عشرہ محرم کا جیسے ہی آغاز ہوتا ہے بلکہ جیسے ہی رجب المرجب کی وہ تاریخ سامنے آتی ہے جب حضرت امام حسین بن علی ابن ابی طالب (اللہ ان کا فیض جاری و ساری رکھے) نے احرام حج کھولا اور اپنے 72 ساتھیوں اور جملہ اہل بیت اطہار ماسوائے چند ایک کے ساتھ عازم کوفہ ہوئے تھے تو خصوصیت کے ساتھ ذکر امام حسین رضی اللہ عنہ شروع کردیا جاتا ہے۔اس سفر کربلاء کے ایک ایک پل کا تذکرہ کیا جاتا ہے اور ساتھ ساتھ ان لمحات بارے جتنی تفصیل تواریخ میں موجود ہے اس کو ازسرنو تازہ کرنے کا عمل جاری و ساری رہتا ہے۔
امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے جملہ ساتھیوں کی قربانی،خواتین اہل بیت کے مصائب اور اس دوران ان کی عظمت اور ان کی عزیمت،کمال استقامت اور صبر عظیم کے واقعات کا بیان بھی جاری رہتا ہے۔جو حکمت اور تزکیہ نفس کی نعمتوں سے سرفراز ہوں ان کے ذہنوں پہ پرانے تاریخی واقعات اور ان عظیم شخصیات کے اقوال و افکار بارے نئے خیالات مضامین غیب کی طرح اتارے جاتے ہیں اور تذکرہ حسین رضی اللہ عنہ اور حسین و جمییل ہوتا چلا جاتا ہے۔
ایام عاشورا کے آتے ہی جن کے دلوں میں کجی ہے، جن کے دلوں میں امیہ ازم کا وبال ہے اور جن کے دل تنگ پڑ جاتے ہیں ان کے لئے یہ دس دن خاصے بھاری ہوتے ہیں۔وہ امام حسین رضی اللہ عنہ کے سفر کربلاء کے بارے میں ابہام اور گمراہ کن نظریات اور فکری مغالطے پھیلاتے ہیں اور اس موقعہ پہ ان کے پاس پیٹرو ڈالرز کی بھرمار ہوتی ہے۔اور وہ امام حسین رضی اللہ عنہ کی ذات بابرکات کی عالمگیر کشش اور اپیل کو فرقہ پرست کی تنگ دامانی میں قید کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس سفر کی جو عالمگیر استعاراتی حثیت ہے اسے وہ اپنی سفلیت سے چھوٹا کرنا چاہتے ہیں۔
ظاہر ہے کہ ایسا ہونہیں سکتا تو لامحالہ ان کی تنگ نظری خودکش جیکٹوں،ٹائم ڈیوائس ریموٹ کنٹرول بموں،گولیوں اور بارودی سرنگوں میں بدل جاتی ہے اور اس عالمگیر استعارے سے پیار کرنے والوں کو اپنا نشانہ بناتی ہے۔ان کی نسل کشی کرتی ہے۔اور اسقدر نفرت پینٹ کرتی ہے کہ جدید یونیورسٹیوں میں سائنس اور جدید سرمایہ دارانہ منیجمنٹ کی تعلیم دینے اور اسے حاصل کرنے والے اساتذہ و طلباء وطالبات کے اندر سے بھی ہمیں ویسے وحشی اور خون خوار نظر آنے لگتے ہیں جیسے عبدالرحمان ابن ملجم تھا،شمر تھا،عبیداللہ ابن زیاد تھا، یزید تھا اور جیسے حجاج بن یوسف الثقفی تھا۔
مسلم معاشروں میں بغض اہل بیت اطہار وہ بیماری ہے جسے ہم متعدی کہہ سکتے ہیں۔یہ جب کبھی پھیلتی ہے تو اس بیماری سے صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کی کمیونٹیز اور برادریاں نقصان اٹھاتی ہیں۔تباہی اور بربریت ایسے لگتا ہے جیسے ایک بڑی مصیبت کے طور پہ مسلط ہوگئی ہے۔خون خرابا ہوتا ہے اور ترقی و خوش حالی کا سفر رک جاتا ہے۔آج جیسے ہم تکفیری فاشزم کہتے ہیں اس کی جڑیں اسی بغض اہل بیت اطہار میں پیوست ہیں۔
یقینی بات ہے کہ جو لوگ اس متعدی مرض کا علاج کرتے ہیں اور اس وباء کے پھیلنے سے روکنے کا اہتمام کرتے ہیں وہ اپنے وقت میں علی شناس ہونے کا ثبوت فراہم کررہے ہوتے ہیں۔جو لوگ اس متعدی بیماری کی تشخیص کرتے ہیں وہ بھی بہت بڑا کام سرانجام دے رہے ہوتے ہیں،جو غم اہل بیت اطہار میں سوز و ساز کے ساتھ اپنے سننے اور پڑھنے والوں کے دلوں کو نرم کرکے قساوت ان سے دور کرتے ہیں وہ بھی عظیم کام سرانجام دے رہے ہوتے ہیں۔اس دوران جو تعلیم و تربیت کرتے ہیں وہ بھی بڑا کام کرتے ہیں۔
