مابعد کربلا مکتب علی شناسی کے چند ادوار : لاتاریخی رجحان و تکفیریت – عامر حسینی

مکتب علی شناسی میں امام محمدباقر بن علی بن حسین بن علی ابن ابی طالب کا دور امامت بہت اہمیت کا حامل ہے اور بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ مکتب علی شناسی میں جو تصور امامت ہے اس پر باقاعدہ اور منظم طریقے سے اس کی جو قانونی تشکیل تھی اس پر جناب امام الباقر نے کافی کام کیا اور آپ کی رکھی بنیادوں کو آگے جناب امام جعفر الصادق نے آگے بڑھایا –اور جیسا کہ میں نے بتلایا کہ مکتب علی شناسی کا تاریخی ریکارڈ مرتب کرنے میں کئی ایک کردار تھے جن کو بعد ازاں ترتیب دی جانے والی کتب الرجال و جرح و التعدیل میں غیر ثقہ ، رافضی و غالی الرافضی قرار دے دیا گیا –یہ مسلم تاریخ کے فراموش کردئے گئے کردار ہیں اور ان کو مین سٹریم دھارے سے نکال باہر کیا گیا –بلکہ کالونیل دور میں غیر مسلم متشرقین نے مسلم تاریخ پہ جو کام کیا ان میں بھی مکتب علی شناسی کے انتہائی اہم ترین کرداروں کو حاشیہ پہ رکھا گیا اور ان کی بیان کردہ تاریخ کو ” انحرافی بیانیہ ” سے تعبیر کیا گیا –اس حوالے سے حسین محمد جعفری نے اپنی کتاب اوریجن اینڈ ارلی ڈویلپمنٹ آف شیعہ اسلام کے پیش لفظ اور باب نمبر 9 میں جبکہ ڈاکٹر ارزینہ آر لالانی نے اپنی کتاب ارلی شیعہ تھاٹ کے باب اول ” بنو ہاشم اور ابتدائی شیعی فکر ” میں تفصیل سے زکر کیا ہے کہ کیسے مغربی مستشرقین نے ایک عرصے تک مکتب علی شناسی کو ایک منحرف رجحان کے طور پر لیا اور اس کے تاریخی ماخذ کو نظر انداز کئے رکھا یا اسے محض ایک سیاسی تحریک کے ہی ڈیل کیا اور اس تحریک کی جو مذھبی یا مابعد الطبعیاتی بنیادیں تھیں ان کو زیب داستان کے طور پہ ہی لیا –لیکن سٹراتھمین جو کہ ایک جرمن ماہر تاریخ و فرق و ادیان تھا جبکہ مسینیان فرانسیسی عظیم مستشرق، کاربن اور دیگر کئی ایک نام ہیں جنھوں نے کم از کم مغرب میں مکتب علی شناسی کی ابتدائی تشکیلی حالت کی تاریخ بارے سوچنے سمجھنے کے انداز کو بدلنے میں اہم کردار ادا کیا ، میں نے اپنے طور پہ جرمن مستشرق رڈولف شتروطمان ، ہنری کربین اور ہینز ہیلیم کی تحریروں کو پڑھا وہ واقعی مغرب میں مکتب علی شناسی کی طرف لوگوں کے دیکھنے کے رویوں میں تبدیلی لانے والا کام ہے اور مری نظر میں مکتب علی شناسی کے خلاف جو متشدد ، تکفیری انتہا پسند منافرت انگیز ڈسکورس ہے اس کے خلاف عام پبلک کے اندر ایک علمی ، شعوری اور مدلل و منطقی بلاک تعمیر کرنے کے لئے ان تحریروں سے استفادے کی اشد ضرورت ہے اور مکتب علی شناسی کے ابتدائی تشکیلی ادوار بارے زیادہ سے زیادہ شعور و آکاہی پھیلانے کی ضرورت ہے –


میں نے دیکھا ہے کہ مکتب علی شناسی سے وابستہ کئی ایک نوجوان مکتب علی شناسی پہ جذباتیت سے کام لیتے ہوئے متشدد تکفیری انتہا پسند ڈسکورس یا بیانیہ کے مدمقابل ویسا ہی متشدد ، تکفیری اور یہاں تک مبتذل انتہائی سطحی ڈسکورس یا بیانیہ لیکر آجاتے ہیں اور وہ ناموس ، حرمت اور عزت کے خطرے میں پڑجانے والی تکفیری ،خارجی وہابی نام نہاد سازشی مفروضات کو گراؤنڈ فراہم کردیتے ہیں اور سوشل میڈیا نے ایک موقعہ فراہم کیا ہے مکتب علی شناسی سے جڑے لوگوں کو کہ وہ متشدد تکفیری انتہا پسند مکتب علی شناس مخالف ڈسکورس یا بیانیہ کو اب تک دستیاب ہونے والے شواہد اور واقعات کی روشنی میں گمراہ کن ثابت کریں لیکن سوشل میڈیا پہ جذباتیت کا وہ طوفان اٹھا ہے کہ ” استدلال اور منطق ” کی طاقت کو فراموش کردیا گیا ہے –ہمیں مکتب علی شناسی کے فراموش کردہ کرداروں کو مین سٹریم دھارے میں لانے کی کوشش کرنی چاہئیے –
امام باقر کو اپنے زمانے کے اندر مکتب علی شناسی کو ایک مندرج مکتب کے طور پہ سامنے لانے کے چیلنج کا سامنا تھا اور سب سے بڑھ کر تصور امامت کے گرد پھیلے ابہام کو دور کرنے کا چیلنج درپیش تھا اور سید حسین محمد جعفری سمیت کئی ایک مورخین نے لکھا اور زکر کیا ہے کہ امام محمد الباقر کو تصور امامت ، خود اپنی امامت اور اس حوالے سے مکتب علی شناسی کا موقف واضح کرنے کے لئے باہر سے زیادہ اندر سے چیلنج درپیش تھا –
اور عراق خاص طور پر کوفہ کی سرزمین پہ اس زمانے میں حضرت زید بن علی بن حسین بن علی ابن ابی طالب کو جس طرح سے قیام اور سیاسی بغاوت پہ مجبور کیا گیا تو اس زمانے میں “حق امامت ” کے معاملے کو لیکر ایک مرتبہ پھر مکتب علی شناسی کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی –مابعد کربلاء دور میں مکتب علی شناسی میں جب امام محمد باقر کے پاس منصب امامت آیا اور مکتب علی شناسی کی رہبری ان کے ہاتھ آئی تو انہوں نے بھی امام سجاد کی طرح سیاسی بغاوت اور سیاسی خروج سے گریز کیا اور مکتب کی جو مذھبی بنیاد تھی ، اس کی جو روحانی و باطنی و فقہی جہات تھیں ان کو مضبوط بنانے پہ زور دیا – امام الباقر کے زمانے میں ہم واضح طور پہ یہ دیکھ سکتے ہیں کہ کوفہ سمیت مکتب علی شناسی کے جو مضبوط مراکز تھے وہاں پہ یہ خیال زور پکڑ رہا تھا کہ حالات چاہے جو بھی ہوں منصب امامت پہ فائز شخص خروج ضرور کرتا ہے اور سیاسی انقلاب کے لئے تلوار اٹھاتا ہے –
امام سجاد سے یہ مطالبہ ” تحریک توابین اور اس کے علمدار مختار ثقفی ” نے زور دار طریقے سے کیا جبکہ ہم نے دیکھا کہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے آپ کو مکّہ بلالیا اور اپنے پاس رکھا اور نگرانی بھی کی لیکن امام سجاد نے اپنا سارا فوکس مکتب کی علمی بنیادوں اور ایک خاموش تحریک کی تعمیر میں صرف کیا – یہی کام امام باقر نے بھی کیا اور اس کام کو سرانجام دینے میں چند ایک کردار ایسے ہیں جن کا تذکرہ بہت ضروری ہے جو امام الباقر کے ساتھ جڑے اور انھوں نے مکتب علی شناسی تشکیلی ادوار میں سے اس اہم ترین تشکیلی دور میں علمی میدان میں کارہائے نمایاں سرانجام دئے –
ان میں ابو حمزہ ثابت بن دینار جن کا تعلق ازد قبیلے سے تھا کا نام بڑا اہم ہے یہ کوفہ کے وہ سرکردہ محدث ، ماہر علم الفقہ و الکلام و لغت ہیں جنھوں نے امام سجاد ، امام الباقر ، امام جعفر صادق اور امام موسی کاظم کے ساتھ کام کیا –اور ان کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ امام علی رضا سے ان کے بارے میں دو اقوال منقول ہوئے ہیں – ایک قول ہے جس میں انہوں نے کہا کہ ” ابو حمزہ الثمالی ہمارے لئے ایسے ہیں جیسے لقمان اور دوسرا قول کہ ابوحمزہ ہمارے لئے ایسے ہیں جیسے سلمان فارسی تھے کیونکہ انہوں نے چار آئمہ کے ساتھ وقت گزارا –ثابت بن دینار کے تین بیٹے زید بن علی کے ہمراہ کوفہ میں لڑتے ہوئے شہید ہوگئے
ابوحمزہ احادیث کے باب میں ایک بہت بڑا سرچشمہ تھے لیکن حیرت انگیز طور پر اتنے بڑے محدث ، فقیہ اور نحوی کو دربار کے ماہرین جرح والتعدیل الرجال نے مسترد کردیا اور یہاں تک کہ کون جانتا ہے کہ عبداللہ بن مبارک سمیت مین سٹریم دھارے کے جو بڑے بڑے محدثین ہیں اور ” اصحاب اہل الحدیث ” کہلاتے ہیں وہ ان سے کہیں نیچے کھڑے نظر آتے ہیں اور مرکزی دھارے میں ان کا نام بھی مسلم تاریخ کے طالب علموں کو معلوم ہے لیکن کوفہ کے اس عظیم محدث ، فقیہ کا نام تک سے اکثر لوگ ناواقف ہیں –ابو حمزہ ثابت بن دینار کی وفات 150ہجری میں کوفہ میں ہوئی تھی اور ابوحمزہ ثمالی ابن صفیہ نے جناب امام سجاد کی ایک مناجات روایت کی ہے جو ان کے مطابق امام سجاد رمضان کے مہینے میں رات بھر کی عبادت کے بعد وقت سحر پڑھا کرتے تھے ، یہ پوری مناجات معانی کا جہان آباد کئے ہوئے ہے لیکن میں اس مناجات کے آخری جملوں کی جانب توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں
اللّهُمَّ إِنِّي أَسأَلُكَ إِيْمانا تُباشِرُ بِهِ قَلْبِي وَيَقِينا حَتَّى أَعْلَمَ أَنَّهُ لَنْ يُصِيبَنِي إِلاّ ماكَتَبْتَ لِي وَرَضِّنِي مِنَ العَيْشِ بِما قَسَمْتَ لِي ياأَرْحَمَ الرَّاحِمِين
اے معبود! میں تجھ سے ایسا ایمان و یقین مانگتا ہوں جو میرے دل میں جما رہے یہاں تک کہ میں سمجھوں کہ مجھے کوئی چیز نہیں پہنچتی سوائے اس کے جو تو نے میرے لیے لکھی ہے، اور مجھے اس زندگی پر شاد رکھ جو تو نے میرے لیے قرار دی، اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے
تو یہ جو ایسے ایمان کا سوال ہے جو قلب میں جاکر جم جائے اور یقین محکم کی طرح ہو کہ اس سے یہ یقین دل میں بیٹھ جائے کہ جو کچھ پیش آیا وہ مشیت ربانی ہے اور جو زندگی ہے اس کے لئے شکر ہے مولا کریم کا اگر مابعد کربلاء دور کو دیکھا جآئے تو یہ دعا ، مناجات بذات خود ایک بڑی ڈھارس باندھنے والی ہے اور مناجات کی ٹون سے ہم اندازہ کرسکتے ہیں کہ کسقدر تکلیف اور مصیب کے دن تھے وہ جن میں ابو حمزہ ثمالی جیسے لوگ تعمیر مکتب علی شناسی کا کام سرانجام دے رہے تھے لیکن مصائب و مشکلات کی طرف یہ رویہ جانب الی اللہ ہے اور یہ مابعدالطبعیاتی ، روحانی اور باطنی پہلو ہے مکتب علی شناسی کے رہبر اور اس کے پیرو کا لیکن جو چیلنج درپیش ہے اس سے فرار کا راستہ سماج کے اندر اختیار نہیں کیا گیا خود ابو حمزہ ثمالی کی زندگی اس بات کی گواہ ہے انہوں نے اور ان کے خاندان نے اموی اور عباسی خلفاء اور ان کے دور جبر کے خلاف مزاحمت کی اور اس راہ میں ان کے تین بیٹے بھی شہید ہوگئے، یہ جو درباری ماہرین حدیث و تاریخ تھے جنھوں نے اپنی زندگی کے کسی بھی لمحے میں سٹیٹس کو کو چیلنج نہیں کیا تھا نہ ہی قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں اور نہ ہی اموی و عباسیوں کے مظالم و سماجی ناانصافی کے خلاف آواز اٹھائی بڑے آرام کے ساتھ ابو حمزہ ، ابن صفیہ کے بارے میں ” لیس بثقۃ ” کا فتوی دے گئے اور ” غالی رافضی ” لکھ گئے لیکن ان کے تذکرے میں یہ بات گول کرگئے کہ ابو حمزہ کے بارے میں امام سجاد ، امام باقر ، امام جعفر اور امام موسی کاظم و امام علی رضا کا کیا کہنا تھا اور کوفہ میں ان کے معاصر غیر درباری فقیہ و محدث کیا کہا کرتے تھے ؟


