے ہاتھوں مارا گیا-کیا اب بھی آپ ان کو بے چہرہ کہیں گی-میں نے عمران شاہد بھنڈر کی تحریر پڑھی جس میں انہوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ طالبان پاکستان میں لبرلز اور ترقی پسند فسطائیوں(قربان جاؤں اس لبرل فاشسٹ کی اصطلاح ایجاد کرنے والے آدمی کی ذھنی اپج پر-نو فسطائی طالبانی اپنے ہر مخالف پر اب اس اصطلاح کا اطلاق آزادی کے ساتھ کردیتے ہیں اور وہ بیچارا پھر وضاحتیں کرتا پھرتا ہے-جیسے جماعت اسلامی والے ہر سیکولر کو نادین اور ہر لبرل کو مادر پدر آذاد قراد دیتے اور آج ان دو اصطلاحوں کا جہی معنی عوام میں مقبول ہے)یہ سازشی تھیوریز ہیں کہ ہم طالبان،القائدہ اور فرقہ پرست دھشت گردوں کو مغرب کی پیداوار قرار دیتے ہیں-ہمارے ہاں سپاہ صحابہ پاکستان سے لیکر تحریک طالبان پاکستان تک پیدا ہونے والی دھشت گرد ،انتہا پسند تنظیموں کو امریکی سامراج کی پیدا وار کہنے کا رواج اس قدر پختہ ہوا ہے کہ ان کے جنم کے جو حقیقی اسباب تھے ان کے بارے میں تمام تر مواد چھپ سا گیا ہے-سب ٹیپ کا ایک ہی فقرہ دھراتے ہیں-جب کوئی بلیک واٹر کا شوشا چھوڑے تو سارے جرم بلیک واٹر کے سر منڈھ دئے جاتے ہیں-ہآں کوئی سعودی عرب اور قطر کی فنڈنگ کا زکر نہیں کرتا-ان ممالک کے شیوخ اور آل سعود کے انتہا پسندوں کی پشت پناہی کی بات سننے کو نہیں ملتی-امریکی سفارت خانے اور سفارت کاروں کی سرگرمیوں پر بحث بہت ہوتی ہے لیکن سعودی عرب کے سفیروں اور سفارت خانوں کے اندر ہونے والی سرگرمیوں پر کسی جگہ کوئی سوال نہیں اٹھایا جاتا”-