شخصیت،ذات اور ہستی کو اس کی فکر سے اور اس کی ہست سے جدا کرکے دیکھنا کارمحال اور یک چشم و یک رخ ہوجانے کے مترادف ہوا کرتا ہے۔
فکر کو مفکر سے، ہست کو ہستی سے سے الگ کرکے دیکھا ہی نہیں جاسکتا اور ایسے ہی ذات کو صفات سے الگ کرکے دیکھنا کارمحال ہے۔ایسے ہی ہم حسین علیہ السلام کو ان کی فکر،ان کی ہست،ان کی صفات سے الگ کرکے دیکھ ہی نہیں سکتے۔اور نہ ہی ان کے سفر کو ان کے بڑے بھائی امام حسن، ان کے والد محترم حضرت علی ابن ابی طالب اور ان کے والد حضرت ابی طالب، اور ایسے ہی امام حسین کی والدہ حضرت فاطمہ زھرا،آپ کی دادی فاطمہ بنت اسد سے الگ کرکے نہیں دیکھی جاسکتی ہے۔پھر جناب امام حسین رضی اللہ عنہ کو ہم ان کی والدہ فاطمہ زھرا کے والد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، آپ کی نانی حضرت خدیجۃ الکبری اور پھر آپ کے پڑنانا حضرت عبدالمطلب سے الگ کرکے نہیں دیکھ سکتے۔
شجر حسین کی ایک شاخ علی ابن ابی طالب سے ابو طالب کے واسطہ سے اور دوسری شاخ فاطمہ بنت محمد سے جاکر محمد بن عبداللہ کے واسطے سے اس شجر سے ملتی ہے جسے شجر طیبہ کہتے ہیں۔اور اگر شجر حسین کی تکوینی،باطنی،روحانی رمزیت کے ساتھ جڑين تلاش کرنی ہیں تو پھر اس کی دونوں افقی شاخیں بواسطہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم و فاطمہ بنت محمد حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جاکر مل جاتی ہیں اور یہ جو شجر محمدی ہے تکوین و باطن کی دنیا میں تو یہ ‘اول خلق اللہ نوری’ اور ‘لولاک محمد الخ’ کی شان والا ہے۔یہ وہ شجر خاص ہے جو باعث تخلیق کائنات ہے اور بلکہ جو شئے بھی موجود ہے وہ اسی شجر کے مرہون منت ہے۔اس شجر کی ایک شاخ بھی ہے۔یہ شاخ ‘شاخ ولایت’ ہے۔یہ شاخ ولاء ہے جو امام حسن کے واسطہ سے امام علی اور پھر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچتی ہے۔
شجر حسین کی تینوں شاخوں کا سلسلہ جہاں پہنچتا ہے اس میں کوئی بھی ان کی ہمسری نہیں کرتا۔اور اس شجر کی ان تین بڑی افقی شاخوں کو بغض اہل بیت کا شکار افراد اور انسانیت سے عاری لوگ نہ صرف خود دیکھنے سے محروم ہوجاتے ہیں بلکہ وہ اپنے ساتھ کئی اور لوگوں کو ان افقی شاخوں کے ثمرات اور اس شجر کے سائے سے محروم کردیتے ہیں۔
شیخ ابن عربی کے ہاں ‘آل محمد، اہل بیت اطہار’ یہ صرف حسب و نسب کا شجرہ نہیں ہیں۔وہ اس کو شجرۃ الکون کہتے ہیں۔تکوینی درخت کہتے ہیں۔یعنی کائنات کو اگر شاخیں کہا جائے تو اس کی جڑیں اور درخت آل محمد ہے۔اہل بیت اطہار ہیں۔اور شیخ ابن عربی اسی لئے کہتے ہیں کہ جس نے ‘نفس’ کا عرفان لینا ہے جو عرفان رب کا زینہ ہے اسے ‘نفس آل محمد’ کی معرفت لینا لازم ٹھہرجاتا ہے۔اور جو نفس اہل بیت کی معرفت پالیتا ہے تو نفس محمد کی معرفت کا دروازہ کھلتا ہے اور اسی دروازے سے آگے عرفان رب باری تعالی کے دروازے کھل جاتے ہیں۔