کیسے ان کے بیٹوں نے ظلم و ناانصافی کے خلاف لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کیا – یہ ثقہ اس لئے نہ ٹھہرے کہ انہوں نے ” کتمان حق ” نہ کیا اور مکتب علی شناسی کی روایت کو محفوظ بناڈالا – ایک اور شخصیت بھی اس زمانے کی ہے جس کا نام فرات بن احنف العبدی ہے اور ان کے ساتھ ظلم یہ ہوا کہ درباریوں نے تو ان کو مسترد کیا ہی خود ایک بڑے عرصے تک ان کو اپنے بھی رد کرتے رہے اور اب آکے کہیں ان کی قدر و قیمت کا اندازہ ہونا شروع ہوا ہے
پھر زہرہ بن ایان ، حمزہ ابن تیار محمد بن مسلم ریاح الطائفی ، الفضیل بن یسار نھدی کے نام بھی بہت اہمیت کے حامل ہیں یہ کوفہ کے اندر زیادہ تر رہے اگرچہ یسار بصرہ کے تھے اور ان کے بیٹے محمد قاسم بن فضیل یسار امام جعفر صادق کے ثقہ روات سے ہیں –جتنے نام میں نے یہآن درج کئے یہ سب کے سب امام باقر کے اصحاب ہیں اور ان کو ہم جدید اصطلاح میں شیعہ کے ریڈیکل اکتیوسٹس کہہ سکتے ہیں کہ جنھوں نے ایک طرف تو مکتب علی شناسی کی علمی و فکری تشکیل کے کام میں جناب امام الباقر کا ہاتھ بٹایا اور اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے عراق کے دل کوفہ میں بیٹھ کر پورے عراق میں چل رہی سیاسی تحریک کی رہنمائی میں اپنا کردار ادا کیا – مسلم بن ریاح کا کردار اس حوالے سے مکتب اہل الرائے یعنی فقہ العراق یا عراق کی پوری جو انٹلیکچوئل لائف ہے اس میں بہت اہم بنتا ہے – مسلم بن ریاح ایک عملی قانون دان بھی تھے اور ان کے معاصریں میں ابو حنیفہ ، ابی لیلی اور قاضی شریک جیسے لوگ تھے اور مسلم بن ریاح ان کے پائے کے آدمی تھے اور سیاسی اعتبار سے بھی انتہائی متحرک آدمی تھے –


ان کے بارے میں امام الباقر اور امام جعفر الصادق کے اقوال پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں تو کوفہ کے مرکز میں بیٹھ کر انہوں نے سٹیٹس کو محالف مکتب علی شناس کی تشکیل میں اہم ترین کردار ادا کیا اور یہ وہ سب لوگ تھے جو اگرچہ زید بن علی کو ” امام ” نہیں مانتے تھے لیکن جب ہشام نے ان کو خروج پہ مجبور کردیا اور کوفہ کی گلیوں میں ایک لڑائی شروع ہوگئی تھے تو جتنے میں نے نام درج کئے یہ سب ان کے ساتھ شریک ہوگئے اور انہوں نے زید بن علی کی تحریک کا ساتھ دیا – عام طور پہ مین سٹریم جو عمومی بیانیہ ہے امویوں یا عباسیوں کے خلاف سیاسی انقلاب کے بارے میں ایک بڑا فکری مغالطہ اہل عراق یا اہل کوفہ کے کردار بارے یہ ہے کہ جیسے وہ سارے عہد شکن ، موقعہ پرست اور بزدل وغیرہ تھے تاریخ کی گہرائی میں جاکر دیکھا جائے تو اس مفروضہ کی نفی ہوجائے گی – جناب امام علی سے مداہنت اہل عراق بارے اقوال ملتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ تاریخ ہمیں مالک اشتر جیسے کرداروں سے بھی ملواتی ہے جن کی وجہ سے کوفہ کے عرب قبائل کی حمایت میسر آئی اور جمل و صفین کی جنگ میں جناب امام علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا پلڑا بھاری رہا اور خوارج کے خلاف بھی جنگ نھروان سمیت دیگر جنگیں بھی اہل عراق و کوفہ کے مکتب علی شناس کے پیروکاروں کی قربانیوں سے ہی ممکن ہوئی تھی ، مجھے یہاں امام جعفر کا ایک قول یاد آرہا ہے کہ
أرتد الناس بعد قتل الحسين بن علي عليه السلام إلا ثلاثة: أبو خالد الكابلي ويحيى ابن أم الطويل وجبير بن مطعم ثم إن الناس لحقوا وكثروا
امام حسین کی شہادت کے بعد اکثر لوگ پلٹ گئے تھے مگر تین لوگ ابو خالد الکابلی ، یحیی ام الطویل و جیبر بن مطعم نہیں پھر بعد میں لوگ ان سے جڑے اور کثرت میں ہوگئے
تو یہاں ارتد کا مطلب یہ نہیں ہے کہ لوگوں نے ترک کردیا تھا بلکہ جبر اور ظلم اتنا شدید تھا اور واقعہ کربلاء کی شدت اتنی تھی کہ اس جبر و ستم کی لہر کے سامنے ٹکے رہنا اور جمے رہنا کافی مشکل کام تھا – اس زمانے میں لوگوں کے دل تو ساتھ تھے لیکن ان کو اسقدر خوف اور جبر کے اندر رکھا گیا کہ وہ کربلاء جیسی ٹریجڈی روکنے میں ناکام رہے اور اہل عراق کو واقعہ کربلاء کی ٹریجڈی ہوجانے کے بعد اپنی بے عملی کا شدت سے احساس بھی ہوا اور توابین جیسی تحریک سامنے آئی لیکن سیاسی بغاوت اور انتقام کا فیصلہ ازخود کرلیا گیا تھا اس کے لئے حالات باقی علاقوں میں سازگار نہ تھے اس لئے ہم نے دیکھا کہ بہت جلد پھر عراق اور حجاز امویوں کے قبضے میں چلے گئے تھے لیکن اہل عراق اور خاص طور پہ اہل کوفہ کے اندر مکتب علی شناس کی جڑیں قائم و دائم تھیں –
اس زمانے کا ایک اور بھی کردار ہے جو شاعر بھی تھا اور ادیب بھی تھا – اور آج کی اصطلاح میں ہم اسے باغی شاعر کہہ سکتے ہیں – ہم جو رتبہ اور مقام اپنے ہاں فیض احمد فیض یا حبیب جالب کو دیتے ہیں یا ترکی کے ناظم حکمت کو ، فلسطین کے محمود درویش کو یا چلی کے پابلو نرودا کو یا پنجابی نکسل باڑی شاعر پاش کو دیتے ہیں وہی مقام اور مرتبہ ہم اس شاعر کو بھی دے سکتے ہیں جسے ساری دنیا کمیت بن زید الاسدی کے نام سے جانتی ہے اور جسے شاعر الاولین والآخرین کا خطاب بھی دیا گیا –کمیت کوفہ میں اسی حثیت اور مقام کا حامل ٹھہر گیا تھا جو مقام نزار قبانی کو دمشق میں حاصل تھا اور کمیت وہ شاعر تھا جس نے امویوں کی ہجو لکھی اور کمال کرڈالا
اور اس شاعر کے اشعار نے بنوامیہ کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے میں اہم کردار ادا کیا تھا – امام باقر کے پاس کمیت جب آیا تو اس نے اشعار سنائے تو آپ نے کہا کہ
اے کمیت اگر ہمارے پاس مال ہوتا تو تمہیں ضرور دیتے لیکن اب تمہارے لئے ہم وہی کہتے ہیں جو مرے نانا نے حسان بن ثابت کے حق میں کہے تھے
لا یزال معک روح القدس ما ذببت انا
جب تک تو ہمارا دفاع کرتا رہے گا روح القدس تجھ پہ سایہ فگن رہے گا
اور امام صادق نے کہا تھا کہ

کمیت پہ روح القدس ہمیشہ سایہ فگن رہا تھا
یہ بات امام صادق نے اس وقت کہی جب یوسف بن عمر گورنر کوفہ نے ان کو گرفتار کرکے امووی بادشاہ عبدالمالک کے پاس بھیجا تھا اور انہوں نے دفع ضرر کے تحت چند اشعار مالک کے لئے لکھ ڈالے تھے اور اس واقعے کی جانب اشارہ کرکے جب چند لوگوں نے کمیت اسدی پہ طعن کیا تو جعفر صادق نے یہ کہا تھا – کمیت اور فرزدق کی باہمی ملاقات کا قصّہ بھی بہت اہم ہے فرزدق کو کمیت نے جب
طربت وما شوقاً الی البیض اطرب
ولا لعبا ً منّی وذو الشیب یلعب
میں خوشی و مسرت سے بھر گیا اور یہ خوشی و مسرت کھیل تماشے کے سبب یا حسین چہروں کی طرف دیکھنے کے سبب نہیں تھی اور کوئی بوڑھا ( دانا ) کھیل تماشے میں نہیں پڑتا
تو فرذدق نے کمیت کو زیادہ اہمیت ںہ دی اور اسے کہا کہ میاں کھیلو ، کودو ، ہنسو یہ عمر اس طرح کے شعر کہنے کی نہیں ہے تو اس پہ کمیت نے کہا آگے تو سنیں
ولکن الی اھل الفضائل والتقی
وخیر بنی حوّا والخیر یطلب
لیکن مری خوشی اور مسرت اہل فضلیت و تقوی کے لئے ہے
جوکہ بنی خوا کے بہترین لوگ ہیں اور ایسے بہترین لوگوں کی طلب ہی کرنی چاہئيے
یہ شعر سنکر فرذدق چونک گیا اور اس نے پوچھا کہ جوان ! یہ تو بتا وہ کون سے اہل فضیلت و تقوی و بہترین لوگ ہیں جن کی وجہ سے ترے اندر خوشی ہے اور تو مسرت سے لبریز ہے تو کمیت نے پھر شعر پڑھے
بنی ہاشم رحط التی فاننی
بھم ولھم ارضی ٰ مرارً ا واغضب
بنی ہاشم جو نبی اکرم کے گروہ سے ہیں اور میں ان کے ساتھ ہوں اور ان کے لئے مری خوشی ہے اور ان کی خاطر مرا غضب ہے
فرزدق یہ سنا تو کہا کہ
انت اشعر الاولین والاخرین
کہ تم شاعر الاولین و آخرین ہو
کمیت کے اشعار آگ کی طرح پورے عراق میں پھیلے ، مصر میں ، ایران میں حجاز میں اور شام میں ان کی بازگشت سنائی دی اور اس کا ایک قصیدہ تو بہت ہی شہرہ آفاق ہوا جس کے چند اشعار یہاں درج کرتا ہوں
نفی عن عینک الارق الھجوعا وھم یمتری منہا الدموعا
دخیل فی الفئواد یہیج سقماً وحزناً کان من جذل ٍ منوعا
وتو کاف الدموع علی اکتئاب ٍ احلّ الدّھر موجعہ الضلوعا
تر قرق اسمحاً درئًاوسکباً یشہ سحماغرباّ ھموعاً
لفقدان الخضار م من قریش وخیرا الشافعین معاً شفیعا
نفی عینک الارق الھجوعا تری آنکھیں سونے سے انکاری ہیں راتوں کو کیونکہ وھم یمتری منھا الدموعا غم اشک آور ہے اور ان آنکھوں سے آنسو چھم چھم برستے ہیں الخ
کمیت آخر کار شہید راہ حق ٹھہرا لیکن اس کے اشعار نے ایک فضا امویوں کے خلاف قائم کردی تھی اور اس نے اپنی آنکھوں نے انقلاب دیکھا کہ بنو امیہ کے اقتدار کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی اور اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ
غریب شہر کے بچے جوان ہونے دو
امیر شہر سے سارے حساب لے لیں گے