یہ عرفان کے مدارج ہیں اور عرفان حسین ابن علی و فاطمہ بنت محمد اس کا ایک لازمی درجہ ہے۔یہ حقیقت نگاہوں سے اوجھل ہوئی تو سمجھو عرفان کا سارا راستا کھوٹا ہوگیا۔اسی لئے صوفیاء کے ہاں حقیقت ابدی و سرمدی تک کا جو سفر ہے وہ سفر شجرالکون سے الگ نہیں کیا جاسکتا اور شجر حسین ابن علی اس کا ایک بہت ہی اہم اور مرکزی پڑاؤ ہے۔
شجر الکون کی جو شاخ ‘آل محمد/اہل بیت کہلاتی ہے اس کی اہمیت جاننے کے لئے ہمیں سورہ احزاب کی آیت نمبر 33 جو اہل بیت کے ساتھ صفت تطہیر کو جوڑتی ہے۔اور اس آیت کو لیکر اور ایسے ہی درود ابراہیمی جس میں آل محمد پہ ویسے ہی درود و سلام ہے جیسے آل ابراہیم پہ ہے اور ایسے ہی قرآن میں جہاں زبان پیغمبر علیہ الصلاۃ و التسلیم یہ کہلوایا گیا کہ انسانیت سے جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی تمام ترسعی و تعلیم و تربیت کا اجر کیا طلب کرتے ہیں وہ مودت ہے اہل بیت کی تو ان سب چیزوں کو لیکر اور پھر ماکان محمد الخ سے نکلے ختم نبوت کے تصور کو لیکر شیخ ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جیسے تشریعی نبوت کا دروازہ تو بند کردیا گیا مگر شجر نبوت کے جو دوسرے قرب اور مقامات ہیں ان سب کی منتقلی شجر اہل بیت/آل محمد تک ہوئی ہے اور اسی راستے سے گزر کر جس کی جتنی استعداد ہے وہ ان مقامات کا فیض وصول کرپائے گا۔
شیخ ابن عربی کہتے ہیں کہ حقیقت ذات باری تعالی اور صفات باری تعالی ان دونوں کا مرات (آئینہ) حقیقت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔اور حقیقت محمدیہ صلی اللہ وآلہ وسلم کا آئینہ حقیقت آل محمد ہے۔اور جیسے ذات باری تعالی اور اس کی علم کا انعکاس آئینہ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہوتا ہے ایسے ہی یہ انعکاس آئینہ اہل بیت اطہار میں ہوتا ہے۔شيخ ابن عربی کہتے ہیں کہ ہر نفس وجود حقیقی کا آئینہ ہے مگر کامل آئینہ تو آئینہ محمدی ہے اور اس آئینہ محمدی کا اکمل ترین انعکاس آئینہ آل محمد اہل بیت اطہار ہے۔تو جو کوئی وجود حقیقی کی معرفت کا طلبگار ہوگا وہ اہل بیت اطہار کے آئینہ میں منعکس حقیقت محمدیہ و حقیقت واجب الوجود کو دیکھنے کا چارہ کرے گا۔
شیخ ابن عربی ذات محمد /نفس محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نسخۃ الحق یعنی ظل/انعکاس حق کہتے ہیں اور پھر فرماتے ہیں نسخۃ الحق کا نسخۃ جو ہیں وہ اہل بیت اطہار ہیں۔ظل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو ہیں وہ اہل بیت اطہار ہیں۔
تیری نسل پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا
تو ہے عین نور تیرا سب گھرانہ نور کا
یہ جو ہم اقوال حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پڑھتے ہیں جن میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جناب فاطمہ،علی ابن ابی طالب،امام حسن اور امام حسین کے بارے میں اپنے بدن اور اپنے وجود کے حصّہ کے طور پہ ان کے ساتھ اپنی نسبت کا اظہار فرمایا اور پھر بہت واضح طور پہ کہا کہ ‘الحسین منی وانا من الحسین’ اور بعینہ آپ نے یہ الفاظ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم اور جناب امام حسن رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا اور پھر ایک جگہ آپ نے جناب حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے اپنی نسبت کا زکر کرتے ہوئے جو موسی و ہارون کی نسبت باہمی کا زکر کیا اور کہا کہ اس شرکت میں تشریعی نبوت خارج ہے تو اس سے بھی شیخ ابن عربی کے وجدان کی تائید ہوتی ہے اور ہم عمومی طور پہ حقیقت محمد اور حقیقت اہل بیت کے معنی کا ادراک کرتے ہیں اور حقیقت امام حسین رضی اللہ عنہ کے معنی کی وسعت ہم پہ کھل جاتی ہے۔
اس قدر تمہید میں نے اس لئے باندھی ہے کہ یہ واضح کرسکوں کہ جب ہم ذکر حسین کرتے ہیں تو ہم اصل میں حقیقت حسین کے راستے سے حقیقت محمد اور اس راستے سے حقیقت واجب الوجود کی بات کررہے ہوتے ہیں اور یہی وہ راستا ہے جس پہ چل کر سفر آسان بھی ہوتا ہے اور بھٹکنے اور کھوجانے کا اندیشہ بھی نہیں رہتا اور اس راستے پہ سفر کرتے ہوئے کوئی بھی شخص امیہ ازم کو ‘اسلام’ خیال نہیں کرسکتا اور نہ ہی وہ ظلم و جبر،ستم،قتل و غارت گری،معصوم اور بے گناہ لوگوں کے قتل عام کو خطائے اجتہادی قرار دینے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔اور وہ اپنی مجالس میں اموی ملوکیت کی تحسین کرکے گندگی نہیں پھیلائے گا۔
میں اس محرم الحرام کے پورے عشرے میں چاہتا ہوں کہ ہم حقیقت حسین ابن علی رضی اللہ عنہ پہ بات کریں۔اور کوشش کریں اس حقیقت کے راستے ہی ہم حقیقت علیا یعنی واجب الوجود تک پہنچنے کی کوشش کریں۔ امام حسین رضی اللہ عنہ کی ایک دعا کتب تاریخ میں درج ہے۔اس میں آپ رب باری تعالی سے مخاطب ہوتے ہیں۔اور ذات باری تعالی کے سراغ پہ ایسی بات فرماتے ہیں جس سے اہل وجدان وجد میں نہ آئیں تو حیرانی ہوگی۔
‘جس شئے کے ہونے کا انحصار تمہارے اپنے ہونے پہ ہے تو وہ کیسے تمہارے ہونے کا ثبوت بن سکتی ہے؟ تو کیا تمہاری ذات سے زیادہ کوئی شئے ہے جو تم پہ خود تمہیں آشکار کرنے والی ہو؟کیا تم سربستہ راز ہو کہ کوئی تمہیں تلاش کرتا پھرے؟
یقینی بات یہ ہے کہ تم نہیں ہو۔تم کوئی دور ہو جو تمہارے نقش کی تلاش کی جائے؟ یقینی بات ہے کہ نہیں ہو! وہ آنکھیں اندھی ہوں گی جو تمہیں نہ دیکھیں اور تمہیں قائم بالذات نہ خیال کریں۔ امام حسین علیہ السلام
ایک بات ملحوظ خاطر رہے امام حسین رضی اللہ عنہ وحدت وجود اور ثبوت وجود بارے جو اپنی دعا میں خطاب فرمارہے ہیں وہ درجہ جو عرفان کا سب سے بڑا درجہ ہے اور اسی لئے آپ کی زبان سے یہ نکلا’کیا تم سربستہ راز ہو کہ کوئی تمہیں تلاش کرتا پھرے’ اور پھر وجدان و عرفان کا ایک درجہ وہ ہوتا ہے جس پہ پہنچا شخص حادث چیزوں کے زریعے سے سے حقیقت ذات کا سفر نہیں کرتا بلکہ یہ مقام کسی واسطے کے بغیر حق شناسی کا مقام ہے اور اس مقام پہ امام حسین رضی اللہ عنہ فائز تھے۔ اور اسی لئے وہ قائم بالذات کے قیام کی حقیقت کا عرفان رکھتے تھے اور جو یہ عرفان رکھتا ہو وہ خود قائم بالزمان ہوتا ہے۔یعنی زمان ومکان پھر اس کے وجود سے قیام کرتے ہیں اور یہ قیام اصل میں قیام محمدی کا انعکاس ہوتا ہے اور اس سے آگے یہ قیام ذات حق کا انعکاس ہی ہوتا ہے۔اور جو دل کے اندھے ہوتے ہیں ان کو نہ یہ قیام سمجھ آتا ہے اور نہ ہی ان کو حقیقت حسین کی ہوا لگتی ہے