ایک نام اور بھی اصحاب امام باقر میں اور وہ ہے ابو بصیر لیث المرادی کا –کہا جاتا ہے کہ مکتب علی شناس میں سب سے بڑے فقیہ چھے ہیں جن میں زرارہ ، معروف بن خربوذ ،وبُريد، وأبو بصير الأسدي، والفضيل بن يسار، ومحمّد بن مسلم الطائفي وغیرہ شامل ہیں جبکہ ابوبصیر اسدی کو ان سب میں سے بڑا فقیہ کہا گیا اور امام الصادق سے ایک روایت ہے آپ نے فرمایا کہ بروز قیامت اصحاب علی کے نام منادی ہوگی جس میں سلمان و عمار الخ کو نام لیکر بلایا جائے گا اور جب اصحاب محمد بن علی الباقر کی منادی ہوگی تو ان میں ابو بصیر لیث اسدی کا نام بھی پکارا جآئے گا – مابعد کربلاء ادوار میں ابو بصیر اسدی بھی وہ مظلوم دانشور ہے جس کا نام مین سٹریم دھارے سے خارج ہو اور وہ لاتاریخی رجحان کی ستم ظریفی کا نشانہ بنا – اسے کوفہ کی پررونق ، انتہائی متنوع دانشورانہ ثقافتی زندگی سے نکال باہر کیا گیا اور ستم ظریفی یہ بھی ہے مسلم تاریخ کے پرآشوب دور کے جو ولن تھے اور مسلم ثقافت کے دشمن تھے ان کے فضائل و مناقب پہ ایک انبار تیار ہوگیااور آج یہ سب ایک معمول کی بات لگتی ہے

پوسٹ کربلا ٹریجڈ ی کے عنوان سے مقالے کی دوسری قسط شائع کی تو ایک مہربان کا فون آگیا جو خود بهی انتہائی پڑهے لکهے عالم فاضل دوست ہیں انہوں نے مری توجہ عطاء الحق قاسمی کے بیٹے عثمان قاضی کے پی ایچ ڈی کے تهیسس کی جانب دلائی اور ان کا کہنا تها کہ برصغیر پاک و ہند میں تاریخ کو نظر انداز کرنے کے بانی سرسید احمد خان تهے اور انہوں نے ایک کرانیکل جائزہ بهی پیش کیا یعنی سرسید سے اقبال اور اس سے آگے پرویز – اور حمید الدین فراہی سے امین احسن اصلاحی اور جاوید احمد غامدی تک .- شاہ ولی اللہ سے دیوبند تک – سرسید پراگریسو تو تھے لیکن ان کے ریشنل ازم کی جڑیں مسلم تاریخ میں معتزلہ ، اشراقئین ، مسلم فلاسفرز و حکماء سے ترتیب پانے والے خیالات میں تھیں اور میں اپنے مطالعے سے اس نتیجہ پہ پہنچا ہوں کہ مسلم عقلیت پسندی کی جو کلاسیکل روائت ہے اس نے سائنسی بنیادوں اور مسلمہ قوانین کا انکار کرنے والی خبروں اور روایات کا یا تو انکار کیا یا ان کی عقلی تعبیر کی روش اختیار کی لیکن وہ مسلم تاریخ کا انکار کرنے والے نہ تھے –معتزلہ ہوں یا بڑے مسلم فلاسفرز یا اخوان الصفاء کا گروہ ہو ان سب کا سیاسی مکتب فکر اس زمانے میں انٹی انارکسٹ بنتا ہے اور معتزلی کے بارے میں یہ معروف تھا کہ وہ یا تو حنفی ہوتا ہے یا جعفری فقہ کے باب میں اور سیاسی اعتبار سے قدری اور قدری سب کو پتہ ہے کہ انٹی تھیسس تهے بنوامیہ کی جبری سیاسی فکر کے اگر ہم کلاسک ریشنل خیالات کے بانیان کو دیکهیں تو شہادت عثمان سے لیکر واقعہ کربلاء تک اور واقعہ کربلاء کے بعد سے لیکر بنو امیہ و بنو عباس کے زمانے تک ان میں سے کسی ایک کا موقف مشاجرات صحابہ ہوں یا واقعہ کربلاء وہ نہیں تها جو امین احسن اصلاحی ، جاوید غامدی ، غلام احمد پرویز کا تها یا دیوبند میں چکڑالوی سمیت اہل قرآن گروپ کا ہے

اس گروہ کا سورس آف انسپریشن معتزلہ کی بجائے ابن تیمیہ اور ابن حزم کی نام نہاد ریشنل سوچ ہے اور یہی وجہ ہے کہ تحریک اعتزال یا تحریک فلاسفہ کے برعکس ان کے ہاں صوفی اور شیعہ کے خلاف رجحان بہت طاقتور ہے اور یہ ابن تیمیہ ، ابن جوزی ، ابن قیم جیسے لوگوں کے اثرات ہیں کہ جب بھی ان کا رخ ثقافتی تنوع یا ڈائیورسٹی کی جانب ہوتا ہے جیسے وحدت الوجود کا تصور ہے، صلح کلیت ہے، مزارات ہیں، رقص ، غناء ، آلات موسیقی ہیں، بڑے مذهبی ثقافتی تہوار ہیں جیسے عید میلاد ، عاشور ، عرس ، میلے وغیرہ ہیں تو یہ اعتزال یا فلاسفہ کے رجحانات کو نہیں دیکهتے بلکہ براہ راست ابن تیمیہ وغیرہ کی جانب دیکهتے ہیں ، غلام احمد پرویز تصوف اور مسلم ثقافتی رنگارنگی کو عجمیت ، ایرانیت ، ساسانیت سے جوڑ کر دیکهتا ہے اور اسے اسلام کے خلاف سازش قرار دے ڈالتا ہے ، جاوید احمد غامدی توحید کے باب میں صوفیاء کی بجائے ابن تیمیہ کو بہترین شارح قرار دیتا ہے

اب مجهے نہیں معلوم کہ سرسید کا برصغیر کی ثقافتی رنگارنگی کے بارے میں کیا موقف تها ؟ کیا وہ صلح کلیت کے خلاف تها ؟ کیونکہ میں نے سرسید کو جتنا پڑها اس میں سرسید نے اس موضوع سے براہ راست ڈیل نہیں کیا ان کے رفقاء میں محسن الملک ، راجہ آف محمود آباد سمیت کئی ایسے لوگ تهے جو شیعہ بیک گراونڈ سے تهے الطاف حسین حالی کا بیک گراونڈ بهی یہی تها یہاں تک کہ سنی بیک گراونڈ سے شبلی نعمانی اور سر ضیاء الدین ، سید اشرف بہاری جیسے سنی بریلوی بهی تهے ، یہ دونوں احمد رضا بریلوی کے خلفاء تهے جو مائل بہ اعتزال تهے اور ان کے ہاں فدک سمیت کئی اہم ایشوز پہ جمہور اہل تسنن سے ہٹ کر رائے پائی جاتی ہے ،وہ عاشق رومی تهے ، اقبال کے ہاں آغاز کار میں جب انہوں نے فلسفہ عجم لکهی تهی تو رجحان واقعی منفی بہ ماضی ملتا ہے لیکن جب ان کی شاعری میں رومی کے اثرات نمایاں ہوئے تو ان کا ٹریک منفی بہ ماضی نہیں رہا جبکہ خطبات مدارس میں انہوں نے ابن تیمیہ اور ابن حزم کی تعریف اگر کی ہے تو اس کی وجہ ان کی لاتاریخی روش نہیں بلکہ اجتہاد مطلق کے دروازے کهلے رکهے جانے پہ اصرار ہے

پھر معتزلہ کے ہاں مامون کے زمانے میں تکفیری رجحان کا ظہور ہوا اور انہوں نے اپنی ریشنلٹی کو خلق قرآن کے معاملے پہ ریاستی جبر کے زریعے سے منوانے کی کوشش کی جس کے انتہائی خراب نتائج نکلے اور مابعد مامون دور میں بنوعباس نے روائیت ہرست سخت گیر حنبلیت کے سہارے نام نہاد زندقہ مخالف جابرانہ تحریک شروع کی اور سب حاصلات ضایع کرڈالے بہرحال مرا کہنا یہ ہے کہ برصغیر میں ریشنل روآیت کے بانی سرسید تھے بالکل درست ہے لیکن سرسید کا براہ راست لنک مسلم کلاسیک تحریک اعتزال سے تھا جبکہ انہوں نے اس کلاسیکل روائت کے مغربی احیائے علوم کی تحریک کے ساتھ تطبیق کی ہی لیکن ان کے ریشنل ازم سے تکفیری ازم کا ظہور نہیں ہوا تھا اس کے برعکس ہمیں شاہ اسماعیل دھلوی اور پهر دیوبند اور اس سے آگے اعظم گڑه میں حمید الدین فراہی ، امین احسن اصلاحی اور کئی ایک دیگر پنجابی مڈل کلاس دانشوروں کے ہاں منفی بہ ماضی روایت ظاہر ہوتی نظر آتی ہے اور جب گہرائی میں جاکر دیکها جائے تو وہ شاہ ولی اللہ کے زمانے میں روهیل کهنڈ اور اس کے گردونواح میں موجود فرقہ وارانہ کشاکش سے ابهرنے والی تهیالوجی اور عرب سے اٹهنے والی وهابی تحریک اور اس کی جڑیں شیخ ابن تیمیہ وغیرہ کے اندر نظر آتی ہیں اور اس طرح سے یہ رجحان کئی معاملات میں سلفی ازم ، دیوبندی ازم اور اس سے آگے تکفیریت کا ہمنواء نظر آتا ہے اور اس رجحان کے اسیر ہمیں کئی ایک لبرل اور مارکس واد بهی نظر آتے ہیں

یہاں پہ یہ دیکهنے کی ضرورت بهی ہے کہ ہمارے مسلم ریشنل تهیالوجسٹ شیخ ابن تیمیہ اور ان کے رفقاء کی تهیالوجی کے ریشنلسٹ اور روشن خیال ہونے پہ اصرار جو کرتے ہیں اور اس کا رشتہ زبردستی کلاسیکل مسلم عقلیت پسند فلسفہ اور تحریک اعتزال سے جوڑنے پہ اصرار کرتے ہیں کیا ان کا یہ ادعا ٹهیک ہے ؟