قرآن پاک میں اللہ پاک نے اپنی ذات کے انسان کے قریب ہونے کے بارے میں بہت ساری آیات میں کلام کیا ہے۔اور ہم اردو میں اکثر ایک لفظ بولتے ہیں جسے مہجوری کہا جاتا ہے۔یہ مہجوری اور جسے آسان لفظوں میں دوری کہا جاتا ہے ہے کیا چیز؟شیخ ابن عربی کہتے ہیں کہ ویسے تو ہر انسان کا وجود اور ہر انسان کی ذات حق کا آئینہ ہوا کرتی ہے لیکن مخلوق میں سب سے لطیف اور کثافت سے پاک ذات ذات محمدی ہے اور اسی وجہ سے ذات محمدی میں کمال لطافت کے سبب حق کا جو انعکاس ہے وہ شفاف ترین ہے اور علم مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آئینہ علم خداوندی کا کامل ترین انعکاس ہے۔اور اس انعکاس کا لطیف ترین انعکاس آل بیت اطہار ہیں اور طہارت کا ایک معنی یہی لطافت بھی ہے اور اسی لئے کہا جاتا ہے کہ عام آدمی کی زات میں کثافت بہت زیادہ ہوتی ہے تو اس میں انعکاس بھی بہت دھندلا ہوتا ہے۔اور اس انعکاس سے تشکیل پانے والے علم میں نقائص بھی زیادہ ہوتے ہیں۔اس لئے قربت اہل بیت اطہار کے زریعے سے قربت محمد رسول اللہ کا راستا اختیار کیا جاتا ہے اور یہی قرب قربت الی اللہ کا سبب بن جاتا ہے۔
نہج البلاغہ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا جو پہلا خطبہ ہے اس کی یہ سطریں قابل غور ہیں:
‘دین کی ابتداء اس کی معرفت ہے. کمالِ معرفت اس کی تصدیق ہے، کمالِ تصدیق توحید ہے. کمالِ توحید تنزیہ و اخلاص ہے’
تو یہ جو معرفت ہے اس کے بھی بہت سارے درجے ہیں۔قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے:
وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ ۖ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ۖ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ
اور جب تجھ سے عبادت کرنے والی میرے بارے میں پوچھیں تو ان بتاؤ کہ میں قریب ہوں۔پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے تو میں جواب دیتا ہوں۔تو بس مجھے پکارو اور مجھ پہ ایمان رکھو تاکہ تم سب رشد و ہدایت پاجاؤ۔
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ ۖ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ
اور بے شک ہم نے انسان کو پیدا کیا اور ہم جانتے ہیں کہ اس کے نفس/ذات میں کیا کیا وسوسے آتے ہیں۔اور ہم ہی اس کی شاہ رگ کے قریب ہیں۔
سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ ۗ أَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ
عنقریب ان کو ہم آفاق اور ان کے اپنے نفوس میں اپنی نشانیاں دکھائیں گے یہاں تک کہ ان پہ بالکل یہ بات روشن ہوجائے گی کہ وہ’حق’ ہے اور کیا تیرے رب کے لئے یہ بات ہی حق ہونے کے لئے کافی نہیں کہ وہ ہر ایک شئے پہ گواہ ہے۔
یہاں پہ دو باتیں بہت واضح ہوگئیں کہ اللہ پاک کا وجود انسانوں سے دور نہیں ہے۔لیکن اںسانوں کا نفس جب حالت وسوسہ میں ہوتا ہے تو قربت الی اللہ کا احساس کثافت میں دب کر رہ جاتا ہے۔اور وہ آفاق و انفس میں پھیلی نشانیوں کو پہچاننے سے قاصر ہوجاتا ہے۔یہ تبیان حق پہچاننے کے لئے اگر وسیلہ کوئی بنتا ہے تو وہ اہل بیت اطہار ہیں۔یہ اہل بیت اطہار ہیں جو ہمارے سینوں کی کثافتوں کو دور کرتے اور ہمارے آئینوں کو صقیل کرتے ہیں تاکہ معرفت حاصل ہو اور پھر کمال اس کا تصدیق ہے۔اور یہ سب کچھ بواسطہ انوار اللہی یعنی اہل بیت اطہار کی نورانی صفات سے حاصل ہوتا ہے۔
تو امام حسین کے وجود کی جو لطافت ہے وہ وجود حق کی کمال لطافت کو بے حجاب دیکھتی ہے اور اسی لئے وہ کہتے ہیں کہ تو کہیں چھپا ہوا ہو تو تجھے تلاش کیا جائے نا جب ایسا ہے ہی نہیں۔اور پھر امام حسین رضی اللہ عنہ ایک جگہ یہ بتادیتے ہیں کوئی بھی انسان کتنی بلندی پہ ہو وہ ذات باری تعالی سے غنی و بے نیاز ہوہی نہیں سکتا۔
امام حسین اپنی ایک اور مناجات میں رب باری تعالی کے حضور یوں گویا ہوتے ہیں
ایسا شخص جس کے پاس سب کچھ ہو اور وہ اپنے آپ کو تجھ سے خالی رکھے اور تیرے سے وہ محروم ہو تو وہ دنیا کا سب سے نادار شخص ہے۔ہارا ہوا شخص وہ ہے جو تیری احتیاج سے خود کو بے نیاز خیال کربیٹھے اور تجھ سے دوری کو اپنا انتخاب کرلے
ایسے لوگوں کے غلام مت بنو جو کہ خالق کی ناراضگی کے بدلے میں مخلوق کی خوشنودی تلاش کرتے ہیں۔
بروز قیامت صرف وہی لوگ خود کو محفوظ محسوس کریں گے جن کا وصف خداخوفی رہا ہے۔
حقیقت حق کا ظل کامل بننے کی جانب پہلا سفر جو ہے وہ خشیت اللہ کا ہے اور اس خشیت اللہ کے اکمال کا عکس خالق کی رضا کے لئے رضائے خلق کی تلاش ہے۔اور امام حسین رضی اللہ عنہ جو انعکاس حقیقت محمدیہ و انعکاس حقیقت علیا ہیں ان کے ہاں خشیت اللہ اور راضی و مرضیہ کی سطح بھی کامل تر ہے۔
اللہ عزوجل کا فرمان امر بالمعروف و نہی عن المنکر پہ روشنی ڈالتے ہوئے امام حسین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
‘اللہ عورتوں اور مردوں کا فرض اول خیر سے وابستہ ہونا اور اس وابستگی کی سرشاری میں دوسروں کو بھی ترغیب دینا،نیز شر سے دور رہنا اور دوسروں کو بھی اس سے محفوظ کرنے کی کوشش کرنا قرار دیتا ہے اور جو اس اصول کو شعار زندگی بنالیں ان کے لئے دوسرے فرائض زندگی بھی آسان ہوجاتے ہیں۔اور خیر کا قیام و شر کو ختم کرنا یہ ہی دعوت اسلام ہے اور اس کے زریعے سے ہی مظلوم کے غصب کردہ حقوق کی بازیابی ہوتی ہے اور ظالموں کی مخالفت ہوتی ہے’۔
امام حسین رضی اللہ عنہ کے اس قول کی ایک تعبیر روحانی یہ کی جاتی ہے کہ اللہ پاک کیونکہ آپ خیرمطلق ہے اور حقیقت محمدیہ بھی اسی خیرمطلق کا انعکاس ہے اور اس انعکاس کا انعکاس اہل بیت اطہار ہیں تو امام حسین علیہ السلام خیر کامل کا نمونہ ہیں۔تو خیر کا جتنا کامل نمونہ ہوگا وہ اتنا ہی شر سے پاک اور شر کو مٹانے کے لئے اتنا ہی تیار اور بے قرار ہوگا۔اگر امام و سربراہ ہی خیر کا نمونہ نہ ہو اور وہ خود سراپا شر ہو تو وہ اپنی رعایا کو کیسے سراپا خیر بناسکے گا اور اس کے ہاں مظلوموں کے حق کی بازیابی کا سامان کیا ہوگا۔
آپ نے ایک جگہ فرمایا
‘اے لوگو! اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہا تھا کہ جو کسی جارح ظالم کو منکرات کو جائز قرار دیتے،قوانین کو توڑتے دیکھے،سنت نبی کی مخالفت کرتے دیکھے اور بندگان خدا پہ جبروستم کرتے دیکھے اور اس ظالم کو تقریر سے یا اپنےعمل سے نہ روکے اور مخالفت نہ کرے تو یقین رکھو اللہ اسے بھی ظالم و جابر کے ساتھ اس مقام پہ رکھے گا جس مقام کا وہ مستحق ہوگا’۔
امام حسین رضی اللہ عنہ کی ذات کی حقیقت میں خیر سے وابستگی کا ایک پہلو جو سامنے آتا ہے اس قول سے وہ یہ ہے کہ وابستہ خیر ہونا اور شر سے جدا ہونا اس کا مطلب ظالم و جبر و ستم کے نظام اور اس کے پالنہاروں کے خلاف تقریر وعمل سے جدوجہد کرنا ہے اور اگر یہ نہیں ہو تو پھر مطلب اس ظالم کا ساتھ دینا ہے اور حشر بھی اس کے ساتھ ہونا ہے۔