دوست احباب کا گلہ تھا کہ میں نے ” نہج البلاغہ ” تک اپنی ” علی شناسی ” بارے تحریروں کو روک دیا اور اس سے آگے کی جانب سفر نہیں کیا تو میں نے ان دوست احباب سے بھی عرض کیا تھا کہ ایک تو جن دنوں میں نے ” علی شناسی ” بارے لکھنا شروع کیا تھا تو مرے پاس تھوڑا سا وقت بھی تھا اور پھر شاید جیسے کہتے ہیں کہ وجدان اور القاء کی دیوی بھی مہربان تھی اس لئے غیب سے مضامین آتے اور مرے نام سے وہ لوگوں کی نظر سے گزرنے لگتے تھے لیکن اس کے بعد تیزی سے ” ٹریجڈی ” کا کینوس پھیلتا چلا گیا اور مجھے معاصر المیوں پہ اتنا کچھ لکھنا پڑا کہ تاریخ کی جانب میں نے جو سفر شروع کیا ہوا تھا اس سفر میں تعطل پیدا ہوگیا ، صوفیاء کے ہاں جسے روحانی انقباض کہا جاتا ہے اس میں شاید میں مبتلا ہوگیا تھا لیکن اس مرتبہ جب امام باقر کا یوم ولادت آیا تو مرا قلم خود بخود حرکت میں آگیا اور میں سمجھتا ہوں کہ اس طرح سے دو ہزار سولہ کا ایک بہترین مضمون سامنے آگیا اور میں سمجھتا ہوں کہ واقعہ کربلاء میں امام حسین اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کے بعد ” مکتب علی شناس ” کو پھیلانے میں شریکۃ الحسین و ام المصائب زینب بنت علی ابن ابی طالب ، علی بن حسین بن علی ابن ابی طالب سید الساجدین و العابدین و زینۃ الاصفیاء اور محمد بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب الملقب بالباقر العلم نے بنو امیہ کی ملوکانہ اور جابرانہ حکومتوں اور ان کے افادیت و اباحت پسندانہ نظریات کو جیسے بے نقاب کیا اس نے ” مکتب علی شناس ” کی سرحدوں کو بہت وسیع کرنا شروع کردیا تھا –
واقعہ کربلاء کے بعد ایسے لگتا تھا کہ جیسے ” مکتب علی شناس ” اب تاریخ کے اوراق میں دفن ہوجائے گا اور اس تحریک نے اس وقت کی مسلم سوسائٹی کے اندر افتادگان خاک کو تبدیلی کی جو امید دلائی تھی وہ اب ایک یوٹوپیا ہی بن کر رہ جائے گی اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اسی زمانے میں بنوامیہ کے جو سرکاری ، درباری مورخ تھے انہوں نے جناب علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی سیاست کو ناکام اور ان کی آئیڈیالوجی سے ابھرنے والے آدرشوں کو ایک ” یوٹوپیا اور مثالیت پسند خیال ” ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگانا شروع کردیا تھا اور اس طرح کی تاریخ کی تدوین نے تاریخ کے اندر ایک ایسے مکتب کا اضافہ کردیا تھا جس نے علی کے طرز سیاست اور ان قیادت کے حاصلات کو ” ناکامی ” سے تعبیر کرنے کی سعی شروع کردی تھی اور یہاں تک کہ اگر جدید مسلم دانشوروں میں اگر ہم ” واقعہ کربلاء اور اس سے پہلے جناب علی کرم اللہ وجہہ کے دور حکومت ” کے بارے میں ایک سلبی اور منفی فکر کو دیکھتے ہیں تو اس کی جڑیں بھی اسی سلبی مکتب تاریخ کے اندر ملیں گی –