وابستگی خیر اور کراہت و نفی شر بارے ہماری آگاہی میں امام حسین رضی اللہ عنہ اپنے ایک اور قول سے اضافہ فرماتے ہیں:
”لوگ بندگان دنیا ہیں،جب تک وہ سازگار زندگی بسر کرتے ہیں،آسان و سہولت کے ساتھ سانس لیتے ہیں اور اس سہولت و آسانی میں اگر کوئی روکاوٹ نہ پڑنے کا اندیشہ ہو تو وہ وابستگی خیر بھی ظاہر کرتے ہیں لیکن جیسے ہی مشکل وقت آئے،آزمائش کا وقت شروع ہوجائے تو پھر اہل اخلاص بہت کم رہ جاتے ہیں”
تو مشکل اور جبر کے زمانے میں وابستگی خیر کے مقام علیا پہ فائز رہنے والوں کا پتا بھی چلتا ہے اور وابستگی خیر کو نمائش کے طور پہ لینے والوں کا پتا بھی چلتا ہے۔
تو ظلم وجبر کی حکومت خیر سے دور کرتی ہے اور خیر سے دوری کا مطلب اللہ سے دور ہوجانا،اس کے شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہونے کے احساس سے بےگانہ ہوجانا ہے تو ایسے ظلم وجبر کے خلاف اٹھنے والے قربت الی اللہ کی جانب سفر کی دعوت دینے والے ہوتے ہیں۔مظلوموں اور مجبوروں کو ظلم سے نجات دلانے کے لئے کوشش اصل میں آفاق و انفس میں اس ذات کی نشانیوں کا وجدان پانے کا سفر ہے اور یہ تبیان حقیقت علیا بھی ہے اور خود اپنے نفس کے عرفان کا سفر بھی ہے۔اور دنیا سے ایسے طریقے سے معاملہ کرنا دنیا پرستی نہیں بلکہ حق پرستی ہے۔
یزید کا خلافت پہ قبضہ اور اپنی بیعت کے لئے بلانا ایسا ہی وقت تھا جب کسی کو یہ خوش فہمی نہیں تھی کہ اگر اس کی امارت کو نہ تسلیم کیا گیا تو بھی یزید کچھ نہیں کہے گا۔اموی ملوکیت نے بہت واضح کردیا تھا کہ اگر بیعت قبول نہ کی گئی تو پھر مصبیتوں اور آلام کے لئے تیار رہیں۔اور حجاز کے اندر اس وقت ایک حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ تھے،دوسرے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ تھے اور تیسرے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ تھے۔جبکہ حضرت عبدالرحمان بن ابی بکر صدیق رضی اللہ عنھما فوت ہوچکے تھے۔
یہ چار حضرات تھے جن کے بارے میں امیر شام نے پہلے خود ان کو یزید کی ولی عہدی کے لئے رام کرنے کی کوشش کی اور جب ان کی وفات تک یہ رام نہ ہوسکے تو یزید کو مشورہ دیا کہ امام حسین رضی اللہ عنہ کو ان کے حامی ضرور اس کی حکومت کے خلاف کھڑا کریں گے۔(اب یہ موقف اموی کیمپ کا ہے اور اس قول کو لیکر اور خطوط اہل کوفہ کے واقعہ کو لیکر اموی کیمپ یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو اموی نظام اور اس کے چلانے والوں سے کوئی لینا دینا نہیں تھا اور نہ وہ قیام و خروج کرنا چاہتے تھے لیکن یہ تو اہل عراق /کوفی تھے ،آپ کے پیرو/شیعان علی المرتضی تھے جنھوں نے دھوکے سے آپ کو عراق بلوایا۔اس کا ایک مطلب یہ بھی بنتا ہے کہ گویا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو نہ تو اموی فکر اور طرز حکومت برائی کی اس نہج پہ لگتی تھی اور نہ وہ اس کے خلاف جدوجہد کو وابستگی خیر کا بنیادی تقاضا سمجھتے تھے۔وہ تو بہکاوے میں آگئے تھے۔کچھ اسے اجتہادی غلطی اور کچھ اسے اندازے کی غلطی قرار دینے لگتے ہیں۔