میں محمود عباسی ، تمنا عمادی ، غلام احمد پرویز ، ڈاکٹر امین مصری اور امین احسن اصلاحی ، نظام الدین فراہی ، جاوید احمد غامدی کو اسی قبیل سے خیال کرتا ہوں اور یہ جو حنیف ڈار وغیرہ ہیں ان کو بھی اسی صف میں کھڑا دیکھتا ہوں اور ایک اور دلچسپ بات یہ بھی ہمیں نظر آتی ہے جناب علی کرم اللہ وجہہ الکریم اور امام حسین کے قیام کی جانب جن دانشوروں کا رویہ سلبی اور ناقدانہ ہے ان کی اکثریت ایک تو جناب امام حسن کو اس تحریک میں ایک انحرافی آواز کے طور پر پینٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو دوسری طرف ان کے ہاں ‘تحریک خوارج ” کی طرف تعریفی و تحسینی رویہ نظر آتا ہے اور پھر اس سلبی مکتب تاریخ کے دانشوروں کی توجیحات کو لیکر جو تاريخ جدید کا ” تکفیری گروہ ” ہے وہ اینٹی علوی توجیحات کو ” رد رافضیت ” قرار دیکر اور اس میں مزید رنگ و روغن بھرکر اپنی ” تکفیری ایمپائر ” کی تعمیر کرتا ہے اور اسی سے ” عجمیت اور یہودی سازش ” جیسے مفروضات سامنے آتے ہیں – اور یہ حملہ اتنا سخت ہوتا ہے اور اس کا انٹلیگجوئل پوسچر اتنا گہرا ہوتا ہے کہ ایک زمانے میں ہم خود ڈاکٹر محمد اقبال کو اس سے متاثر ہوتے دیکھتے ہیں اور میں نے اہل تسنن کے ہاں مکتب علی شناس سے دور ہوکر خوارج کی طرف جھک جانے کی جو مثالیں دیکھتا ہوں ان میں سے اکثر اسی سلبی مکتب تاریخ کے انٹلیکچوئل پوسچر کے زیر اثر آکر تکفیریت کی طرف بڑھے اور مکتب اہل بیت سے دور ہوگئے –اور تو اور اس سلبی مکتب تاریخ نے ” مکتب علی شناس ” پر ایلیٹ لیبل چسپاں کرنے کی کوشش کی اور اس تحریک کو ساسانی اور ایرانی شاہی اشرافیہ کی اسلام کے خلاف ایک منظم سازش کے طور پر پیش کرنے کے لئے پورا زور صرف کردیا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ تحریک جوکہ بنوامیہ کے دور میں خاص طور پر واقعہ کربلاء کے بعد علی بن حسین المعروف زین العابدین کے زمانے سے زیرزمین چلی گئی تھی اسے ” سازشی ” قرار دے ڈالا گیا اور کیا یہ گیا کہ جناب علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے کوفہ کو دارالخلافہ بنانے کے وقت سے لیکر کربلاء کے وقت تک جتنے واقعات رونما ہوئے اس تاریخ کو پہلے تو بالکل ہی چھپانے کی کوشش ہوئی لیکن جب ” مکتب علی شناس ” نے اس تاریخ کی تدوین کرڈالی تو تدوین کرنے والے اصحاب کو ہی غیر ثقہ قرار دے دیا گیا ،
میں نے اپنے ایک مقالے میں جو ” نصر بن مزاحم ” پہ لکھا تھا اس معاملے میں کافی روشنی ڈالی ہے – اگر ہم بنوامیہ کے سرکاری اور درباری مورخین کی کارگزاری کا ایک جائزہ لیں تو جناب عثمان بن عفان کی شہادت کے بعد رونماء ہونے والے واقعات میں انھوں نے ایسے لوگوں کے نام تو برملا پیش کئے جنھوں نے جمل ، صفین ، نھروان وغیرہ کی جنگوں میں سے کسی ایک بھی جنگ میں حصّہ نہ لیا بلکہ وہ ” غیرجانبدار ” ہوگئے اور پھر جمل ، صفین اور نھروان میں جو بصرہ و شام والوں کے کیمپ تھے ان کا تذکرہ بھی خوب ہوا لیکن جو علوی کیمپ تھا اس میں کون کون تھا اور اس کا درجہ کتنا بڑا تھا اسے چھپالیا گیا – کیا ایک عام نوجوان یہ جان سکتا ہے کہ ” مخنف بن سلیم ” کون تھے اور ان کا ” علوی تحریک ” کی تدوین میں کیا کردار تھا –
یہ سب سے قدیم مورخ لوط بن یحیحی بن مخنف بن سلیم الازد کے دادا اور اہل شام کے خلاف لڑی جانے والی ہر جنگ میں یہ جناب علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے ساتھ رہے تھے ، اسی طرح سے نصر بن مزاحم نے یہ کیا کہ اصحاب امام باقر سے انھوں نے جمل ، صفین ، مقتل حسین سمیت اکثر تاریخی ریکارڈ مخفوظ کرلیا تھا لیکن ہم دیکھ سکتے ہیں کہ مخنف بن سلیم سے لیکر ابو مخنف تک اور وہآن سے نصر بن مزاحم تک سب کے سب غیر ثقۃ اور رافضی جلدا کے القاب سے سرفراز کردئے گئے ، ویسے کچھ لوگ علوی کیمپ کو ” عجمی کیمپ ” کہتے ہیں اور شامی کیمپ کو عربی کیمپ کہتے ہیں یہ بھی تاریخ میں ایک لطیف قسم کی ڈنڈی مارنے کی کوشش ہے –پہلی بات تو یہ ہے کہ علوی کیمپ بجا طور پہ اس وقت کے تمام بلاد اسلامی سوائے شام کے نمائندگی والا کیمپ تھا – اس میں فارسی تھے ، خراسانی تھے ، یمنی تھے ، عراقی تھے ، بصری تھے گویا پورا عالم اسلام اس زمانے میں شام کے خلاف برسرپیکار تھا
تاریخ میں علوی کیمپ کی پینٹنگ ، ان کے اصحاب اور ساتھیوں کی رونمائی کو سرکاری اور درباری کیمپ نے ایک طرح سے ممنوعہ شئے بنادیا تھا زرا اس فہرست پہ نظر ڈالیں جو کہ صفین میں جناب علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے ساتھ تھے ،عمّار بن ياسر ، سهل بن حنيف ، قيس بن سعد ، عدىّ بن حاتم ،هاشم بن عتبة ، عبد الله بن بديل ، عبد الله بن عبّاس ، اُويس القرنى ، أبو الهيثم مالك بن التيّهان ،عبد الله بن جعفر ،خزيمة بن ثابت ، سليمان بن صرد الخزاعى ، عمرو بن حمق الخزاعى .یہ سب صحابی ہیں –
مسلم جمہور ان میں سے کتنے لوگوں کے افکار ، ان کے کام سے واقف ہے – عبداللہ بن عباس اگرچہ معروف نام ہے لیکن مکتب علی شناس سے ہٹ کر کتنے لوگ ان کے ان خیالات سے واقف ہوگا جو اس زمانے کے گرم ترین سیاسی ، معاشی ، سماجی ایشوز پر جناب عبداللہ بن عباس رکھتے تھے اور یہی معاملہ خزیمہ بن ثابت کا بھی ہے- ان کے بارے میں جمہور کے اندر ان کا ” ذوی الشہادتین ” یعنی دو گواہی والے صحابی ” ہونا تو مشہور ہے لیکن کتنوں کو پتہ ہے کہ یہ ” علوی کیمپ ” کے سرکردہ انصاری صحابی تھے جوکہ صفین میں شہید ہوئے اور ان کے خیالات اہل شام کے بارے میں کیا تھے ؟اور علوی کیمپ میں شامل اصحاب رسول کی فہرست پر اگر آپ نظر ڈالیں گے تو عرب قبائل کے اعتبار سے بھی یہ متنوع ہے تو یہ نسلی اعتبار سے بھی متنوع ملے گی اور تکثریت اس کے اندر بجا طور پہ نظر آئے گی اور تابعین کی فہرست میں ہمیں چند بڑے نام محمّد ابن الحنفيّة ، مالك الأشتر ، الأحنف بن قيس ، سعيد بن قيس الهمدانى ، حجر بنعدىّ ، أصبغ بن نباتة ، صعصعة بن صوحان ، شريح بن هانئ ، عبد الله بن هاشم بن عتبة، جعدة بن هبيرة ، زياد بن النضر وغیرہ نظر آئیں گے ان سب کے خیالات و افکار کی ایک قاموس تیار ہوجائے اگر میں بیان کرنے لگوں لیکن یہ قاموس مسلم تاریخ کے مین سٹریم دھارے سے باہر کردی گئی اور اسے بھلادیا گیا اور جنھوں نے اس کیمپ کے افراد کا تذکرہ مرتب کرنے کی کوشش کی ان کے کردار کو مسخ کرنے کی بری طرح سے کوشش کی گئی اور اگر آپ ان کے سماجی طبقاتی پس منظر اور اس زمانے کی سوشل کلاس کے اندر ان کا سٹیٹس دیکھنے کی کوشش کریں گے تو آپ کو صاف صاف دکھائی دے گا کہ اس زمانے کی جو دستکار ، درمیانے درجے کے ٹریڈرز ، کسان ، غلام اور سب سے بڑھ کر اس زمانے کی جو انٹلیکچوئل پرتیں تھیں یعنی شاعر ، ادیب ، نحوی وغیرہ تھے جو علوم اسلامیہ کے بانیان کہلائے سب کے سب ” علوی کیمپ ” سے جڑے نظر آئیں گے اور اسی ایک جائزے سے آپ کو علوی کیمپ کے کینوس کے وسیع ہونے اور اس کی بہت ہی متنوع اور تکثیری پینٹنگ بنتی نظر آئے گی –ویسے آپ انٹلیکچوئلٹی کی کسوٹی پہ اس زمانے کے پیچیدہ ذہنوں کی ایک فہرست صحابہ ، تابعین و تبع تابعین کی تیار کرنے بیٹھیں گے تو آپ کو صاف پتہ چلے گا کہ ان میں سے ایک بھی مائنڈ ایسا نہیں ہوگا جس کی اموی کیمپ سے بنی ہو یا بعد ازاں عباسی کیمپ سے بنی ہو –
یہاں تک کہ آپ اہل تسنن کے فقہ کے بانیان کو دیکھیں گے تو چاروں کے چاروں آپ کو علوی کیمپ میں کھڑے مل جائیں گے –اگر یقین نہ آئے تو خلافت علوی کے معاملے پر ان چاروں کے خیالات ملاحظہ کرلیں اور اسی طرح یزید کی جانشینی بارے اور پھر بنوامیہ کے خلاف زید بن علی کے پہلے خروج بعد از سانحہ کربلاء سے لیکر محمد نفس زکیہ اور دیگر خروج بارے ان کی آراء ملاحظہ کرلی جائیں – یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ امام مالک ، ابوحنیفہ اور امام احمد بن حنبل کے ہاں نثر میں اور امام شافعی کے ہاں نظم میں کیوں ” حب علی و حب اہل بیت ” موضوع بار بار کیوں بنتا تھا اور یہ رجحان ہمیں اصحاب و تابعین و تبع تابعین کے اندر تواتر کی حد تک پہنچا نظر آتا ہے – کیا یہ صرف مناقب و فضائل کی روایت تھی یا اس کے کوئی سیاسی معانی بھی بنتے ہیں جب آپ اس تواتر اظہار حب اہل بیت کے سیاق و سباق کی تلاش کریں گے تو آپ کو خود معلوم ہوجائے گا کہ اس کا بڑا سیاسی تناظر اور سیاق و سباق تھا –یہاں تک کہ امام نسائی کو اگر ” خصائص نسائی ” لکھنی پڑی تو شام میں ان کو زبردست تشدد کا جو نشانہ بننا پڑا تھا اس نے بتادیا تھا کہ اس کی ایک بڑی سیاسی اہمیت تھی تو ہمیں ایک طرف تو تدوین تاریخ میں علوی کیمپ کی نفی کی جو روایت ملتی ہے وہ بتدریج ماضی کے انکار میں بدلتی نظر آتی ہے اور یہی لا تاریخی رجحان ہمیں فرقہ پرستی کی زبان میں تکفیریت محض بنتا نظر آتا ہے اور مرا مشاہدہ یہ ہے کہ اسی کے بطن سے خالصت اور انٹی تنوع جنم لیتا ہے اور اسی کے بطن سے خوفناک قسم کی دہشت گردی کا جنم ہوتا ہے جبکہ دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر آپ شہادت عثمان کے بعد تاریخ کے بہاؤ پہ غور کریں تو جو شامی کیمپ تھا اس نے معاملات کو الجھانے اور کم از کم ایسی فضا پیدا کرنے کہ جس سے لوگوں میں الگ تھلگ بیٹھ جانے کا رجحان پیدا ہوا اور علوی کیمپ کو تنہائی کا شکار کرنے میں مدد ملی اور آج بھی ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ایسے دانشوروں کی کمی نہیں ہے جو تکفیریت کے بارے میں ابہام پھیلانے یا اس کے بارے عذر گھڑنے اور ایک خاص طرح کا رجحان پیدا کرنے اور اس کے خلاف اٹھنے والے ردعمل اور مزاحمت کو غلط بائنری
کے زریعے سے متنازعہ بنانے کی منظم کوششیں جاری ہیں – حال ہی میں ہم نے جاوید احمد غامدی کو دیکھا کہ انھوں نے واقعہ کربلاء اور امام حسین کے سیاسی موقف کی ماہیت قلبی کرنے کی کوشش کی اور یہاں تک خوارج کے کیمپ تک کی تعریف کرڈالی – اور اگر آپ گہرائی میں جاکر اسے دیکھیں گے تو یہ آپ کو اسی “لاتاریخی رجحان ” کا ایک تسلسل نظر آئے گا اور یہ جو تاريخ کا ” لاتاریخی رجحان ” ہے ایک تو یہ اپنی ماہیت میں بظاہر غیرجانبدار ، معروضی ، منظقی ، مبنی برانصاف اور گہری تحقیق و جستجو کے دعوؤں کے ساتھ استوار کیا گیا رجحان بتلایا جاتا ہے لیکن اس کے اندر تکفیریت پوری طرح سے گامزن ہوتی ہے –
اب زرا مجھے بتلائیے کہ اس رجحان کا دانشور جب یہ کہے کہ ہاں فلاں کافر اور فلاں مشرک ہے اور وہ مرتد ہوگیا لیکن اس کی سزا دنیا میں نہیں ہے بلکہ اخروی طور پہ وہ جہنمی ہے مگر ساتھ ہی وہ کہے کہ فلاں صدی کے فلاں عالم اور فلاں صدی کے فلاں ہندوستانی عالم اس ” فلآن مذھبی گروہ کو دائرہ اسلام سے خارج بتلاتے ، ان کو کافر و مشرک کہتے اور ان کو مرتد کہتے تھے اور مرتد کی سزا قتل بتلاتے تھے اور وہ مجھ سے کہیں بڑے عالم تھے ، فقیہ تھے اور میں تو ان کے سامنے گنگو تیلی ہی ہوں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ سننے والے راجہ بھوج کو دیکھے یا گنگو تیلی –یہ دسیسہ کاری ہے ، دین فروشی ہے اور اور مکتب قائلین قتال المرتد کی بالواسطہ تائید ہے اور یہ حقیقت میں مکتب باب شہر علم کی آئیڈیالوجی کی تردید کی کوشش ہے –
مرا مکتب علی شناس کے ایک طالب علم کے طور پہ پورا یقین رہا ہے کہ جب امام علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے اپنے سیاسی ، سماجی نظریات کو باقاعدہ عملی سیاسی تحریک کے ساتھ جوڑنے کا فیصلہ کیا اور لوگوں کے اصرار پر انہوں نے حکومت سنبھال لی تو مکتب علی شناس کا جو سیاسی –سماجی تحریکی چہرہ تھا اس میں امامی –غیر امامی کی تقسیم نہیں تھی بلکہ یہ مسلم سماج کے جمہور کی تحریک تھی جس میں جناب کی امامت و قیادت کو منصوص من اللہ خیال کرنے والے اور منصوص من اللہ نہ خیال کرنے والے دونوں شامل تھے اور جیسا کہ میں نے اپنی کتاب ” علی شناسی ” میں اس نکتے کی وضاحت تفصیل سے کرتے ہوئے بتلایا تھا کہ ” شہادت عثمان ” کے بعد تاریخ ہمیں یہ بتلاتی ہے کہ ” افضل و مفضول ، تفضیل سمیت کئی اور ایشوز ” جو کہ بعد میں مسلم علم کلام کی تاریخ میں جدال کا مستقل سبب بنے سارے کے سارے شام والوں کی جانب سے اٹھائے گئے تھے جبکہ آپ نے انتہائی خالص سیاسی ایشوز پہ بات کی اور سب سے بڑھ کر آپ نے ” ظلم ، ناانصافی ، طبقاتی تفاوت ، نسل پرستی ، قبیلہ پرستی ، بیت المال کی لوٹ مار ، وسائل کے چند ہاتھوں میں ارتکاز ” جیسے سلگتے مسائل کے حل پہ زور دیا اور آپ نے ” لوٹا کریسی ” کے کلچر کو مسترد کردیا –آپ کے سامنے جس سیاست کا کلچر تھا اس کے دو جزو تھے –
ایک یہ اتنی دہشت ، خوف ، ڈر ، جبر ، ظلم ، خون ریزی کی جائے کہ لوگ ڈر کر اپنے آپ کو شام والوں کے سامنے سرنڈر کردیں ، دوسرا طریقہ تھا کہ دولت کی بارش کی جائے اور اپنے کیمپ کے امراء کو کسی قاعدے قانون کا پابند نہ رکھا جآئے اور ان دو طریقوں سے ہونے والے حاصلات کو ” عظیم کامیابی ” گردانا جائے – اب لاتاریخی رجحان کے لوگ اسی لئے شامیوں کے حاصلات گنواتے ہوئے ان کو سیاست اور میدان حرب کے دھنی ثابت کرتے ہیں اور وہ مکتب علی کی سیاست اور جنگ دونوں کو ناکام بتلاتے ہیں یا تاثر ایسا دیتے ہیں اور پھر وہ شہادت عثمان کے بعد دور علوی سے لیکر کربلاء تک اور مابعد کربلاء آئمہ اہل بیت کی سیاسی و فکری جدوجہد کو ایک خاص گروہ تک محدود کرکے اس کا جو بڑا کینوس ہے اسے تنگ کرکے فرقہ وارانہ بتلانے کی کوشش کرتے ہیں اور آج بھی ہم دیکھ سکتے ہیں کہ تکفیری کیمپ اپنی تکفیری فسطائی فتنہ گری کو اہل تسنن اور اہل تشیع کی جںگ بناکر دکھانے کی کوشش کررہا ہے اور اسے فرقہ وارانہ تنگنائیوں میں گم کرنے کی کوشش کررہا ہے –
ماضی میں ایسا ہوا کہ جمل ، صفین کی جنگوں کے حقیقی سیاسی – سماجی تناظر کو دھندلانے کے لئے ” حسن بن سباء ” کا افسانہ گھڑا گیا اور اس کے لئے ” سیف بن عمر تمیمی ” کا کردار سامنے لایا گیا اس پر حسن مرتضی عسکری نے جو بھی لکھا قلم توڑ دیا ہے اور آج کا سیف بن عمر تمیمی گروہ سعودی کنٹرولڈ میڈیا کے گماشتے ہیں جو ” شیعہ کریسنٹ ” تھیوری کے موجد ہیں اور جھوٹی بائنری تشکیل دیکر وہ اصل معاملے پہ پردہ ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں اور یہاں پہ ایک اور نکتہ جو میں سمجھا ہوں اسے واضح کرنے کی بہت ضرورت ہے کہ تاریخ کو جذبات اور تعصبات کی گرد میں گم کرکے جوش پر ڈالنے والا بھی یہی مکتب علی شناس مخالف کیمپ ہے جو ہر وقت سازشی مفروضات کے گھٹیاپن کے ساتھ اس موضوع پہ سنجیدہ بحث و مباحثے کے آڑے آتا رہا ہے اور اس نے تاریخ میں ” درباری سٹیٹس کو ” برقرار رکھنے کی اپنی سی کوشش جاری رکھی ہے لیکن کیا یہ سٹیٹس کو برقرار رہا ؟ یہیں پہ مابعد کربلاء علی شناسی کی تحریک کے ادوار کا جائزہ لینے کی اہمیت ابھرکر سامنے آتی ہے اور ہمیں پتہ چلتا ہے کہ جو تحریک جناب سید الساجدین و العابدین علی بن حسین کے زمانے میں سے انڈرگراؤنڈ ہوئی اور وہ کیسے امام جعفر کے زمانے میں امویوں کی حکومت کے خلاف بڑے انقلاب کا پیش خیمہ بن گئی اور امویوں نے ہر دانشور کی بولی لگائی اسے اپنےدربارر کا اسیر کیا اور جو نہیں مانا اسے اسیری ، کوڑے اور قید وبند اور پھر سولی شناس ہونا پڑا – امویوں کی کوشش تھی کہ وہ اس زمانے میں جو مابعداطبعیات تھی اسے سیاسی – سماجی و مادی معنوں سے محروم کردیں اور اس مابعدالطبعیات کے اندر سے ہی غیر سیاسی پراسس کو برآمد کریں اور جو سیاسی ایشو تھا اسے ایک کلامی ، تھیالوجیکل مسئلہ کی شکل دیکر بس حلقہ ماہرین علم کلام تک محدود کرڈالیں – کیا فسق یا بدعملی سے ایمان یا کفر کا سوال ” غیر سیاسی ” محض ایک کلامی معاملہ تھا ، توحید کا سماجی پہلو اور اس کا عدل سے تعلق ایک تھیالوجیکل ایشو تھا ؟ میں نے علی شناسی پہ اس پر بات کی ہے اور علی بن حسین نے اپنے سجدوں ، اپنی دعاؤں کو پیش کرنے کے اندر ہی ما بعد الطبعیات اور عوام کے تعلق کو ظاہر کردیا تھا – اسی لئے تو مسجد نبوی تک بظاہر محدود علی بن حسین کو زھر دلوایا گیا اور آپ کی شہادت کو ممکن بنایا گیا تو اس سے آگے امام باقر نے بھی اسی طریق کو اپنایا تھا اور جب امام جعفر صادق کا زمانہ آیا تو انھوں نے بھی اس تحریک کو زیر زمین منظم کرنا شروع کردیا تھا – مابعد کربلاء علی شناسی کی تحریک کو ایک تو سیاسی طور پر ایک جابر طبقاتی ملوکانہ طرز حکومت کے چیلنج کا سامنا تھا تو دوسری جانب فکری اور علمی محاذ پہ اس کے سامنے مکتب علی شناس کے ماخذ ہائے علمی و تاريخی سرمائے کو محفوظ بنانا تھا اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ جو قیس سلیم ہلالی ، مخنف بن سلیم سمیت کئی ایک بنیادی ماخذ ہائے تاریخ مکتب علوی بچ گئے اور ہمارے سامنے ماقبل اسلام و دور اسلام و مابعد رسالت ادوار کا ایک قابل قدر تاریخی ریکارڈ موجود ہے اسے بچانے میں علی بن حسین ، محمد بن علی بن حسین ، جعفر بن محمد بن علی بن حسین اور امام موسی کاظم کا خاص طور پہ بہت ہی اہم کردار بنتا ہے اور انہی کے رفقاء اور پھر ان رفقاء کے رفقا نے اسے محفوظ کیا اور تاریخ خاص طور پہ ابومخنف لوط بن یحیی ، نصر بن مزاحم ، واقدی ، ابن اسحاق اور ہشام جیسوں کی احسان مند ہے
مابعد کربلاء ایک طرف مکتب علی کی ایک ایک نشانی کو مٹانے پہ زور تھا تو امویوں کی پوری طاقت اس بات پہ صرف ہورہی تھی کہ کسی طرح سے اپنے اقتدار کا جواز حاصل کرلیا جائے اور لوگ ” آل محمد ” کے استحقاق کو بھلادیں – اس زمانے میں علی بن حسین سے لیکر امام جعفر تک سب نے اس منصوبے کے خلاف جدوجہد کی اور ہم دیکھتے ہیں کہ ہشام بن عبدالمالک کے زمانے تک آتے آتے اس دور کے مسلم معاشروں اور علاقوں میں ایک ہی نعرہ گونجنے لگا تھا جسے ہم تاریخ میں ” دعوۃ الرضا من آل محمد ” کے نام سے جانتے ہیں اور بنوامیہ کے خلاف جو تحریک انقلاب کی شکل میں سیاہ جھنڈوں کے ساتھ سامنے آئی اس کا سب سے بڑا نعرہ تھا ” الرضا من آل محمد ” تو اموی ملوکیت کی یہ بہت بڑی شکست تھی کہ اسے ہر طرف سے یہی سننا پڑا کہ ان کو مسلم معاشروں کی قیادت و سیاست کا حق حاصل نہیں ہے اور اس زمانے میں کئی ایک موقعہ پر ایسے نظر آیا کہ ایک طرف سے مجبور ہوکر مسلح جدوجہد شروع ہوئی تو جناب علی بن حسین کو کہا گیا کہ اس کو جواز دیں تو ہم نے دیکھا کہ علی بن حسین کی جانب سے “مختار ” کے نہ تو اثبات میں اور نہ محالفت میں آپ کی جانب سے اعلانیہ کوئی بات سننے کو ملی اور ایسے ہی آپ نے عبداللہ بن زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ کو بھی اعلانیہ حمایت نہ دی اور ہم نے دیکھا کہ زید بن علی بن حسین کا معاملہ سامنے آیا تو امام باقر نے اس پہ بھی اعلانیہ اقدام سے گریز کیا لیکن یہ وقفے وقفے سے اٹھنے والی مسلح بغاوتیں اور لوگوں کی جانب سے وقفے وقفے سے امویوں کو للکارنے کے سلسلہ کا ایک تاریخی مطالعہ ہمیں یہ بتلانے کے لئے کافی ہے اموی ” واقعہ کربلاء اور اس کے بعد حرۃ جیسے واقعہ ” کے بعد فتح عظیم خیال کررہے تھے وہ کتنی ناپائیدار تھی اور اپنی حکومت کو باقی رکھنے کے لئے عوام پہ زبردست جبر اور ظلم سے کام لینا پڑا تھا اور ہم دیکھتے ہیں کہ اس زمانے میں اگر تاجروں کی بغاوت سامنے آئی یا غلاموں نے اعلان جنگ کیا یا کسی علاقے کے لوگوں نے امویوں کی بیعت توڑی تو سب نے نعرہ ” الرضا من آل محمد ” ہی لگایا اور اس طرح سے ہم تاریخ میں دیکھ سکتے ہیں کہ سب کے سب ” علی ” کے گرد جمع ہوکر ہی مظلوموں اور محکوموں کی جنگ لڑنے میں مصروف تھے اور ایک لاتاریخی رجحان کا حامل دانشور ان تحریکوں کے بارے میں اور ان کو لیکر اٹھنے والی شخصیات کے بارے فتوے کے کند ہتھیاروں سے حملے کئے گئے اور مشرک ، کافر ، گمراہ کی رٹ لگائی گئی اور اسے ارتداد کہہ کر مسترد کرنی کوشش کی گئی – ویسے مجھے خیال آتا ہے کہ مختار کے حوالے سے دعوی نبوت کا جو قصّہ گڑھا گیا اور بابک خراسانی کو ایک مرتد کے روپ میں جو دکھایا گیا وہ بھی ان کی جدوجہد اور لڑا ئی کی سماجی مادی بنیادوں کو چھپانے کی شعوری کوشش تھی
امام جعفر الصادق کی خاموش پالیسی
میں نے مکتب علی شناسی اور اس کے مدمقابل مکتب تکفیر و مکتب ملوکیت کے بارے میں کافی اصولی باتیں وضاحت سے بیان کردی ہیں اور یہاں پہ میں ایک قول امام محمد باقر کا زکر کرکے بات کو آگے بڑھاؤں گا – آپ نے فرمایا
ثلاثة من مكارم الدنيا والآخرة:أن تعفو عمن ظلمك .وتصل من قطعك.وتحلم إذا جهل عليك
یعنی تین چیزیں دنیا و آخرت میں مکارم الاخلاق ہیں : اس سے درگزر کرنا جس نے تجھ پہ ظلم کیا ، جس نے قطع تعلق کیا اس سے جوڑنا اور جب جاہل سے سابقہ ہو تو حلم و نرمی سے کام لینا
لیکن ظالم سے بدلہ نہ لینا مکارم الاخلاق ہے لیکن ” ظلم ” سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی یہ بات ذھن نشین رہنی چاہئیے
اور امام علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے فرمایا
فقد البصر أهون من فقد البصيرة
آنکھوں کی بنیائی کے ضایع ہونے سے کہیں زیادہ بڑا نقصان بصیرت کا کھوجانا ہوا کرتا ہے
اور آپ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ
أفضل النّاس أنفعهم للنّاس
تم سے سب سے بہترین شخص وہ ہے جو ” الناس ” یعنی عوام کے لئے سب سے زیادہ نفع بخش ہے
اور پھر آپ کے اس قول پہ بھی نظر ڈالیں
أفضل الجود إيصال الحقوق إلى أهلها
سب سے افضل سخاوت حقوق کو اس کے اہل تک پہنچانا ہے
آپ نے فرمایا
الجاھل میّت بین الاحیاء
کہ جاہل ایسا ہے جیسے زندوں کے درمیان مردہ
اور زرا اس قول پہ بھی نظر ڈالیں
إنّ أحببت أن تكون أسعد النّاس بما علمت فاعمل
اگر تو چاہتا ہے لوگوں میں سب سے زیادہ کامیاب و کامران ہو تو جو علم میں ہے اس پہ عمل کیا کر
اگر آپ ” دور اموی ” میں حکمران طبقات کے غالب نظریات اور افکار کا جائزہ لیں تو آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ یہ وہ زمانہ تھا جب فقدان بصارت کو تو بڑا نقصان خیال کیا جاتا لیکن فقدان بصیرت کو کچھ بھی نہیں جبکہ اس سماج کے اندر خاص طور پر مابعد کربلاء دور میں سعادت کا معیار اپنے علم پہ عمل نہ کرنا ٹھہر گیا تھا اور جاہل اسقدر تھے کہ ان کے مقابلے میں زندہ شعور کے حامل بہت ہی کم رہ گئے تھے ، ایسے میں مکتب علی شناس کے کندھوں پہ زمہ داری یہ تھی کہ ایک تو وہ یہ واضح کردیں کہ مکتب علی شناس ” قریشیت ، عربیت ۔ شعوبیت ، ہاشمیت بمقابلہ عجمیت ، امویت ” نہیں ہے اور یہ کسی کینہ ، بغض یا بدلے کی آگ پہ پختہ ہونے والا مکتب نہیں ہے اور نہ ہی یہ اقتدار کی جںگ ہے اور اس میں کمزوروں کو طاقتور بنانا ہی مقصد ہے –
عدل کی مثالی حالت کو پانا یہ ایک جدوجہد تھی مکتب علی شناس کی مابعد کربلاء دور میں بھی اور اس کے لئے ابتدائی طور پہ خفیہ زیر زمین تحریک کا آغاز کیا گیا –امام علی کرم اللہ وجہہ الکریم ، امام حسن و امام حسین رضی اللہ عنھم نے اپنے اپنے دور میں جدوجہد کی بنیاد اس امر پہ رکھی کہ ” تنازعہ ” قریش کی دو ذیلی شاخوں کی سرداری کا نہیں ہے اور نہ ہی یہ کسی بھی قسم کی نسلی جنگ ہے بلکہ یہ تو افتادگان خاک ، مستضفعین فی الارض (زمین پہ کمزوروں ) کی ملاء الارض زمین کے ناخداؤں کی مفروضہ خدائی کے خلاف جدوجہد ہے –اور یہ حق کو ابہام کے پردوں میں چھپانے والوں کے خلاف ایک جدوجہد ہے –آئمہ اہل بیت کے اقوال میں اکثر ہم ” جہالت ” کے خلاف بات پاتے ہیں اور ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ جب آئمہ ” جہالت اور حسی مردنی ” کے درمیان تعلق پر زور دیتے ہیں تو ان کے نزدیک اس سے کیا مراد تھی –
امام جعفر صادق اکثر جگہوں پہ یہ واضح کرتے ہیں کہ ایک ظلم وہ ہے جو کسی صورت معاف نہیں ہوگا اور وہ ظلم شرک ہے ، دوسرا وہ ظلم ہے جو توبہ کرنے سے اللہ معاف کرسکتا ہے اور وہ ظلم ہے جو عبادات کے معاملے کے اندر ہوجائے جبکہ ایک ظلم وہ ہے جو بندوں پہ بندوں کی جانب سے روا رکھا جاتا ہے اور اس ظلم کو اللہ بھی معاف نہیں کرتا جب تک کہ مظلوم نہ اسے معاف کردیں تو امویوں کے زیر اثر ، ان کے دربار سے جڑے مفتیان عظام نے یہ کیا کہ ظلم کی معافی بارے صوابدید کو ظلم علی العباد تک بڑھا دیا کیونکہ اسی صورت میں وہ اپنے مظالم کا جواز تلاش کرسکتے تھے لیکن مکتب علی شناس نے اسی توسیع کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور ظالم و مظلوم کے درمیان بپا معرکے درمیان غیر جانبداری کے ڈھکوسلے کو مسترد کرڈالا – مساوات اور برابری کے مظاہرے کو پنج وقتی نماز باجماعت کے موقعہ تک محدود کرنے کی ڈاکٹرائن کو مسترد کردیا اور اس مکتب نے توحید کے اثبات کا عملی مادی ثبوت ” مساوات و برابری ” کی مادی اشکال میں طلب کیا اور یہی وجہ تھی کہ امویوں اور عباسیوں دونوں کو مکتب علی شناس نے باور کرانے کی کوشش کی کہ بیت المال ، سرکاری خزانہ “لوگوں کی امانت ” ہے اور ” المال الناس ” لوگوں کی اشتراکی ملکیت ہے ناکہ یہ ” مال للہ ” ہے کہ حاکم جیسے چاہے اسے خرچ کرنے کا مطلق اختیار رکھتا ہو
امام جعفر الصادق کے زمانے میں اموی سلطنت کھوکھلی ہوچکی تھی اور اب گری کہ تب گری جیسی کیفیت سے دوچار تھی اور اس زمانے میں جو عباسی خاندان تھا وہ بھی امویوں کے خلاف ابھر کر آنے والی ” اصلاح اور انصاف ” کی تحریک کے ساتھ کھڑا ہوگیا تھا اور وہ بھی الدعوۃ للرضا من آل محمد کا نعرہ بلند کررہا تھا اور مکتب علی کے ساتھ اپنی وفاداریاں رکھنے والے اس تحریک کے ساتھ جڑ ہی اسی بنیاد پہ رہے تھے کہ ان کے خیال میں اس تحریک کا مقصد امام عادل کو لیکر آنا ہے اور وہ جناب امام جعفر الصادق کی زات گرامی ہی ہوگی اور اگر ہم اس زمانے کی تحریک کا ہراول قائد دستہ دیکھیں تو اس میں ہمیں ابو سلمہ الخلال جیسا مکتب علی کا ایک سرکردہ رہنماء انتہائی اگلی صفوں میں ملتا ہے تحریک کے پالیسی ساز مرکز پہ اس کا ہاتھ پڑتا تھا وہ بھی یہی خیال کررہا تھا کہ تحریک کی کامیابی کی صورت میں امامت عامہ امام جعفر کے ہاتھ آئے گی اور امویوں کے خلاف انقلاب کامیاب ہوگیا تو اس وقت کے جو عباسی خاندان تھا اس نے اپنے آپ کو خلافت کا امیدوار کے طور پہ پیش کیا تو ایسے موقعہ پر ابوسلمہ الخلال نے اس فیصلے کے خلاف بغاوت کرنے کی کوشش کی تو امام جعفر صادق نے اس کو روک دیا
جب 749ء / 132ھ میں بنوامیہ کے خلاف اٹھنے والی تحریک کامیاب ہوگئی تو اس زمانے میں اس تحریک کے سرکردہ رہنماؤں میں سے عمر الاشرف اور عبد اللہ المہد نے امام جعفر صادق سے کہا کہ وہ زمام اقتدار سنبھالنے کی تیاری کریں تو ہم دیکھ سکتے ہیں کہ امام جعفر صادق نے اسے نہ صرف مسترد کردیا بلکہ انھوں نے ابو سلمہ الخلال کا خط بھی جلاڈالا اور آپ نے عمر الاشرف و عبداللہ المھد کو اس طرح کے اقدام سے باز رہنے کو کہا
بنوامیہ کے خلاف جب تحریک اپنے عروج پہ تھی تو امام جعفر صادم کے ساتھ بنوعباس کے خاندان کے سرکردہ رہنماؤں نے ایک خفیہ ملاقات کی تھی – ملاقات کرنے والوں میں عباس السفاح و المنصور وغیرہ تھے – یہ ملاقات غالبا 737ء/120ھ میں مدینہ کے قریب کسی مقام پہ ہوئی تھی اور اس موقعہ پر بنو عباس نے جعفر صادق سے کہا تھا کہ ہاشمیوں کو بنو امیہ کے خلاف متحد ہونا چاہئیے اور سیدھے سبھاؤ بنوعباس چاہتے تھے کہ امام جعفر بنو عباس کے ساتھ کھڑے ہوجائیں –کتب تواریخ میں یہ درج ہے کہ اس ملاقات کے دوران سفاح نے تجویز پیش کی کہ آل حسن کے امامت کے دعوے کو قبول کرلیا جائے لیکن جعفر صادق نے اس تجویز کو مسترد کردیا اور مجھے یہ لگتا ہے کہ اس سمے جناب امام جعفر نے یہ ادراک کرلیا تھا کہ بنو عباس کے سرکردہ رہنماء بنوامیہ کے خلاف انصاف و مساوات کی تحریک کو خاندانی جھگڑے کے طور پہ متعارف کروانے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں اور ان کو معلوم تھا کہ اگر جناب جعفر کی جانب سے وہ بات کہی گئی جس کا تقاضا سفاح و منصور کررہے تھے تو بنوامیہ کے اقتدار کو گرنے میں دیر نہیں لگے گی
امام جعفر الصادق نے اس موقعہ پر یہ حکمت عملی اختیار کی کہ انھوں نے ایک طرف تو بنوامیہ کے خلاف اٹھنے والی عوامی تحریک میں شامل اپنے ساتھیوں اور پیروکاروں کو شرکت سے نہ روکا کیونکہ بہرحال وہ بنوامیہ کی جابر حکومت کا باقی رہنا گوارا نہیں کرتے تھے لیکن انہوں نے بنوعباس سے اپنا فاصلہ بھی برقرار رکھا اور امام جعفر کے خدشات اس وقت ٹھیک ثابت ہوگئے جب بنوعباس نے ” الرضا من آل محمد ” کے نعرے کو پس پشت ڈالتے ہوئے خود حکومت سنبھال لی – حکومت پر کنٹرول کرنے کے بعد بنو عباس نے یہ محسوس کرلیا تھا کہ ان کے مسلم سماج کی قیادت کے تخت پر براجمان ہونے کے جواز کو سب سے بڑا خطرہ اگر لاحق ہے تو وہ اب علوی کیمپ سے ہی ہے اور یہآں سے مکتب علی شناس کا ایک اور امتحان شروع ہوگیا –ڈاکٹر علی شریعتی نے بنو عباس کی ملوکیت پر دبیز تنقید کرتے ہوئے کہا کہ بنوامیہ نے مکتب علی شناس کو زیادہ تر تشدد اور سنگین قسم کی سنسر شپ کے زریعے سے دبانے کی کوشش کی تھی لیکن ان کی جانب سے مکتب علی شناس کو کوئی بہت بڑا فکری ،علمی اور دانشورانہ چیلنج نہیں دیا گیا تھا لیکن یہ بنوعباس تھے جنھوں نے ایک باقاعدہ نظریاتی دباؤ شروع کیا اور یہ غیر محسوس طریقے سے جناب علی کرم اللہ وجہہ الکریم ، پھر امام حسن اور اس کے بعد امام حسین تک تو جواز خلافت آل محمد کے حق میں ثابت کرتے لیکن اس کے بعد اسے پھیلادیتے تھے اور علمی وفکری محاذ پہ انھوں نے اس وقت کے زندہ امام اور مکتب علی شناس کے رہبر اعظم امام جعفر الصادق کی امامت و قیادت پہ فکری حملے شروع کرڈالے – ہم دیکھ سکتے ہیں کہ شروع دن سے بنوعباس نے اپنے آپ کو غیر محفوظ خیال کرنا شروع کردیا اور انہوں نے امام جعفر الصادق کی جانب سے اپنے پیروکاروں سے ” خمس ” اکٹھا کرنے کو اپنے خلاف ایک سازش تصور کیا
بنوعباس کی سیکورٹی نے کیا یہ کہ ایک تو امام جعفر الصادق کو مدینہ ہی قیام کرنے پہ مجبور کیا پھر ساتھ ہی انہوں نے آپ کے پیروکار جو عراق ، مصر ، یمن اور ایران میں بہت زیادہ تھے ان کی سخت نگرانی شروع کردی – بنوعباس کا دور علوم اسلامیہ کی تدوین کا دور بھی ہے اور اسی زمانے کے اندر ہم نے ” جرح و التعدیل ” کے اصولوں کو بھی مرتب ہوتے دیکھا اور بنوعباس نے اس پورے تدوینی دور میں اپنی پوری کوشش اس جانب لگائی کہ ایک تو تاریخ پر کام کرنے والے ان لوگوں کا اعتبار پایہ ثقاہت سے گرادیا جائے جنھوں نے مکتب علی شناس کی تاریخی جڑوں کو مضبوط کرنے میں اہم ترین کردار ادا کیا ہو اور مامون کے آتے آتے ہم نے دیکھا کہ لٹرل رجحان نے غالب آنا شروع کرڈالا اور اس کی ایک وجہ ان تمام اخبار کو کریش کرنا تھا جو مکتب علی شناس کے تصور امامت و قیادت کو تقویت فراہم کرنے والی تھیں ، وہ سارے راوی جو مکتب علی شناس کی تاریخی جڑوں پہ کام کررہے تھے ان پہ ” کذاب ، مدلس ، واہی ” جیسے الزامات کثرت سے لگائے گئے اور اسی زمانے میں ” فقہ عراق ” کو اہل الرائے کی فقہ قرار دینے کی کوشش بھی کی گئی اور کوفہ کے بطور مرکز علم ہونے کی بجائے ” غداروں ، بے وفاؤں اور کذابوں ” کا شہر ہونے کا ایک لیبل چسپاں کردیا گیا جبکہ یہ امر بالکل فراموش کردیا گیا کہ کوفہ سمیت پورا عراق انتہائی جید ، فقیہ اور عالم صحابہ کرام اور اہل بیت اطہار کی علمی صحبتوں سے مستفید ہوتا رہا ہے –
جناب علی المرتضی ، عبداللہ بن مسعود ، خزیمہ بن ثابت ، عمار یاسر ، ابوزر غفاری ، امام حسن ، امام حسین سمیت ایسے لوگوں کا یہ مسکن رہا جن کا صحبت رسول اللہ کا دورانیہ کافی طویل تھا اور پھر باب شہر العلم ان کے درمیان رہا تھا اور جناب علی المرتضی نے اپنے علمی جواہر زیادہ تر اسی سرزمین عراق میں اپنے شاگردوں کو عطاء کئے تھے تو یہ کیسے ہوسکتا تھا کہ عراق و کوفہ کی علمی روایت کو ” عجمی یا اسلام سے دور روایت ” قرار دے دیا جائے – یہاں سوال یہ بھی جنم لیتا ہے کہ آخر منصور کیوں مالک بن انس کی فقہ کو بنو عباس کے زیرنگین علاقوں پہ نافذ کرنے کی پیشکش کررہا تھا؟ کیا اسے جناب امام جعفر الصادق کی علمی عمارت نظر نہیں آرہی تھی ؟
میں سمجھتا ہوں کہ خود امام مالک و ابوحنیفہ و اوزاعی جیسے فقیہ شہیر بنوعباس کے بادشاہوں کی چال سمجھ گئے تھے تبھی تو انہوں نے ” قاضی القضاۃ ” چیف جسٹس جیسے عہدوں کی پیشکش کو ٹھکرا دیا تھا اور قید و بند کی صعوبتیں تک برداشت کرلیں تھیں – بنوعباس نے بھی اپنے دور اقتدار میں اسلام کی میٹا فزکس اور تھیالوجی کو سماجیات اور مادی حالات سے الگ کرنے کی کوشش کی اور یہی وجہ ہے اس زمانے میں دربار میں پہلے ” فلسفیانہ مباحث ” کو تجریدی بنیادوں پہ خوب خوب نشر کرنے کی پالیسی سامنے آئی اور مامون کے آتے آتے ہم نے دیکھا کہ کیسے ” کلامی مباحث ” ایک غالب ڈاکٹرائن کے ساتھ پورے مسلم سماج پہ چھاکر رہ گئے –بنوعباس نے اپنی سلطنت میں ایلیٹ کلاس کی غالبت کو فروغ دیا تھا اور ان کے زمانے میں اربن سنٹرز سے دور کے جو دیہی مراکز تھے وہآں کسانوں کا شدید استحصال ہورہا تھا جبکہ شہری علاقوں میں غلام اور دستکار بنوعباس اور ان سے جڑی اشرافیہ کی خدمات میں ہی مصروف تھے – یہ غلام ، دستکار ، کسان تھے جنھوں نے بنوعباس کے خلاف بار بار علم بغاوت بلند کرنا شروع کیا اور انھوں نے ملوکیت کو چیلنج کرنا شروع کردیا –سوال یہ جنم لیتا ہے کہ آخرکار وہ کیا وجوہات تھیں کہ بنوعباس نے ابویوسف کو چیف جسٹس بناڈالا اگر آپ قاضی ابو یوسف کی کتاب ” کتاب الخراج ” پڑھیں تو معاملے کی سمجھ آنی شروع ہوجائے گی – بنوعباس نے باہر سے ہی مکتب علی شناس پہ
نظریاتی حملہ نہیں کیا تھا بلکہ دور جدید کی اصطلاح میں اگر کہا جائے تو بنوعباس نے خود مکتب علی شناس کے اندر دخل کرنا شروع کردیا تھا – امام صادق نے بنوعباس کی حکمت عملی کو پہچاننے کے بعد جو پالیسی اختیار کی اسے ہم خاموشی کی پالیسی کہہ سکتے ہیں – اس میں انتہائی پھونک پھونک کر قدم رکھنا تھا لیکن یہ بات خود مکتب علی شناس سے وابستہ بعض افراد سمجھنے سے قاصر تھے – ابوالخطاب جیسے کردار تھے جنھوں نے مکتب علی شناس کے اندر انٹرازم کرنے کا موقعہ بنوعباس کو فراہم کردیا – ابوالخطاب نے کوفہ کے اندر وقت سے پہلے بنوعباس کو چیلنج کرنے کی کوشش کی اور اس حوالے سے اس نے اپنی انقلابی لفاظی کو ” اسماعیل ” کے نام پر جائز قرار دلوانے کی کوشش کی لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ جناب جعفر نے اسے ڈسکریڈٹ کرنے میں دیر نہیں لگائی لیکن ابوالخطاب کی غلطی نے کافی نقصان پہنچادیا تھا –بنوعباس کی پالیسی تھی کہ جناب جعفر صادق کے حامیوں کےکمیپ کے سب سے مضبوط حلقے عراق اور کوفہ کے اندر انتشار ، تقسیم پیدا کی جائے اور یہ تقسیم وہ پیدا کرنے میں کامیاب رہے – ایک طرف مکتب علی شناس میں تقسیم سامنے آگئی اور خطابیہ سامنے آئے اور پھر اس خطابیہ میں آگے تقسیم ہوئی – مسلم تاریخ ان کو کلامی فرقوں کے طور پہ یاد کرتی ہے اور صرف ” تھیالوجیکل ، کلامی اور مابعدالطبعیاتی ایشوز ” کے حوالےسے ان کی شناخت پہ بات کرتی ہے اور ہمیں بہت کم اشارے اس تقسیم کی سماجی- معاشی اور سیاسی – سماجی بنیادوں کے بارے میں ملتے ہیں جبکہ خود امامیہ مکتبہ فکر کے تھیالوجسٹوں نے ان کی کلامی اور مابعدالطبعیاتی جہتوں پر توجہ کی جبکہ ان کے تاریخی سماجی مادی حالات و واقعات پہ نظر نہ دوڑائی –
اگرچہ بنوعباس نے مکتب علی شناس کے اندر تقسیم کو گہرا کرنے میں کامیابی حاصل کرلی تھی اور کامیابی کے ساتھ انھوں نے جعفر الصادق کو مدینہ تک محدود کردیا تھا اور ان کے افکار کافی حد تک مسخ ہوکر عام عراقی عوام تک پہنچ پاتے تھے لیکن جناب جعفر الصادق کی موجودگی ان کے لئے کسی چیلنج سے کم نہیں تھی اور ایک اور وجہ سے بھی یہ وجود ان کو بری طرج سے کھٹکنے لگا تھا کہ جناب جعفر صادق نے مکتب علی شناس کو پھیلانے اور اس کی بنیادوں کو مضبوط رکھنے کے لئے زیر زمین ایک ایسا نیٹ ورک قائم کرلیا تھا کہ پیغام رسانی اور مکتب علی شناس کے پھیلاؤ کا کام پھر سے ہموار ہونے لگا تھا اور یہ بات بنوعباس کے لئے سخت پریشانی کا سبب تھی تو اسک لئے جناب جعفر صادق کو بھی زندگی سے محروم کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور پھر ان کو ذہر دلوایا گیا اور اس طرح سے چھٹے امام کے حصّے میں بھی شہادت کا جام آیا-امام صادق کے زمانے میں سب علوی کیمپ کا سب سے مضبوط گڑھ کوفہ –عراق سخت انتشار کا شکار ہوا –
اسماعیلی اور پھر آگے فتحیہ جیسے گروہ سامنے آئے اور بنوعباس کو عراق پر زبردست فوجی جبر کرنے کا موقعہ مل گیا اور یہی وجہ تھی کہ جعفر الصادق نے اس زمانے میں مکتب علی شناس کو انڈرگراؤنڈ سرگرمیوں کو اوپن سرگرمیاں کرنے سے باز رہنے کی ہدائیت اور اس دوران بنوعباس نے پوری کوشش کی کہ جعفر مشتعل ہوں اور وہ غلطی کریں تاکہ ایک کھلا جبر اور کھلی جارحیت ان کے خلاف عمل میں لائی جائے لیکن وہ مشتعل نہ ہوئے اور ” خاموش پالیسی ” کو آگے بڑھاتے رہے –
جبر ، ظلم ، انتہائی تشدد اور پھر فکری اشتعال انگیز حملے مظلوموں پر کئی طرح کے نفسیاتی اثرات مرتب کرتے ہیں اور بعض اوقات تو یہ ہوتا ہے کہ ظالم ،متشدد جو لیبل مظلوموں پہ چسپاں کرنا چاہ رہے ہوتے ہیں مظلوموں کا ایک سیکشن اسکی لیبل کو قبول کرتے ہوئے ” ہاں ، ہاں ” کرنے لگتا ہے اور اپنے قائد و امام کی محنت کو ضایع کرنے کا سبب بنتا ہے – جناب امام جعفر کے بعض محب اور پیروکار حلقوں نے یہی غلطی کی – وہ اپنے آپ کو کمپوزڈ رکھنے مین ناکام ہوگئے ، ان کی ہمت جواب دے گئی اور کچھ جناب جعفر کی مدینہ تک جبری محدودیت نے غلط افواہوں کو پھیلنے میں مدد دی-
جناب جعفر صادق کی کوشش تھی کہ مکتب علی شناس سے وابستہ لوگوں کی علمی ، فکری ، سیاسی ، سماجی اور نفسیاتی بنت کاری پختہ ہو اور پروفیشنل انقلابی کیڈرز سامنے آئیں اور لوگوں کو پتہ چلے کہ مکتب علی شناس کوئی تھیالوجیکل کلامی تنازعہ لیکر سامنے نہیں کھڑے بلکہ وہ سماج کی حقیقی حالت میں تبدیلی کے علمبردار ہیں اور وہ شیعی ڈاکٹرئن کو ” عربی بمقابلہ عجمی ” یا ” دو قبیلی جنگ ” بننے نہیں دینا چاہتے تھے اور وہ لوگوں کو یہ بھی باور کرانا چاہتے تھے کہ ” انقلاب ” محض بنوامیہ کے ہٹ جانے اور بنوعباس کے آجانے کا نام نہیں ہے اگر بنوامیہ کا قائم کردہ جبر اور استحصال کا سسٹم قائم رہتا ہے – غلام داری ، کسانوں پہ ظلم اسی طرح سے جاری رہتا ہے اور ایک ہی طبقاتی و سماجی پس منظر کے لوگ ہی حکمران بن جاتے ہیں مسئلہ اپنی جگہ پہ موجود ہے ” المال للہ کی جگہ المال الناس ” نہیں آتا تو پھر تبدیلی کیسی ہے ؟ یہی وجہ ہے کہ ہمیں مدینہ میں جعفر الصادق کے ساتھ ساتھ مالک بن انس اور کوفہ میں ابو حنیفہ و اوزاعی بھی بنوعباس سے ناراض دکھائی دیتے ہیں اور دربار سے دور نظر آتے ہيں –