جبکہ یہ سارے لوگ اس طرح کا فکری مغالطہ پھیلاتے ہوئے یہ بات سرے سے نظر انداز کرجاتے ہیں کہ امیر شام کی وفات کی خبر جب عراق پہنچی تو کوفہ میں علوی کیمپ نے سلیمان بن صرد الخزاعی کے ہاں جو مشاورتی اجلاس شروع کئے اور اس کے نتیجے میں حضرت امام حسین کے لئے جو تحریک شروع ہوئی اس وقت نعمان بن بشیر گورنر کوفہ تھا۔اور اسی کی گورنری کے زمانے میں مسلم بن عقیل وہاں پہنچے۔آپ کے حامیوں نے کوفہ میں اموی حکومت کو معطل کردیا۔یہ تو عبیداللہ ابن زیاد تھا جو دھوکے سے کوفہ داخل ہوا اور اس نے شامی فوج کی مدد سے کوفہ میں آپ کے حامیوں کی بہت بڑی تعداد کو ہلاک اور جیلوں میں ڈال دیا اور اس طرح سے مسلم بن عقیل کو نہتا کردیا اور اس وقت کوفہ میں جو علوی کیمپ کے سپاہی تھے اور ڈیڈ سپورٹر تھے ان کو نظر بند کردیا۔ب
اقی رہ گئے کمزور یا وہ اشراف قبائل کے سردار جو حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی کوفہ آمد سے پہلے بھی اموی کیمپ رہے تھے جنگ جمل اور جنگ صفین میں حضرت علی کی کامیابی اور عراق پہ ان کی حکومت کے مستحکم ہوجانے نے ان کو اطاعت پہ مجبور کردیا تھا اور یہ کبھی بھی دل سے علوی کیمپ میں شامل نہ تھے۔تو ان سے یہ امید رکھنا کہ وہ آزمائش و امتحان میں مسلم بن عقیل یا امام حسین کا ساتھ دیتے ایک عبث بات ہے۔دھوکہ علوی کیمپ سے دشمنی رکھنے والے یہ دیتے ہیں کہ وہ ان کمزور یا موقعہ پرست گروہوں اور لوگوں کو غلط طور پہ شیعان علی رضی اللہ عنہ قرار دینے لگ جاتے ہیں۔یہ مغالطہ بہت سے اہلسنت اور اہل تشیع کے لوگوں کو بھی لگا اور اس لئے وہ بعض اوقات آئمہ اہل بیت اطہار کی جانب سے ‘اہل عراق’،اہل کوفہ کے کلمہ عموم کے استعمال کو مطلق و عمومی معانی میں لے لیتے ہیں۔
صلح امام حسن رضی اللہ عنہ کا سیاق و سباق یہ بتاتا ہے کہ آپ نے یہ کوشش کی تھی کہ اس وقتی انحراف کو ایک عبوری دور کے طور پہ لیکر اس دوران انحراف سے واپس جانے کے لئے درکار ضرورتوں کو پورا کیا جائے اور جب امر خلافت و حکومت کا قضیہ واپس آئے تو خیر کے ںظام کو پوری طرح سے قائم کرنے کی سعی کی جائے۔لیکن شہادت امام حسن رضی اللہ عنہ اور اس کے بعد ولی عہدی کے قضیے اور پھر یزید کے حکومت پہ قابض ہونے نے اس سارے مقصد کے برآنے کی امید صلح و صفائی کے راستے سے ختم کرڈالی جس کی خاطر صلح کی گئی تھی۔اور حالات واپس اس نہج سے بھی آگے چلے گئے جس نہج پہ شہادت حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے وقت تھے۔اور اسی لئے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے واضح کردیا تھا کہ یزید کی حکومت مان لینے کا مطلب زلت سے زندگی گزارنا ہے اور اس سے بہتر ہے سعادت کی موت سے ہمکنار ہوا جائے۔تو حضرت امام حسین کسی کی شہہ پہ عراق نہیں گئے تھے اور نہ ہی آپ کو اپنے جانثاروں،رفیقوں اور عراق میں موجود سرکردہ رہنمایان علوی کیمپ کی نیتوں اور وابستگی پہ کوئی شک تھا۔
آپ صاحب بصیرت قائد و امام تھے اور یہ آپ کا اپنا کیا ہوا فیصلہ تھا کہ یزید کی حکومت کے خلاف قیام کا وقت آگیا ہے۔) امام حسین رضی اللہ عنہ معرفت کے جس مقام پہ فائز تھے اس مقام پہ حامل شخص کو انسان کامل کہا جاتا ہے اور اور وہ حجت اللہ علی الناس ہوا کرتا ہے۔وہ قائم بالزمان ہوا کرتا ہے۔تو وہ کیسے کسی کے بہکاوے میں آئے گا اور کیسے کسی کے کہنے کی روشنی میں اپنے آئیندہ کے لائحہ عمل کا تعین کرے گا۔