میں یہاں بات سمجھانے کے لئے یہ کہہ سکتا ہوں کہ آج معاصر دنیا میں ایک طرف آل سعود ہے جو مصر کے جنرل السیسی کے ساتھ ملکر اسرائیل کے حکمرانوں کے ساتھ ملکر کیمپ ڈیوڈ کو پھیلانے کی کوشش کررہی ہے اور ترکی میں رجب طیب اردوگان ہے جو شام اور عراق کا محاصرہ کررہا ہے یہ سب ملکر کردوں ، یمینیوں ، شامیوں ، لبنانیوں ، مصری ، ترکش عوام کے اندر حقیقی آزادی اور خودمختاری کی لہر کو تشدد سے دبانا چاہتے ہیں اور یہ اس کے لئے تکفیریت کے ہتھیار کو استعمال کررہے ہیں اور یہآں کی عوامی جدوجہد پہ فرقہ وارانہ لیبل بھی چسپاں کرنا چاہتے ہیں اور شدومد کے ساتھ خود کو ” سنّی اسلام ” کے طور پہ پیش بھی کرتے ہیں –
ان کی پوری کوشش ہے مڈل ایسٹ میں عوامی تحریکوں کے ابھار اور بدلے میں بادشاہتوں اور آمروں کے ظلم اور جبر کی پالیسیوں کو ” شیعہ – سنّی ” لڑائی کے طور پہ دیکھا جائے – ایک فرقہ پرستانہ تعبیر اور تشریح کی جائے اور جو کوئی ان کی وہابیت اور تکفیریت کا پردہ چاک کرے اس پر فوری طور پہ رافضی ہونے یا سنّی اسلام کو مغلوب کرنے والی قوت قرار دے دیا جائے – ہم دیکھ سکتے ہیں کہ خود مظلوموں کے اندر ایسے گروہ موجود ہیں کہ وہ اس طرح کے فرقہ پرستانہ لیبل کو قبول کرنے لگے ہیں اور وہابیت کی پچ پہ کھیلنے والے ہيں – آل سعود اور اس کے اتحادیوں کا کیمپ ایسی صورت حال میں بغلیں بجاتا ہے – انقلاب مصر ، انقلاب شام ، انقلاب لیبیا ، انقلاب یمن کی بہاروں کو فرقہ پرستی کے کند ہتھیاروں سے کچلا گیا اور اسے فرقہ پرستانہ سول وار میں بدلا گیا – اس کے لئے اربوں ریال ڈالر خرچ کئے گئے اور مزید خرچ کئے جارہے ہیں –عوامی تحریکوں پر نظریاتی حملے کئی چہروں کے ساتھ ہورہا ہے – ایک طرف جماعت اسلامی ، اخوان المسلون ، مودودی ازم ، قطب ازم وغیرہ ہے ، دوسری طرف جاوید احمد غامدی ، زاکر نائیک جیسے نام نہاد ماڈریٹ ہیں ، تیسری طرف کھلے تکفیری سپاہ صحابہ ، طالبان ، لشکر جھنگوی اور ان کے نظریہ ساز مولوی عبدالعزیز ، طاہر اشرفی ، ارشد مدنی ، فضل الرحمان جیسے لوگ ہیں اور ان کے ساتھ ساتھ گروہ لبرلیان بھی ہے جو اپنے آپ کو الحاد ، سیکولرازم ، اشتراکیت کے لبادے میں چھپاتا ہے طارق فتح ، طارق علی ، جیسے لوگ اور ان کا ڈاکٹرنل حملہ غریب صوفی سنّی و شیعہ سماجی گروپوں پہ ہے اور یہ ان سب کا منفی پاسچر


تشکیل دینے میں مصروف ہیں اور میں صاف صاف کہوں گا کہ ماڈرن پروفیشنل موقعہ پرست کمپراڈور مڈل کلاس یا پیٹی بورژوازی ایک یا دوسری شکل میں نیولبرل ازم کا دفاع ، منڈی کی معیشت کا تحفظ کرنے کے لئے سرمایہ دار یا عالمی سامراجی بورژوازی کی پالیسیوں سے پھیل جانے والی انارکی اور تباہی پہ پردہ ڈالنے کی کوشش میں مصروف ہیں اور ان کا تنقیدی ڈسکورس بار بار شہری اور دیہی غریبوں کے کلچر اور ان کی زندگیوں کے ساتھ جڑے رسوم و رواج پہ حملہ آور ہوتا ہے اور تکفیری فاشزم کو رعایتی نمبر دیتا ہے اور بقول ریاض ملک ایک اور 70 ہزار ہلاکتوں کے درمیان فالس بائنری بناکر اسے قبول کرنے پہ مجبور کرتا ہے اور مین سٹریم بورژواوی میڈیا پہ بھی انہی غلط خانہ ساز مساوات گھڑنے والے لبرلیان کا قبضہ ہے تبھی تو غامدی ، زاکر نائیک اور اشرفی جیسے تکفیری چینلوں پر چھائے نظر آتے ہیں